اسلامو فوبیا سے کیسے نمٹا جائے؟

0

پاکستانی وزارت خارجہ کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد(ISSI) کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا کہ پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا سے لڑنے کے خلاف عالمی دن  کے حوالے سے خصوصی دن پر ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جس میں مجھے بھی گفتگو کا موقع ملا ہے۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں ۔

فوبیا کا معنی بے جا خوف اور نفرت ہے ، جو کہ عدم رواداری ، نسل پرستی اور خوف پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اصطلاح اسلام اور فوبیا ملاکر اسلام سے بے جا خوف، نفرت اور مسلمانوں کے حوالے سے منفی ذہنیت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خوف صرف اسلام کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ xenophobia)دوسرے ملک کے لوگوں سے خوف) جو آج کل مغربی دنیا سمیت امریکہ اور دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

یہودیوں کے خلاف نفرت/خوف(Anti-Semitism) کی وجہ سے اب بھی یہودی مذہب والوں کو کئی جگہوں پر مزاحمت اور چیلنجز کا سامنا ہے۔بہر حال اسلامو فوبیا بھی کوئی نئی اصطلاح نہیں بلکہ تاریخی طور پر استعمال ہوتی رہی ہے ۔ نائن الیون کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا، 2004 میں اقوام متحدہ نے مغرب میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے ایک کانفرنس بلائی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اسلامو فوبیا کو افسوسناک، تکلیف دہ، اور امتیاز پر مبنی رجحان قرار دیا۔

یہ بحث مغربی اکیڈیمیا میں بھی دلچسپی کا باعث رہی اور اب تک اس موضوع پر کئی حوالوں سے علمی اور تحقیقی کام ہوچکے ہیں ۔ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی سمیت دیگر کئی اداروں نے سیاسی ، سماجی سطح پر آگہی پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے OIC کے وزراء خارجہ کونسل کے سینتالیس ویں اجلاس کے دوران قراداد پیش کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیااور اسلامو فوبیا کو نسلی تعصب اور مذہبی امتیاز کی شکل قرار دیا۔ قراداد میں قرآن کریم کی بے حرمتی ، پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور توہین مذہب کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا جن سے1.8 ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ قراداد میں ہر سال پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا سے مقابلے کا عالمی دن کے طور پر منسوب کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان کی قراداد جو کہ OIC کے جملہ ممالک نے پیش کی تھی کو منظور کرتے ہوئے پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا سے مقابلے کا دن قرار دیا ۔

اسباب

اسلامو فوبیا کے اسباب کی فہرست بہت وسیع ہے ۔ کئی عالمی واقعات ، سیاسی تنازعات نے اسے مزید جلا بخشی ۔ بہرحال چند اسباب بہت عمومی ہیں !

اسلام کے بارے میں غلط فہمی:

مغربی سماج میں اسلام کے حوالے کافی غلط فہمیاں موجود ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کا مذہب بارے علم بھی انتہائی کمزور ہے جس کی وجہ سے مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے ہیں ۔

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی :

مغربی ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی مقامی افراد میں خوف کا باعث ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ بعض محققین اسلامو فوبیا کو نسل پرستی ہی کی ایک قسم قرار دے رہے ہیں ۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وسائل کی تقسیم ، کاروباری اور حکومتی حلقوں میں مسلمانوں کی شمولیت نے مقامی افراد میں خوف کا عنصر مزید پختہ کردیا ہے۔

میڈیا کا منفی کردار :

مغرب میں بہت سارے مقامی  لوگوں کا اب بھی مسلمانوں کےساتھ کوئی رابطہ اور معاملہ نہیں بلکہ وہ میڈیا کی خبروں پر یقین کرکے اپنا ذہن بناتے ہیں ۔ میڈیا میں نائن الیون کے بعد ایک مہم کے ذریعے ہر انتہا پسندانہ واقعے کو مسلمانوں سے جوڑ دیاگیا۔ کئی ایسی فلمیں اور کارٹونز بن گئے جس میں مخصوص شکلوں والے مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دےگر مسلمانوں کےخلاف مجموعی منفی رائے عامہ ہمارا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلمانوں کے کسی مثبت کام اور مغربی معاشروں میں ترقی کیلئے ان کے مثبت کردار کو زیادہ اجاگر نہیں کیا گیا ۔ خود مسلمانوں کی طرف سے بھی میڈیا میں کچھ زیادہ سرمایہ کاری نہیں کیا گئی۔

مسلمانوں میں تفہیمِ مغرب کا فقدان

اسلام کے حوالے سے جیسے مغربی سماج میں کنفیوژن اور غلط فہمیاں ہیں اسی طرح مسلمانوں میں تفہیم مغرب کے ادارے بھی بہت کم ہے۔ اور مغرب کے حوالے سے ہمارا شعوری علم انتہائی کم رہا ہے جس کی وجہ سے ردعمل کے نفسیات نے جنم لیا ہے۔ایسی غلط فہمیوں سے مزید مسائل پیدا ہوں گے ۔ اس لئے سازشی نظریات سے ہٹ کر مسلمانوں کو مطالعہ مغرب اور تفہیم مغرب کو بطور نصاب لیکر آگے بڑھنا ہوگا۔

