دینی مدارس رجسٹریشن! سوسائٹی ایکٹ کیا ہے؟

0

مدارس کے حوالے سے کئی صحافی دوست رابطہ کررہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے وقت نہیں ملا اور قانونی ماہرین سے بات چیت بھی نہیں ہوئی۔ البتہ سوسائٹی ایکٹ کا نام سن کر مجھے پریشانی لاحق ہوئی ۔

اگر مدارس کو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی قانون سازی کی گئی ہے۔ تو انتہائی افسوسناک اور کسی حد تک میرے لئے حیرتناک بھی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوسائٹی ایکٹ کیا ہے؟
یہ برطانوی نوآبادیاتی قانون ہے جو 1860 میں آیا۔

دینی مدارس کا گزشتہ چالیس سال سے مطالبہ رہا ہے کہ سوسائٹی ایکٹ کے مطابق رجسٹریشن غلط ہے کیونکہ صوبائی حکومتوں میں یہ شعبہ انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کیساتھ متعلق ہے۔ جبکہ مدرسہ تعلیمی ادارہ ہے انڈسٹری نہیں، لہذا مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کیساتھ ہونی چاہئے۔

تحریک انصاف کے دور میں ملٹری اسٹیلشمنٹ کی مذہبی امور میں اثر رسوخ مزید بڑھ گیا تو اکابر علما اور اکابرین وفاق نے یہ مسئلہ جنرل باجوہ کیساتھ اٹھایا، کمیٹی بنی اور ایک معاہدہ اتحاد تنظیمات اور وفاقی وزارت تعلیم کے درمیان طے پایا۔ پھر وفاقی ڈائریکٹریٹ بنی ۔
وہاں سترہ ہزار مدارس رجسٹرڈ ہوگئے جبکہ اتحاد تنظیمات پیچے ہٹنے پر ردعمل میں پانچ مزید وفاق بنے۔ اتحاد تنظیمات بھی پیچھے ہٹ گئی۔

پھر پرانا مطالبہ آیا کہ انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت پرانی رجسٹریشن بحال کی جائے۔
مجھے بڑی حیرت رہی کہ اتنا عجیب مطالبہ کیوں کی جارہا ہے ؟ اس کی لاجک سمجھ نہیں آئی۔

یہ قانون اتنا خطرناک ہے کہ اس میں مدرسے کا بورڈ آف گورننس یا بورڈ آف ڈائریکٹر بنے گا۔
اس میں مہتمم کے ساتھ چھ اور لوگ شریک اختیار ہونگے۔ اور بورڈ مہتمم کو قانونا معطل بھی کرسکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کا مہتمم کم ازکم اپنے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں بناسکتا۔ اس سے مسائل مزید بڑھیں گے۔ نیز یہ رجسٹریشن ایک سال کیلئے ہوگی اگلے سال دوبارہ دفاتر میں ذلیل ہونا پڑیگا۔

یہ بائی لاز سوسائٹی ایکٹ کے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کسی نے پڑھے نہیں ہونگے۔
اس میں بورڈ کے تمام ممبران کی سیکیورٹی کلیئرنس ضروری ہے جوکہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے۔
اگر بورڈ ممبرز ایک سے زیادہ اضلاع سے تعلق رکھتے ہو تو یہ کلیئرنس کئی ماہ لے سکتا ہے۔
ایک غریب مدرسے کیلئے جس کا پورا سسٹم کیش پر ہوتا ہے ان کیلئے سالانہ آڈٹ لازمی ہے وگرنہ ان کی رجسٹریشن کی رینیویل نہیں ہوگی۔
مطلب ختم ہوگا۔ ایک غریب مولوی کیلئے پولیس اور اس ڈیپارٹمنٹ کو مینیج کرنا بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے۔
میں نے گزشتہ بارہ سال میں اس ایکٹ کے تحت تقریبا چھ ادارے بنائے یا اس کا حصہ رہا۔
پوری حکومتی مشینری کیساتھ تعلقات، سیاسی اور بیوروکریسی کے اثرورسوخ کے باوجود مجھے اس رجسٹریشن میں ہزار مسائل پیش آئے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تو اس میں سی ٹی ڈی سے بھی کلیئرنس کرنی پڑیگی جو کہ اور مصیبت ہے۔

سوال یہ ہے سوسائٹی ایکٹ اور انڈسٹریز کیساتھ مدارس کی کیا تک بنتی ہے ؟؟؟
اتحاد تنظیمات کی دیگر قیادت کیساتھ یہ ڈرافٹ بھی شئیر نہیں کیا گیا ہے۔
نیز ڈائریکٹریٹ آف ریلیجس ایجوکیشن پر اعتراض یہی تھا کہ اس میں بنک اکاؤنٹ نہ کھولنے کا مسئلہ ہے، اسی طرح مدرسے کے نام پر زمین وغیرہ ٹرانسفر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح دیگر امور ۔

لیکن اگر اسی ادارے کو لیکر باقاعدہ قانون سازی کی جاتی تو زیادہ مناسب تھا۔
اب کرنے کے کام کیا ہیں ؟

۱- ڈائریکٹریٹ کا کام بھی چلتا رہے اور سوسائٹی ایکٹ کا بھی ۔
۲- مہتممین اور مدارس کو جس میں زیادہ سہولت ہو وہی کریں ۔
۳- ڈائریکٹریٹ اپنے کام کو مزید موثر اور بہتر کرے اوقاف، سمیت بنک اکاؤنٹس اور دیگر امور کیلئے تیز سروسز شروع کرے۔
۴- سوسائٹی ایک کے تمام صوبائی ڈیپارٹمنٹ میں ون ونڈو آپریشن کے لئے حکومتی ڈائریکٹوز آنے چاہئے۔
۵- سوسائٹی ایکٹ میں بھی مدرسہ کیلئے سپیشل ونڈو بنائے جائیں تاکہ کام سلیقے طریقے سے ہوسکیں