توہین سے متعلق نیا بِل: ممکنہ اثرات اور تحفظات

0

سینیٹ نے نبی آخر الزمان رسول اللہﷺکے خاندان، ازواج مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ اور چاروں خلفائے راشدین سمیت مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر سزا تین سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال کرنے کا بل منظور کر لیاہے۔قومی اسمبلی کے اندرفوجداری قانون (ترمیمی) بل 2023 کے عنوان سے یہ بل  جنوری میں منظور کیا گیاتھا۔تین دن قبل سینیٹر حافظ عبدالکریم نے اسے سینٹ میں پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔اس بل کے تحت پہلے سے موجود پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298-الف میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس جرم کی سزا عمر قید ہو نی چاہیےجس کی مدت 10 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح، بل ضابطہ فوجداری کے دوسرے شیڈول میں ترامیم کی تجویز پیش کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ PPC کی دفعہ 298-الف میں بیان کردہ جرم کی پہلی صورت میں عام طور پر کسی مشتبہ شخص کے لیے ’وارنٹ‘ جاری کیا جانا چاہیے، جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیں، سزا کو بڑھا کر کم از کم 10 سال قید کریں اور بیان کریں کہ اس جرم کے مشتبہ افراد پر ’سیشن کورٹ‘ کے ذریعے مقدمہ چلایا جائے۔

اس  بل پر ملک کے مختلف طبقات کے مابین بحث جاری ہے ۔ کچھ لوگ اس کے حق میں ہیں، جبکہ بعض طبقات کو اس پر سخت تحفظات ہیں۔جو لوگ اس کے حق میں ہیں ان کا خیال ہے کہ اس بل کے تحت  اسلام کی  نمایاں مذہبی شخصیات کے خلاف باتوں کا سلسلہ تھمے گا اور لوگ ایک دووسرے کی مذہبی محترم شخصیات کے خلاف بات نہیں کریں، جس سے امن آئے گے۔

جبکہ اس بل کے تناظر میں تحفظات رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کو عجلت میں پاس کردیا گیا اور سینٹ میں اس پر بحث نہیں کی گئی۔جبکہ یہ ضروری تھا کہ پہلے اس کی جزئیات اور اس سے جنم لینے والے اثرات پر بھی بات کی جاتی،اور اس کے بعد ایک متفقہ بل تیار کیا جاتا۔

ان کے مطابق ماضی میں پاکستان میں اس طرح کے قوانین کے غلط استعمال کی کئی مثالیں ملتی ہیں، لہذا اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے بھی بل میں شق شامل کی جانی چاہیے تھی۔

ان کی طرف سے یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس بل میں جس بنیاد پر سزائیں تجویز کی گئی ہیں وہ “توہین” ہے۔ جبکہ اس لفظ کی کوئی واضح تشریح  نہیں کی گئی ہے۔ توہین کی تعریف اور اس کا معیار اور مصداق کیا ہے۔ توہین کی حدود کیا ہیں اور اس کی تعریف اور قیود و حدود کو طے کرنے کا مجاز کون ہے؟ ان چیزوں کا طے ہونا بھی ضروری تھا،کیونکہ ابہام کے سبب بہت سے مسائل جنم لیں گے۔ اس حوالہ سے بھی ایک شق ہونی چاہئے تھی کہ کوئی شخص اسے اپنے ذاتی مفاد کےلئے استعمال نہ کرے۔

اس کے علاوہ تحفظات کا اظہار کرنے والے حلقے یہ تجویز بھی دیتے ہیں کہ بل میں نیت کے پہلو کو بھی شامل کیا جائے کہ انسان نے جان بوجھ کر ارادتا توہین کی ہو پھر سزا دی جائے۔دوسرا یہ کہ اس میں توبہ کا دروازہ بھی رکھا جائے کہ اگر کوئی شخص توبہ کرے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ جبکہ سزا کی مدت میں مزید اضافہ بھی نہ کیا جائے۔

اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ ملک میں امن امان کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن اس امرکی  اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایسے قوانین جن میں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر اختلافات موجود ہوں اور ان قوانین میں متعدد حوالوں سے ابہام بھی ہوں تو اس سے مزید مسائل جنم لینے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ مناسب یہی تھا کہ اس بل پر بحث کی جاتی اور توہین سے متلعقہ جزوی پہلوؤں کو واضح کیا جاتا، ورنہ ابھی سے مختلف طبقات کی طرف سے جس طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس بل کے بعد مزید مسائل جنم لیں گے۔ اوریہ معاملہ صرف مخصوص مسالک کے درمیان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خدشہ موجود ہے کہ تمام مسالک اپنی اپنی تشریحات کے تحت اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کی مثالیں ماضی میں موجود ہیں۔ لہذا ریاست کو چاہیے کہ جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان پر بھی سنجیدگی سے غور کرے، تاکہ اس قانون کے ممکنہ غلط استعمال کو روکا جاسکے اور اسی میں تمام مسالک کا بھی فائدہ ہے۔