اہل تصوف متشدد کیوں بنے؟

0

مسلم تاریخ میں صوفیاء کرام کا یہ وصف رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو معاشرتی اخلاقی اصلاح کے ساتھ جوڑے رکھا ۔ حتی کہ تاریخ  کےایسے نازک ادوار میں بھی کسی بھی انقلابی یا سیاسی تحریک کا حصہ نہیں بنے اور خود کو صرف مسلمانوں کی روحانی تربیت میں مشغول رکھا۔ خصوصا برصغیر میں تو اہل تصوف کا یہ وصف زیادہ گہرائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان میں سلسہِ تصوف سے تعلق رکھنے والے مکتب فکر نے ایک تحریک کا آغاز کیا جو اہل دانش کے لیے کافی حیران کن چیز تھی۔اس نئے رجحان پر بہت سے مباحث ہوئے اور آراء دی گئیں کہ اس ارتقاء کا کیا فکری پس منظر ہے اور کیا عوامل پوشیدہ ہیں۔ مضمون میں بھی اسی پہلو سے جڑے کچھ عوامل کا ذکر کیا گیا ہے۔ صاحبزادہ امانت رسول ’ادارہ فکرِ جدید‘ کے سربراہ ہیں۔ سماجی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں اور نوجوان نسل کی شعوری و فکری تربیت کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔

اہل تصوف کا نیا کردار

علمی اور مذہبی حلقوں میں ایک سوال کئی سالوں سے جواب کی تلاش میں ہے۔وہ سوال یہ ہے کہ صوفیاء کرام کو ماننے،اُن سے تعلق رکھنے اور اُن کی تعلیمات کا دم بھرنے والوں میں تشدد اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں کو بلاک کرنا،دھر نا اور احتجاج کا رویہ کیوں اور کیسے پیدا ہوا؟

گزشتہ سالوں میں سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے،احتجاجی جلسے اور جلوس انہی طبقات کی طرف سے نکالے گئے۔اس سوال کا جواب ماضی قریب و بعید میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔تاریخ کے عمل یا جبر کے سامنے افراد ہی نہیں بلکہ اقوام کو بھی سر جُھکانا پڑتا ہے۔اگر ایسا نہیں تو پھر نتائج بہت بھیانک نکلتے اور سب کو اُن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نواز شریف کے دورِ حکومت میں پیدا ہونے والی صورت حال میں اُن عوامل کا ہاتھ خصوصی تھا جو پرویز مشرف کے خلاف پُر تشدد واقعات میں استعمال ہوئے  ۔پرویز مشرف دور میں،مذہبی راہنماوں نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو پریشان کیے رکھا۔ مذہب کے نام پہ نکلنے والے جلوسوں سے براہ راست فائدہ مخالف سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو ہوا۔ایسے ماحول میں وہ افراد جو پرویز الٰہی اور پرویز مشرف حکومت کے خلاف استعمال ہوئے،انہوں نے ردّ عمل میں نواز شریف حکومت کے خلاف دھر نے دیئے اوراِنہی جذبات سے دیگر فیصلے بھی کیے۔یہ ماضی قریب کی وہ حقیقت اور شہادت ہے جسے جھٹلانا ناممکن ہے ۔گویا یہ تحریک در حقیقت اُن کے خلاف ایک رد عمل تھاجنہوں نے اِنہیں “پرویزَین” کے خلاف اور نواز شریف کے حق میں استعمال کیا۔نواز دورِحکومت میں مذہبی کارڈ اسی طرح ان کےخلاف استعمال ہوا جیسے پرویز مشرف کے خلاف استعمال ہوا،اسی طرح پُرتشدد مظاہرے ہوئے اور ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جیسے پرویز مشرف دور میں پہنچایاگیا،اسی طرح جانی نقصان ہوا جیسے پرویز مشرف دور میں ہوا۔یہاں ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم لیگی راہنماوں کی سرعام بے عزتی کی گئی جس میں نواز شریف صاحب بھی شامل ہیں اور اُن کی توہین اُس مقام پہ کی گئی جہاں بے عزتی کرنا در حقیقت کہانی کا کلائمکس تھا۔پرویز مشرف پہ شاید ختم نبوت کی شق میں ترمیم کا الزام نہ ہو لیکن یہ الزام بھی نواز شریف پہ لگایا گیا لہٰذا یہ وہ حساب کتاب تھا جو ماضی قریب سے متعلق تھا جسے اِس طرح چُکا دیا گیا۔

مُورّخ جب بھی معاصر پاکستانی سیاست میں مذہبی منافرت کے استعمال اور اہل تصوف کے کردار کی تاریخ  لکھے گا اس پس منظر کا ذکر ضرور کرے گا کیونکہ ان عوامل،جذبات اور عناصر کا ذکر کیے بغیر اہل تصوف میں تشدد کی سوچ اور رویوں کی حقیقی تفہیم ناممکن ہے ۔