انتہاپسندی اور دہشت گردی کیخلاف یکساں موقف کا فقدان :

کئی واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جس میں اقلیتوں پر جبر ، انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی پامالیوں کے وقت مسلمانوں کا اجتماعی ردعمل انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ جس سے مزید کنفیوژن بڑھتی ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو فرنٹ لائن پر آکر ریسپانس دینا پڑےگا۔ تاکہ مسلم سماج کا مثبت ردعمل بھی توانا اور مضبوط ہو ، اور انتہا پسندی سے پاک اور مبنی بر انصاف ہو۔

بہر حال اور بھی بہت سارے اسباب ہیں ۔ جن پر تفصیلی غور و خوض کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Runnymede trust نےمغربی نظریات کو گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور اسلامو فوبیا کے پھیلنے اور متاثر ہونے والوں کے افکار نظریات کا احاطہ کیا ہے۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

مغربی معاشروں میں اسلام کے خوف کے بارے مبتلا لوگ اسلام یا مسلمانوں کے حوالے اس نقطہ نظر سے سوچتے ہیں ۔

  • ۱: اسلام ایسا سیاسی نظام ہے جو دوسرے کسی نظام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تبدیلیوں کیخلاف ہے۔
  • ۲: اسلام مغربی دنیا سے الگ رہنے والا ایک جامد مذہب ہے جو مشترکہ اقدار حیات پر یقین نہیں رکھتا۔
  • ۳: اسلامی نظام کو مغربی نظام سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔
  • ۴: اسلام کو تشدد کا حامی ، خطرناک، دہشت گردی اور تہذیبی تصادم کو بھڑکانے والا مذہب سمجھتے ہیں۔
  • ۵: اسلام کو روحانی مذہب سمجھنے کی بجائے ایسا سیاسی نظام سمجھتے ہیں جس کا استعمال سیاسی اور عسکری بالادستی حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے۔
  • ۶:مسلمانوں کی طرف سے مغرب کے خلاف جو آواز اٹھائی جاتی ہے اس کو فورا رد کیا جاتا ہے۔
  • ۷:مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک اور سماجی دھارے سے خارج کرنے کی کوششیں۔
  • ۸: مسلمانوں کیخلاف ظلم و ستم کو فطری اور معمول کی کارروائی قرار دیا جاتا ہے۔ (بحوالہ تحقیقات ۲۰۲۲، مسلم دنیا اور مذہبی آزادی )

ان نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے کیسے سوچتے ہیں ؟

کیسے نمٹا جائے؟

اسلامو فوبیا کا تدارک کرنا اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔

جس کے لیے ذاتی مشاہدے اور مطالعے کےسبب چند تجاویز ملاحظہ فرمائیں ۔

  • اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلم دنیا اور مغربی اداروں میں جتنا کام ہوا ہے اس کام کو اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کیساتھ ملکر کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔
  • مسلمانوں کو میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ! اس پر سرمایہ کری کرنی اور توجہ دینی ہوگی ۔ اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے narrative building کرنی ہوگی۔

اشتعال انگیز بیانات سے گریز

مسلمان رہنماؤں کو اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ حکمت و بصیرت سے خالی جذباتی گفتگو مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کرسکتی ہے۔

اقلیتوں کا تحفظ

  • مسلم دنیا میں مقیم دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے لئے space پیدا کرنی ہوگی اور انہیں ایک مثالی ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
  • مسلم دنیا میں تفہیم مغرب کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا جائے اور باقاعدہ کورسز تیار کئے جائیں۔

 رفاہی کاموں میں شمولیت:

  • مغرب میں بے شمار مسلم تنظیمیں اس وقت رفاہی کاموں میں مصروف ہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے مثبت تاثر پیدا کررہی ہیں۔ مسلم ممالک کا ایسی تنظیموں کےساتھ اشتراک عمل اور اضافہ ضروری ہے۔
  • اس وقت مغرب میں بین المذاہب مکالمہ کے بے شمار ادارے ، تنظیمیں، این جی اوز، تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جس میں تمام مذاہب کے رہنما اور ادارے متحرک رہتے ہیں، اس میں مسلمانوں کی شمولیت از حد ضروری ہے۔
  • اسلامو فوبیا کے حوالے سے جتنے واقعات ہوں ان پر جذباتی ریسپانس کی بجائے قانونی سطح پر چیلنج کیا جائےتاکہ پولیس سٹیشن سے لیکر عدالت تک اور انسانی حقوق کے مختلف فورمز پر چارہ جوئی ہوسکے۔
  • سوشل میڈیا سمیت فلم اور ڈاکومینٹریز کے ذریعے مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کیا جائے، نیز مختلف مذاہب کیساتھ مسلمانوں کے مثالی تعلقات کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • مسلمان اکیڈیمیا کو مسلمانوں کا علمی موقف تشکیل دینے اور سیاسی رہنماؤں کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا مذہبی آزادی ، انسانی حقوق ، اقلیت ، خواتین ، بین الاقوامی تعلقات، رواداری پر یکسو ہوکر کام کرنا ہوگامحمد اسرار مدنی، سربراہ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور ([email protected])