دینی تصورات اور سائنس کی تعلیم

ڈاکٹرسید محسن نقوی

0

کیا مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں؟مذہب اور سائنس کے بارے میں مباحثے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ مباحثہ کسی تکنیکی معاملے کے بارے میں نہیں بلکہ علوم کے دو جہانوں کے بارے ہے، یعنی ایک مذہبی اور دوسرا سائنسی علم۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ  ٹکراؤ کی فکر کی یہ کشاکش دراصل اٹھارویں  اور انیسیوں صدی میں پیدا ہوئی جب کلیسا نے سوچنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے شروع کیے۔ اسلامی تاریخ میں ایسا ٹکراؤ کہیں نہیں ملتا۔لیکن  آج کل ہمارے ہاں بھی دونوں علوم میں تضاد کی فکر پائی جاتی ہے،جو غلط فہمیوں اور کچھ غلط مقدمات کی بنا پر قائم ہے۔ اِس دور میں اِس امر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی تروِیج کو فروغ دیا جائے۔زیرنظر مضمون میں اسی موضوع پر بات کی گئی ہے۔ مضمون نگار آغاخان یونیورسٹی میں پروفیسر، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور تاریخ و علم الکلام کے جید عالم ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور رواداری  ومکالمہ کے نقیب ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

مذیب اور سائنس کے ایک دوسرے کے مخالف ہونے سے قبل مذہب اور فلسفے کا ٹکراؤ شروع ہوا تھا۔ سائنس کی بنیاد کائنات کے مشاہدے اور اس کی عقلی و فلسفیانہ تشریح پر رکھی گئی تھی۔سائنس کے لغوی معنی تو علم کے ہیں جو مشاہدہ کائنات سے حاصل ہوتا ہے، بعد ازاں اس کی تفہیم و تشریح کے طریقے اور اس کے نتائج کو بھی سائنس ہی کا جزو  مانا جانے لگا۔ مذہب اور سائنس میں بنیادی فرق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ “مذہبی علم ” انسان کے لیے کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے جو ابراہیمی مذاہب میں “نزول وحی” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اسے حقیقی و قطعی سمجھا جاتا ہے۔ یہ علمیات کا ایک پہلو ہے۔ یہ علمیات حصول علم کی بجائے وصول علم پر مبنی ہے، جب کہ سائنس کی بنیاد حصول علم پر ہے جو ایک امکان سے چلتی ہے، پھر مشاہدہ اور تجزیے کے میدان میں قدم رکھتی ہے، بعد ازاں اسے تجربے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اور بار بار کا تجربہ ایک ہی نتائج دے تو وہ اصول بنا لیا جاتا ہے۔ سائنس میں جو “اصول” قرار دیے جاتے ہیں وہ پوری دنیا میں ایک جیسے نتائج کے مرتب کرتے ہیں جیسے نیوٹن کے تینوں قوانین حرکت، یا نظریہ کشش ثقل وغیرہ۔سائنس یہاں پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ مزید اکتشافات کے پیچھے لگی رہتی ہے اور اس کے مشاہدات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سائنس کی ایک اہم دریافت کائنات میں ریاضی کی زبان کو سمجھنا ہے جو ایک خاص نسبت و تناسب سے کام کر رہی ہے اور اس کی مدد سے جدید ایجادات  ہو رہی ہیں اور تشریح کائنات کی کوشش جاری ہے۔

