مابعداسلامیتی فکر، منہج اور جمہوریت کا عُقدہ

0

ڈاکٹر حسن الامین ادارہ ‘‘اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈئیلاگ’’ کے سابق سربراہ ہیں۔ معروف کتاب ‘مابعداسلامیت: پاکستان نولبرل عالمگیریت کے عہد میں’ کے مصنف ہیں اور بین الاقوامی جرائد میں آپ کی تحقیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ زیرنظر مضمون میں انہوں نے مابعداسلامیت کے حوالے سے جڑی مباحث پر قلم اٹھایا ہے کہ کیسے مذہبی تحریکات میں وقت کے ساتھ تبدیلی رونما ہوئی۔ مغرب اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور مسلم سماج میں اس عنوان کا کیا مطلب ومفہوم ہے۔ یہ مضمون مصنف کی کتاب ‘مابعداسلامیت:پاکستان نولبرل عالمگیریت کے عہد میں’ سے ماخوذ ہے۔

مذہبی تحریکات اور تنقید کا مغربی منہج

ماضی قریب میں دنیا بھرکے درسی ادب نے عالمگیریت کے جواب میں مسلم دنیا کے اسلامی سماجی حلقوں کے متنوع طرزِ عمل پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کیے رکھی ہے۔اسلامی سماجی تحریکات کامیسر مواقع اور ان کے نظریاتی ڈھانچوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو یہ جوابی طرزِ عمل پہلے پہل کلی مخالفت، بعد ازاں جزوی قبولیت اور آخر کاراسے مکمل طور پر اپنا لینے کے مختلف النوع رجحانات کا عکاس رہا ہے۔دنیا بھر کی اسلامی سماجی قوتوں کے اس مصلحت آمیزرویے کی تجرباتی شہادت مغربی عالمگیریت اور مذہبی نظریات رکھنے والی اسلامی تحریکات کے مابین فطری نزاع پر مصر رہنے والی اسلام مخالف اشتعال انگیزی پر سوالیہ نشان ہے۔مغرب اور اسلام کودو متضاد ثقافتوں سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے مابین ناگزیر تصادم کی پیشین گوئیاں کی گئیں۔جہاد بمقابلہ میک ورلڈ اور اسلام بمقابلہ میکانکیت منظرنامے کی حد درجے تشہیر مقبول ذ رائع ابلاغ کا وطیرہ رہی۔

تاہم حالیہ تحقیقات نے اس رجحان سے خاطر خواہ بغاوت کی ہے۔ان تحقیقات نے نہ صرف اس مخصوص نقطہِ نظر میں موجود مخفی مفروضہ جات پر سوال اٹھائے ہیں بلکہ ایسی کئی تجرباتی مثالیں پیش کی ہیں جو ‘ہم’ ‘وہ’ کی اس دو قطبی تفریق کی نفی کرتی ہیں۔

شواہد بتاتے ہیں کہ یورپ پرست اور لزومی نقطہِ نظر پیچیدہ مسلم معاشروں کی تفہیم میں ناکام رہے ہیں۔ان نقطہ ہائے نظر نے  سماجی عمل کے متنوع اور پیچیدہ خواص کی تخفیف و تسہیل کرتے ہوئے انہیں منجمد، ناقابلِ تغیر اور ساکن خاصیتوں میں بدل دیا۔تخفیفی نظری زاویے کی بدولت اسلام سے متعلق کی گئی تحقیقات یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اسلامی متن میں فطری طور پر موروثی انجماد پایا جاتا ہے۔ جب مسلم سماج اور اس کے سماجی حلقوں کو اس غیر متحرک متن کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تو منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسلام شخصی آزادی اور جمہوریت جیسی جدید اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور مسلم سماج کی صورت گری جس طرز پر کی گئی ہے اس سے یہ مغرب اور یورپ سے بنیادی طور پر مختلف نظر آتے ہیں۔ ایک مطلق العنان سیاسی نظام سے نسبتاً جمہوری نظام میں منتقلی کی جہاں تک بات ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب اسلامی جمہوریت کی سیکولرشکل کو قبول کیا جائے جس کی بنیادیں مذہب اور ریاست میں علیحدگی پر استوارہیں۔تاہم ماضی قریب میں درسی تحقیقات کی قابلِ ذکر تعداد اسلامی سماج اور اس کے سماجیاتی حلقوں کی تفہیم کے لیے اس نوع کے لزومی و تخفیفی اصول ہائے تحقیق کی صحت کی تحدی کرتی ہے۔مسلم دنیا میں ایسی متعدد فکری آوازیں اور سماجی رجحانات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اسلام اور جمہوریت یا بہ الفاظِ دگر اسلام اور جدیدیت میں موافقانہ تعلق قائم کیا ہے۔

