طالبان کی آمد اور جمہوری سیاسی بندوبست کا سوال

0

افغانستان ایک ایسا مسلم ملک ہے جہاں طویل عرصے سے بدامنی ہے اور یہ خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ یہ ایسا خطہ بھی ہے جس میں بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس لیے یہاں کا سیاسی نظم بھی زیربحث رہتا ہے اور اس حوالے سے تسلسل کے ساتھ آراء دی جاتی ہیں۔ حالی ہی میں کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد وہاں معاملات ابہام کا شکار ہیں اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ افغانستان میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا طالبان تبدیل ہوئے ہیں اور وہ سیاسی حلقے میں کیا تبدیلیاں متعارف کرائیں گے۔ادارہ “انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور” نے اس پر ایک تجزیہ پیش کیا ہے جو “تحقیقات” کے مدیر شفیق منصور نے 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد تیار کیا۔

اِس وقت افغانستان میں جمہوریت کا مسئلہ ایشیائی مسلم ممالک میں سب سے زیادہ پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخی طور پہ افغانستان وہ مسلم ملک ہے جس نے 1923ء میں امان اللہ خان کی زیرقیادت سب سے پہلی آئینی حکومت تشکیل دی تھی۔ اس آئین کو نظام نامہ کہا جاتا تھا۔ اس دستور میں مساوی حقوق اور شخصی آزادیوں پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ 1964ء سے 1973ء تک افغانستان میں آئینی بادشاہت قائم رہی، اس دور کو بھی نیم جمہوری کہا جاتا ہے جس میں افغانستان کا آئین خطے میں سب سے ترقی پسند اور معتدل خیال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد 1973ء  سے 1988ء کے ادوار میں بھی حکومتیں اگرچہ تبدیل ہوتی رہیں لیکن ایک جمہوری نوعیت کا آئین موجود رہا۔ بعدازاں خطے میں ایک جنگ نے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کچھ عرصہ کے لیے طالبان اقتدار میں آئے، انہوں نے اپنا متعارف کرایا اور سیاسی نظم کو جمہوری کی بجائے امارت اسلامیہ کہا گیا۔ پھر امریکی حملے کے بعد نئی حکومت تشکیل دی گئی جسے جمہوری کہا گیا اور 2004ء میں ایک اور آئین بھی تیار کیا گیا۔ اب افغانستان میں امریکا کے چلے جانے کے بعد افغان طالبان حکومت میں واپس آگئے ہیں، اور سیاسی نظم کے حوالے سے ان کے ترجمان نے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کی کوئی شکل ہوگی، جمہوریت نہیں ہوگی۔

افغانستان  کی سیاست میں مذہبی عنصر

افغانستان میں مذہبی تشخص کی تاریخی حوالے سے کتنی اہمیت رہی ہے اس بارے مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں، تاہم اس پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس سرزمین سے مذہبی تشخص کو سیاست سے بالکل علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ طالبان جو ابھی کابل پہ حکومت کررہے ہیں، کم ازکم ان کے کے مطابق تاریخی لحاظ سے افغانستان کی حکومتوں میں دینی عنصر کی فعالیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسلام آباد میں واقع ایک ادارے ‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز’ نے 1997ء میں ایک کتاب شائع کی جس کے مصنف حفیظ اللہ حقانی تھے، اور کتاب کا نام تھا ‘طالبان:مُلا کے خواب سے امارتِ اسلامیہ تک’۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ اسے طالبان سے ایک شخصیت نے تصنیف کیا ہے۔ انہوں نے ملک میں سیاست ودین کے تعلق کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کچھ اعدادوشمار تحریر کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1747ء سے 1997ء تک افغانستان میں 30 حکمران آئے۔ ان میں سے 13 ایسےتھے جو حکومت میں دینی اسباب کی وجہ سے آئے اور ان 30 میں سے 11 وہ تھے جنہیں حکومت سے دینی اسباب کی وجہ سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کی سیاست میں مذہبی کا عمل دخل صرف طالبان کے بعد ہی نہیں در آیا بلکہ اس سے قبل بھی ملک کے ریاستی ڈھانچے اور سیاست میں مذہب  کی اہمیت نمایاں رہی ہے۔

