ایران کی مذہبی جمہوریت کیا ہے؟

0

ایران مشرق وسطی کا ایسا مسلم ملک ہے جو 80 کی دہائی سے تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پہ اس کا مذہبی تشخص ہے اور اس کی اساس پر مرتب ہونے والی پالیسیاں ہیں۔ ملک کا سیاسی نظم اسلامی جمہوری ہے جس کا ساختیاتی ڈھانچہ مسلم دنیا میں بالکل منفرد ہے۔ اس مضمون میں ایران کے سیاسی نظم کا جائزہ لیا گیا ہے کہ وہ کیسا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے۔ اس کے آئین میں مذہبی عنصر کا کتنا عمل دخل ہے اور وہ کتنا جمہوری ہے۔ مصنف حسن فحص لبنانی مفکر و صحافی ہیں، الشرق الاوسط میں لکھتے ہیں اور ایران میں اخبار العربیہ کے سربراہ کے طور پہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ یہ مضمون عربی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

1979ء میں انقلاب کے بعد ایران میں جس سیاسی نظم کی بنا رکھی گئی اسے ‘اسلامی جمہوریت’ کا نام دیا جاتا ہے۔ ویسے تو اسلامی تشخص کے حامل کئی ممالک ہیں جو جمہوری بھی ہیں، جیساکہ پاکستان بھی اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ لیکن ایران کا سیاسی بندوبست اس حوالے سے منفرد ہے کہ وہاں مذہبی طبقہ براہ راست حکومتی عمل میں شامل ہوتا ہے اور فیصلہ سازی میں اس کا اثرورسوخ حتمی ہوتا ہے۔ اس لیے ایران کے تناظر میں یہ جاننا اہم ہے کہ وہاں کی اسلامی جمہوریت کا مطلب کیا ہے اور اس کے آئین کے تناظر میں سیاسی بندوبست کی کیا شکل سامنے آتی ہے۔ سماجیات کےماہرین کے ہاں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا مذہبی جمہوریت کو ایسی حکومت خیال کیا جاسکتا ہے جو عوامی رائے پر قائم ہوتی ہے یا اسے وہ درجہ حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ مذہبی جمہوریت کا حدوداربعہ واضح نہیں ہوتا اور یہ مختلف مسلم ممالک میں مختلف شکلوں کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ بالخصوص ایران میں مذہبی طبقے کا اثرورسوخ بے حد ہے جو ریاست کے اہم امور میں حتمی نوعیت کا ہوتا ہے اور اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا اثر آئین، پارلیمان، عدلیہ، ملٹری سمیت ہر معاملے میں بنیادی ہے۔ اس لیے اس قسم کی جمہوریت پر اشکال وارد ہوتے رہتے ہیں کہ اس میں اقتداراعلی کی جہت میں دو ٹوک شفافیت نہیں پائی جاتی۔

تاہم اس معاملے  میں کئی دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ اسلامی جمہوریت بھی عوامی حکومت کہلاسکتی ہے، کیونکہ مذہب کا سیاست میں عمل دخل ضروری نہیں کہ غیرعوامی جہت کا حامل ہی ہو۔ اصل مسئلہ مذہب کے اثرات کی بجائے اس کی حدود کے تعین ہے کہ اس اساس پر کس نہج تک عوامی رائے کی اہمیت برقرار رکھی جاتی ہے اور کس حد تک اس میں مذہبی حلقے کی عملداری مجاز ٹھہرتی ہے۔ یہ مسئلہ نظری سے زیادہ سماجی قبولیت کا ہے کہ عوام سیاست میں مذہب اور مذہی حلقے کی اثرپذیری کو دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں، اور اس کے معیارات کیا ہوں گے۔ 1992ء میں جدید ایران کےبانی امام خمینی نے کہا تھا جمہوریت میں اس نظم کے ڈھانچے کی بجائے اس کی اقدار اہم ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اپنی اقدار کے اعتبار سے کوئی نیا بندوبست نہیں ہے بلکہ اسلام نے پہلے سے ان سیاسی اقدار کو متعارف کرادیا تھا۔ آزادی اور مساوات کے حق میں اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس کی تمثیل تاریخی وفکری دونوں لحاظ سے دیکھی جاسکتی ہے۔