چند محققین کا خیال ہے کہ ‘سیکولریت کے اسلامی تصور’کی تشکیل سے مذہبی فکرکی اصلاح کے ذریعے مسلم معاشروں کی جمہوریت سازی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔الہامی متن اور عوام کے درمیان بطور واسطہ علما، ادارہ جات اور سماجی تحریکات کا کردار اسلام اور جمہوریت کے مابین مفاہمتی بندھن(یا اس سے متضاد)کے قیام میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

حالیہ تحقیقات کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اسلامی سیاسی جماعتوں کو سلامتی اور دہشت گردی کے پسِ منظر میں زیرِ غور لایا گیا ہے۔ تخفیفی نظری نقطہِ نظر سے متاثر ہو کر یہاں بھی محققین اسلامی سیاسی جماعتوں کا مطالعہ خطرے یا عالمی سلامتی کے  تناظر میں کرتے ہیں،یا پھر وہ جدیدیت یا عالمگیریت اور ان جماعتوں کے مابین ناگزیر مخاصمانہ تعلق متصور کر لیتے ہیں۔اسلامی سیاسی جماعتوں کا ریاستی اقتدار حاصل کرلینا اس خدشے کو جنم دیتا ہے کہ ان کابرسرِ اقتدار آنا جدید سیاسی تاریخ کے سیاہ باب کا حرفِ آغازہو گا۔اسلام پسند وں کی طرف سے مروجہ طاقتی روابط کی کلیتاً تبدیلی کے بنیاد پرست اسلامی انقلاب کا نعرہ اس خطرے کو مہمیز عطا کردیتا ہے۔

تنقیدی عمل پر کی گئی حالیہ تحقیقات میں اس یورپ پسند تصور کی بیخ کنی کی گئی ہے کہ تنقید محض سیکولریا مغربی معاشروں کا وصف ِ خاص اور طرہِ امتیاز ہے۔ درج بالا مغربی تصور سے جو بات سامنے آتی ہے اس کے مطابق مسلم سماج اور اس کے متعدد مذہبی و سیاسی حلقے روایتی مذہبی ماحول کا حصہ ہونے کے سبب تنقیدی صلاحیت سے عاری ہیں۔درج بالا مفروضے کی صحت پر تامل سے عبارت طلال اسد، صبا محمود اور عرفان احمد کے مناہجِ تحقیق کو بنیاد مانتے ہوئے احیائے اسلام اور داخلی تنقیدات سے متعلق باب میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کے سیاسی اسلام (او راسلامی ریاست) کے تصورکے رد پر مبنی داخلی و خارجی آوازوں پر بحث کو شامل کیا گیا ہے۔جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی فکر سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجانے والے مفکرین نے داخلی منطق، یعنی مولانا مودودی کی فکر کی نظریاتی بنیادوں پر اعتراضات کیے ہیں۔ اسی باب میں برِ صغیر کی مسلم فکری روایت میں سے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں جدید مسلم دنیا پر غالب بیانیے،یعنی سیاسی اسلام کے تصور کوبیشتر ایسے مفکرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو کبھی مولانا مودودی کے نظریہ احیائے اسلام پرغیر معمولی حد تک یقین رکھتے تھے۔

مابعداسلامیتی فکر کی اٹھان

دنیا بھر کی اسلامی سماجی تحریکات نے عالمگیریت کے سبب پیدا شدہ مواقع سے استفادہ کیا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے نئے سیاسی افکار زیربحث رہے، ان میں سے ایک مابعداسلامیت کی فکر بھی ہے۔

