مسلم ممالک اور جمہوریت:پاکستان میں مباحث کا تناظر
ادارہ ‘انٹرنیشل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور’ نے ستمبر 2021ء میں تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا جس میں مسلم ممالک میں جمہوری تبدیلیوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے ملک کی نامور شخصیات کو مدعو کیا۔ زیرنظر مضمون میں ان مباحث کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ فاروق اعظم صحافی ودانشور ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں۔
جمہوریت موجودہ دور میں انتقالِ اقتدار کا ایک پرامن طریقہ ہے۔ جمہوری ریاستوں نے اس نظام کو اپناکر ماضی کی مطلق العنان بادشاہتوں اور آمرانہ حکومتوں کے عتاب سے خود کو محفوظ کرلیاہے۔ جمہوریت کو عمومی طور پر‘‘عوام کی حکومت’’سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں عوام نہ صرف حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں، بلکہ ان کا احتساب بھی کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں بھی جمہوری نظام کو کلی طور پر نہ سہی کسی حد تک قبول کرلیاگیا ہے۔ بعض مسلم ممالک نے تبدیلی حکومت کے اس ماڈل کو اپنے ہاں رائج کیا ہے۔ تاہم مسلم ممالک میں جمہوری نظام کے متعلق شبہات اور مسائل موجود ہیں۔ جن کے حل کے لیےیا افہام و تفہیم کی صورت پیدا کرنے لیے مکالمے کو فروغ دینے کی خاطر مختلف سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔
اس سلسلے میں انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ مذکورہ کونسل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اشتراک سے اسلام آباد میں اسی نوع کی ایک ورکشاپ میں راقم کو شرکت کا موقع ملا۔جہاں مسلم ممالک میں جمہوری مسائل پر خورشید ندیم اور مسلم طرز فکر میں جمہوریت کے متعلق شکوک و شبہات پر ڈاکٹر عمار خان ناصر نے تفصیلی اظہار خیال کیا۔ خورشید ندیم نے اپنی گفتگو میں یہ مقدمہ پیش کیا کہ جمہوریت حکمرانوں کے انتخاب اور احتساب کا سب سے آسان اور پرامن طریقہ ہے۔ دنیا اب تک حکمرانی کے چار طریقے دیکھ چکی ہے۔ ایکیہ کہ کسی کو اللہ اپنا نمائندہ بناکر بھیج دے اور اس کو دنیا میں اقتدار بخش دے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص قوت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرلے۔ تیسری صورت بادشاہت کی ہے، جس میں باپ کے بعد بیٹا حکمران بن جاتا ہے۔ چوتھی صورت عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت کا قیام ہے، جس کو ہم جمہوری نظام کہتے ہیں۔ جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے تومسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ختم نبوت کے بعد وحی کا دروازہ بند ہوچکا، اب کوئی شخص خود کو اللہ کا پیام بر ثابت کرکے حکومت نہیں کرسکتا۔ دوسری اور تیسری صورتیں یعنی آمریت اور بادشاہت کی نظیریں معاصر دنیا میں اب بھی ملتی ہیں، تاہم ان کو پسندیدہ شمار نہیں کیا جاتا۔ چوتھی صورت یعنی عوامی رائے کو ترجیح دیناجمہوری ممالک میں رائج ہے اور موجودہ دور میں انتقالِ اقتدار کا اس سے زیادہ پرامن طریقہاور کوئی نہیں ہے۔
