اسلام – رحمت اللعالمین: انڈونیشیا میں تعبیرِدین کے اُصول(قسط چہارم)

0

اس سلسلے کی پچھلی اقساط یہاں سے پڑھی جاسکتی ہیں۔

5 – انڈونیشیامیں تعبیرِ دین کے اصول

یہ تو تفہیمِ دین کے وہ عمومی  مصادر و اصول  ہیں جو اصول فقہ کی علمی مباحث کے زمرے میں آتے ہیں، اور تعبیرِ دین کے ذرائع ہیں۔انڈونیشیا میں بھی تعبیر دین میں  انہی اصولوں کی رعایت کی جاتی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ وہ تفہیمِ دین کے ایسے اصولوں پر بھی یقین رکھتے ہیں جو شریعت کے مقاصدی و انسانی مصلحتی پہلو کا حصہ ہیں۔نڈونیشی علما اجتہاد کو لازمی سمجھتے ہیں اور اسی لیے مقاصدِ شریعہ کو بہ طور ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔

(1)    رحمت

دین کا ایک اہم اصول رحمت  ہے ۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔[1]

(ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے)

اگرچہ یہاں حوالے کے لیے نبی کریمﷺ کا ذکر کیا گیا ہے،مگرحمت کا یہ مصداق عمومی حیثیت میں سارا دین ہے۔یعنی کہ یہ دین اسلام تمام جہان کے لیے رحمت ہے۔ رحمت سے مراد افادہ ِعام ہے۔افادے اور رحمت کی شکلیں ہر مخلوق اور ہر شعبے کے لیے موجود ہیں۔ ہم نے ماحول کو صاف رکھنا ہے، یہ بھی رحمت کی صورت ہے۔جانوروں کو تکلیف نہیں دینی۔ غیرمسلموں سے بھی بہ طور انسان اچھا برتاؤ کرنا ہے۔مجادلہ اور لڑائی نہیں کرنی۔لہذا وہ اس کو ایک وسیع مفہوم میں لیتے ہیں اورر اس پر تکثیریت پسندی کی بنیاد رکھتے ہیں۔اسی لیے انڈونیشیا میں عام طور پر یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ ’اسلام رحمت للعالمین‘ ہے۔پہلے تو یہ اصطلاح مجھے بہت عجیب لگی، مگر جوں جوں غور کرتا چلاگیا دل نورِ ایمان سے بھرتا چلا گیا۔

(2)          آفاقیت

ان کے نزدیک تعبیر دین کا ایک اور اہم اصول آفاقیت اور انسان دوستی ہے۔رسول اللہﷺ نے خالصتاانسانی بنیادوں پر تشکیل معاشرہ کا عمل اختیار فرمایا۔ آپﷺ کی جدوجہد کے نتیجے میں جو پہلاسماج مدینہ منورہ میں قائم ہوا، اس کا بنیادی مقصد ہی بلا تفریق، رنگ، نسل اور مذہب تکریم انسانیت اور انہیں انسانی حقوق کی فراہمی تھا۔ یہی وجہ ہے اس ریاستی نظام کی تشکیل اور اس کے سیاسی و معاشی ثمرات کے حصول میں مہاجرین وانصار کے ساتھ ساتھ مدینہ کے غیر مسلم قبائل بھی یکساں طور پر شریک رہے۔دعوت کی بنیاد اسلامی عالمگیریت پر ہے جو تمام بنی نوع انسان کی ابتدا، فطرت اور مقصد کے اشتراک کو  تسلیم کرتی ہے۔یہ ادراک قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے:

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۔[2]

(اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی)

يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔[3]

(اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ)

وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا كَآفَّـةً لِّلنَّاسِ بَشِيْـرًا وَّنَذِيْـرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ[4]۔

(اور ہم نے آپ کو جو بھیجا ہے تو صرف سب لوگوں کو خوشی اور ڈر سنانے کے لیے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)

انڈونیشی علما کے نزدیک قرآن پاک کی یہ آیات ہمیں سبق دیتی ہیں کہ اسلام ایک آفاقی دن ہے۔ اس لیے اس کی تعبیر بھی آفاقی ہوگئ اور سب ممالک، طبقات، مذاہب کے لیے یکساں ہو گی۔