(۱)    تعلیمی میدان میں سب سے پہلے یہ اصطلاح فرہاد خسروخاور نے اپنے ایک فرانسیسی مقالے میں ایرانی اصلاح پسند مفکرین کے لیے استعمال کی تھی۔

(۲)    ماہرِسیاسی سماجیات آصف بیات نے 1996ء میں اس کو آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کا دائرہِ کار سیاسی و سماجی مسائل تک بڑھا دیا۔آصف بیات نے نہ صرف اس اصطلاح کے دائرہِ کار کو وسعت دی بلکہ اسلامیت اور مسلم معاشروں کے مطالعے کے لیے اس اصطلاح کو فعال ڈھانچہ بھی فراہم کیا۔ آصف بیات کہتے ہیں:

‘‘مابعد اسلامیت سماجی، سیاسی اور فکری دائروں میں حد درجے نفوذ کرتی ہوئی اسلام پسندانہ(اسلامیتی) فکر کے دلائل و مناہج کی ترتیب و تشکیل کی ایک شعوری کوشش کے ساتھ ساتھ ایک منصوبہ بھی ہے۔تاہم ابھی تک اس فکر کواسلام مخالف، غیر اسلامی یا سیکولر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ دراصل مذہب پسندی اور انفرادی حقوق، عقیدے اورخود مختاری، اسلام اورشخصی آزادی میں آمیزش کی کوششوں کو ظاہر کرتی ہے۔یہ فکری رجحان بنیادی اسلامیتی اصولوں میں واضح بدلاؤ کی ایک کوشش ہے، جس میں فرائض کی بجائے حقوق، مطلق العنانیت کی بجائے تکثیریت،مطلق عبارات کی بجائے تاریخیت اور ماضی کی بجائے مستقبل پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس رجحان کا مطمعِ نظراسلام کو شخصی خود مختاری و آزادی اورجمہوریت و جدیدیت کے موافق کرنا، یعنی ایک ‘‘متبادل جدیدیت’’ حاصل کرناہے۔ مختصر یہ کہ اسلامیت کی توجہ کا مرکز مذہب اورانفرادی فرائض ہیں، جبکہ مابعد اسلامیتی فکر مذہب پسندی اورانفرادی حقوق پر اصرار کرتی ہے’’۔

اولیویئر رائے اپنی معروف تصنیف ‘‘سیاسی اسلام کی شکست’’ میں لکھتے ہیں کہ اوپر(یعنی اقتدار کے ذریعے) سے تبدیلی لانے کے انقلابی تصورپر مبنی اسلامیتی منصوبہ ایک بند گلی میں پہنچ چکا ہے جہاں سے واپس آنا یا نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اولیویئر رائے کے خیال میں اسلام پسندوں کا اصل اسلام کی جانب رجوع اور ازسرِ نو گروہ بندی اور حقیقی دنیا کی سیاست سے مسلسل بڑھتا ہوا فاصلہ سیاسی اسلام کی شکست کے یقین میں مزید اضافہ کیے دیتا ہے۔ آصف بیات ان کے اس تصور کو ایک تجرباتی و تاریخی زمرے کی بجائے ایک نظری و خیالی نقطہِ نظر سے تعبیر کرتے ہوئے اس کوبالکل بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مابعد اسلامیت کا ظہور اسلامیتی فکر کے خاتمے پر ہرگز دلالت نہیں کرتا۔

دنیا کی کسی بھی نمایاں ثقافت کی طرح اسلام کے اندر بھی حیرت انگیز طور پرمتنوع مسلمات وتضادات پائے جاتے ہیں۔معاصر نو لبرل دور میں مسلم دنیاایک نئے سماجی و سیاسی رجحان کی طرف بڑھ رہی ہے جسے پوسٹ اسلام ازم کہا جاتا ہے۔ یہ فکری روش ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے موقف سے دستبرداری سے عبارت ہے اور خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے انتہائی فراخ ہے۔مسلم دنیا میں اس کی اثر پذیری کا حجم یکساں نہیں ہے بلکہ بطورسماجی و سیاسی منصوبہ، اس کی مقبولیت متعددمتعلقات پر منحصر ہے۔ایک نمایاں سماجی رجحان کے طور پر مابعد اسلامیت پہلے پہل ایران، مصر اور ترکی میں ظہور پذیر ہوئی اور اب تمام مشرقِ وسطیٰ میں پھیل چکی ہے۔نئے آزادانہ سماجی و برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے معلومات کی تیزتر ترسیل مابعد اسلامیتی نظریات اور طرزِ سیاست کی عوام تک رسائی میں معاون و مددگار ثابت ہوئی ہے۔مابعد اسلامیت کے تجزیاتی مطالعے کے اہم نکات اس بات کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام میں اسلام پسندوں کی ناکامی نے اس نئے سماجی و فکری رجحان، مابعد اسلامیت کو نمو بخشی ہے۔

