اسلام – رحمت اللعالمین: انڈونیشیا میں تعبیرِدین کے اُصول(قسط سوم)

0

اس سلسلے کی پہلی اور دوسری اقساط یہاں سے پڑھی جاسکتی ہیں۔

3 – دینی تعبیر کے مروجہ اُصول

دین، بنیادی طور پہ قرآن اور سنت کا نام ہے۔دین کی اساس انہی دو چیزوں پر قائم ہے۔قرآنِ حکیم کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی ماخذ سنت ہے۔اس کے علاوہ  فقہ کی کتب میں عموما قیاس اور اجماع کو بھی شامل کیا گیا ہوتا ہے، لیکن وہ دین کے اصل مصادر نہیں ہیں،یہ اجتہاد کے  ذرائع کے زمرے میں آتے ہیں۔ان کےعلاوہ قرآن وسنت سے استدلال واستنباط کے لیے بعض دیگر ذرائع بھی استعمال کیےجاتے ہیں، مثلا: استحسان،استصلاح،تعامل،عرف وعادت، وغیرہ۔ یہ سب  اجتہادی ذرائع ہیں، ان کی حیثیت دین کے مآخذ کی نہیں ہے۔یہ ذیلی مصادر اور ان کی اصطلاحات دراصل فقہاء کرام کی ایجادکردہ ہیں جو انہوں نے بعد میں رفتہ رفتہ اپنے اپنے ذوق اور فہم کے مطابق متعارف کروادیں ۔کلاسیکی ادوار میں مسائل کو قرآن وسنت پر ہی پرکھا جاتا تھا۔

قرآن کریم میں جو آیات وارد ہوئی ہیں ان کی تفسیر میں پہلےدیکھا جائے گا کہ استعمال ہونے والے لفظ کی کیا لغوی شرح کی جاسکتی ہے  تو تفسیر لغوی معنی کے لحاظ سے کردی جائے گی۔ مثال کے طور بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا معنی لغت و عرف میں متعین ہے اور ان کی کوئی دوسری شرح کا امکان نہیں تو ایسے الفاظ کو لغوی معانی پر ہی محمول کرلیا جائے گا۔ جیساکہ ماء(پانی)، شجر(درخت)جیسے الفاظ یا پھر ایسی تمام آیات کہ جومخصوص تشریعی احکامات کے علاوہ نصیحت و تربیت کے لیے وارد ہوئی ہیں۔جیساکہ ’اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَافَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیمًا[1]‘(اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو) اب اس آیت میں ایسی کوئی بات یا لفظ نہیں ہے جو عام فہم یا لغوی  و عرفی معنی سے ہٹ کر ہو۔ اس طرح کی تمام آیات اپنے لغوی اور عرف کے معنی پر محمول کی جائیں گی۔اس کے علاوہ،بعض وہ الفاظ ہیں جو شریعت کی اپنی اصطلاحات ہیں مثلاصلوۃ، زکاۃ، حج، صوم، طواف وغیرہ۔ ان الفاظ کے معانی کا تعین کرنا اور ان الفاظ کی وضاحت کرنا صرف شریعت کے دائرہ اختیار میں ہے نہ کہ لغت یا عرف کے۔اس قسم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بیان کردیا ہے۔لہٰذا کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان متعین اصطلاحات کی تعریف لغت کی کتب سے تلاش کرے یا اس میں کچھ اضافہ کرنے کی کوشش کرے۔

تفسیر القرآن بالقرآن کے اسلوب پر متعدد تفاسیر لکھی گئی ہیں،جن مفسرین کرام نے اس طرز کو اختیار کیا ہے ان میں زرکشی، سیوطی، زرقانی، صابونی اور شاہ ولی وغیرہ جیسے علماء کے نام نمایاں ہیں۔ تفسیر القرآن بالقرآن کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ جو چیز ایک جگہ مختصر آئی ہے اسکی تفسیرآیات کے ساتھ کی جائے جہاں وہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً آدمؑ ا ور ابلیس کا واقعہ بعض جگہ مختصر آیا ہے اور دوسری جگہ مفصل اور یہی حال موسیٰ ؑ اورفرعون کے واقعے کا ہے۔ اسی طرح تفسیرالقرآن بالقرآن کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ مجمل کو مفصل پر محمول کر کے اس کے ساتھ تفسیر کی جائے۔

تفسیر کے اندر ایک اہم پہلو حدیث مبارکہ کا ہے کہ بعض آیات ایسی ہیں جن کی توضیح احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔مثال کے طور پہ ایک آیت ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ[2]

