دین کی بنیاد پر سماجی سہولت پروگرام، اور اُردو زبان کا فروغ

0

آج صبح صبح پاک قومی زبان تحریک کے واٹساپ گروپ میں قومی زبان کی ترویج کے بارے میں پروگرام اور سفارشات پر نظر پڑی۔ ان کی محنت بہت قابل قدرہے۔ راقم کے ذہن میں کچھ عرصے سے دینی ہدایات کی بنیاد پر سماجی خدمت کے منصوبوں کی خاکہ سازی کا خیال آرہا تھا، جن میں چار قسم کے منصوبے تھے:

(1)     فوری سماجی مدد کے لیے “ماینفع الناس” کے عنوان کے تحت منتخب اور بڑی مساجد میں سہولت مراکز قائم کرنا، جن میں عائلی مسائل، روزہ مرہ کے کاروباری مسائل اور صحت کے مسائل فی الحال پیش نظر ہوں اور فوری ریلیف کا عملی انتظام ہو۔

(2)     بتدریج خود مختار بنانے کے لیے “ماعون” کے عنوان کے تحت سہولت مراکز کا قیام جن میں روزمرہ ضرورت کی چیزیں دنوں، ہفتوں اور گھنٹوں کی بنیاد پر عارضی دی جائیں۔ ان کا ریکارڈ رکھا جائے اور چیزیں جب واپس آئیں آگے اسی طرح دوسرے لوگ استعمال کریں۔

(3)     عوام کے مختلف محکموں اور شخصیات سے متعلق کاموں میں جائز سفارش کے لیے “شفاعت حسنہ ” کے تحت سہولت مرکز قائم کرنا جن میں ریٹائرڈ افسران، جج صاحبان، وکلا اور معاشرے کی مؤثر شخصیات رضاکارانہ طور پر ہفتے کے کچھ اوقات وقف کریں اور اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر لوگوں کے مفت کام کروایا کریں۔

(4)     عمومی سماجی، معاشی اور صحت وغیرہ سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے “دلالت علی الخیر” کے نام سے سیمینارز اور آگاہی پروگرام کا انعقاد کرنا۔

اس سب کا مقصد یہ تھاکہ یہ عملی منصوبے عملی مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں رو بہ عمل آئیں۔ فائدہ اٹھانے والوں پر رنگ نسل، مذہب، عقیدے کی کوئی پابندی نہ ہو، نہ کسی کو اپنے دین، عقیدے یا نسل کے بارے میں کوئی بات سننی پڑے ۔ میرے محدود سے خیال میں اس کا بڑا فائدہ ہو گا۔یہ سب کام آسان اردو زبان میں ہوں تو فروغِ اُردو بھی مؤثر انداز میں ہوجائے گا۔ کسی جگہ غیر مسلم بھائی رضاکاربننا چاہیں تو وہ بصد شکریہ شامل ہوں۔ ان پروگراموں سے مذہبی ہم آہنگی کو بھی بہت فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔

سب پروگراموں کا تفصیلی خاکہ تو یہاں دینا مشکل ہے۔ دلالت علی الخیر کی کچھ تفصیل عرض کردیتا ہوں۔جگہ جگہ پیشہ ورانہ عوامی سیمینار کروائے جائیں جن میں ہر شعبہ زندگی کے ماہرین اپنے علم کی روشنی میں عوامی آگہی پر خطاب کیا کریں۔یہ خطاب آسان اردو میں ہو اور سوال وجواب کا موقع بھی دیا جائے۔امید ہے بہت جلد تمام شعبوں میں  اردو مؤثر ہوتی جائے گی۔یعنی آنکھوں کے ڈاکٹر آنکھ کی بنواٹ، لائحہ عمل، کارگزاری اور تحفظ کے بارے میں، دل کے ڈاکٹر اپنے تخصص کے بارے میں، گردوں کے ڈاکٹر اپنے تخصص کے بارے میں بات کریں۔اسی طرح مختلف تخصصات کے وکلا اور جج صاحبان، کاروباری شخصیات اور عملی معیشت کے ماہرین بھی شامل ہوں۔ علمائے دین مختلف امور کے عملی طریقوں اور سماجی اثرات کے بارے میں گفتگو کریں۔ اسی طرح سے چلتے جائیں۔ اگر اپنے خطابات میں قرآنی آیات اور دینی ہدایات کا ذکر بھی کرتے جائیں تو نہ صرف اردو کو رواج ملے،گا بلکہ دین کے ساتھ وابستگی بھی اچھی ہوگی۔

پھریہ خطبات تسلسل کے ساتھ ہوں، شہروں اور دیہاتوں میں ہوا کریں، سوشل میڈیا پر بھی جاری کیے جائیں، اور ان کا زیادہ سے زیادہ چرچا ہوا کرے۔

اللہ کی توفیق سے سارے کام ہوجاتے ہیں۔ اس کام کو دینی اصطلاح کی روشنی میں “دلالت علی الخیر کے عملی پروگرام” کہہ سکتے ہیں۔ یہ نام حدیث شریف ’الدال علی الخیر کفاعلہ‘ سے لیا گیا ہے۔