2014ء میں رہبراعلی علی خامنہ ای نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا : کسی کو یہ وہم و گمان نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت امام خمینی نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے اخذ کیا اور پھر اسے اسلامی فکر کے ساتھ مخلوط کردیا کیونکہ اگر انتخابات اور جمہوریت،  اسلامی شریعت کے متن سے اخذ نہ ہوسکتی ، تو امام اس بات کو واضح اور صریح طور پر بیان کردیتے۔

مذہبی جمہوریت کی نظری اساس

ایران جیسی مذہبی جمہوریت میں تین اصولوں کا کردار اساسی حیثیت کا ہوتا ہے۔ مذہب، قیادت اور عوام۔ یہ نظام اپنا جواز مذہب وشریعت سے کشید کرتا ہے اور نتیجتاََ لوگ اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ آئین میں قیادت کی خصوصیات واضح کردی گئی ہیں جو ان پر پورا اترتا ہے وہ قیادت کا اہل ہوتا ہے۔ البتہ ولایت فقیہ کا انتخاب عوامی رائے سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں دینی تعلیمات اور عوامل کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ایک شرعی نظام کو تسلیم کرنے کا عمل بذات خود اس امر کا جواز ہے کہ یہ ایک گونہ عوامی رضا کا حامل ہے۔ عوام طاقت کی تقسیم اور سماجی امور میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جماعتیں، عوامی گروپس اور آزاد میڈیا اس قسم کی جمہوریت میں لوگوں کے نمائندہ ہوتے ہیں اور حکومت اس حوالے سے کوئی رکاوٹ حائل نہیں کرسکتی۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے مذہبی جمہوریت اپنا جواز دین اور اس کی تعلیمات سے حاصل کرتی ہے۔ ایران میں مذہبی جمہوریت کےخلاف بھی رائے موجود ہے لیکن مجموعی طور پہ یہ نظام مستحکم ہے اور لوگوں میں اس کی قبولیت موجود ہے۔ اس کی وجہ معاشرے میں پہلے سے مذہبی عنصر کی قبولیت ہے جو اس کے تحت چلنے والے سیاسی بندوبست کو بھی جواز دیتا ہے۔

اپنے 2014ء کے عوامی خطاب می رہبر اعلی علی خانہ ای نے کہا تھا: حضرت امام خمینی کے مکتب میں  زور اور زبردستی اور ہتھیاروں کے ذریعہ غلبہ اور طاقت کا حصول قابل قبول نہیں ہے البتہ عوامی طاقت اور انتخاب کے ذریعہ حاصل ہونے والی قدرت و اقتدار محترم اور قابل قبول ہے اور کسی کو اس کے خلاف سینہ سپر نہیں کرنا چاہیے اگرکسی نے ایسا کام کیا تو وہ فتنہ کہلائے گا۔

ایران کا اسلامی جمہوری نظام دنیا کے تمام جمہوری نطاموں سے یکسر الگ ہے۔ اسلامی جمہوریت ایک ایسی جمہوریت ہے جس میں عوام کا کردار تو ہے لیکن حقِ حکومت عوام  کا نہیں ہے، عوام خدا کی طرف سے مقرر کردہ حاکم کو مشورہ دے سکتے ہیں اور وہ حاکم یعنی ولی ہی معاملات کے بارے میں حتمی رائے دیتا ہے۔