مابعد اسلامیت سماجی، سیاسی اور فکری دائروں میں حد درجے نفوذ کرتی ہوئی اسلام پسندانہ(اسلامیتی) فکر کے دلائل و مناہج کی ازسرِ نو ترتیب و تشکیل کی ایک شعوری کوشش کے ساتھ ساتھ ایک منصوبہ بھی ہے۔تاہم ابھی تک اس فکر کواسلام مخالف، غیر اسلامی یا سیکولر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ دراصل مذہب پسندی اور انفرادی حقوق، عقیدے اورخود مختاری، اسلام اورشخصی آزادی میں آمیزش کی کوششوں کو ظاہر کرتی ہے۔یہ فکری رجحان بنیادی اسلامیتی اصولوں میں بدلاؤ کی ایک کوشش ہے، جس میں فرائض کی بجائے حقوق، مطلق العنانیت کی بجائے تکثیریت،مطلق عبارات کی بجائے تاریخیت اور ماضی کی بجائے مستقبل پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس رجحان کا مطمعِ نظراسلام کو شخصی خود مختاری و آزادی اورجمہوریت و جدیدیت کے موافق کرنا، یعنی ایک ‘‘متبادل جدیدیت’’ حاصل کرناہے۔ مختصر یہ کہ  اسلامیت کی توجہ کا مرکز مذہب اورانفرادی فرائض ہیں، جبکہ مابعد اسلامیتی فکر مذہب پسندی اورانفرادی حقوق پر اصرار کرتی ہے۔

مسلم معاشروں میں معاصرتغیرپذیری کے ایک یقینی پہلو کے طور پرابھرتا ہوا مابعد اسلامیتی رجحان نو آبادیاتی تاریخ، مابعد نو آبادیاتی سماجی و اقتصادی حالات،اسلام کی نئی تعبیرات اوران سے متعلقہ نظریات اور دنیا بھر میں احیائے اسلام کی تحریکات کے تجربات کے نتیجےمیں سامنے آیا ہے۔

اسلام اور جمہوریت:مسئلہ کہاں ہے؟

جمہوریت ایک متنازع اصطلاح ہے۔اس کے دائرہِ کارکی تفہیم کے لیے ہم یہاں ایکسل ہیڈنیئس کو مستعار لیتے ہیں: ‘جمہوریت دراصل عوامی اقتدار کا عمومی اصول اور مساوات و آزادی کا بنیادی سرچشمہ ہے۔’

یہاں مذکور تین اصول بالترتیب ‘سیاسی فیصلہ سازی’ کی اساس کے طور پر واضح عوامی ترجیحات کی نشاندہی کرتے ہیں۔سیاسی فیصلہ سازی میں عوامی منشا کا بلاجبر و اکراہ آزادانہ اظہار ہونا چاہیے اور تمام افراد کی آراءو ترجیحات کو مساوی اور مماثل درجہ دینا ضروری ہے۔

لیری ڈائمنڈ اور دیگر کسی بھی جمہوری نظام کی سات مشترک خصوصیات بیان کرتے ہیں:شخصی آزادی اور انفرادی خود مختاری، قانون کی حکمرانی،اقتدار عوام کی امانت،قانون کا یکساں اطلاق، حکومتی افسران کا اداراتی و غیرا داراتی احتساب،عوامی مطالبات سے متعلق حکومتی نظام کی شفافیت اور تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع۔