(3)    وسطیت

انڈونیشیا کے اہل علم طبقے میں تعبیر دین کا ایک اور اصول اعتدال اور وسطیت ہے۔افراط و تفریط سے احتراز کیا جائے گا۔یہی عدل ہے۔عدل قائم رکھنے یا افراط وتفریط سے بچنے کا اطلاق اس پر بھی ہوگا کہ تعبیر دین میں صنفی یا گروہی تعصب کو نہیں آنے دیا جائے گا۔قرآن کریم میں فرمایا گیا:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلٰی النَّاسِ۔[5]

( اسی طرح ہم نے تمہیںاعتدال والی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاو)

اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

خير الأمور أوسطها۔

(بہترین کام وہ ہیں جن میں میانہ روی اختیار کی جائے)

قرآن تمام مسلمانوں کو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کی راہ اعتدال ہے۔عدل یا اعتدال کا صریح تقاضا یہ بھی ہے کہ دین اور دینی تعبیرات کو عام اور مساوی رکھا جائے۔

(4) –  عرف کی رعایت

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ احکامات  میں زمان و مکان اور عرف کا بھی لحاظ رکھا جائے گا۔ یعنی کہ دین کی حرفی تعبیر نہیں کی جائے گی،بلکہ جہاں ممکن ہو، وہاں زمان ومکان اور عرف کی بھی رعایت رکھی جائے گی۔ وہ علماءجن کا کام دینی مسائل میں راہنمائی کرنا ہوتا ہے ان پر فرض ہے کہ وہ زمانى حاجت اور مصلحتِ عامہ کا اصول اپنے ذہن میں رکھیں اور اسی کے آئینے میں احکامات کا استخراج کریں۔امام شافعی جب بغداد میں تھے تو ان کی فقہ الگ تھی، اور جب آپ قاہرہ گئے تو بہت امور میں تبدیلی آگئی۔ امام شاطبی  فرماتے ہیں کہ مفتی فتویٰ دیتے وقت حالات كے انجام اور نتائج کو بھی مدّ نظر رکھے اگر کوئی حکم نقصان کا باعث بنے تو اسے صادر کرنے سے گریز کرے۔احمدالریسونی انکی رائے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ان المجتھد حین یجتھد ویحکم ویفتی علیہ ان یقدّر مآلات الافعال ویقدر عواقب حکمہ وفتواہ،وان لا یعتبر انّ مھمّتہ تنحصر فی اعطاءالحکم الشرعی بل مھمّتہ ان یحکم فی الفعل وھو یستحضر مآلہ او مآلاتہ وان یصدر الحکم وھو ناظر الی اثرہ او آثارہ،فاذا لم یفعل فھو اما قاصر عن درجة الاجتھاد او مقصر فیھا[6]

“مجتہد جب اجتہاد کے بعدکوئی حکم یافتوی صادرکرتا ہے تو اس وقت اس پرلازم ہے کہ وہ فتوی کے نتائج اور عواقب کوبھی ذہن میں رکھے،وہ یہ نہ خیال کرے کہ اس کا کام صرف شرعی حکم صادر کرنا ہے،اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ یہ سامنے رکھے کہ اس فتوے کے کیااثرات مرتب ہوں گے۔مجتہداگر ایسانہیں کرتا تو وہ اجتہاد کی شرائط پرپورا نہیں اترتا یاپھر وہ جان بوجھ کرکوتاہی کررہا ہے”۔

