پاکستان میں جاگیردارانہ جمہوریت

0

پاکستان میں ویسے تو آئینی طور پہ جمہوری نظام رائج ہے لیکن اس کے باوجود جمہوری ثمرات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق اس کی وجہ یہاں ایسی جمہوریت کا ہونا ہے جو اپنے وصف میں جاگیردارانہ ہے۔ جاگیردارانہ مزاج کے  ساتھ اگر جمہوری نظم نافذ بھی کیا جائے گا تو نتائج مثبت نہیں نکلیں گے۔ زیرنظر مضمون میں پاکستان کی سیاست میں جاگیردارانہ نفسیات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرمبارک علی پاکستان کے معروف تاریخ دان اور مصنف ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ یہ مضمون آپ کی کتاب ‘تاریخ اور سیاست’ سے ماخوذ ہے۔

جاگیردارانہ ثقافت

کسی بھی ایسے معاشرے میں کہ جہاں فرسودہ روایات اور ادارے مستحکم ہوں وہاں اگر ترقی یافتہ سیاسی و معاشی نظاموں کورائج کرنے کی کوشش کی جائے تو ایسے معاشرے میں یہ نظام بگڑ کر نہ صرف خوش پسماندہ ہوجاتےہیں بلکہ معاشرے کواور ابھی زیادہ پسماندہ بنادیتےہیں ۔یہی صورت حال پاکستان میں جمہوریت کی ہے ، کیونکہ یہاں پر جمہوری نظام کو محض ایک سیاسی نظام کے طو رپر رائج کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مگر اس کےساتھ معاشرے کےسماجی و ثقافتی اور معاشی ڈھانچوں کوبدلنے اور ذہنی تبدیلیوں کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا جارہاہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے جاگیر دارانہ نظام میں کہ جا گیر دارانہ ثقافت کی جڑیں انتہائی گہری ہیں وہاں جمہوری آزادی ، حقوق ، مساوات اور فرد کی عزت و احترام کی بجائے قوت وطاقت ،جبر اور تشددپر اتھارٹی کو مضبوط اور عوام کومسلسل کمزورکررہی ہے۔

یہاں میں خصوصیت سے ان اہم جاگیردارانہ روایات کی نشان دہی کروں گا کہ جو جمہوری نظام میں زیادہ مضبوط اورطاقتور ہوگئی ہیں۔ اور جو عوام کو حکمران طبقو ں کا دست نگر بنائے ہوئے ہیں ۔ مثلاً جاگیردارانہ کلچر کی ایک اہم خصوصیت اس کانظام سرپرستی ہوتا ہے کیونکہ اس نظام میں جاگیرداریا اتھارٹی کے پاس تمام ذرائع ہوتے ہیں اور اس لئے ان کی رعیت سرپرستی کےلئے ان محتاج ہوتی ہے سرپرستی کے عوض زمیندار اورجاگیر داراپنی رعیت سے وفاداری اوراطاعت چاہتا ہے جس سے رو گردانی کو نمک حرامی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

اس لئے جمہوری نظام میں جب انتخابات کے موقع پرجاگیردار امیداوار ہوتا ہے تو اس کی رعیت کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس کے مقابلے میں الیکشن لڑے ، مقابلہ کا یہ حق بھی کسی زمیندار کو ہی ہوتاہے اور یہی لوگ اپنے اثر و رسوخ اور خاندانی عظمت کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ حاصل کرتےہیں اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جاگیر داروں کی حیثیت راہنماؤں کی ہے اور ان کی یہ جماعتیں بھی راہنماؤں اور کارکنوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں اور یوں یہاں بھی جاگیر دار او رہاری اور کسان کا رشتہ قائم رہتاہے ۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد ارکارن اسمبلی اور وزراء کی سرپرستی کا دائرہ بڑھ جاتاہے اور ہر شخص  جس نے کالج میں داخلہ لینا ہو، ہسپتال میں جگہ حاصل کرنا ہو یا دوائیں لینا ہو، ملازمت حاصل کرنا ہو، یا تبادلے اور ترقی کا خواہش مند ہو تو ان باتوں کا انحصار اس بات پر ہوتاہے کہ اس کا کوئی سرپرست ہوتاہے یا نہیں ۔ اس وجہ سے قانونی و اصولی طریقوں کو اپنانے کی بجائے لوگ ارکان اسمبلی اور وزراء کے دفتروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں ۔