احساسِ محرومی اور احساسِ تفاخر

اگر اہل تصوف کے اس نئے کردار کا بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل ایسی جماعتوں اور تحریکوں کی پیش قدمی میں احساسِ محرومی اور احساسِ تفاخر،دونوں احساس  اہم کردار  ادا کررہے ہیں۔یہ عجیب سی بات ہے کہ یہ دونوں احساس متضاد ہیں لیکن دونوں بیک وقت موجود بھی ہیں۔یہ ایک دوسرے کو مہمیز کرتے ہیں۔احساسِ تفاخر سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہےکہ ہم اعلیٰ، ارفع،برتر اور بہترین ہیں۔ہم سواد اعظم اور بہت بڑی اکثریت ہیں۔ پھر ساتھ ہی جب معاشرے پر اپنے پھیلاو اور کنٹرول کو دیکھتے ہیں تو احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے کہ ہم سے اقلیت اور کم افرادی قوت کے مالک سیاستدان بھی مضبوط ہیں اور ان کی جڑیں معاشرے میں بھی مستحکم ہیں۔ملک کے وسائل اور اختیار کے حصہ دار بھی بنے بیٹھے ہیں۔ایک طرف سواد اعظم کا احساس دوسری طرف اُس حساب سے حصہ نہ ملنے کا دکھ۔ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہمارے مسلک کے ووٹوں سے سیاستدان حکمران بنتے آئے ہیں۔ان حکمرانوں نے نفاذ اسلام کے وعدے بھی کبھی پورے نہیں کیے لہذا جب عوام بھی ہمارے،پاکستان کے خالق بھی ہم اور اکثریت بھی ہماری، تو پھرہم کیوں نہ سیاست کریں اور اقتدار حاصل کریں۔

اس احساس محرومی میں اپنے ماضی کے اکابر سے شکوہ بھی ہے کہ انہوں نے ’’سواد اعظم‘‘کو متحد کرنے کے بجائے اپنی پارٹی کی سیاست کی ،مسلک و مشرب کی سیاست نہیں کی۔گویا اس احساس میں عدم اطمینان بھی شامل ہے۔اِس طبقے کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان میں خانقاہیں اور مزارات موجود ہیں ۔علماء کرام کی بڑی تعداد موجود ہے۔ان سے وابستہ عوام کی بھی بہت بڑی تعداد ہے۔ان دو طبقوں (علماء و مشائخ)نے ہمیشہ عوام کو لوٹا ہے۔انہوں نے نذرانے،چندے،زکوٰۃ اور خیرات جمع کیے، اپنا اور اپنے خاندان کا صرف سوچا ہے۔اس احساس میں اپنے اکابر کے طرز سیاست پہ عدم اطمینان اور اس میں بغاوت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے ۔ان کے خیال کے مطابق، اگر ہم مسلک و ہم فرقہ منتشر و متفرق ہیں،کمزور اور بے مایہ ہیں تو اس میں بنیادی وجہ حقیقی قیادت کا فقدان ہے۔ایسی قیادت جو صرف اور صرف مسلک کے مفاد کو دیکھے اور اپنا سب کچھ قر بان کردے۔خواہ وہ اپنی ذات ہو یا بچے گھر ہو یا کاروبار۔اس حوالے سے صحابہ کرام کے واقعات و حالات کثرت سے سنائے اور بتائے جاتے ہیں۔

توہین رسالت کا سلسلہ ڈنمارک سے شروع ہوا اور فرانس تک پہنچا۔ڈنمارک کا واقعہ مشرف دور میں ہوا اور فرانس کا مسئلہ نواز شریف دور میں شروع ہوا۔جن کے جذبات کا استحصال مشرف دور میں ہوا،وہ اب نواز دور میں اس سے بڑھ کر اظہار کرنے کے حق میں تھے اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ۔ عمران خان صاحب کے دور اقتدار میں بھی ایسا دلخراش واقعہ ہوا۔یہ واقعہ خاص مسلک و فرقہ کے عوام کو متحد کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔جلسے، جلوس ،مظاہرے اور دھرنوں نے ان کے لیے سیاست کی راہ کو بھی آسان کر دیا۔اس بنیاد پہ ’’دین کو تخت پہ لانے‘‘کا نعرہ بھی لگا دیا گیا۔اس سے پہلے نظام مصطفےٰ،نفاذ اسلام ،مصطفوی انقلاب کی اصطلاحات بھی متعارف کر وائی گئی تھیں۔میری طرح بہت سے لوگوں کو یقین محکم ہے کہ گزشتہ ادوار میں مختلف اصطلاحات متعارف کروانے والوں کو اپنی اصطلاحات کا کسی نہ کسی حد تک شعور و ادراک بھی تھا اور وہ اس راستے کو جانتے بھی تھے لیکن موجودہ اصطلاح متعارف کرانے والوں کے جذبات تو قابل احترام ہیں لیکن یہ کام جذبات کے ساتھ بصیرت،طریقہ کار اور Social Dynamicsکے سمجھنے کا بھی ہے۔اسلام اقتدار اور قوت نافذہ کے ذریعے آتا ہے یا اس کا چشمہ سماج میں سے پھوٹتا ہے۔کیا ان تقاریر سے لوگوں میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی؟کیا معاشرہ اخلاق و کردار میں بہتر ہوا۔ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی اکثریت مسلمان اور عاشق رسول ہے جیسے ہم بر سر اقتدار آئیں گے پاکستان کے تمام معاملات دین کے مطابق ڈھلتے چلے جائیں گے۔

