مدارس کی رجسٹریشن اور سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860ء (قسط دوم)

0

ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی

چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل

ان مذاکرات کے نتیجہ میں یہ تجویز بھی سامنے  آئی کہ میٹرک اور ایف اے کی سطح کے عصری مضامین  میں حاصل کردہ مجموعی نمبروں پر سند جاری کی جائے گی۔ اس موقع پر طےپایا کہ پانچوں تنظیموں نے اپنی اپنی مجالس عاملہ سے اس کی منظوری لینی ہے۔

ان تنظیمات  نے اپنے اپنے مجالس عاملہ میں ان تجاویز کو پیش کیا اور ان مجالس عاملہ میں کیا فیصلے ہوئے یہ تو معلوم نہ ہو سکے مگر اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور وزارت تعلیم میں اعتماد کی فضا قائم نہ رہ سکی۔ جس کے بنیادی وجہ ITMP کی طرف سے یہ بتائی جاتی ہے کہ قواعد و ضوابط کی تشکیل اور قانون سازی میں ان سے اتفاق رائے نہ لیا گیا۔ اسی طرح عصری علوم کے امتحانات کے حوالہ سے بھی ڈیڈ لاک کسی نتیجہ پر منتج نہ ہوسکا۔  جبکہ وفاقی وزارت تعلیم کے مطابق ITMP نے معاہدے  کے   بعد معاملات کو  آگے چلانے میں دلچسپی نہ لی۔ حکومت نے “رولز آف بزنس 1973ء” میں وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرتے ہوئے کاموں کی فہرست میں 33ویں نمبر پر ’’دینی مدارس کے معاملات اور مذہبی تعلیم کی مین سٹریمنگ‘‘ کو وزارت تعلیم کی ذمہ داری میں شامل کردیا اور 22؍اکتوبر  2019ء کو DGRE اور اس کے 16 ریجنل دفاتر کے ساتھ قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ صدر دفتر اسلام آباد میں قائم کیا گیا۔ جبکہ ریجنل دفاتر پنجاب میں لاہور، ملتان، راولپنڈی، سندھ میں کراچی، سکھر، حیدر آباد، خیبرپختونخوا ہ میں پشاور، ڈی آئی خان، سوات، بلوچستان میں کوئٹہ، لورالائی، خضدار، آزاد جموں و کشمیر میں مظفر آباد اور میر پور، گلگت بلتستان  میں گلگت اور سکردو میں قائم کئے گئے۔ 29؍ اگست 2019ء کے معاہد کی رو سے وزارت تعلیم کے DGRE اور اس کے ریجنل دفاتر کے قیام کے بعد اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مدارس کے ساتھ ساتھ دیگر دینی مدارس اور جامعات (جوکہ اتحاد تنظیمات کے ساتھ ملحق نہ ہیں) بھی رجسٹرڈ کروانے کے پابند ہوئے۔ 29؍ اگست 2019ء کےمعاہدے کے مطابق 1860ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن اس وقت تک برقرار رہنی تھی جب تک وفاقی وزارت تعلیم کا نیا نظام نہ آجاتا۔ اب جبکہ اکتوبر 2019ء میں مدارس رجسٹریشن کا آغاز کر دیا گیا تو مدارس کو اس کے ساتھ رجسٹریشن شروع کروا دینی چاہیے تھی۔ مگر اس نئے نظام میں مدارس کی رجسٹریشن اس طرح نہ ہو پائی جس طرح ITMP کی طرف سے وزارت تعلیم میں رجسٹریشن کا نظام مانگا گیا تھا۔

