اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب اور طریقہ تدریس  پر نظرثانی کی ضرورت

ادارتی ٹیم

0

پاکستان کے اسکولوں میں اسلامیات کا نصاب ایک لازمی مضمون کے طور پہ شامل ہےاور تقریبا ہر کلاس میں اس کے لیے ایک کتاب زیردرس ہوتی ہے۔ لیکن اسکولوں کی سطح پر یہ دیکھا گیا ہے، طلبہ اسلامیات کے مضمون میں خاص دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ اسے ایک اضافی مضمون سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اساتذہ کا طریقہ تدریس بھی جاذب نظر نہیں ہے۔ اس سبق کو صرف پاس ہونے کے لیے پڑھا پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے مندرجات کو اپنی زندگی کے ساتھ اتنا متعلق نہیں جانا جاتا۔ بلکہ دین سے متعلق اگر کسی طالب علم کو کچھ سمجھنا ہوتا ہے تو  وہ متعلقہ بات میں اسلامیات کی کتاب کو مستند نہیں خیال کرتا، بلکہ باہر کسی عالم دین سے معلومات لیتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اسلامیات کے مضمون کی یہ حالت کیوں ہے اس مضمون میں کچھ وجوہات پر نظر ڈالی گئی ہے۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

ہمارے نصاب میں جو اسلامیات میٹرک تک بہ طور لازمی مضمون پڑھائی جاتی  ہے اس پر نظر ثانی ناگزیرہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔غور کیا جائے تو پرائمری سے لے کر سیکنڈری جماعتوں کے لئے اسلامیات لازمی میں اسلام کے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئ ہے وہ بچوں کی عمر کے حساب سے، جماعت میں پڑھائے جانے کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ اسلامیات وہ مضمون ہے جو ہمارے دین اسلام کی معلومات دیتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور بچوں کو اپنے دین کے بارے میں آگاہی دینے کا ایک مفید ذریعہ  ہوسکتاہے۔ لہٰذا اس کا نصاب بناتے وقت ماہرین کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کے طلباء کی عمر اور ذہن بہت ابتدائی،سادہ  اور نا سمجھ  ہوتا ہے۔اس وقت ان کو ایسی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے صرف  اخلاقی اثرات ان کے ذہن پر مرتب ہوں نہ کہ ایسی تعلیم، جو پیچیدہ مسائل پر مشتمل ہو اور جو انہیں سمجھ نہ آئے،یا اس کا ان کی موجودہ زندگی سے تعلق ہی نہ ہو۔

اسی طرح خود اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ بھی اس مضمون کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ زیادہ مطالعہ نہیں کرتے۔ کتاب کے مندرجات کو مزید کھولنے ، انہیں آسان بنانے اورکتاب میں طلبہ کی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔عام طور پہ، اسلامیات کا استاد صرف چنیدہ معلومات لے کر کمرۂ جماعت میں جاتا ہے اور اُن چیزوں سے ہٹ کر اگر کچھ نئی چیز نظر آجائے یا طلبہ کوئی نامانوس سوال کردیں، تو وہ اس سے صَرفِ نظر  کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نجی اسکولوں میں تو اسلامیات پڑھانے والے کی مہارت اور تعلیمی قابلیت کو جانچنے دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ جس آدمی  کو تھوڑی بہت اسلام کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں، اُسے ہی  قلیل تنخواہ میں رکھ لیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے طلبہ کے لیے یہ مضمون بالکل ہی غیراہم بن جاتا ہے اور وہ استاد اور کتاب دونوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

