اس سلسلے کی پچھلی اقساط یہاں سے پڑھی جاسکتی ہیں۔
(7) شریعت کی حدود
تاریخ اور سیر کی کتب میں وارد ہونے والی ہر روایت اور فقہ کی کتب میں مذکور ہر مسئلہ شریعت نہیں ہے۔اسی طرح رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ سے صادر ہونے والے ہر قول وفعل کو قطعی شرعی حکم سمجھنا بھی غلطی ہے،بعض امور کا تعلق وقتی سیاسی اجتہاد سے تھا،بعض چیزیں اخلاقی تربیت کے لیے تھیں،جبکہ بعض دیگر کی حیثیت شرعی حکم کی تھی۔ لہذا ان درجات کا فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ آپ ﷺ کی شخصیت کا جس طرح سے ایک نبوی تبلیغی پہلو ہے کہ جس میں آپ ﷺ وحی الٰہی کے پابند ہوتے ہیں، اس میں نہ آپ ﷺ تبدیلی کر سکتے ہیں اور نہ امّتِ مسلمہ کا کوئی فرد اجتہاد کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ایسے احکامات ابدی اور نا قابلِ تغیر ہیں، کسی بھی عہد میں کسی بھی مصلحت کی بنیاد پر ان مین رد و بدل کی گنجائش نہیں ہے، جبکہ بعض افعال احکامات ایسے ہیں جنمیں اجتہاد کیا جا سکتا ہے اور حالات کے پیش نظر ان میں تبدیلی کی حاجت باقی رہتی ہے۔ کیونکہ بعض فرامین وحی الٰہی کا جز نہیں ہیں، ایسے ارشادات و اعمال بطورِ انسان اور منتظم آپ ﷺ کی ذات سے صادر ہوئے ہیں۔ لہٰذا ضرورت کے وقت مسلمان ان میں اجتہاد کا حق رکھتے ہیں۔ مثلاً غزوہ خیبر کے موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا ۔بعد میں صحابہ کرامؓ کا اس مسئلے میں اختلاف ہو گیا کہ گدھوں کے گوشت کھانے کی نہی “نہیِ تشریعی” ہے یا اس کا تعلق مصلحت سے تھا۔ کیونکہ غزوہ خیبر میں مسلمانوں کی سواریاں کم پڑ گئی تھیں آپ ﷺ کو خدشہ تھا کہ اگر انہیں ذبح کر دیا گیا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑجائے گا اس لیے بعض صحابہ اکرامؓ کا خیال تھا کہ یہ نہی نہیِ تشریعی نہیں تھی بلکہ اس کا منشاءضرورت و مصلحت تھی۔ اگرچہ حدیث مبارکہ میں عموم ہے اور اس میں کوئی قید موجود نہیں ہے لیکن جس موقع پر یہ نہی وارد ہوئی اس وقت نہی کا متوقع سبب بھی موجود تھا۔ اس لئے صحا بہ کرامؓ کے ایک گروہ نے شارع کے حکم کو ضرورت و مصلحت پر محمول کرتے ہوئے گدھوں کے گوشت کو حلال سمجھا۔
(8) سنت کی اقسام
انڈونیشین علماء سنت کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اس کی اقسام کرتے ہیں۔ اس کی تفہیم سنت حضرت امام شافعیؒ سے ہے اور ہمارے حضرت شاہ ولی نے بھی کچھ ایسی ہی تعبیر کی ہے۔ ان دونوں علما کے نزدیک احادیث / سنت دو طرح کی ہیں:
(i) وہ احادیث / سنن جن کا تعلق تبلیغ رسالت سے ہے اور جن کا مقصد اللہ پاک کا پیغام پہنچانا ہے۔ ان احادیث میں ایمانیات، عبادات اور اخلاقیات شامل ہیں۔ ان میں بعض کا تعلق وحی سے ہے مگر بعض کا حضور نبی کریمﷺ کے اجتہاد سے۔ آپﷺ کا اجتہاد بھی ہم پر لازم ہے۔
(ii) وہ احادیث / سنن جو پیغام رسانی / نبوت سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضور نبی پاکﷺ کے وہ ارشادات ہیں جو کھجور کو گابھا دینے سے متعلق ہیں:
- جب حضور نبی کریمﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ لوگ کھجوروں کو گابھا دیتے ہیں۔ یعنی نر درخت کے پھول مادہ کے پھول میں رکھتے ہیں تو آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا کرتے ہو؟ بتایا گیا کہ ہم ایسا کرتے آئے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم یہ نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے عمل موقوف کر دیا مگر اس سال پھل کم رہا۔ لوگوں نے آپﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میں ایک انسان ہی ہوں۔ جب تمہیں کسی دینی معاملہ میں حکم دوں تو اسے لے لو اور جب میں تم کو اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو میں ایک انسان ہی ہوں۔ یعنی اس حکم کو لینا ضروری نہیں جیسے کسی بھی انسان کے حکم کو لینا ضروری نہیں[1]۔
