ورکشاپ بعنوان ’مسلم دُنیا میں جمہوری تبدیلیاں‘ کی رُوداد 

0

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور نے 28 ستمبر سے 30 ستمبر تک اسلامی نظریاتی کونسل کے اشتراک سے تین روزہ ورکشاپ بعنوان ‘‘مسلم دنیا میں جمہوری تبدیلیاں’’  منعقد کی۔ اس ورکشاپ میں ملک بھر کے مختلف شعبوں سے تقریباً 30 اسکالرز وماہرین نے شرکت کی۔ جن میں مدارس ، قانون، صحافت، سیاست، اور تعلیمی وتحقیق کے شعبہ جات تعلق رکھنے والے اہل علم شریک تھے۔ لیکچرز کے لیے جن اصحاب فکر و نظر کو بلایا گیا وہ اس موضوع کے ماہرین تھے۔

پہلے سیشن میں محترم اسرار مدنی صاحب نے ورکشاپ کے اغراض ومقاصد اور اپنے ادارے کے اغراض ومقاصد سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ ان کے بعد قبلہ ایاز چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک  وقیع خطبہ استقبالیہ دیا۔جس میں انہوں نے اس ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے جدید جمہوریت اور جمہوری کلچر پر بات کرنے سے پہلے ماقبل جمہوری ادوار پر مختصر گفتگو فرمائی۔ انہوں نے استعمار، بادشاہت اور سلطنتوں کی تاریخ اور کلچر پر بہت بھی روشنی ڈالی۔ قبلہ ایاز صاحب نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں فرنچ استعمار، پرتگالی استعمار، اور برطانویاستعمار کا مختصر تقابل پیش کیا۔ ان میں برطانوی استعمار کو باقی دو سے بہتر بتایا۔ کیوں کہ برطانیہ نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مذہبی آزادی، مقامی ثقافتوں اور مقامی زبانوں کی آزادی کو برقرار رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کیا۔ جبکہ پرتگالی استعمار زیادہ مذہبی تھی۔ اور فرنچ استعمار نے مقامی زبانوں، ثقافتوں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی۔مسلم دنیا میں جہاں استعمار نہیں تھا وہاں بادشاہتیں تھیں۔  اس کے اپنے مسائل اور نقائص تھے۔ پھر قبلہ ایاز صاحب نے جدید مسلم ریاستوں پر گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد عرب بہار،  مہاتیر محمدکی پالیسی ، تیونس میں راشد الغنوشی، افغان طالبان کی کامیابی سے مسلح جدوجہد والوں کے حوصلوں کی بلندی اور مابعد قومی ریاست پر بھی مختصر کلام کیا انہوں نے مسلم دنیا میں جمہوری تبدیلیوں، مسائل اور امکانات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم دنیا کو جمہوریت اور قومی ریاستوں کے قیام کے بعد کئی سنجیدہ اور فکری موضوعات کا سامنا ہے۔ جس پر بین الاقوامی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔

تقریب میں ان کے بعد دانشور محترم خورشید احمد ندیم صاحب نےگفتگو فرمائی۔ انھوں نے بتایا کہ کیسے روایتی بیانیہ مسلم دنیا میں جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کا کیا حل ممکن ہے۔ انھوں نے متبادل کے طور پر انڈونیشیا، ملائیشیا اور تیونس میں مسلم ڈیموکریٹس اور النہضہ کا ماڈل پیش کیا۔انہوں نے موجودہ مسلم دنیا کے مختلف نظام ہائے حکومت پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ موجودہ مسلم دنیا میں چار قسم کے نظام ہائے حکومت رائج ہیں۔

1-     بادشاہت : مڈل ایسٹ کی مثالیں

2-     فوجی آمریت: براہ راست یا بالواسطہ

3-       پاپائیت: افغانستان اور ایران

4-     نیم جمہوری، نیم بادشاہت، نیم ڈکٹیٹر شپ

اس کے بعد خورشید ندیم صاحب نے جمہوریت کی تعریف ، بادشاہت، پاپائیت اور جمہوریت میں فرق،  پارلیمانی نظام، صدارتی نظام، متناسب نمائندگی، جمہوری کلچر اور اس کے نتائج و ثمرات،  نیشنل اسٹیٹ میں اختیارات کی تقسیم اور استعمال،  عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ،  کے اختیارات وغیرہ پر بہت علمی گفتگو فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے امامت اور خلافت،  ان کی مذہبی حیثیت پر بھی مختصر روشنی ڈالی۔عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم مفکرین رشید رضا اور سید مودودی کے پیش کردہ نظام فکر پر گفتگو فرمائی۔ حضور اکرم ﷺ کی دو لیگسی دین اور ریاست پر بات کی۔ آپ ﷺ کی ریاستی لیگسی اور سیاسی غلبے کو قانون اتمام حجت کے ساتھ جوڑ کر اس کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر لینے پر بھی گفتگو فرمائی۔