دوسرے مضامین کے اساتذہ کی طرح اسلامیات کے استاد کو بھی تدریس کے جدید طریقوں سے واقفیت ضروری ہے۔ جدید طریقہ تدریس  میں کمپیوٹر کا استعمال، ملٹی میڈیا کا استعمال، انٹرایکٹیو وائٹ بورڈ، مختلف سافٹ وئیرز کا استعمال اور دوسرے ذرائع شامل ہیں۔ اسلامیات کا استاد جب ان ذرائع کو کمرۂ جماعت میں استعمال کرے گا تو نہ صرف وہ اپنے موضوع کو بہتر طریقے سے پڑھا سکے گا بلکہ طلبا کی دلچسپی کو بھی  برقرار رکھ سکے گا۔ ایک اور مسئلہ جو دیکھنے میں آیا ہے وہ یہ کہ نصاب میں موجود موضوعات کا اطلاق عصرِ حاضر سے نہیں کیا جاتا۔ جب اُن موضوعات کا تعلق عصرِ حاضر سے جوڑیں گے ہی نہیں تو طلبا کی دلچسپی کیسے پیدا ہوگی۔

حالانکہ اسلامیات کا مضمون ہر کلاس میں پڑھایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اثرات کے اعتبار سے اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ اس پہلو کو اہم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ حالانکہ جب انڈونیشیا میں 1997 میں فسادات ہوئے تھے اور نوجوانوں میں منشیات و بے راہ روی کا رجحان بڑھنے لگا تھا تو لوگوں نے احتجاج کیے تھے کہ نوجوانوں کو دی جانے والی اسلامی تعلیم کے اثرات کیوں مرتب نہیں ہو رہے۔ اس کے بعد حکومت نے اسلامی تعلیم کے نصاب اور طریقہ تدریس پر نظرثانی کی تھی۔  ہمارے ہاں جس طرح تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی انگریزی سے طلبہ انگریزی بولنے، سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے اسی طرح اسلامیات کے ساتھ بھی معاملہ ہے۔ اسے کچھ عقائد و نظریات کے ناموں اور تاریخی حوالوں کے حافظے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ نتیجتاً اسلامیات کے مضمون کو کسی بھی دوسرے مضمون جتنی اہمیت بھی حاصل نہیں ہوتی۔  اساتذہ اسلامیات کے نصابی مواد کو بھی دیگر مضامین کی طرح صرف امتحانات میں کامیاب ہونے کی غرض سے روایتی طریقوں سے پڑھا رہے ہیں۔ دیگر مضامین میں زیادہ محنت کرنے اور اچھی کارکردگی دکھانے پر والدین، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ، سبھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، مگر اسلامیات میں صرف پاس ہونا کافی سمجھا جاتا ہے۔

دینی تعلیم صرف نظریات و عقائد یاد کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ عصرحاضر کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتی ہے۔ عصرحاضر میں ہمارے نوجوانوں میں جو مسائل ہیں ان کا حل اسلامی اقدار کے تحت سمجھانا چاہیے۔ معاشرہ اپنی شکل بدل چکا ہے اور اس کے مسائل بھی تبدیل ہوچکے ہیں لیکن نصابی مواد اور اسلامیات کا طریقہ تدریس اب بھی پرانا ہے۔ ہمارے ماہرین نے اسلامیات کے نصاب کو اب بھی جدید دور کے مطابق استوار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ایسی مہارت اور طریقے کی تربیت کی جا رہی ہے جس کی مدد سے اسلامیات کو طلبہ کے کردار و عمل میں جذب کیا جا سکے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ جدید دور کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ظاہری اور باطنی دونوں صلاحیتوں کو جدت فراہم کریں اور ماہرین کو چاہیے کہ وہ اسلامیات کے درسی مواد کو ان مسائل کے ساتھ ہم آہنگ کریں جو آج کے نوجوانوں کو درپیش ہیں۔ لہٰذا اساتذہ کی ایسی تربیت کی منصوبہ بندی کی جائے جس کی مدد سے وہ اسلامیات کی تدریس کے ذریعے طلبہ کی نفسیاتی الجھنوں کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی پہلو سے رہہنمائی کر سکیں۔ ہم ابھی تک دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح شعبہ تعلیم میں بھی اسلامی تعلیمات کو سمجھانے اور عملی طور پر اس کا اطلاق کرنے میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے نہ ہی انفرادی طور پر اور نہ ہی بحیثیت قوم کوئی مثبت تبدیلی آ رہی ہے۔