اسلام اور جمہوریت میں اصل وجہِ نزع‘اقتدارِ اعلیٰ یا حاکمیت’ سے تعلق رکھتی ہے۔ مغربی ذہن اقتدارِ اعلیٰ کی فوق الطبیعی اساس، جیسا کہ مولانا مودودی بیان کرتے ہیں، کوسماجی و انفرادی ربط و تعلق کے سارے سلسلے میں خلل ڈالنے کا موجب سمجھتا ہے۔نادر ہاشمی اپنے ایک تحقیقی مطالعے میں اسلام اور جمہوریت میں موجود تناؤ کو درج ذیل تصویرکی مدد سے واضح کرتے ہیں۔

نادر ہاشمی کہتے ہیں کہ مذہب اور جمہوریت میں نظریاتی تناؤکو عمودی اور افقی خطوط کی مدد سے واضح کیا جاسکتاہے۔عمودی خط انسان اور خدا کے باہمی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ جمہوریت‘سیاسی ساختیات کے نظام کے طور پر سماج میں افراد کے باہمی افقی تعلق پر دلالت کرتی ہے۔’ تناؤ تب پیدا ہوتا ہے جب عمودی تعلق عوامی اقتدارپر الوہی اختیارکی صورت معاشرے میں بطورضابطہ افقی سماجی نظم میں مخل ہوتا ہے۔‘اس طرح نظریاتی طور پر خدا کے مطلق اقتدار کی بنیاد پر ایک سماوی و کائناتی نظام وجود میں آتا ہے جس میں ملائکہ  خدا اور فرد کے مابین بطور واسطہ کردار ادا کرتے ہیں اورنجات کی متمنی بے کس انسانیت طاقت کے اس تکونی ڈھانچے کے پیندے پر پڑی ہوتی ہے۔’

سیاسی نظریہ کار اس تناؤ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک لبرل جمہوری نظام مذہب اور ریاست کی علیحدگی کی بنیاد پرہی استوار ہوسکتا ہے۔ مذہبی سیاست اور مذہبی اقدار و معیارات کی بنا پر سماجی صورت گری انسانی حقوق، مثلاًاقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی پامالی سے عبارت ہے۔نادر ہاشمی درج ذیل تین دلائل کی بنیاد پر مذہبی سیاست اور لبرل جمہوری ارتقا کے مابین ساختیاتی تناقص اور اس میں مضمر تصورات کی تحدی کرتے ہیں:

۱۔      لبرل جمہوریت کے استحکام کے لیے سیکولریت کی ضرورت کا تصور اور یہ خیال کہ الہامی مآخذ فطری طور پر جمہویت و سیکولریت سے ہم آہنگ نہیں ہیں، ان دونوں تصورات کی سماجی شہادت کا ہونا ضروری ہے۔

۲۔     مسلم معاشروں کے دیے گئے  تاریخی اور سماجی وسیاسی تناظر میں ‘لبرل جمہوریت کا راستہ مذہبی سیاست کے روزن سے ہی گزرتا ہے’، اور

۳۔      لبرل جمہوری ارتقا کے لیے مذہب کو خیرباد کہنے کی ضرورت ہے، نہ ہی اسے نجی حلقوں کے سپرد کرنے کی۔اس کے برعکس کرنے کا کام یہ ہے کہ ‘مذہبی تصورات کی تعبیرِ نو کی جائے’، بالخصوص ان تصورات کی جوسیاسی اقتدار یا حاکمیت اور انفرادی حقوق سے متعلق ہیں۔

مابعد اسلامیتی فکر اور عسکریت پسندی

گزشتہ 30برسوں کے دوران مابعد اسلامیتی حلقوں کی جانب سے بوساطت زبان و قلم سامنے آنے والے متن کا تفصیلی جائزہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حلقے جہاد(اصول ہائے جہاد، اس کی تاریخ، پاکستان اور دیگر مسلم دنیا میں عسکری جدوجہد کا جواز و دیگر) سے متعلق متعدد اور مختلف النوع سوالات کے مسلسل جوابات دیتے آرہے ہیں۔مابعد اسلامیتی حلقوں کے تصورِ جہاد کی نظری تشکیل افغانستان میں طالبان کی آمد و بے دخلی اور سانحہ ۱۱ ستمبر سے پیش تر ہوچکی تھی۔تاہم بعداز11 ستمبر پاکستان میں برقی ذرائع ابلاغ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور مابعد اسلامیتی تصورِ جہاد کوعوامی رسائی میسر آئی۔کوئی بھی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ مابعد اسلامیتی تصورِ جہاد (جہاد کے روایتی تصور کی تشکیلِ نو) بہت پہلے مستحکم ہو چکا تھا، اسی لیےیہ سماجی وثقافتی بنیادوں پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادیں تاریخِ اسلام میں درج جہاد ی اعمال و نظریات کے تنقیدی مطالعے اورعمیق فکری تدبر میں پیوست ہیں۔تاہم اس نظریے کے توسیعی مرحلے میں بعد ازسانحہ گیارہ ستمبر حالات کا کافی عمل دخل رہا ہے۔