تاہم ایرانی مذہبی مقتدرہ دینی جمہوریت کو صرف شرعی پرتو کے طور پہ نہیں دیکھتی بلکہ وہ اس کے عوامی ہونے پر بھی اصرار کرتی ہے۔ رہبر اعلی علی خامنہ کا کہنا ہے: ‘‘اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین دو قسم کے ہیں، ایک لبرل نظریہ کے حامی ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ دین اور مذہب کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرا نظریہ داعشی نظریہ ہے یہ لوگ دینی حاکمیت کے قائل ہیں لیکن عوام اور جمہوریت کے خلاف ہیں’’۔

یکم اپریل 1979 کو امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: خدا کا وعدہ ہےکہ دنیا کے کمزور اور مستضعف لوگوں کو اپنے فضل و کرم سے استکباری قوتوں پر غلبہ عطا کرےگا اور انہیں امام اور رہبر بنائےگا، خدا کا وعدہ قریب ہے ۔ اور اسلامی جمہوریہ کے ترقی پسند قوانین ان تمام قوانین پر مقدم ہیں جو دوسرے مکاتب فکر میں پائے جاتے ہیں۔

اور مزید فرمایا: میں اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیتا ہوں اور آپ سے بھی یہی تقاضا ہے؛ آپ بھی “جمہوری اسلامی،  نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ ” کے حق میں ووٹ دیں۔

ایرانی مذہبی جمہوریت اور آئین

ایرانی سیاسی نظام میں ایک رہبر اعلی (ولی فقیہ) ہوتا ہے جبکہ تین دیگر ادارے اور قوتیں کام کرتی ہیں:

قوۃ مقننہ: پارلیمنٹ اور شورای نگہبان

قوۃمجریہ: صدر اور اس کی کابینہ

قوۃ قضائیہ: عدالتیں

پارلیمینٹ کے اراکین، صدر اور مجلس خبرگان کے اعضا کو عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں۔کابینہ کے اراکین کو صدر پارلیمنٹ کے مشورے سے منتخب کرتا ہے۔

شورای نگہبان کے 6 اراکین کو پارلیمنٹ اور 6 اراکین کو ولی فقیہ منتخب کرتا ہے۔

صدارتی، پارلمانی اور مجلس خبرگان کے امیداوروں کی صلاحیت کی جانچ پڑتال شورای نگہبان کرتا ہے۔

مجلس خبرگان(جو براہ راست عوامی رائے سے منتخب ہوا ہے) موجودہ ولی فقیہ کے اوپر نظر رکھتی ہے اور مستقبل کے ولی فقیہ کا انتخاب بھی کرتی ہے۔

ایرانی پارلیمان 290 نشستوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پانچ نشستیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔

ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔  پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ پہلے مجلس خبرگان رہبر کے انتخاب کی مجاز تھی اور وہ جانچ کرتی تھی کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کردیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔ چونکہ مجلس خبر گان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مسلمان عوام کرتے ہیں اس لئے رہبر کا انتخاب بھی جمہوری سمجھا جاتا ہے۔

ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے عوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے۔

ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔

پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979ءکے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی پارلیمانی مجلس میں 290 اراکین ہوتے ہیں۔ ان ممبران کو عام انتخابات کے ذریعے ہر چار سال بعد منتخب کیا جاتا ہے۔

پارلیمان نئے قوانین متعارف کروا سکتی ہے، سالانہ بجٹ کو مسترد کر سکتی ہے اور حکومتی وزرا یا صدر کو طلب کرنے کے علاوہ اس کے مواخذے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم پارلیمان سے منظور شدہ تمام قوانین کو نگہبان شوریٰ سے حتمی منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے۔

