جمہوری نظام کو اشرافیہ کیسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے؟

0

معروف ماہرِسماجیات وسیاسیات ارنسٹ فریڈرک روکی کتاب ’ریاستیں کیسے چلائی جاتی ہیں‘ ( How States are Governed)کا مطالعہ کر رہا تھا ،جو برطانوی جمہوری نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا معقول تجزیہ کرتی ہے۔ اس میں ایک دلچسپ باب نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا جس کا نام “پارٹی کی حکومت” ہے۔

چونکہ برصغیر ایک وقت میں برطانوی کالونی رہ چکا ہے، جہاں برطانوی جمہوری نظام رائج ہوا اور برصغیر پاک و ہند کے بٹوارے کے بعد بھی پاکستان میں یہی نظامِ حکومت وجود میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی جمہوری نظام کو لاحق مسائل پاکستانی جمہوریت کے مسائل سے کافی حد تک میل کھاتے ہیں۔ خصوصی طور پر، پارٹی حکومت والے موضوع میں  بہت سی ایسی باتوں پہ روشنی ڈالی گئی ہے جو پارٹی کی حکومت کو جمہوریت کی راہ میں ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ مثلاً اس باب میں بتایا جاتا ہے کہ ناقدین  پارٹی کی حکومت والے جمہوری نظام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں ایک  پارٹی کو اپنی باری مکمل کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعت حکومتی جماعت کے اقتدار کو ختم کرنے پر کوشاں رہتی ہے۔ یہ نظام کرکٹ کے کھیل کا منظر پیش کرتا ہے جبکہ دونوں پارٹیاں اقتدار کی جنگ میں اپنے اصل مقصد سے دور ہو جاتی ہیں جو کہ عوام  کی خدمت اور ان کی بہترین نمائندگی ہے۔

مزید یہ کہ جب کسی پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو وہ حکومت کا استعمال پھر پارٹی کے مفاد میں کرتی ہے، چاہے وہ لوگوں کی نمائندگی کے لیے منتخب ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب اقتدار عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مسائل پر غور و فکر کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کی نمائندگی میں جُت جاتے ہیں اور کرسی بچانے کے لیے تدابیر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف حکمران جماعت کی لالچ ہی نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹی کی طاقت میں جلد رو نما ہونے کی خواہش بھی ہے جو حکمران جماعت کو اپنے مفاد کو ترجیح دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال کتاب میں یوں دی گئی ہے کہ اپوزیشن جماعت جن حکومتی اقدامات کی مخالفت کرتے نظر آتی ہے، انھیں اقدامات کی مخالفت وہ اپنے دور حکومت میں نہیں کرتی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی تنقید کا مقصداپنی عوام کی بھلائی نہیں جس کی نمائندگی کے لئے وہ منتخب ہوئے بلکہ اصل مقصد حکمران جماعت کو برخواست کر کے خود حکمران بننا ہے۔

اپوزیشن اور حکومتی پارٹی سے متعلق یہ حقائق پاکستانی جمہوری نظام میں بھی عیاں ہیں۔ اس میں 2013 کے بعد والی تحریک انصاف کی اپوزیشن اور مسلم لیگ ن کی حکومت بطور آئینہ نظر آتی ہے اور یہ تمام خرافات نظام کی پیدا کردہ ہیں جو کہ اس نظام کے تحت آگے بھی جاری رہیں گی۔ لیکن ہم کئی دہائیوں سے سیاست دانوں کو قصور وار اور بدنیت ٹھہراتے آرہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے لیڈرز ٹھیک ہو جائیں تو سب صحیح ہو جاۓ گا لیکن اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا کہ ان کو غلطی کرنے کا موقع کیوں مل رہا ہے؟

نظام کی خرابیوں اور اصلاح پر بھی گفتگو ضروری ہے۔ بہر حال کتاب میں آگے بتاتے ہیں کہ اگرچہ برطانوی جمہوری نظام کے پارٹی حکومت میں نقائص موجود ہیں لیکن لوگوں کی بہترین نمائندگی کے لیے اس سے بہتر نظام ابھی تک تشکیل نہیں پایا اور اگر کوشش کی جائے تو اسی نظام کو کچھ سطحی تبدیلیوں کے ساتھ حقیقی جمہوری نظام بنایا جا سکتا ہے اگر پارٹیاں اپنے مفاد کو چھوڑ کر لوگوں کے لیے کام کریں کیونکہ پارٹی کا حکومت میں آ کر پارٹی کے لیے کام کرنا جمہوریت کی روح کے خلاف بھی ہے۔ ویسے بھی آبادی کا بڑا تناسب ایوان میں آ کر اپنے فیصلے نہیں سنا سکتا۔ یہ قابل فہم بات بھی نہیں۔

ساتھ ہی لوگوں کا اپنے لیے صحیح فیصلہ لینا بھی پاکستان جیسے معاشرے میں عملی نہیں، جہاں لوگوں کو اپنے مسائل کے حوالے سے بھی شعور نہیں۔ آج بھی پولیو کے قطرے پلانے والوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسے میں عوام کو ان کے فیصلے لینے کی اجازت دینا درست نہیں۔ چنانچہ ان کی بھلائی کے فیصلے ان کی نمائندگی کے ذریعے کیے جا سکتے ہیں۔ پلیٹو بھی اپنی کتاب ریپبلک میں بہترین ریاست اس کو بتاتے ہیں جہاں حکمرانی ایک فلسفی یا دانشور کی ہو یعنی جو لوگوں کے مسائل سے واقف ہو اور ان کے بہترین حل اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

بہر حال، باب میں ناقدین کی پارٹی حکومت پر تنقید کو بجا ٹھہراتے ہوئے واضح کیا جاتا ہے کہ پارٹی سے وفاداری تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ایسے لوگوں کے لیے ایک مخصوص لفظ(لوٹے) کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ پارٹی سے وفاداری نہ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاستدان جمہوریت کو طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کہ اس لیے کہ اس طاقت کے ذریعے وہ عوامی مسائل حل کریں، اگر ایسا کوئی مقصد ہوتا تو طاقت کے حصول کی کوشش پارٹی منشور کے ساتھ کھڑے رہ کر کی جاتی۔

آخر میں اس باب کی یہ بات بہت اہم ہے کہ پارٹی بھی اپنے ارکان کی طرز پر غیر مستحکم ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کی مثال ایسے دی ہے کہ برطانیہ کی دائیں بازو کی جماعت آج وہاں کھڑی ہے جہاں لبرل جماعت ایک نسل پہلے تھی۔ یعنی ایسے جمہوری نظام میں مفاہمت کا کھیل سرگرم رہتا ہے جس کی ایک وجہ حکومت قائم کرنا بھی ہے۔

پاکستانی مثال میں بھٹو کی لبرل پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے ذریعے وقت کے ساتھ اسلامی لبرل اور اسلامی سوشلزم کی طرف مائل ہوئی۔ پاکستان میں لبرل جماعت کا مذہبی رجحان دیکھنے کو ملا ہے لیکن کسی مذہبی جماعت کی لبرل اقدار کے ساتھ مفاہمت دیکھنے کو نہیں ملی، شاید اس لیے بھی کیونکہ ان کو اقتدار کے لیے مفاہمت کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت کا یہ نظام جو لوگوں کے لیے ہونا چاہیے محض طاقت کے حصول تک پابند ہوگیا ہے۔ اس میں کچھ رد و بدل ضروری ہے جس سے جمہوریت کا اصل مقصد حاصل کیا جاسکے، جس کے لیے جمہوریت حکمران کو طاقت بخشتی ہے۔