محترم خورشید ندیم صاحب کا دوسرا موضوع جس پر آپ نے گفتگوفرمائی وہ مسلم ڈیموکریٹس اور النہضہ میں فکری تبدیلی تھا۔انڈونیشیا کی المحمدیہ پربھی گفتگو کی اور یہ بتایا کہ سلفی ہونے کے باوجود ان پر پاکستانی دانشور، مفکر ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کی فکر کے بہت اثرات ہیں۔انہوں نے تیونس کے راشد الغنوشی کے فکری سفر سے بھی آگاہ کیا۔

اس سیشن کے تیسرے مقرر تھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین۔ آپ کا موضوع تھا بعد از سیاسی اسلام اور پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعتیں۔

پروفیسر صاحب کی گفتگو مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھی۔

1-     تحریک کی تعریف

2-     جدید سیاسی اسلام کا پس منظر

3۔     جماعت اسلامی، الاخوان اور داعش کا فکریپس منظر

4۔     اسلامی انقلاب والوں کا نظریہ

5۔     ازم کی تعریف

6۔     سیاسی اسلام کے اثرات

7۔     جدید سیاسی اسلام کے خالق سید ابو الاعلی مودودی مرحوم کے افکار کا خلاصہ

8۔     اسلامی نظام کے تجربات کہاں کہاں ہوئے

9۔     اس پر بھی روشنی ڈالی کہ کیا سیاسی اسلام اب بند گلی میں ہے؟

10۔  طیب اردگان،  مابعد اسلام ازم یا اسلام ازم کےعلمبردارہیں یا نہیں؟

11۔  اخوان سے علیحدہ ہونے والی تنظیم حزب الوسط کا ذکر

12۔  سیاسی اسلام کےجوابی بیانیے کا ذکر

13۔  اسلام ازم اور جدید قومی ریاست اور مابعد اسلام ازم  میں مابہ النزاع نکات کی شرح

14-   تصور اقلیت،  معاشی نظام، حدور وتعزیرات،بین الاقوامی تعلقات، فنون لطیفہ، شخصی وغیرہ، پر روشنی ڈالی۔

15۔  جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا تقابل

16۔  مابعد اسلام ازم کی کچھ نمائندہ شخصیات کا حوالہ

17۔  نئے آئیڈیاز اور اسلام ازم کا تعامل: ترکی، انڈونیشیا،  ملاٸیشیا کے تناظر میں

18۔  دیوبندی مکتب فکر سے امیدیں اور جماعت اسلامی سے مایوسی کیوں؟

19۔  دیگر سیاسی جماعتوں میں کیا مسلم لیگ کلچرل اسلام کی نمائندہ ہے؟

ماہنامہ الشریعہ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر عمار خان ناصر نے ‘مسلم مذہبی فکر میں جمہوریت کے حوالے سے بدگمانی و شکوک و شبہات’ کے موضوع پر تفصیلی لیکچر دیا۔ انہوں نے اس بات زور دیا کہ عرف کو سامنے رکھ کر مسلم مذہبی فکر جدید قومی ریاستوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔

سابق وزیرِ قانون بیرسٹر ظفراللہ خان نے ‘ترقی پذیر ممالک میں گورننس اور قانونی نظام کے مسائل’ پر بات چیت کی اور انتظامی مسائل کی نشاندھی کی۔ انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو چلانے کے بغیر بنیادی ترقی مشکل ہے ۔ان کے بعد سیکریٹری اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر اکرام الحق یاسین کا سیشن تھا جنھوں نے مسلم ممالک کے دساتیر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اور مختلف دساتیر میں انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوری اداروں کا تفصیلی تذکرہ کیا ۔خیبرپختونخوا سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی محمود جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انڈونیشیا، اور ملائیشیا و تیونیسیا سے استفادہ ممکن ہے نیز ترکی کے گورننس سسٹم سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

تیسرے اور آخری دن کے آغاز میں بھی مصنف شمس الدین شگری نے سیاسی اسلام پر گفتگو کی اور روایتی بیانیے کے مقابلے میں ایک جدید متبادل بیانیہ پیش کیا۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے تین روزہ ورک شاپ کے مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایونٹ کے شرکاء میں اسناد کی تقسیم اور مہمانِ خصوصی نے اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بہترین مکالمے پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ اور اس کے متعلقہ اداروں کا کردار ناگزیر ہے

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن اور رواداری کی بات کی ہے ۔ ہم مذہبی ہم آہنگی کو ریاستی اور سماجی سطح پر پروموٹ کررہے ہیں۔

ہم نے انصاف کیلئے جدوجہد کی ہے اور شہریوں کو انصاف دیتے رہیں گے ۔

انہوں نے پاکستان میں نوجوانوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں جو مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔ ان کو حوصلہ افزا مکالمے میں انگیج کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔

انہوں نے علاقائی امن اور ترقی میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے باوجود مشکلات کے افغانستان امن میں کردار ادا کیا ۔

انہوں نے یکساں نظام تعلیم کی اہمیت و ضرورت اور سماجی ہم آہنگی پر اس کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یکساں تعلیم کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے۔

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر قبلہ آیاز صاحب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کی طرف سےمحمد اسرار مدنی نے تمام شرکا اور ڈپٹی اسپیکر کا شکریہ ادا کیا۔

اس ورکشاپ کا سب سے خوبصورت پہلو شرکاء کا مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ہونا اور سوالات وجوابات کی نشستیں تھیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