ویل ڈیوراں کی ایک کتاب کی ابتداء ایک ایسے باب سے ہوتی ہے جس کا عنوان اس نے “ہیروزکی بے شرمی سے پرستش” رکھا ہے، اس کا خیال ہے کہ ہم نے اپنے ماضی کے ہیروز کی تحسین کرنے میں اپنے موجودہ مفکرین کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے “علم” کو خدا کے ہاتھوں سے نکال کر “انسانی علم” پر زندگی استوار کی ہے[1]۔  بعض مفکرین کا خیال ہے کہ ابتداء میں انسان نے خدا کا تصور کائنات کی تشریح کے لیے اختیارکیا تھا اور اس کی پرستش اختیار کرلی تھی، کیوں کہ انسان اس کائنات میں کسی نظام کی دریافت سے قاصر تھا لہذا  اسے متعدد خداؤں کا تصور اپنانا  پڑا اور یہی اس کا مذہب ہوگیا۔ گویا یہ مذہبی طرز فکر کی بنیاد تھی، جہاں علم کا سرچشمہ ایک اعلی ذات کو قرار دیا گیا اور اسی کے ذریعے کائنات کی پیدائش و تشریح معتبر سمجھی گئی، جبکہ موجودہ  سائنس اور فلسفے نے  اسے انسانی دماغ، تجربے، اور تجزیے سے منسلک کردیا ہے۔مغربی فلسفی ویٹگنس ٹائین نے اپنی کتاب “تیقن” (Wittgenstein: Certainty, 1969) میں لکھا ہے کہ “انسان نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک بادشاہ بارش برسا سکتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ سب ہی کے تجربے کے برخلاف ہے” یہ وہ بنیادی فرق ہے دو سوچوں کا جس پر مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ انسان اور کائنات کی تفہیم کے یہ دو مختلف زاویہ ہائے نظر ہیں جو صدیوں سے ساتھ ساتھ زندگیاں گزار رہے ہیں۔

کائنات اور اس کے مظاہر تو وہی ہیں جو آج سے ہزاروں برس قبل انسان نے اپنی برہنہ آنکھ سے مشاہدہ کیے تھے اور اس سے ایک “نظام کائنات” اپنی تئیں مرتب کیاتھا، اور اس کے مظاہر کی توجیہ میں کئی رویوں نے حصہ لیا۔جس میں سے ایک مذہبی عقیدہ بھی ہے۔یہاں مذہب سے ہماری مراد صرف وہ مذاہب نہیں ہیں جنھیں الھامی یا غیر الھامی مذاہب کے خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بلکہ اس میں ہر وہ صورت شامل ہے جسے اوپر ویٹگنس ٹائن کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مذہبی عقیدے کے مطابق جو کائنات پر حکومت کرتا ہے وہ بارش بھی برساتا ہے، اس سبب سے اسے قانون عطاء کرنے والا بھی سمجھا جاتا ہے جس سے انحراف “کفر” پر منتج ہوتا ہے۔ان مفکرین کے مطابق حمورابی (1792-1750 ق م)، ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وغیرہ کو جو پہاڑی پر مقدس ہدایات دی گئیں  وہ ایک ہی بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ “بادشاہ ” ہی قانون بھی دے گا جس پر چلنا ہے اور اس عطاء کردہ علم کے مقابلے میں انسانی علم کی حیثیت نہیں ہے۔ گویا بنیادی مسئلہ “علمیات” کا ہے نہ کہ باہمی تردید و تنقیص کا۔

سائنس و فلسفہ اور یہودیت و مسیحیت کا آپس میں  تعلق  تاریخ میں واضح ہے۔ فیلو  (15 ق م- 45 ء) کے زمانے میں یہودیت نے اپنی الھیات کو یونانی فلسفے  کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی، اور کائنات کی وہی تشریح اس کے مد نظر رہی جو یونانیوں میں اس وقت درست سمجھی جاتی تھی، یہ چیزیں کتاب پیدائش پر اس کی تشریحات سے معلوم ہوتی ہیں۔ بعد میں اسی تھیالوجی میں ترقی ہوتی گئی اور یہ اسپین و اسکندریہ کے راستے مسیحی فکر میں آئی۔ چار بڑے کلیسائی باپوں نے مسیحی فکر اور الھیات کو تشکیل دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا ان میں امبروز (340-397) جیروم  (347-420ء)،  آگسٹین آف ہپو (354-430ء) اور پوپ گریگوری (540-604ء) شامل ہیں یہی زمانہ ہے جب مسیحی حضرات میں فلسفہ اور سائنس سے متعلق نظریات مضبوط ہوئے۔ سائنس کے عھد جدید میں بڑے بڑے سائنسدان یہودی اور مسیحی ہوئے ہیں خود نیوٹن نے بائبل کے بعض حصوں کی شرح لکھی ہے۔