حقانی کتاب کے شروع میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ افغانستان میں متنوع قومیتوں اور نسلوں کا وجود اور ان کے مابین اہم آہنگی ایک مسئلہ ہے۔ یہاں 20 سے زائد مختلف نسلیں بستی ہیں، جن میں پشتون، ہزارہ، تاجک، ازبک اوربلوچ نمایاں ہیں۔ مصنف کی اس وضاحت سے یہ پتہ جلتا ہے طالبان کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ ملک میں امن کے لیے مختلف قومیتوں ونسلوں کے مابین ہم آہنگی ضروری ہے۔ مذہبی تنوع کےلحاظ سے افغانستان میں 85 فیصد سنی مسلمان ہیں جبکہ 15 فیصد شیعہ مسلک کے مسلمان رہتے ہیں، جبکہ ایک فیصد کے آس پاس دیگر مذاہب کے لوگ ہیں جن میں ہندو، سکھ اور یہود شامل ہیں۔

اپنی کتاب میں حقانی نے نوے کی دہائی میں طالبان کے ظہور اور ان کی تیزی کے کے ساتھ کامیابی کے اسباب پر بھی گفتگو کی ہے۔ ان میں سے ایک قوی سبب روس کے بے دخلی کے بعد مجاہدین گروہوں کی آپس میں لڑائیاں تھیں۔ اس خانہ جنگی، لوٹ مار اور افراتفری کے ماحول نے عوام کے دلوں میں ایک نئے گروہ طالبان کے لیے نرم گوشہ وا کیا۔ جبکہ اس کے ساتھ کچھ خارجی عوامل تھے جن کی بنا پر بعض ملکوں نے اپنے مفادات کے لیے طالبان کو خوش آمدید کہا، ان میں پاکستان اور امریکا سرفہرست تھے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے طالبان افغانستان میں اپنی کامیابی کو صرف دینی نوعیت کی ہی نہیں سمجھتے بلکہ وہ طاقت کی حرکیات سے پوری طرح آگاہ تھے، اگرچہ وہ سیاست میں بطور سیاسی بندوبست مذہب کو محور خیال کرتے تھے، یا اب بھی ایسا کرتے ہیں۔

جمہوریت کے بارے میں طالبان کا قدیم موقف

اس کتاب میں مصنف نے جمہوریت کے بارے میں بھی رائے دی ہے کہ طالبان اس ضمن میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ‘اسلامی امارت کا مطالب یہ ہے حکومت واقتدار اللہ تعالی کی ذات کے لیے مختص ہے۔ یہ حکومت کی بنیاد ہے اور کسی کو تقنین و تشریع کا حق حاصل نہیں۔ اس کے برعکس جمہوریت میں عوام حاکم ہوتے ہیں اور وہی قوانین بناتے ہیں۔ اقتدار میں اسلام کی اساس ایمان اور اللہ تعالی کے حضور مکمل جھکنا ہے۔  مغربی جمہوریت میں اقتدار کی اساس عوام ہوتے ہیں’۔

کتاب میں حاکم کے انتخاب کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے اہل حل وعقد کی مجلس شوری امیرالمؤمنین کاانتخاب کرتی ہے اور اس کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے لیے صرف تین عوامل ہوسکتے ہیں: دین سے انحراف، اپنی ذمہ داریوں کی ادئیگی نہ کرپانا، یا پھر موت۔

قدیم طالبان ملک میں سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جاہلیت کی علامت ہیں اور تفرقہ کو جنم دیتی ہیں۔ جبکہ مسلم دنیا کی دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بھی ان کا موقف حوصلہ افزا نہیں تھا اور ان کے افکار پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان چیزوں کے بارے گفتگو کتاب میں موجود ہے۔

طالبان نئے عہد میں

طالبان جس طرح کابل میں داخل ہوئے اور تمام فریقوں کے ساتھ امن کی بات کر رہے تھے اس نے ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یہ کہا گیا کہ طالبان تبدیل ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے بعض اقدامات خاصے اہم رہے، مثال کے طور پہ:

  • طالبان حکومت میں قائم مقام وزیرانصاف عبدالحکیم شرعی نے 28 ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ عارضی طور پہ 1964ء کے آئین کو ملک میں لاگو کریں گے، اس میں اگر کوئی چیز اسلام کے منافی ہوگی تو اس سے اعراض برتا جائے گا۔ اس آئین کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے مدون کرنے والی وہ افغان شخصیات تھیں جنہوں نے ملک سے باہر اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ آئین محمد ظاہر شاہ نے ترتیب دلایا تھا۔ اس آئین کو افغانستان کے چار دساتیر میں سب سے متوازن خیال کیا جاتا ہے۔ باوجودیکہ طالبان کا اپنا قدیم آئین بھی موجود ہے اور 2005ء میں بھی انہوں نے ایک دستوری خاکہ جاری کیا تھا لیکن نئی طالبان حکومت نے اسے نافذ کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔

1964ء کے آئین کی گئی بعض خصوصیات یہ ہیں:

اس آئین نے افغان خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا اور سیاست میں ان کی زیادہ شرکت کے دروازے کھولے۔

‘ظاہر شاہ آئین’ کے آرٹیکل دوئم میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ حنفی مکتب فکر ہو گا۔ طالبان کا داعش کے ساتھ ایک اختلاف حنفی اور سلفی کے فرق کا بھی ہے۔ طالبان نے اب تک ملک میں سلفی مسلک کے کئی مدارس بھی بند کیے ہیں۔

آئین کی شق نمبر 25 میں لکھا گیا ہے کہ بغیر کسی امتیازی سلوک کے افغانستان کے تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔

آئین کے مطابق کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی پر کسی قسم کا تشدد کیا جائے گا۔

ظاہر شاہ کا بنایا آئین مجموعی طور پر شاہی ریاست کا ہے تاہم اس میں انتخابات اور اسمبلی کا تصور موجود ہے۔

  • طالبان نے ملک کی دیگر نسلی اکائیوں کو عملاََ مثبت پیغام دیا ہے۔ بالخصوص ہزارہ برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کی ہے۔
  • طالبان بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے۔ وہ یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ ایک عالمی برادری کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں، جوکہ جمہوری سیٹ اپ کی حامل ہیں۔
  • انہوں نے اقوام متحدہ اور اس جیسی دیگر عالمی تنظیموں کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ تنظیمیں انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ کام کی شراکت کے اثرات ضرور پڑیں گے۔
  • افغانستان کے مالیاتی نظم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ وہ اسے پہلے کی طرح چلانے کے حق میں ہیں۔
  • مجموعی سطح پہ خواتین کو ملازمتوں سے نہیں روکا گیا۔ اگرچہ حجاب وغیرہ کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
  • تعلیمی نصاب پر ان کے کچھ خدشات ہیں لیکن جدید تعلیمی اداروں کو بند نہیں کیا گیا۔
  • طالبان حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے حلقوں کے خلاف سختی نہیں برتی گئی۔
  • انہوں نے سیاسی حریفوں کو بھی بات چیت کی دعوت دی اور ان کے خلاف کوئی مقدمات درج نہیں کیے گئے۔
  • ان کے ترجمان اپنی گفتگو میں مذہبی تشخص وشریعت کی بات بھی کرتے ہیں لیکن وہ اس سے زیادہ افغانستان کے معاشی، سماجی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔
  • انہوں نے داعش اور تحریک طالبان جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کو اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

جمہوریت کیوں نہیں؟

نئی حکومت کے ترجمان نے عندیہ دیاہے کہ افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی۔ اس کے بعد ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر جمہوریت نہیں تو پھر کونسا نظام اپنایا جائے گا۔ کچھ کی رائے ہے کہ ایران جیسا بندوبست اپنایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اپنی کابینہ اور امیرالمؤمنین کا اعلان کردیا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک ریاستی اداروں کے ساتھ کوئی خاص چھیڑچھاڑ نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے وہ کسی اور مسلم ملک کے نظام کو اختیار کریں گے۔

افغانستان میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ انتخابات کے انعقاد کا ہوسکتا ہے۔ فی الحال کچھ طے کرنا قبل ازوقت ہوگا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کا ملک کی سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ انتخابات کے مسئلہ پر اختلاف اساسی ہوگا۔