اسی اثنا میں 2021ء میں مدارس کے 10 نئے تعلیمی بورڈز بھی معرض وجود میں آگئے۔ اور HEC نے ان کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی کردیا۔ ان نئے 10 بورڈز نے اپنے اپنے مدارس کو DGRE میں رجسٹرڈ کروانے کا پابند کردیا۔ اس طرح اب تک ان نئے 10 بورڈز کے 14 ہزار سے زائد مدارس DGRE میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جبکہ مدارس کے پرانے  5 بورڈز کے 4404 مدارس نے بھی اپنی قانونی، معاشرتی اور معاشی معاملات کے تناظر میں DGRE کے ساتھ رجسٹریشن کروائی  جس میں دارالعلوم جامعہ نعیمیہ بھی شامل ہے۔ اس رجسٹریشن کا مدارس کو مختلف معاملات میں قابل قدر فائدہ بھی ہوا۔ یہاں یہ بات نہایت قابل ذکر ہے کہ  DGRE میں اس وقت تک پرانے پانچ بورڈز کے  4404 مدارس  رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جن میں وفاق المدارس العربیہ کے 1710 مدارس، تنظیم المدارس کے 1528، وفاق المدارس سلفیہ کے 468، رابطۃ المدارس کے 503 اور اہل تشیع کے  195 مدارس ہیں۔ اس طرح کے پی کے کل 1735، پنجاب  کے 1647، بلوچستان کے 364، سندھ کے 289، اے جے کے  سے 101،  اسلام آباد کے 67 اور گلگت بلتستان  کے 124 مدارس شامل ہیں۔

ان مدارس نے اپنی رجسٹریشن کے موقع پر  پرانے پانچ مدارس بورڈز سے اپنا تعلق نہ چھپایا ہے اور نہ ہی DGRE نے اس پر  اصرار کیاہے کہ یہ 4404 مدارس اپنا تعلق پرانے بورڈز کےساتھ ختم کریں اور یہ امر  انتہائی خوش آئند ہے۔

اب HEC میں مدارس کے کل 15 بورڈز اور دس الگ جامعات دینی تعلیم کی آخری سند ’’الشھادۃ العالمیہ‘‘ دینے کے لیے نوٹی فائیڈ ہوچکے ہیں۔

اب جب بھی حکومت مدارس کے حوالہ سے کسی بھی قسم کی قانون سازی کرنا چاہے گی تو اسے ان سب کو ہی اکٹھا کرنا ہوگا۔ سب کی متفقہ رائے سے ہی قانون سازی یا کسی بھی قسم کی ترمیم  ہوسکےگی۔ جب PDM کی گذشتہ حکومت میں صرف اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے موجودہ وزیراعظم جناب شہباز شریف صاحب سے  ملاقات کر کے  مدارس کے رجسٹریشن کے مسودہ قانون کے حوالہ سے بات کی اور بعدازاں اسے حکومت کے آخری دن قانون سازی کے لیے پیش کیا گیا تو اس پر ووٹنگ نہ ہو سکی اور یہ مسودہ قانون روک لیا گیا۔ وہ مسودہ قانون دیگر دس بورڈز کے سامنے آج تک نہ آ سکا اور اس طرح 2024ء میں 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ  جو مدارس کی رجسٹریشن کا مسودہ قانون 1860ء  کے سوسائٹی ایکٹ کی دفعہ 21 میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا وہ بھی اب جب  صدر پاکستان نے دستخط نہ کیے تو سامنے آیا ہے۔ اس مسودہ قانون کو بھی صرف اتحاد تنظیمات  مدارس پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ دیگر دس بورڈز  کے سامنے نہ تو پیش کیا گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت لی گئی ہے۔

دیگر بورڈز کو  جب اس مسودہ بارے پتہ چلا اور اسے تلاش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سوسائٹی ایکٹ 1860ء کی دفعہ (21) کی ذیلی دفعہ (6) کے مطابق اس ایکٹ کے تحت کسی بھی دینی مدرسہ کو کسی اور قانون کےمطابق رجسٹریشن نہیں کروانی ہوگی۔ یعنی صرف یہی ایک قانون ہی رجسٹریشن کے لیے ہوگا۔