(جو لوگ اللہ پرایمان لائے او ر اپنے ایمان کو ظلم سے بچاتے رہے ان کو امن ہو گا او روہ لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں)

اس آیت میں لفظ ظلم بہ ظاہر زیادتی کے معنی پر محمول ہے اور اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔صحابہ کرام ؓ نے بھی  اس کے ظاہری مفہوم پر محمول کرتے ہوئے اس سے ہر چھوٹا بڑا ظلم مرادسمجھ لیا تھا ۔مگر ان کا یہ فہم صحیح نہیں تھا۔انہیں اس کے لیے رسول اللہﷺ کی رہنمائی کی ضرورت پڑی۔چنانچہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ ”یا رسول اللہ ؐ !ہم میں سے ایساکون ہے جس کے ایمان میں ظلم کا شائبہ نہیں ہے ؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہاں ظلم کا عام مفہو م مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے شرک مراد ہے۔کیا تم کو حضرت لقمان کا قول معلو م نہیں کہ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْم[3] یعنی ”شرک بہت بڑا ظلم ہے ”۔[4]

تعبیرِ دین کے اصول کے طور پرقرآن وحدیث کے بعد اقوالِ صحابہ ؓو تابعین کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔صحابہ کرامؓ کے اقوال کو دیکھا جائے گا،اگر انہوں نے کوئی شرح کی ہے تو راجح ہوگی:

إذا تكلم صحابي في آية ولم يعلم أحد من الصحابة رضي الله عنهم خالفه لم يسع مخالفته لأنهم أعلم بالتنزيل والتأويل۔[5]

(جب ایک صحابی کسی آیت کی تفسیر بیان کرے اور اس کی مخالفت دوسرے صحابہ میں سے کسی سے معلوم نہ ہو تو ایسی تفسیر کی مخالفت کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی کیوں کہ صحابہ کرام ؓتنزیل و تفسیرِ قرآن کو زیادہ جاننے والے تھے)

صحابہ کی ایک بڑی جماعت علم تفسیر کی خدمت کے لیے مصروف رہی ان میں حضرت عبد اللہ ابن عباس کو امتیازی شان حاصل ہے، اسی بناپر انہیں ترجمان القرآن اور امام المتقدمینکہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے کئی واسطوں سے ان کی بہت سی روایات لی ہیں۔

صحابہ کرام نے مختلف مقامات پر قرآن کریم کے درس کا سلسلہ جاری رکھا ،ان کی تعلیم و تربیت سے تابعین کی ایک بڑی جماعت تیار ہوئی۔ تابعین کی کثیر تعداد نے مشہور مفسرین صحابہ سے کسب فیض کیا ۔ان میں سعید ابن جبیر سرفہرست ہیں جنہیں حدیث و تفسیر و فقہ میں نمایاں مقام حاصل تھا۔یہ مشہور صحابہ کے شاگرد ہیں۔خصوصی طور پر حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے دامن سے وابستہ رہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے طائف میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھااور وہیں دفن ہوئے۔

اس منہج کو تفسیر بالمأثورکہا جاتا ہے،جسے امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اپنایا ہے کہ انہوں نے اسلاف امت کے اقوال جمع کردیے ہیں۔بعد میں اہل علم نے ان ذرائع کے علاوہ، تفسیر بالرأی بھی اختیار کرلی۔ یہ  وہ تفسیر ہے جو اجتہاد کے ذریعے کی جاتی ہے،لیکن اسکے لیے شرط یہ ہے کہ مفسر کلام عرب، عربی الفاظ اور انکی اوجہ دلالیہ سے،اسباب نزول اور ناسخ ومنسوخ وغیرہ جیسے امور کی معرفت رکھتا ہو۔ میری رائے میں تفسیر ماثور بھی اصل میں تفسیر بالرائے ہی ہے،کیونکہ اس میں بھی پرانے علماء کی آراء ہیں۔ یہ نکتہ غور طلب ہے۔

یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن کے ذریعے ہمارے روایتی علما قرآن و حدیث کے متن کی تعبیر کرتے ہیں مگر انڈونیشیا میں تعبیر کے اصول ان کے علاوہ بھی ہیں جو زیادہ تر مقاصد شریعت کے حوالے سے ہیں۔