موجودہ نسل کے برعکس اکابرعلماء کرام کا علمی مقام اور سیاسی بصیرت کو زمانہ تسلیم کرتا ہے۔ انہیں عالمی سیاست سے بھی واقفیت تھی اور سیاست میں توسُّع کے قائل بھی تھے۔وہاں جذبات تھے تو ذہانت و فطانت بھی تھی۔وہاں محرومیوں اور تفاخر کا احساس بھی نہیں تھا۔وہ بند گلی میں نہیں شاہراہ سیاست پہ سفر کر تے تھے۔مسلکی سیاست کے اپنے مختلف فیہ پہلو ہیں لیکن وہ کسی حد تک توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ سیاسی اور سماجی حرکیات سے کسی حد تک واقفیت بھی رکھتے تھے۔

تاریخی آبیاری

اگر ہم خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے گروہ میں پھلنے پھولنے والے رویوں اور رجحانات کا جائزہ ماضی بعید میں دیکھتے ہیں تو اس بیج کی آبیاری سال ہا سال سے ہو رہی تھی لیکن پھل اپنے وقت پر پک چکاہے یا اُس کو کھانے کا وقت اب آیا ہے۔گزشتہ صدی میں چند کلامی مسائل سے بحث شروع ہوئی۔ یہ بحث تکفیر سے ہوتی ہوئی بر صغیر میں مسلمانوں کی تفریق و تقسیم پر منتج ہوئی۔جس میں محبت رسول، عشق رسول اور حرمت رسول کا عنوان غالب رہا ہے ۔اِسی بحث واختلاف کے نتیجے میں، مختلف مدارس بھی وجود میں آئے۔ان مدارس میں مخالف فرقے کی باقاعدہ تکفیر،تفسیق و تضلیل کی تربیت دی جانے لگی۔کہیں مناظرہ کے نام پہ اور کہیں علم مناظرہ کے نام پہ۔جب یہ تربیت یافتہ افراد معاشرے میں آئے تو اِن کی آواز اس لئے بھی توانا تھی کہ اِن کے ہاتھ میں ’’محبت رسول‘‘کا عَلم تھا۔اطاعت رسول اور اتباع رسول سے زیادہ طاقت اور قوت پہلے نعرے میں تھی۔فرقہ واریت کی وجہ سے یہ نقصان ہوا کہ محبت رسول کا بہت چرچا ہوا لیکن امت کی زندگی اطاعت رسول کی جھلک سے محروم ہوتی گئی۔صورت حال یہ ہے کہ امت کے فرد کو بتانا پڑتا ہے کہ میں بے شک ان سے سیاسی یا مذہبی اختلاف رکھتا ہوں لیکن رسول اللہ سے محبت کرتا ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ اس کی جڑیں صرف گزشتہ صدی میں ہیں بلکہ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو ایک حوالہ ہمیں مو لانا فضل حق خیر آبادی کا بھی ملتا ہے۔جنہوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور اسی میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔یہ ایسا واقعہ ہے جس کا حوالہ تقاریر میں ضرور دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں خاص طور پر پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ ان کا اقتدار در حقیقت انگریز کے تسلط کا تسلسل ہے۔ہم نے گورے سے نجات پالی لیکن کالے انگریز سے نجات نہیں پاسکے وہ اپنی ذریت یہاں چھوڑ کرگئے۔اب یہ علیحدہ بحث ہے۔ وہ کیا چھوڑ کرگئے ،وہ ان کی ذریت اور اولاد ہے یا وہ کچھ اور چھوڑ کر گئے۔اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔یہ وہ جذبہ ہے جو خود سوالات اٹھاتا اور خود ہی جواب دیتا ہے۔خود ہی سازشی تھیوری سوچتا اور خود ہی رد عمل دیتا ہے۔یہ خود ایوان اقتدار سے امیدیں وابستہ کرتا اور خود ہی مایوس ہوجاتا ہے ۔یہ حکمرانوں سے متعلق اسلام مخالف نظریات کو منسوب کرتا اور خود ہی اس کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔کبھی یہ سیاستدانوں کے ہاتھ کا کھلونا اور کبھی ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے۔