البتہ کائناتی ارتقاء اور حیاتیاتی ارتقاء کے نظریات ، جو گیلیلیو (1564-1642) اور ڈارون  (1809-1882)نے پیش کیے، انھوں نے سائنس اور مذہب کے درمیان دوریاں پیدا کیں۔ مشہور سائنس دان اور فلسفی جارڈانو برونو (1548-1600)، اور پروفیسر جان سکوپس کو 17 فروری، 1600 ء کوچرچ کے حکم پر زندہ جلا دیا گیا،  1642 میں انتقال کر جانے والے مشھور سائنسدان گلیلیو کو یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ سورج کی بجائے زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے اسے معافی مانگنے، اور اپنے نظریات سے توبہ کرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر تا دم آخر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ کیا اس کے نتیجے میں سائنسی ترقی رک گئی، ٹیکنالوجی کو بریک لگ گیا، فکر و فلسفہ بانجھ ہوگئے ؟  ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بعض حصوں میں آج بھی چرچ یہ بحث کرنے میں مصروف ہے کہ طالب علموں کو “حیاتیاتی ارتقاء” کا نظریہ نہ پڑھایا جائے لیکن سائنس کی دنیا میں نہ صرف یہ کہ ڈارون کا یہ نظریہ باقی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر روز بروز نئے نئے حیاتیاتی مسائل کا حل نکالا جارہا ہے جس سے اس نظریے کی مخالفت کرنے والے بھی مستفید ہورہے ہیں۔عملی طور پر اسی صورت کو اختیار کیا جارہا ہے جس کی تردید کی جارہی ہے۔

اب اس امر پر بھی نظر کرلیں کہ مسلمانوں کے سائنسی کارناموں پر، جو انہوں نے مختلف میادین میں انجام دیے، ہر مسلمان فخر کرتا ہے، نیز یورپ اسے تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کے علمی آثار سے یورپ نے بہت استفادہ کیا ہے، خاص کر سائنس کے میدان میں مسلمانوں نے جو ایجادات اور تحقیق کی اس پر موجودہ سائنس کی بنیاد رکھی گئی[2] اس سے قبل کے زمانے کو “ڈارک ایجز ”  یعنی  (ازمنہ مظلمہ) کہتے ہیں۔ انگریزی اور اردو میں اس موضوع پر متعدد کتب موجود ہیں، سائنس یا فلسفہ کی تاریخ پر ہر کتاب میں مسلمانوں کے اس سنہری زمانے کا سنہری تذکرہ موجود ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس دور میں سائنس اور مذہب میں کوئی منافات اور تضاد و تصادم کی صورت کیوں نہیں سمجھی گئی، بلکہ وہ علماء قابل فخر مانے گئے جنھوں نے دونوں قسم کے علوم میں دستگاہ  پیدا کی۔صرف ابوالحسن علی ندوی کی کتاب  “ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین” ملاحظہ فرمائیں، جس کا ترجمہ مسلمانوں کے عروض و زوال کا مغرب پر اثر کے نام سے ہوا ہے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم تھذیب و تمدن نے کس طرح طبعی علوم اور ان کی تحقیقات کو اپنے میں نہ صرف سمویا بلکہ بھرپور استفادہ بھی کیا۔یہ علوم قرآن، حدیث، فقہ، اصول اور دیگر کے ساتھ مدارس میں پڑھائے جاتے تھے جن میں جغرافیہ ، ریاضی، الجبراء اور طب وغیرہ بھی شامل تھے۔ اسلام اور طبعی علوم کے درمیاں کوئی لڑائی نہیں تھی۔

تین مسلمان مفکرین نے علوم کی طبقہ بندی پر بنیادی کام کیا ہے، ابو نصر الفارابی (258-339 ھ)، ابو حامد الغزالی  (450-505ھ)، اور قطب الدین الشیرازی (634- 710 ھ)۔ غزالی اور شیرازی نے اساسی طور پر فارابی کی درجہ بندی کو قبول کیا ہے لیکن جن نکات پر زور دیا ہے  یا جن پہلوؤں کو اہم یا اہم تر قرار دیا ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔  اس درجہ بندی میں یہ امر بھی اہم ہے کہ فارابی فلسفہ مشائیین کے ترجمان ہیں، اور غزالی یونانی فلسفے کے مخالف و ناقد (تھافۃ الفلاسفہ)، جبکہ فارابی سے چار سو سال بعد آنے والے الشیرازی  اسماعیلی ہیں جنھوں نے سقوط بغداد کا بچشم خود مشاہدہ کیا تھا۔ چنانچہ (اہم ، اہم تر، اہم ترین) کے حوالے سے ان کے نظریات میں تفاوت ہونا فطری تھا۔