4 – مقاصد شریعت کی اہمیت

بعد کے ادوار میں بعض علماء امت کو یہ محسوس ہوا کہ ہمیں قرآن و حدیث کے بنیادی مآخذ میں جو احکامات عطا کیے گئے ہیں، ان کے جوہر اور مقاصد کی کھوج لگائی جائے کہ جن کی رعایت یا بقا شریعت میں دراصل مقصود ہے۔ اسے جدید قانون کی زبان میں مقاصدِشریعت(objectives of shariah)کہا جاتا ہے۔ سب سےپہلےامام الحرمین جوینی (وفات:1085ء) نےیہ اصطلاح استعمال کی۔امام جوینی کے شاگردامام غزالی نے احیاءالعلوم میں اس پر اشارات دیے ہیں۔ ہر چند کہ ماضی میں کئی مسلم مفکرین نے اصولی،عقائدی ،سیاسی اور اجتہادی مقاصد پر کلام کیا تھا لیکن اس کی زیادہ پذیرائی امام شاطبی کی الموافقات کے شائع ہونے کے بعد ہوئی  ،امام شاطبی کے بعد طاہربن عاشور نے اس کو تحقیق کا موضوع بنایا۔معاصر علماء میں سے  ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب ”شریعة الاسلام“کی ایک فصل ”الشریعة الخالدة واوضاعھا المتجددة“ میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ہے اورر اس میں مقاصد پر بحث کی ہے۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ’مقاصدِ شریعت‘ ایک اہم کوشش ہے۔

قدیم مقاصدی فقہاء کے مطابق،پوری شریعت درج ذیل پانچ چیزوں کے تحفظ کی غرض سے قائم کی گئی ہے: تحفظ دین، تحفظ جان/نفس،تحفظ عقل ، تحفظ نسل، تحفظ مال۔قرآن وحدیث کے تمام احکامات کا اصل اورانتہائی ہدف یہی امور ہیں۔بعد میں فقہاء نے وقت کے ساتھ ان میں اضافے بھی کیے۔

مقاصد شریعت کی بطور ایک مستقل فن تعریف وتشریح اگر چہ بعد میں ہوئی ہے لیکن عملاََ اس کا وجود اتنا قدیم ہے جتنا کہ خود اسلام۔ قرآن کریم میں اکثر فرامین الہیہ کے ساتھ مقصدوغايت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔یہ طرز کلام دلالت کرتا ہے کہ شریعت میں مقاصد کا کیا مقام ہے ۔ رسول کیوں مبعوث کئے،آسمان سے کتابیں کس لیے نازل کی گئیں،کائنات اور زندگی کا ظہور کیا اسباب ومصالح رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ کئی عقائد واحکامات کی وجوہات بیان کی گئیں کہ ايسا کیوں کیا گیا ہے ،ظاہر ہے کہ قرآن کے اس منہج کا ہدف صرف یہ ہے کہ انسانی عقل کو مطمئن کیا جا سکے۔اگرچہ ایک اصول کے تحت تو یہ منہج بعد کے فقہاء کے ہاں مرتب ہوا،مگرجزوی طور پہ مسائل کی حد تک مقاصد كى رعايت صحابہ كرام اور تابعين كے اجتہاد میں بهى ملتى ہے۔  امام شاطبی فرماتے ہیں:

الصحابہ الذین عرفوا مقاصد الشریعہ فحصلوھا واسّسوا قواعدھا واصولھا ،وجالت افکارھم فی آیا تھا واعملوا الجھد فی تحقیق مبادئھا وغایا تھا،فصاروا خاصة الخاصة ولّب اللباب ونجوماََ یھتدی بانوارھم اولوالالباب[6]

(صحابہ کرام وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے مقاصدشریعت کا ادراک کیااور ان کے اصول وضوابط تک رسائی حاصل کی۔ان کی فکرنے مقاصدکے اوصاف کو پہچانا اور انکے مبادی وغایات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدوجہدکی،اسی وجہ سے وہ منتخب ومختارطبقہ ٹھہرے، ایسے نجوم کہلائے جن سے عقل والے ہدایت کانورحاصل کرتے ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی کا قول ہے :

ان احکام اللہ تعالی لھا غایات ھی حکم ومصالح راجعة الینا[7]

(احکام الہیہ کے مقاصدوغایات ہیں جنہیں حکمتیں اور مصالح کہاجاتاہے اور ان سے انسانوں کامفادمطلوب ہوتا ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]سورۃ الاسراء: 23

[2] سورۃ الانعام: 82

[3] سورۃ لقمان: 13

[4]صحیح بخاری، رقم الحدیث: 4629

[5] امام ابوجعفر النحاس، الناسخ والمنسوخ، 687

[6]الموافقات،1/2

[7]ابن رشد وعلوم الشريعه، حمادى العبيدى،102