چند سالوں میں پاکستان کے اندر پیدا ہو نے والی صورت حال کے یہ چند عوامل ہیں۔آپ جب بھی ایسی کسی جماعت اور گروہ پہ بات کریں گے یا لکھنا چاہیں گے  توایسے پس منظر سے کبھی نظر نہیں ہٹا سکیں گے۔ اگر صرف نظر کریں گے تو آپ پھر موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔

تبدیلی کے مراحل

اب آئیے اس بات کی طرف کہ یہ لوگ صوفیاء کو ماننے والے ہیں۔ یا اس مسلک کا تعلق صوفیاء کرام کے ساتھ ہے۔صوفیاء کی تعلیم صبرو برداشت ،توکل و فقر کی تعلیم ہے ۔صوفیاء کے نزدیک سب انسان برابر ہیں خواہ اس کا کوئی بھی مسلک و مشرب ہو یا وہ کسی بھی رنگ، نسل اور ذات سے تعلق رکھتا ہو۔ صوفیاءکرام کے دروازے نیک و بد ،خوش خصال و بد خصال سب کے لیے ہمیشہ کھلے رہے ہیں۔یہ سب باتیں اپنی جگہ بجا ہیں لیکن اس سے پہلے خود تصوف پہ گزرنے والے تین مراحل پہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ایک مرحلہ صحابہ و تابعین کا زمانہ جس میں عملی زندگی میں للہیت واخلاص کا ظہور ہوا۔یہ اسلام کا ابتدائی اور حقیقی دور ہے۔دوسرا مرحلہ ترک دنیاسے اعلٰی اوصاف کا ظہور کہ اصل مرض کا سبب حب دنیا ہے لہٰذاللہیت و اخلاص کے حصول کا راستہ ترکِ دنیا ہے۔ تیسرا مرحلہ  یہ آیا کہ تصوف صرف اور صرف چند خاص رسم و رواج کا نام بن کر رہ گیا۔یہ تین مرحلے اور زمانے تاریخ تصوف میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔

آج تصوف اور اس کے ماننے والے تیسرے دور سے گزررہےہیں۔اس لیے سیاست و مسلک میں اس کی ترجیحات بدلی دکھائی دیتی ہیں۔ان میں ہمیشہ مروّجہ طرز عمل کو دیکھ کرخود کو ڈھالا جاتا ہے ۔ایسے حالات میں صرف ان رجحانات سے استفادہ کیا جاتا ہے جو جماعت کو موجودہ Scenario میں ایک جُدا مقام دلا سکے۔صوفیاء کرام کے ہاں خواب و الہام کی اہمیت ومرتبہ ہے لہٰذا صوفیاء کرام کا دم بھر نے والوں نے خواب و الہام کی خوب تشہیر کی۔صوفیاء کرام میں کرامات کا ایک سلسلہ ہے،کرامات سے بھی اپنے قد کو اونچا کیاجاتا ہے۔تصوف میں مبالغہ کی حد تک زہد و تقوٰی،توکل و بے نیازی کی تعلیم ہے۔اس کا اثر بھی مسلکی جماعت پہ پایا جاتا ہے ۔ صوفیاء کرام سے تعلق کے اظہار کا ایک مضبوط ذریعہ اعراس،مزارات پہ حاضری اور ان کی یاد میں ہونے والی محافل و مجالس میں شرکت ہے۔اور یہ سب مظاہر باقی بھی ہیں اور انہیں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ معاملہ صرف کسی ایک جماعت کے ساتھ نہیں ہے۔ ہر جماعت اپنے مقاصد جو وہ خود طے بھی نہیں کرتی، اسے ماحول کے جبر سے طے کرنے پڑتے ہیں۔یہ لہروں کی طرح ہیں جو اسے اپنی سمت پہ بہا لے جاتے ہیں۔ان کا تعلق شخصیات سے صرف اُسی دائرے میں رہ جاتا ہے جس میں رہ کر ان کی سیاسی اور وجودی بقا ہوتی ہے۔ شاید آج بھی ایسا ہی ہے کہ اہل تصوف جو سیاسی غلغلے سے دور رہے تھے انہیں اب یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر احتجاجی اور سیاسی ہلچل کا حصہ نہیں بنیں گے تو اہم نہیں رہے ، لہذا آج اہل تصوف سڑکوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