فلسفیانہ بحثوں میں الجھنے کی بجائے سیدھی سادی بات کی جائے تو علوم اسلامی، قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، علوم عربیہ وغیرھا، کلام الھی کے مطالعے پر مشتمل ہیں، یا اس میں معاون ہیں اور آلات کا  کام دیتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان علوم کا مطالعہ ان کے آئمہ کو مختلف نتائج تک پہنچاتا ہے جس سے مکاتب فقہ و حدیث تشکیل پائے ہیں۔ مسائل شرعیہ میں ایک کی رائے دوسرے سے مختلف ہے۔ اس کے باوجود ان سب کو برداشت بھی کیا جاتا ہے ، پڑھایا بھی جاتا ہے اور ان کے دلائل بھی زیر بحث لائے جاتے ہیں، ان میں ترجیح بھی قائم کی جاتی ہے، کوئی کسی رائے پر اختلاف کے باوجود کفر کا فتوی نہیں لگاتا۔

کلام الھی کو جس طرح انسان کما  کان حقہ اب تک نہیں سمجھ سکا اسی طرح کائنات جو “امر و تخلیق الھی” ہے اس کے عمل اور نظام کو بھی انسان ابھی پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔ اس نظام پر غور کرنے اور اس کی لطافتوں کو دریافت کرنے کا نام سائنس ہے جو خود اپنی ایجاد سے لے کر آج تک مختلف تشریحات اور ان کے مکاتب  فکر میں سفر کرتی رہی  ہے اور یہ سفر جاری رہے گا۔ یہ سفر ختم نہیں ہوگا کیوں کہ رب العالمین نے اسے انسانی مشاہدے اور تجربے کی نسبت سے لا محدود خلق کیا ہے اور کائنات تو انسانی مشاہدے میں پھیلتی ہی جارہی ہے۔ مطالعہ کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ حیاتیات کا بھی ہے۔ یہ سوالات کہ روئے زمین پر زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی، پہلی جان دار چیز جو زمین پر نمودار ہوئی وہ کیا تھی، نباتی حیاتیات  کا بحری، بری اور فضائی مخلوقات سے کیا ربط ہے، واحد خلیے  (سنگل سیل) کیسے وجود میں آتے ہیں اور پھر ان میں بار آوری کیسے ہوتی ہے، زمین پر پیدا ہونے والا پہلا جان دار کون تھا اور پھر اس سے کس طرح جان دار مخلوق وجود میں آئی، انسان سے پہلے کی مخلوق کون تھی جس کا اشارہ فرشتوں  کے اس بیان میں  ہے کہ “کیا تو زمین پر ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس پر فساد مچائے گا اور خون بہائے گا” (البقرہ، 30)۔ یہ آیت انسان سے پہلے ایک ایسے “انسان نما” کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو خاصہ غیر متمدن تھا، جب کہ آدم کی تخلیق اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعارف کیے جانے میں فرق کرنا چاہیے۔ آدم تو اپنے سے ماقبل مخلوق  (ہومو اریکٹس) کی ترقی یافتہ شکل تھا، حضرت آدم علیہ السلام اس کی اعلی ترین سطح پر تھے جن کو علم حاصل کرنے (اللہ نے آدم کو سارے اسماء سکھادئیے) اور علم کو دوسروں تک پہنچانے، یعنی ابلاغ کی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا (اور جب آدم نے فرشتوں کو سارے اسماء بتا دیے) گویا یہ تمدنی ارتقاء ہے جس کی وضاحت کی جارہی ہے۔ بعد میں اولاد آدم کی ساری ترقی علم کے ذریعے ہی ہوئی ہے۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو سائنس کا نظریہ  حیاتیاتی ارتقاء ایک تو اکتشافات کے تسلسل کی  ایک کڑی ہے، ایک نقطہ نظر ہے،  سائنس کے دیگر نظریات کی طرح، جب کہ تحقیق جاری ہے ۔قدیم انسانی ڈھانچوں کی دریافت میں سر اور جبڑے کی ہڈیوں، نیز ہاتھوں و پیروں کی بناوٹ، اور اس  وجود کے کھڑے ہونے کی صلاحیت کے اعتبار سے ان باقیات کو مختلف مزعومہ درجات سے متعلق قرار دے کر ان کی وضاحت کی کوشش کی جاتی ہے اور کاربن ڈیتنگ و ڈی این اے کے ذریعے کسی ڈھانچے کی قدامت کا تعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی بیانات کچھ اس قسم کے الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں: “سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ملنے والا یہ ڈھانچہ تقریبا اتنے لاکھ سال پرانا ہے اور خیال ہے کہ یہ فلان طفیلی طبقے سے تعلق رکھتا ہے” یہ محققین خود حتمی نتائج کی حیثیت سے اپنی تحقیقات کو پیش نہیں کرتے، تحقیق ابھی جاری ہے۔ انسانی ذہن اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کلام الھی کی تشریح میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا کہ کوئی مسلک یہ دعوی کرے کہ بس مراد الھی وہی جو ہم سمجھے ہیں، اسی طرح خدا کے “کن فیکون” کو بھی انسان پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔ دونوں طرح کی آیات، قرآنی اور تکوینی،  کی تشریح جاری رہے گی۔ ان متعدد تشریحات کی اصل دین سے کوئی منافات نہیں اور نہ تضاد کا کوئی پہلو ہے۔