اور ذیلی دفعہ (7)  کے مطابق جب ایک دینی مدرسہ اس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو جائے گا تو کسی اور  قانون کےتحت رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت نہ ہوگی۔

جبکہ ذیلی دفعہ  (اے) اور (بی) غیر رجسٹرڈ دینی مدارس جوکہ  اس نئے ترمیمی قانون سے پہلے قائم ہوں یا بعد میں قائم ہوں کے بارے ہے۔ اس نئے ترمیمی قانون میں مدارس کی DGRE کے ساتھ رجسٹریشن بارے کسی بھی قسم کی کوئی پروویژن نہ ہے۔ اور  بادی النظر  میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ یہ ترمیمی قانون نئے دس بورڈز  پر ’’شب خون‘‘ مارنے کے مترادف ہے اور اس قانون کی تیاری میں بھی نئے دس بورڈز کو لاعلم رکھا گیا ہے۔

اس پورے قضیے میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ 2023ء اور 2024ء کے مسودہ قانون میں صرف اور صرف اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کو آن بورڈ  رکھا گیا ہے۔ جبکہ نئے 10 بورڈز کو کسی بھی قسم کی  اہمیت نہ دی گئی ہے۔

مسئلہ کا حل

جب بھی مدارس بارے قانون سازی کی جائے تو وفاقی وزارت تعلیم اور وزارت قانون کم از  کم 15 بورڈز اور 10 جامعات کے نمائندوں سے ضرور رائے لیں۔ اب مدارس بارے قانون سازی کو  اتنا آسان نہ لیا جائے۔

2-    نیا مسودہ قانون  بنایا جائے جس کےمطابق جومدرسہ  DGRE میں رجسٹریشن چاہے وہ DGRE میں اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروا لے اور جو سوسائٹی ایکٹ کے تحت اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروانا چاہے وہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کروا  لے۔ دونوں میں سے کوئی بھی سسٹم دوسرےکی روک نہ کرے۔

3-    مدارس کی تعداد کو حتماً متعین ہونا چاہیے۔ فعال اور غیر فعال مدارس کا تعین ہونا چاہیے۔

4-    DGRE اور تمام مدارس بورڈز اپنے اپنے فعال مدارس کی فہرست تیار کریں تاکہ قوم کے سامنے مدارس کی حتمی فہرست آنی چاہیے۔

5-    مدرسہ وہی ادارہ کہلائے گا جو تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش اور کھانے کی سہولت بھی دے۔

6-    مدارس کے رجسٹریشن کے معاملہ کو بلیم گیم نہ بنایا جائے اور نہ ہی اسے سیاسی ایشو کےطورپر  لیا جائے۔

7-    مدارس  کے معاملہ  میں فیٹف کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اسی لیے ان کے اکاؤنٹس اگر بند ہیں تو کھولے جائیں اور  نئے کھولنے پر پابندی نہ لگائی جائے۔

8-    مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے کے حوالے سے چیریٹی کمیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی شرط ختم کی جائے۔

9-    اب جبکہ صرف DGRE ہی مدارس کا  مکمل ریکارڈ رکھ رہی ہے تو  کسی بھی دیگر  ایجنسی کو اگر مدارس کا ریکارڈ مطلوب ہو تو وہ DGRE ہی سے حاصل کرے۔

10-  دینی تعلیم کی ترقی کے لیے تمام مدارس بورڈز کے نمائندگان کو مل کر اکٹھے معاملات کو افہام و تفہیم سے رفع کروانے کی ضرورت ہے۔

مدارس کے حوالے سے اس کالم کی دو اقساط میں مدارس کی آزادی و حریت، مدارس کا قومی دھارے میں لیا جانا اور نصاب کے حوالے سے بات نہیں ہوسکی ہے۔ اس پر علیحدہ سے مکمل کالم کی ضرورت ہے جوکہ جلد پیش کر دیا جائے گا۔