دائرہِ بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہاں مابعد اسلامیتی مفکرین کے منفرد اجتہادی زاویے اور بطور مسلح جدوجہد جہاد کی تشکیلِ نو کے مابین تعلق پر بات کریں گے۔منفرد تعبیری منہج کا سہارا لیتے ہوئے مابعد اسلامیتی مفکرین نے عمومی طور پر زیرِ بحث رہنے والے تصورِ جہاد (عسکریت پسندوں کے ہاں مقبول تصور) کو تاریخی زمرے تک محدود کردیا۔ یعنی جہاد کی ایسی صورت جودراصل پیغمبرانہ مقصد کی تکمیل سے متعلق ہے اور اس کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔مابعد اسلامیتی مباحث میں دینی زمرے کے طور پرجہاد کی ایک ہی صورت، یعنی ظلم و نا انصافی اور مذہبی جبر کے خلاف اقدامِ جنگ باقی رہ جاتی ہے۔جاوید احمد غامدی کے نزدیک اس ثانی الذکرجہاد کا مقصد بھی مذہب(اسلام) کی توسیع واشاعت نہیں بلکہ شخصی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ ہے۔اگرچہ صراحتاً اس زمرے میں جنگ کے سیکولرتصور کی آمیزش ہورہی ہے تاہم اس اقدام ِ جہاد کو مابعد اسلامیتی نقطہِ نظر میں جہاد فی سبیل اللہ ہی کہا جاتاہے۔

مابعد اسلامیتی زاویہِ نظر کے مطابق اسلام میں جہاد کی ایک ہی صورت باقی رہتی ہے جس کا تعلق شخصی آزادی اور امنِ عامہ کے تحفظ سے ہے۔سورۃ توبہ میں مذکور سزا و جزا سے متعلق احکامات مشرکینِ مکہ، بنی اسرائیل اور بنو نضیر کے ساتھ خاص تھے۔ یہ قتل وقتال دراصل سزاو جزا کے قانونِ خداوندی کے نفاذ کے پیغمبرانہ مقصد کی تکمیل تھی اوریہ سلسلہ رسولِ مکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ختم ہو گیا۔ عہدِ حاضر میں ان آیات کی بنا پر کسی قسم کے قتل وقتال اورنظمِ سزا کے قیام کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔اسلامی ریاست کو‘‘جنگ میں فتح یاب ہو جانے کے بعد لوگوں کو محکوم بنا کر انہیں ذمی بنانے یا جزیہ عائد کرنے’’ کا فریضہ تفویض نہیں کیا گیا۔دار الحرب یا دارالاسلام جیسی دوقطبی تفریق صرف اس صورت باقی رہتی ہے جب کوئی مسلم ریاست غیر مسلم ریاست کے خلاف برسرِ پیکار ہو۔ اسلامی نظام کے قیام کے لیے کسی غیر اسلامی نظام کے خلاف اقدامِ جنگ کا ثبوت بنیادی دینی مآخذ اور رسولِ مکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے میسر نہیں ہوتا۔