ڈاکٹر عمار خان ناصر نے بھی اسی مقدمے کو آگے بڑھایا اور انہوں نے جمہوریت اور مسلم فکر میں اس کے ارتقا پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بحث نے بیسیویں صدی میں جنم لیا۔ اول مغربی ممالک نے اپنے ہاں اس نظام کو رائج کیا اور وہاں سے مسلم ممالک میں اس کو رواج ملا۔ تاہم مسلم دنیا میں جمہوریت کے متعلق گزشتہ سوا سو صدی کے دوران مختلف بحثیں شروع ہوئیں۔ ایک سوچ یہ ہے کہ جمہوریت اسلام کے مقابل کفریہ نظام ہے۔ دوسری فکر کے حامل افراد مغربی جمہوری نظام کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے بعد قبول کرتےہیں۔ تیسری سوچ کے حاملین جمہوریت کو مکمل اسلامی نظام ثابت کرتے ہیں۔ ہر گروہ کا اپنا طرزِ استدلال ہے۔ اسی بنیاد پر یہ بحث جاری ہے اور جاری رہے گی۔ جناب خورشید ندیم اور ڈاکٹر عمار خان ناصر اس بات پر متفق تھے کہ اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کے لیے کوئی مخصوص ڈھانچہ وضع نہیں کیا۔البتہ اصول بیان کیے ہیں۔ان اصولوں کی بنیاد پر حالات اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر مسلمان نظامِ حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ خورشید ندیم کے مطابق اسلام نے دین دیا ہے، ریاست نہیں۔ اگرچہ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں ریاست قائم کی تھی، لیکن یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری نہیں تھی۔
اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے تشکیلِ حکومت کے لیے کوئی مخصوص نظام وضع نہیں کیا۔ تاریخی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے حکمرانوں کے انتخاب یا ریاستی اداروں کی تشکیل کے لیے کسی ایک طریقے کو نہیں اپنایا۔ بلکہ حالات کے مطابق جس کو بہتر سمجھا وہ اختیار کرلیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کا طریقہ انتخاب بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ البتہ ان میں ایک نکتہ قدرے مشترک تھا، یعنی مشاورت کو ترجیح دینا۔
حکمرانوں کے طریقہ انتخاب میں حالات کے مطابق بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور میں جمہوری اصولوں کو اپنانا اس کی ایک مثال ہے۔تاہم ریاستی نظام کی ہیئت ترکیبی کے متعلق یہ مقدمہ قائم کرنا کہ دین اور ریاست دو علیحدہ شعبے ہیں، مسلمان ریاستی امور کی انجام دہی میں آزاد ہیں، وہ خود کو اس سلسلے میں دین کے طابع کرنے کے پابند نہیں ہیں، بذات خود کنفیوژن پر مبنی بیانیہ معلوم ہوتا ہے۔ دراصل اس بیانیے کے پس پشت سیکولرازم کا نظریہ کارفرما ہے۔ چونکہ اسلام صرف انفرادی امور کا درس نہیں دیتا، بلکہ اجتماعی امور میں بھی اصول وضع کرتا ہے۔ اگر ہم ریاستی سطح پر سیکولرازم کے قائل ہوجائیں تو ان امور کی انجام دہی کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے گا، جن کا تعلق براہ راست ریاستی ا حکومت سے ہے؟ جس طرح حدود کا نفاذوغیرہ، جن میں حکومت یا ریاست کا عمل دخل لازمی ہے۔
دراصل خورشید ندیم صاحب اور انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور (IRCRA) بھی بعض جمہوریت پسند مسلم تحریکات کو مسلم دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے سلسلے میں استفادے کی خاطر ماڈل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں انڈونیشیا کی نہضۃ العلما، ملائیشیا کی عوامی جسٹس پارٹی اور تیونس کی النہضہ اور مسلم ڈیموکریٹس شامل ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں، جو ماضی میں مذہبی بنیادوں پر قائم ہوئی تھیں۔ بعد ازاں یہ سیاست کی طرف آئیں اور اب ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ریاست اور مذہب کو جدا کردیا جائے۔ آسان الفاظ میں سیکولر بنیادوں پر جمہوریت کو فروغ دیا جائے۔ لیکن یہاں بنیادی کنفیوژن یہ ہے کہ پھر نظمِ اجتماعی کے سلسلے میں اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ترکیب کیا ہوگی؟ بالائی سطور میں جن جماعتوں کا ذکر کیا گیا وہ سیکولر ازم کے اصولوں کی بنیاد پر اجتماعی امور میں اسلام کی تعلیمات سے صرف نظر کرتی ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے انڈونیشیا کے سابق صدر عبدالرحمن واحد، جو نہضۃ العلما سے تعلق رکھتے تھے، سے اپنی ملاقات کی روداد بیان کی کہ انڈونیشیا میں بعض قوانین اسلام سے متصادم ہیں، جیسا کہ قانونِ وراثت، لیکن ان قوانین کو ریاستی سطح پر اسلام سے متصادم ہونے کے باوجود سیکولرازم کی بنیاد پر قبول کرلیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ خالص سیکولر بنیادوں پر جمہوریت کی اس تعبیر کو پاکستان جیسے مسلم معاشرے میں قبولِ عام کا درجہ دلانا ممکن نہیں ہے۔ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے صدرمحمد اسرار مدنی نے بھی اپنی کتاب‘‘اسلام اور جمہوریت: ایک متبادل بیانیہ’’ میں علامہ اقبال کی جانب سے اپنے اشعار میں جمہوریت پر تنقید کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: جمہوریت کے خلاف علامہ اقبال کے اشعار پر اگر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مخالفت کا مرکزی نکتہ مغربی جمہوریت ہے، جس میں پارلیمان کو قانون سازی کے غیر محدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا پارلیمنٹ کسی بھی خدائی حکم کا پابند نہیں۔(ص38) یعنی خالص مسلم معاشروں میں جمہوریت کی وہ تعبیر جو مغرب کے ہاں پائی جاتی ہے، رواج نہیں پاسکتی۔اس ضمن میں اسلام کی سیاسی تعبیر اور بعداز سیاسی اسلام کی بحث بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ ورکشاپ میں اس پر ڈاکٹر حسن الامین اور شمس الدین حسن شگری نے سیر حاصل گفتگو کی۔ میرے نزدیک اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والے گروہ اور روایتی تعبیر سے منسلک مذہبی حلقےطریقہ کار یا سوچ میں اختلاف رکھتے ہیں، باقی ان کا مطمح نظر ایک ہے۔سیاسی اسلام کے حاملین اسلامی ریاست کی تشکیل کواپنا نصب العین اور بنیادی فریضہ قرار دیتے ہیں۔تاہم روایتی فکر سے جڑے حلقے اس کو اپنا مقصودِ اصلی قرار نہیں دیتے، البتہ اس کے لیے جدوجہد سے بھی انکاری نہیں ہیں۔ بعد از سیاسی اسلام، جن میں بعض مذہبی حلقوں نے سیکولرازم کی طرف رجحان ظاہر کیا، وہ سیاسی اسلامیا روایتی فکر کے حاملین کے مقابل دوسری انتہا پر چلے گئے۔ان حالات میں ہمارے نزدیک معتدل طرز عمل یہ ہے:
- جمہوریت تشکیلِ حکومت کے سلسلے میں عوامی رائے کو ترجیح دینے کا نام ہے، مسلم ممالک اپنے مسائل کا جائزہ لے کر جمہوری رویوں کو فروغ دینے کے لیے مواقعے پیدا کریں۔
- جمہوریت پسند مسلم تحریکات کے تجربوں سے بھی استفادے کے امکانات موجود ہیں، اس سلسلے میں ہر ملک اپنی سوسائٹی کے مزاج اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھے۔
- وہ جماعتیں جو سیاسی امور میں دلچسپی رکھتی ہیں اور ملک میں جمہوریت کی بالادستی چاہتی ہیں، وہ اپنی جماعتوں میں بھی جمہوری رویوں کو فروغ دیں۔
- نچلی سطح پر جمہوری اقدار کی ترویج کے لیے تعلیمی اداروں اور سماجی و صحافتی حلقوں میں مکالمے کو فروغ دیا جائے۔
- جمہوریت اور اس سے متعلق موضوعات پر معیاری لٹریچر کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے، تاکہ تحقیق کا ذوق رکھنے والے افرادمتبادل بیانیوں سے آگاہی حاصل کریں۔