دینی مدارس کے نصاب میں ان نظریات کو آسانی سے سمویا جا سکتا  ہے۔یہ نظریات ایک متبادل بیانیے اور تشریح کے طور پر طلباء کو بتائے جاسکتے ہیں۔ سورہ مؤمنون، 23: 14، نیز الزمر، 39: 6،و   العلق، 96: 1-5 کے مطالعے سے شکم مادر سے لے کر انسان کی پیدائش و (خلق  آخر) تک مراحل کو مذہبی اور سائنسی نقطہ نظر سے پڑھانے کی صورت میں طلباء متبادل بیانیوں سے روشنا س ہو سکتے ہیں۔ سورہ مؤمنون کی آیت میں وارد خلقا آخر” کو طبی تحقیقات کے ذریعے اچھے طریقے سے سمجھایا جاسکتا ہے اور اس میں مسلمان اطباء کے بیانات بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔گو کہ مسلمان اطباء کی تحقیقات پرانی ہوگئی ہیں لیکن کسی بھی علمی ترقی کی تاریخ ماضی کے سنگ ہائے میل کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

یہی حال دوسرے شعبوں کا بھی ہے، مثال کے طور پر ہم سیاسیات میں ارسطو و افلاطون کے نظریات سے لے کر میکیاولی اور ہیرالڈ جے لاسکی اور مابعد کے مفکرین کو، جمھوریت، سوشل ازم، کیمونزم، یک ایوانی مقننہ اور دو ایوانی مقنن وغیرہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو اس کے ساتھ اسلامی نظریہ خلافت ، ولایت فقیہ، حکومت از دست علماء یا کوئی اور نظریہ  بھی پڑھا سکتے ہیں۔معاشیات کے متوازی  اسلامی معاشی نظام، سود اور بینک کاری ، کے متبادل  غیر سودی بیک کاری پڑھائی جاسکتی ہے۔ یہ متبادل و متوازی نظریات ہیں انھیں پڑھنے و پڑھانے میں اسلام  نہ سد راہ   ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہےکہ ایسے علماء و فضلاء نیز علوم جدیدہ بشمول سائنس کے ماہرین ساتھ ساتھ بٹھائے جائیں اور نصاب میں ایسے مواد کو شامل کریں جوان  متعدد نظریات کو شانہ بشانہ پڑھانے میں ممد و معاون ہو۔

[1]  ویل ڈیورانٹ، دی گریٹسٹ مائینڈز، باب اول

[2] Niall Ferguson, Civilization, pp. 50-52, David Wootton, The Invention of Science, p. 113