(5)    صنفی مساوات

دین کے جتنے اور جو بھی احکامات ہیں ان میں مرد اور عورت کو مساوی حیثیت حاصل ہے ، اوروہ ان احکامات کے برابر مخاطب ہیں۔مثال کے طورپہ قرآن کریم میں مردوں کو قوام کہا گیا ہے۔ ان کے مطابق قوام کا تناظر ثقافتی اور وقتی ہے۔ یہ محض مرد کی حتمی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے علماء یہ کہتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کی کسی عمومی آیت کی کوئی ایسی تعبیر نہیں کریں گے جو صرف مرد کے لیے یا صرف خاتون کے لیے مخصوص ہو۔اس لیے کہ خدا انسان کے لیے ہے۔ بلکہ وہ یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ خدا کی کوئی ذات تو نہیں ہے، کہ وہ مرد ہو۔ اس لیے تعبیر دین مساوی ہوگی۔وہ ’قوام‘ کے ذیل میں یہ بتاتے ہیں کہ اس کے اطلاقی معنی میں دونوں اصناف شامل ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھیں گے۔ دونوں کوایک دوسرے کے شر سے بچایا جائے گا۔کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جو کسی ایک صنف کے لیے تعصب یا جانبداری پر مبنی ہو۔

اس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ ان کی اس تقریر کے بعد ہمارے وفد کے ایک عالم دین نے سوال کیا کہ قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۔[7]

(مرد خواتین پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ پاک نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے)

جبکہ آپ کی تعبیرات میں برابری نظر آ رہی  ہے۔ کیا یہ اسلام کی رو سے صحیح ہے۔ ڈاکٹر عالمہ نے بہت اچھی طرح سے اس کی وضاحت کی کہ یہاں مرد قوام اس لیے ہے کہ وہ خواتین کی مالی کفالت کرتا ہے اور اگر ایک عورت مرد کی کفالت کرتی ہے تو قران مجید کے بقول وہ قوام بن جائے گی اور عہد حاضر میں حقوق انسانی نے عورت کو ایک مکمل انسان تسلیم کر لیا ہے اور یہ عرف ہے جو اسلام کے مطابق ہے۔ اس لیے ہمیں عورت اور مرد میں برابری کرنا ہے۔ نصوص کی تعبیر کے یہ اصول نہ صرف نئے ہیں بلکہ بہت اہم ہیں۔ یعنی کہ قرآن پاک اور جدت کی ایسی تعبیر کی جائے گی جس میں مرد اور عورت کی برابری اور باہمی مفاد ہو گا اور وہ عہد حاضر کے عرف کے مطابق ہو۔ ہمارے علما اور فقہا کو اس طرز تعبیر پر بہت سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(6)    بین الاقوامی معاہدات کی رعایت

دنیا میں بہت سے ایسے عالمی قوانین یا معاہدات ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کی بلاامتیاز بہبود کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں اور اس میں ممالک یا معاشروں کی تقسیم یا فرق نہیں ہوتا۔مثال کے طور اقوام متحدہ کا تشدد کی روک تھام کے لیےایک معاہدہ ہے Convention Against Torture،یہ دنیا میں غیرانسانی سزاؤں اور تشدد کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس طرح کے کئی بین الاقوامی معاہدات ہیں۔انڈونیشی علماء اس طرح کے معاہدات کو شرعی بنیاد فراہم کرتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔دوسرے ممالک یا اداروں کے ایسے قوانین جو انسانی نوعیت کے ہوں، یا شرعی طور پہ وہ غلط نہ ہوں، بلکہ وہ ناگزیر ہو جائیں تو انہیں اپنا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً حضرت عمرؓ نے زراعت و مالیاتی قانون میں شامی، مصری اور ایرانی قانون کی پیروی کی، رجسٹر اور حسابات رکھنے کے طریقے ان سے اخذ کیے، غیر اسلامی حکومتوں کے تاجروں پر اتنا محصول عائد کیا جتنا کہ ان کی حکومتیں مسلمان تاجروں پر عائد کیا کرتی تھیں۔اس سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہےکہ قرآن و حدیث کی مقرر کردہ حدود کے اندر دوسرے ممالک کے قانون سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔اسی میں بین الاقوامی معاہدات بھی آجاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] سورۃ الانبیاء: 107

[2] سورۃ الاسراء: 70

[3]سورۃ البقرۃ: 21

[4] سورۃ سبا: 28

[5] سورۃ البقرہ: 143

[6]نظرية المقاصد عندالشاطبى، احمد الريسونى، 302

[7] النساء، : 34