میرے تجزیے کے مطابق جہادی نظریات اور اصولوں سے متعلق معاصر مذہبی مباحث کا مسئلہ متعلقہ الہامی متن کی تشریح تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان پر خارجی حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔مروج سماجی و سیاسی حالات تعبیری عمل کی تحریک و تشکیل کرتے ہیں۔مولانا مودودی کی شہرہ آفاق کتاب ‘‘الجہاد فی الاسلام’’ جو 1962ء میں شائع ہوئی، وہ محض ایک علمی جواب نہیں تھا بلکہ ا نہوں نے اس وقت کے سیاسی حالات کے جواب میں تصورِ جہاد تشکیل دیا اور اسی مقصد کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں۔اسی طرح مابعد اسلامیتی تصورِ جہاد پر بھی معاصرعالمی و علاقائی سماجی و سیاسی حالات کے اثرات بعید از قیاس نہیں ہیں۔ 80 کی دہائی میں سوویتیونین کے خلاف افغان جنگ اور۹۰ کی دہائی میں مختلف جنگجو گروہوں کے باہمی معرکوں کے پسِ منظر کے جائزے کے بغیر پاکستان اور اسلام کے تناظر میں جہاد کی بحث ادھوری رہے گی۔پاکستانی فوج نے (امریکہ اور مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک کے مالی وسائل اور دفاعی حمایت کے ساتھ) اس مہم کو منظم کیا تھا۔عالمی سیاست پر بالعموم اور پاکستانی سماج پر بالخصوص اس جنگ کے متنوع اثرات کی بحث کافی طویل اور اس باب کے دائرہِ بحث سے باہر ہے۔اس جہادی منصوبے کے منفی اثرات مقامی شورش، بڑھتے ہوئے عسکریت پسندانہ رجحانات،علاقائی بغاوت اور تشدد کی عالمی لہر کی صورت میں سامنے آئے۔ پاکستان کے اندر لبرل، سیکولر اور قوم پرست مفکرین،شعراء اور سیاست دانوں کے مابین افغان جہاد کی صحت اور اس کے نتائج و مضمرات ہمیشہ تنقیدی نقطہِ نگاہ سے زیرِ بحث رہے ہیں۔تاہم مذہبی قوتوں کا جوابی طرزِ عمل ملے جلے رجحانات کا مالک رہا ہے۔جیسا کہ بعض مذہبی گروہ،مثلاً جماعتِ اسلامی افغان جہادکی نہ صرف اخلاقی و فکری حوالے سے حامی رہی بلکہ اس کے کارکنان نے اس جنگ میں عملاً حصہ بھی لیا۔

عروضی مشاہدات کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے کہ مابعد اسلامیتی مکتبِ فکر کی اٹھان اسلامی عسکریت پسندی کے منطقی و طبعی مظاہرکی اسلامی تحدی کے طور پر ہوئی ہے۔ مابعد اسلامیتی حلقے عالمی و علاقائی افق پر جاری نجی جہاد کی تمام صورتوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔وہ اجتماعیت اور ریاست سے وفادار ی کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور نظمِ حکومت کی کمزوری کا باعث تمام تر نظریات اور جہد و کاوش کو راہِ حق سے روگردانی کا نام دیتے ہیں۔

مابعداسلامیتی حلقے کا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ عالمی قوتوں کا استعماری عزائم رکھناکھلی حقیقت ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاصر عالمی قوتوں کا استعماری رویہ اسلام مخالفت پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ طاقت و حکومت کے لازمی مضمرات میں سے ہے اوردنیا پر غلبے کے دنوں میں خود مسلمان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔مثال کے طور پر اسی حلقے کے ایک مفکر مسلم امہ کے حالیہ زوال کے تفصیلی جائزے کے بعد اس کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے درج ذیل۴ نکات پر مشتمل نظام العمل تجویز کرتے ہیں:

۱۔      سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت و ترقی کا حصول،

۲۔     کامل جمہوری روایات کو اپنانا،

۳۔      عدل و انصاف(قانون کے سامنے تمام افراد کی برابری) کی یقینی فراہمی اور

۴۔     مصلحتِ وقت کے تحت وقفہِ امن کے حصول کے لیے سمجھوتے کی جانب پیش رفت۔

مذہبی پیرایہِ اظہار اختیار کرنے کی بجائے انسانی حقوق، جمہوریت اور تکثیریت جیسی جدیداصطلاحات سے آراستہ لغت کا استعمال ان مباحث کی دوسری خاصیت ہے۔ان مباحث کی آخری خاصیت بنیادی طور پر اسلامی تہذیب و تمدن کی اساس اور معاصر مغربی تہذیب سے اس کے امتیازات سے متعلق ہے۔