ایرانی آئین میں مذہب اورحقوق کا مسئلہ

انقلاب کے بعد ایران میں آئین مرتب کیا گیا۔ یکم اپریل 1979ء کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام کی بھاری اکثریت نے اس کی منظوری دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ نمبر 12 کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اگر چہ ملک کی اکثریت کے جعفری مسلک کے پیرو ہونے کی وجہ سے جعفری مسلک سرکاری مذہب شمار ہوتا ہے، لیکن ملک کے آئین کے مطابق دوسرے اسلامی مذاہب من جملہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی مذاہب کا احترام ہے اور ان مسالک کے پیروکار اپنی مذہبی تقریبات، رسم و رسومات اپنی فقہ کے مطابق انجام دینے میں آزاد ہیں اور ان کی دینی تعلیم و تربیت اور فقہی مسائل ( جیسے ازدواج، طلاق، وراثت اور وصیت) کے بارے میں عدالتوں کے اندر دعوی کرنے کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور جن علاقوں میں مذکورہ مسالک میں سے جس مسلک کی اکثریت ہو، اس میں علاقائی قوانین، وہاں کی شوری کے توسط سے اسی کے مطابق نافذالعمل ہوں گے۔

آئین کی دفعہ نمبر 20 کے مطابق سیاسی احزاب، جمعیتی ، سیاسی انجمنیں اور صنفی اور اسلامی انجمنیں تشکیل دینے کی آزادی ہوگی۔

آئین کی دفعہ نمبر 19 اور 20 کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے تمام انسانی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے حوالے سے ملک کے تمام باشندے مساوی حیثیت کے مالک ہوں گے۔

آئین کی شق نمبر 6 کی رو سے اسلامی جمہوریہ ایران میں ملک کے امور کو عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر چلایا جانا ضروری ہے۔ اس کے لئےضروری ہے کہ صدارتی، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں یا جن مواقع پر آئین نے ریفرینڈم کرانےکو کہا ہے ریفرینڈم کرایا جائے۔

گویا ایران میں آزادی کا مطلب یہ ہےکہ انسان، قوانین الہی کے دائرے میں رہ کر عقیدے کے انتخاب اور اس کے پرچار کا حق رکھتا ہو جس کی روشنی میں لوگ ہدایت یافتہ ہونے کے ساتھ، ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکیں۔

خلاصہ کلام

یہ ایران کی مذہبی جمہوریت کا مختصر تعارف ہے۔ دنیا کے تمام اہل تشیع عوام کے لیے ایران کا مذہبی سیاسی بندوبست قابل رشک ہے۔ اگرچہ اس نظم پہ ایک طبقے کے اعتراضات بھی موجود ہیں لیکن اس نظام کو فی الحال کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اسے جس اپوزیشن کا سامنا ہے وہ ایران کے اندر بھی وجود رکھتی ہے۔ لوگوں زیادہ مسئلہ معاشی پابندیوں اور کچھ قدغنوں کا ہے۔ بعض لوگ اس لیے اس نظم سے اکتا رہے ہیں کہ ان کے خیال میں اس نے انہیں دنیا سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ ایران کے اندرونی حلقوں کی سرگرمیوں سے باخبر ہونے کے دعویدار مبصروں کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حلقوں میں ایران کے اعتدال پسند اور سخت گیر عناصر کے مابین کشمکش ہے۔

حالیہ سالوں میں جو سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کے نتیجے میں قدامت پسند مختلف گروہوںمیں بٹے ہیں۔ یہ لوگ رہبرِ انقلابِ اسلامی کے مکمل طور سے مطیع ہیں اور 1979ء کے انقلاب کی قدروں سے پوری طرح وفادار ہیں لیکن ان کے درمیان بھی آرا ء اور نقاطِ نظر کا اختلاف بہرحال موجود ہے، خاص طور سے سیاسی رجحانات کے حوالے سے۔

ایران کا مذہبی جمہوریت کا تجربہ داخلی سطح پر بڑے مسائل کا سبب نہیں بنا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک مستحکم بھی ہے۔ اسے جو چیلنج درپیش ہیں وہ زیادہ تر خارجہ پالیسی سے جنم لیے ہوئے ہیں۔ بطور ایک مذہبی جمہوریت اصلاح کے امکانات موجود ہیں تاہم اسے بالکلیہ ناکام نہیں گردانا جاسکتا اور نہ اسے مسترد کیا جاسکتا ہے۔