چونکہ ارکان اسمبلی اور وزراء کو بھی اندازہ ہوتاہے کہ  جتنی وہ سرپرستی کریں گے اسی قدر لوگوں میں ان کا اثر و رسوخ بڑھے گا ۔ اسی لئے ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے اختیارات مسلسل بڑھتے رہیں او ران کی طاقت میں برابر اضافہ ہوتا رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ارکان اسمبلی کی مراعات میں برابر اضافہ ہورہا ہے ۔ مثلاً یہ کہ اب وہ ہر مہینے 3 ٹیلی فون اپنی سفارش سےلگواسکتے ہیں انہیں اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے علیحدہ سے فنڈز ملتے ہیں ۔ اس طرح سے ان ملازمتوں میں ان کا کوٹہ مقرر ہے۔

جاگیردارانہ سیاسی کلچر کے اثرات

سرپرستی کے اس نظام کاایک نتیجہ تو یہ نکلتاہے کہ لوگوں میں حکومت اور اس کے اداروں کا احترام ختم ہوجاتاہے اور اس کی جگہ ارکان اسمبلی کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ انہیں صاف نظر آتاہے کہ ان کے ذاتی کاموں سے لے کر علاقے کی ترقی کا انحصار ان کی ذات پر ہے۔ اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ لوگ اپنا حق نہیں مانگتے ہیں بلکہ اس کی جگہ درخواست کرتے ہیں ۔ مثلاًتعلیم، صحت اور ملازمت ہر شہری کا حق ہے، مگر سرپرستی کے نظام میں شہریوں کے حقوق ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی بجائے وہ عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ان پر مہربانی کی جائے جس کے لئے وہ اور ان کا خاندان ہمیشہ احسان مند رہے گا اب اگر کوئی اس سرپرستی کے نظام سے باہر ہے تو اس کےلئے معاشرے میں زندہ رہنا مشکل ہوجاتاہے کیونکہ وہ اپنی محنت و لیاقت ، ذہانت اور ایمانداری کی بنیا ر پر کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ معاشرے میں ان اوصاف اور خوبیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، بلکہ ان کی جگہ خوشامد ،سفارش اور رشوت لے لیتی ہے۔

سرپرستی اثر و رسوخ اور اختیارات کے استعمال سےاہل اقتدار او رعوام میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں ۔ اسی لئے ہمارے وی۔ آئی ۔ پی اور وی ۔ وی ۔ آئی ۔پی کے ذریعے اہم لوگوں کو عوام سے جدا کیا جاتاہے او رہماری روز مرہ کی زندگی میں اس فرق کو محسوس کرایا جاتاہے اور یہ وہ بنیادیں ہیں جو مساوات ، اخوات اور آزادی کی قدروں کو جوجمہوریت کی اہم بنیادیں ہیں ختم کرتی ہیں اور عوام کو ذہنی طور پر کمتر اور ادنیٰ بناکر رکھنا چاہتی ہیں ۔

چنانچہ جاگیردارانہ جمہوریت میں قانون کی با لادستی کا تصو رختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کی جگہ قانون کی مخالفت یا قانون کی خلاف ورزی ہمارے حکمران طبقوں کا روز مرہ کامعمول بن جاتا ہے ۔ ٹریفک لائٹس کی خلاف ورزی سے لے کر قتل و اغواء کے جرائم تک سے ان کو آزاد کردیا جاتاہے ۔ اس جاگیردارانہ جمہوریت کے دور کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عورتوں کے خلاف جرائم کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ عورتوں کا اغواء ان کی عزت لوٹنا انہیں جسمانی تشدد کا شکار بنانا، جاگیردارانہ کلچر میں عام ہوجاتاہے۔ اس کی مثالیں ہمیں اس زمانے میں مل رہی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کے جب جاگیردار کے ہاتھ میں سیاسی طاقت آتی ہے تو حکومتی ادارے اس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی مدد سے وہ نہ صرف جرائم کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ ان حکومتی اداروں کو اپنے مقاصد کے لئےاستعمال کرتا ہے ۔

یہی جاگیردار جب اسمبلیوں میں ہوتےہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس عمل کی مخالفت کی جائے کہ جس سےمعاشرے میں ترقی اور تبدیلی ممکن ہوسکتی ہو۔ یہ جمہوری اداروں اور روایات کواپنے مقاصد کےلئے استعمال کرتےہیں اور ایسے قوانین بناتے ہیں کہ جن کے ذریعے ان کا تسلط اور مضبوط ہو اور معاشرہ مزید پسماندہ ہوتاچلا جائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں آج تک وہ قوانین پاس نہیں ہوئے کہ جن کے ذریعے عوام کی حالت کو بہتر بنایاجائے اور ملک کو جدیدیت کی طرف لے جایا جائے ۔