اسکولوں کی سطح پر پڑھائے جانے والےاسلامیات کے مضمون میں کیا مسائل ہیں اور طلبہ کی کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی وضاحت معروف دانشور اور کالم نگار خورشید ندیم صاحب نے اپنے مضمون میں بہت اچھے سے کی  ہے،جو اس مسئلے کی تفہیم میں بہت مفید اور شافی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نویں جماعت کے لیے جو نصاب ترتیب دیا ہے، اس میں سورہ الانفال بمعہ ترجمہ و تفسیر شامل ہے۔تفسیر کے حوالے سے، یہ سورہ قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ غزوہ بدر کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ غزوہ بدر کے واقعات کو جانے بغیر اس سورہ کو سمجھنا مشکل ہے۔ خود اس غزوہ کے محرکات کے باب میں بڑے دقیق مباحث ہیں جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔مولانا مودودی نے ان کے بارے میں لکھا:” جنگ بدرکے بیان میں تاریخ و سیرت کے مصنفین نے ان روایات پر اعتماد کر لیا ہے جو حدیث اور مغازی کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان روایات کا بڑا حصہ قرآن کے خلاف ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے‘‘۔ ( تفہیم القرآن، جلد 2صفحہ 126)

اس سورہ کے مضامین میں جہاد و قتال ، صلح و جنگ اور دارالاسلام کی آئینی حیثیت جیسے مسائل شامل ہیں۔سورہ کی پہلی آیت ہی یہ ہے کہ”یہ تم سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں‘‘۔اصطلاحی مفہوم میں یہ وہ مال و اسباب ہیںجو فتح کی صورت میںمسلمانوں کے ہاتھ لگتے ہیں۔ دور جدید میںجنگ کی نوعیت یکسر تبدیل ہو چکی۔ مالِ غنیمت کا تصور بھی ذہنوں سے محو ہو چکا۔سوال یہ ہے کہ یہ سارے مباحث ایک نویںجماعت کے طالب علم کی گرفت میںکیسے آ سکتے ہیں؟

مثال کے طور پر سورہ کی آیت67 سے جو مباحث شروع ہوتے ہیں، ان کی تفسیر مفسرین کے اشکالات سے مملو ہے۔جب میں نے پہلی بار ان آیات کا مطالعہ کیا تو طویل عرصہ شدید الجھن میں مبتلا رہا۔تفسیر کی کتب دیکھیں تومعلوم ہوا کہ مفسرین کی آراء نے تو مولانا مودودی جیسے عالم کو بھی الجھا دیا ہے۔ انہوں نے اس الجھن سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ان کی تفسیر مجھے نہیں نکال سکی۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہو امام امین احسن اصلاحی پرکہ انہوں نے یہاں دست گیری کی۔ کاش لوگ جان پاتے کہ ”تدبر قرآن‘‘ تفسیر کے باب میں کیسا تاج محل ہے جو مکتب فراہی کے اس جلیل القدر فرزند نے تعمیر کر دیا ہے۔میں اس الجھن سے نکلا تو ان آیات کی تفسیر پرایک تقابلی مقالہ لکھا جو میری کتاب ”بیسویں صدی کا فہم اسلام‘‘ میں شامل ہے۔

نویں جماعت کی اس نصابی کتاب کو دیکھا تو اس کی دوسری تمرین میں آیت 67کے بارے میں سوال شامل ہے:” مندرجہ ذیل ‘عبارت‘ کا مفہوم بیان کر یں؟‘‘ آیت کو عبارت کہنے میں کیا حکمت ہے، یہ بھی مجھ پر واضح نہیں ہو سکی۔ میں لیکن یہ سوچتا رہا کہ جس ‘عبارت‘ کا مفہوم مفسرین پر واضح نہ ہو سکا ، وہ نویںجماعت کے طالب علم پر کیسے کھلے گا؟