فی الحال افغانستان کے اندر جمہوری بندوبست کے حق میں دباؤ شاید اتنا زیادہ نہیں آئے گا یا کم ازکم یہ اکثریتی افغان عوام کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ پچھلے بیس برسوں کے جمہوری نظام نے اپنی مقامی حیثیت میں کوئی ایسی کامیابیاں نہیں سمیٹیں جن کی بنیاد پر عوام اسے نظم کے لیے اٹھ کڑے ہوں گے۔ ملک کے اندر ایک محدود بہبود کا بندوبست جو سامنے آیا وہ بیرونی تھا، مقامی حیثیت میں اکثریت افغان عوام کے لیے اس میں شاید اتنی کشش نہ ہو۔ اس لیے طالبان کے لیے انتخابات اور جمہوریت کا دباؤ عارضی طور پہ موجود نہیں ہے۔لیکن وقت کے ساتھ اس امر کا فیصلہ ہوگا کہ افغان عوام کیا طے کرتے ہیں۔ اگر طالبان حکومت معاشی وسماجی شعبوں میں کامیابیاں سمیٹ سکتی ہے اور اس کے ساتھ ملک میں امن امان کی صورتحال بحال رکھتی ہے تو انہیں مستقبل میں قبول عام حاصل ہوسکتا ہے لیکن کیا جمہوری بندوبست اور اتخابات سے مستقلاََ اعراض ممکن ہوگا؟

جمہوریت کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

طالبان کا جمہوری نظم سے اختلاف ایسا مسئلہ ہے جس میں طالبان باقی مسلم دنیا سے الگ کھڑے ہیں۔ جب خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا تو تب مسلم دنیا میں جمہوریت کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں اور اس نظم کو مسترد کیا جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ استعمار سے آزادی پانے والے ممالک نئے سیاسی نظام کا تجربہ کر رہے تھے اور اسے قبول کرنے یا مسترد کرنے کے اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔ جمہوریت پر تنقید کرنے والوں میں بہت سے نامور علماء ومفکرین شامل تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ فکر کمزور ہوئی اور مسلم دنیا کی مذہبی فکر میں یہ تأثر بنا کہ جمہوریت اسلام کے مخالف کوئی نظام نہیں ہے۔ اب تقریباََ مسلم دنیا کا اکثریتی طبقہ اسے اپنائے ہوئے ہے، یہ کمزور ہے یا نہیں اور اس میں مچھ اختلافات ہونے کے باوجود مسلم مذہبی حلقہ اسے نظم کو مجموعی حیثیت میں اسلام کے خلاف نہیں سمجھتا۔ اس لیے طالبان کا موقف مسلم دنیا میں بھی فکری لحاظ سے اتنا قوی نہیں ہے، اور وقت کے ساتھ شاید انہیں اس پر نظرثانی کرنی پڑے۔

لہذا تقابل کیا جائے تو طالبان کے پاس جمہوریت سے اختلاف کی رائے باقی دنیا کی اکثریت مسلم مذہبی فکر سےکمزور دکھائی دیتی ہے۔ لہذا فکری اعتبار سے ان کی رائے پر مسلم دنیا کے اندر سے بھی اعتراضات ہوتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی برادری تو اس پر پہلے ہی نالاں ہے۔

افغانستان کے اندر اور باہر افغانوں کی چھوٹی سہی مگر ایک ایسی سول سوسائٹی تشکیل پاچکی ہے جس کی آواز عالمی سطح پر سنی جاتی ہے اور وہ جمہوریت کے مسئلہ میں طالبان حکومت کے نقطہ نظر کو نشانہ بناتی رہے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں ایک مذہبی حلقہ ایسا بھی ہے جو جمہوریت کو دین کے خلاف نہیں سمجھتا، وقت کے ساتھ طالبان پر اس معاملے میں دباؤ بڑھتا جائے گا۔ حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ عوامی نمائندگی کے کسی نظم کو بہرطور متعارف کرائیں۔

افغانستان کے بہت سے تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے راہنماؤں کا خیال ہے کہ جمہوریت اسلام سے مطابقت رکھتی ہے اور طالبان کی تشریح درست نہیں ہے۔ان کے مطابق انتخابات کے بارے میں طالبان کی رائے ان کی کمزوری کی عکاسی کرتی ہے اور یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ سول اور جمہوری عمل کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔

اقغانستان کی نئی حکومت کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ عوامی نمائندگی کے عمل کو مکمل طور پہ ختم نہ کریں اور اس پر غورجاری رکھیں کہ کیسے وہ جدید سیاسی نظم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