اس کے علاوہ جاگیردارانہ کلچر میں قوت برداشت کا فقدان ہوتاہے ۔ جو کہ ایک اہم جمہوری روایت ہےاس اس لئے جوبھی طاقت میں ہوتا ہے وہ حکومت کو اپنے ذاتی اقتدارکے لئے استعمال کر کے اپنے مخالفوں کو قید بند کی اذیتیں دے کر خاموش کرانے کی کوشش کرتاہے ۔ انتقام کاجذبہ قوت برداشت پر قابو پالیتاہے ۔ اور اس کےذریعے ہر مخالف کو دشمن گردانتے ہوئےاسےجبر و تشدد کےذریعے ختم کرناچاہتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتاہےکہ جمہوریت اور جمہوری ادارے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ایسے موثر ہتھیار بن جاتے ہیں کہ جن کو استعمال کرکے وہ اپنی طاقت و اثر و رسوخ کو اور بڑھاتے ہیں اور فرسودہ روایات کو قانونی شکل دے کر انہیں نافذ کرتےہیں۔ یہی وجہ ہےکہ ایک ایسے ماحول میں ترقی پسند، روشن خیالات رکھنے والوں کےلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔

جاگیر دارانہ جمہوریت میں عوام او رمنتخب امیدواروں میں جو فرق او ردوری ہوجاتی ہے اس کی وجہ سےاگرکبھی آمریت یا مارشل لاء کے خلاف تحریک چلائی جاتی ہے تو اس میں کامیابی کے ا مکانات اس لئے کم ہوجاتے ہیں کہ حکومت کے بدلنے کے ساتھ ہی یہ جاگیر دار نمائندےاپنی وفاداریاں بدل لیتےہیں کیونکہ ان میں سےبہت کم ہیں جو اپنی مراعات و آسائشوں کو خطرے میں ڈالنے کی ہمت رکھتے ہوں ۔ جاگیردار خاندانوں کی وفاداریاں بدلنے کی وجہ سے ہمارے سیاسی نظام میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہوا ۔ کسی سیاسی پارٹی کو اپنی علیحدہ شناخت نہیں بن سکی اور سیاسی راہنماؤں کو کمٹمنٹ لوگوں کی بجائے اقتدار سےرہا ۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت ، جبر، طاقت، لالچ کی بنیادوں پر ایک اقلیتی پارٹی اکثریتی پارٹی بن جاتی ہے اور حکومت کرتی ہے۔

جاگیردارانہ جمہوریت میں کسی احتساب کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کیونکہ احتساب وہاں ہوتاہے جہاں ووٹ دینے والوں کی اہمیت ہوتی ہے ۔ جہاں ووٹروں اور امیدواروں میں برابر کے تعلقات ہوتےہیں ۔ لیکن جہاں حکمران اور رعیت کے ساتھ رشتے ہوں ، وہاں سربراہوں سےسوال پوچھنے کی جرات کس کو ہوسکتی ہے۔

اس لئے ہماری جاگیر دارانہ جمہوریت میں خاندانوں کا اثر و رسوخ ہے اور چند خاندان جمہوریت پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ انہیں کے ذاتی مفادات کے تحت ملک کی پالیسیاں بنتی و بگڑتی ہیں ۔ اس لئے جب بھی زرعی انکم ٹیکس کا سوال آتاہے تواہل اقتدار اورحزب اختلاف سب اس کی مخالفت میں ایک ہوجاتے ہیں ۔

اس لئے اگر ہم یہ خیال کریں کہ جمہوریت ہماری تمام بیماریوں ، خرابیوں اور مسائل کا حل ہے تویہ ہماری غلط فہمی ہے کیونکہ جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں کہ جس کے ادارے معاشرے کے تمام مسائل حل کردیں ۔ اس کاتعلق معاشرے کے ذہن سےبھی ہے اور یہ ذہن اسی وقت بدلے گا جب ملک میں معاشی و سماجی حالات بدلیں گے کیونکہ اب جن ملکوں میں جمہوریت ایک کامیاب سیاسی نظام کے طور پر قائم ہوئی ہے وہاں پر سب سے پہلے جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ملک میں تعلیم پھیلی اور صنعتی ترقی ہوئی اور اس کے نتیجے میں جمہوری اقدار کواستحکام ملا ۔

لہٰذا جمہوریت کی بقا ء اور اس کی زندگی اس میں ہے کہ لوگوں میں شعور اور تعلیم ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب جاگیردارانہ ثقافت ختم ہو۔ اگر معاشی و سماجی تبدیلیوں کے بغیر جمہوریت کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ نظام جاگیرداروں اور اس کی ثقافت کو مضبوط بنا کر ملک کو اور پسماندہ کرے گی۔