میرے لیے یہ باور کرنا تو مشکل ہے کہ اس نصابی کتاب کے مولفین نے سورہ الانفال کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا ہو گا، کیونکہ کتاب میں درج مصنفین کی فہرست میں بڑے بڑے نام ہیں جن میں سے اکثر ڈاکٹرز ہیں۔ گمانِ غالب یہی ہے کہ یہ ڈگری علوم ِ اسلامیہ ہی میں ہو گی۔ اگر اس سورہ کے مطالعے کے بعد اسے نصاب میں شامل کیا گیا تو پھر یہ طے ہے کہ یہ محترم حضرات تعلیمی نفسیات سے قطعی ناواقف ہیں۔طالب علموں کو قرآن مجید اور اسلامیات سے دور کرنے کا اس سے آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔

ہر علم کی تدریس‘ تدریج کے مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ تعلیمی نفسیات کا مسلمہ اصول ہے۔سیاسیات کے مضمون میں یہ نہیںہوتا کہ نویں جماعت کے طالب علموں کو بین الاقوامی امور ، جنگ و صلح کے قوانین پڑھائے جائیں۔ طب کے طالب علموں کو انسان کے جنسی اعضاء کی تفصیل سمجھائی جائے۔ یہ سب علوم طالب علم کی عمر اور تفہیم کی صلاحیت کو سامنے رکھ کر پڑھائے جاتے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ قرآن مجید اور اسلام کی تعلیم میں اس تدریج کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسلامیات کے نصاب ترتیب دینے والے سیرت اور دینی حکمت سے بھی واقف نہیں۔ مکہ کے تیرہ سالوں میں قرآن مجید نازل ہوتا رہا۔ اس دوران میں جہاد کی کوئی آیت نازل ہوئی نہ حدود و تعزیرات کے نفاذکاحکم دیا گیا۔ہجرت کے بعد سورہ حج کی آیات(39-40) نازل ہوئیں جن میں جہاد ( قتال ) کی اجازت دی گئی۔ یہی معاملہ حدود کے نفاذ کا ہے۔ یہی نہیں روزے جیسی عبادت کا حکم بھی ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوا۔

اسلام کی تعلیمات دین کے ہر شعبے میں راہنمائی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طالب علموں کو ان میں سے کون سا حصہ اور کب پڑھایا جائے۔ سادہ سی بات ہے کہ عمر کا یہ مرحلہ جسمانی اور ذہنی تغیرات کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس میں شخصیت کی اخلاقی اور ذہنی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کا بڑا حصہ عقائد اور اخلاقیات کے باب میں نازل ہو ا ہے۔ سورہ الانفال میںبھی یہ تعلیمات موجود ہیں لیکن ان کا تناظر بالکل دوسرا ہے۔ ضروری یہ ہے اس عمر میں بچوںکو یہ سکھایا جائے کہ اہل خانہ کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اہل محلہ ، عزیز و اقارب کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ بنیادی اخلاقی خصائص کیسے پیدا کیے جائیں۔زندگی جوہری طور پراخلاقی تعمیر چاہتی ہے یا مادی۔ نویں جماعت کے طالب علم کو محاذ جنگ پر جانا ہوتا ہے نہ وزارت خارجہ میں ملازمت کرنی ہوتی ہے کہ اسے جنگ و صلح کے قوانین یا دارالاسلام کے مسائل سمجھائے جائیں۔ اس عمر میں تو اسے ایک معاشرے کا فعال رکن بننا ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ اسے اس حوالے سے تیار کیا جائے۔

بچوں کو اگر فزکس سے متنفر کرنا ہے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں آٹھویں نویں جماعت میں آئن سٹائن اور ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیقات پڑھائی جائیں۔ اس کے بعد دیکھیے کہ وہ فزکس سے کیسے بھاگتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فزکس میں بھی ہم یہی کررہے ہیں ۔ چند روز پہلے ایک انگریزی اخبار میں ڈاکٹر پرویز ہود بائی نے سندھ کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی سائنس کی کتب کا جائزہ لیا ہے۔ اسے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ فزکس اور اسلامیات، دونوں میں رویہ ایک ہی ہے۔ اس کے بعد مذہب اور سائنس کے جیسے ماہرین تیار ہو سکتے ہیں، وہ ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ہم اپنے بچوں میں دین کا شعور اور دلچسپی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اس نصاب کی تشکیل نو کی جائے۔