- حضور نبی کریمﷺ ایسے لوگوں کے پاس سے گذرے جو کھجوروں کے درختوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے دریافت کیا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ کھجوروں کو گابھا دے رہے ہیں۔ نر کے پھول کو مادہ کے پھول میں داخل کرتے ہیں تو وہ گابھن ہو جاتی ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے خیال میں تو یہ ایک بے فائدہ عمل ہے۔ سامعین نے یہ بات عاملین کو پہنچائی تو انہوں نے یہ کام کرنا چھوڑ دیا۔ مگر اس سال کھجوروں کے دانے چھوٹے رہے۔ اس کی آپﷺ کو اطلاع دی گئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اگر یہ عمل مفید ہو تو لوگ کریں۔ میں نے بس ایک گمان کیا تھا (یعنی رائے سے بات کہی تھی کوئی شرعی حکم نہیں دیا تھا) پس تم گمان کے سلسلہ میں میرا مؤاخذہ نہ کرو (کہ نبی کی بات غلط کیسے ہو گئی؟) البتہ جب میں اللہ پاک کی طرف سے تم سے کوئی بات کہوں (شرعی حکم دوں) تو اس کو لے لو کیونکہ میں اللہ پاک پر جھوٹ نہیں لگاتا[2]۔
- اسی گابھا دینے کے معاملہ میں حضور نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے دنیوی معاملات کو بہتر جانتے ہو[3]۔
یہ تینوں روایتیں امام مسلمؒ نے کتاب الفضائل میں ذکر کی ہیں۔ اس قسم میں درج ذیل پانچ طرح کی روایات آتی ہیں:
- علاج معالجہ اور طب سے تعلق رکھنے والی روایات۔ یہ روایات کتب حدیث میں ابواب الطب کے عنوان سے ذکر کی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ روایت جس میں حضور نبی کریمﷺ نے اچھے برے گھوڑوں کی پہچان بتائی ہے وہ بھی اسی سلسلہ سے تعلق رکھتی ہیں[4]۔ اس قسم کی روایات کا مدار تجربہ پر ہوتا ہے۔ آپﷺ نے پرکھ کہ بنیاد پر یہ باتیں بیان فرمائی ہیں۔ یہ ایسے احکام شرعیہ نہیں ہیں جن پر عمل واجب ہوتا ہے۔
- امور عادیہ یعنی وہ روایات جن میں حضور نبی پاکﷺ کے ایسے کاموں کا تذکرہ ہے جو آپﷺ نے عادت کے طور پر کیے ہیں، عبادات کے طور پر نہیں کئے، اتفاقاً کئے ہیں، بالقصد نہیں کئے۔ جیسے چمڑے کے دسترخوان پر کھانا، لکڑی کے پیالے میں پینا اور کھجور کے درخت کی چھال بھرے بستر پر سونا وغیرہ۔
- مروجہ عام باتیں یعنی وہ روایات جن میں ایسی باتیں مذکور ہیں جس قسم کی باتیں سبھی لوگ کیا کرتے ہیں جیسے
- حدیث ام زرع جس میں حضور نبی پاکﷺ نے زمانہ جاہلیت کی گیارہ عورتوں کی اپنے شوہروں کے بارے میں گفتگو نقل کی ہے[5]۔
- حدیث خرافہ: ایک مرتبہ آپﷺ نے اپنی ازواج کے سامنے کوئی دلچسپ بات بیان فرمائی تو ایک بیوی صاحبہ نے عرض کیا یہ بات تو خرافہ کی باتوں جیسی ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتی ہو کہ خرافہ کون تھا؟ وہ قبیلہ بنو عذرہ کا ایک شخص تھا۔ زمانہ جاہلیت میں اس کو جنات گرفتار کر کے لے گئے تھے۔ عرصہ دراز تک وہ ان کے یہاں رہا۔ پھر اس کو وہ انسانوں میں چھوڑ گئے تو وہ لوگوں سے وہاں کے عجائبات بیان کرتا تھا۔ اسی وقت سے یہ محاورہ چل پڑا ہے[6]۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپﷺ دلچسپ باتیں بھی لوگوں کو سناتے تھے مگر وہ برحق ہوتی تھیں۔ جھوٹ، فسانہ یا غلط بات کوئی نہیں ہوتی تھی البتہ وہ کوئی امر شرعی نہیں ہوتی تھیں۔
- چند آدمی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ ہم سے رسول اللہﷺ کی حدیثیں بیان کیجیے۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں آپﷺ کا پڑوسی تھا۔ جب آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپﷺ مجھے بلا بھیجتے۔ میں آپﷺ کے لیے اس کو لکھ لیتا۔ آپﷺ کا حال یہ تھا کہ جب ہم دنیا کا تذکرہ کرتے تو آپﷺ بھی ہمارے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے اور جب ہم آخرت کا تذکرہ کرتے تو آپﷺ بھی ہمارے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے اور جب ہم کھانے کا تذکرہ کرتے تو آپﷺ بھی ہمارے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے۔ پس رسول اللہﷺ کی یہ ساری باتیں میں تم سے بیان کروں؟ یعنی کوئی موضوع متعین کرو تو اس سلسلہ کا ارشاد سناؤں۔ عام سوال کا جواب کیسے دوں[7]؟ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپﷺ عام باتوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔
- ہنگامی ارشادات یعنی وہ روایات جن میں کوئی ایسی بات مذکور ہو جس کا تعلق اس وقت کی خاص مصلحت سے ہو وہ تمام امت کے لیے لازم نہ ہو۔ ان ارشادات کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ میدان جنگ میں لشکر کی تنظیم و ترتیب کے بارے میں ہدایات دیتا ہے یا دوران جنگ کے لیے کوئ شعار مقرر کرتا ہے۔ یہ احکام وقتی ہوتے ہیں بلکہ اسی جنگ میں جس میں احکامات دئیے گئے ہیں، کوئی مناسب مشورہ سامنے آئے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور احکام بدل دئیے جاتے ہیں۔ جیسے جنگ بدر میں آپﷺ نے لشکر کو ایک جگہ اترنے کا حکم دیا۔ حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا اس جگہ کا انتخاب حکم خداوندی سے ہے یا یہ ایک جنگی تدبیر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایک جنگی تدبیر ہے۔ حضرت حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: پھر یہ جگہ مناسب نہیں۔ فلاں جگہ مناسب ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم نے ٹھیک مشورہ دیا ہے[8]۔
- کوئی خاص حکم اور فیصلہ کیونکہ ایسے احکام میں گواہیوں اور قسموں ہی کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ پس اگر وہ بدل جائیں یا ان سے قوی ذریعہ معلومات سامنے آئے تو حکم بھی بدل جائے گا[9]۔
- اس طرح کیئ بات امام ابن قتیبہؒ نے بھی کی ہے اور اس کی زیادہ تفصیل امام شاطبیؒ کے ہاں مل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ان تمام قسم کی احادیث / سنن کو عام طور پر ایک قسم سمجھا جاتا ہے مگر انڈونیشی علما احادیث / سنن کی اس تفریق کو مانتے ہیں اور ان کا عمل بھی ان کے مطابق ہے۔ اس لیے انڈونیشی علما عام طور پر مغربی لباس / مقامی لباس پہنتے ہیں۔ داڑھی نہیں رکھتے چونکہ ان کے ہاں حضور نبی پاکﷺ کا لباس اور داڑھی سنت تشریعی نہ تھی بلکہ سنت عادیہ تھی۔
یہ کچھ ایسے اصول ہیں کہ انڈونیشی علما اپنی تعبیرِ دین میں جن کی رعایت رکھتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں کہ مذہبی مسائل کے تعین و تنفیذ کے وقت وہ جن کا لحاظ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی دینی تعبیر نہ صرف معاشرے میں قبول کی جا رہی ہے بلکہ اس سے امن اور ترقی ملی ہے۔
6 – فکری اجتہاد کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ثبات و تغیر ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں یہ امر اسلام کے بارے میں بھی ایک حقیقت کے طور پہ موجود ہے۔بعض اصول مستقل نوعیت کے ہیں اور انہیں قرآنی اصطلاحات میں ’محکمات‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے توحید،نبوت، آخرت اور انسانی وقار، یہ دائمی ہیں۔ان میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوسکتا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔اس دائمیت کے ساتھ ساتھ بعض ایسی چیزیں ہیں جن میں زمانہ گزرنے سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔یہ تبدیلیاں بنی نوع انسان کی بقاء اور ارتقاء کے لیے بہت ضروری ہیں۔اسلام نے تبدیلیوں سے عہدہ برائی کے لیے اجتہاد کا تصور دیا ہے تاکہ ہم تہذیب انسانی کی تیز رفتار پیش قدمی کا ساتھ دے سکیں۔یہ تبدیلیاں سائنسی، معاشرتی ،اقتصادی اور فلسفیانہ آراء کے ارتقاء کی روشنی میں ہو رہی ہیں۔نامور سیاستدان و مدبر ،شاعر اور سکالر علامہ اقبال اس تصورِ اجتہاد کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
’ہمہ قسم کی زندگی کی حتمی روحانی بنیاد جیساکہ اسلام نے متشکل کی ہے لافانی ہے اور اپنا اظہار تنوع اور تغیر میں کرتی ہے۔حقیقت کے ایسے تصور پر مبنی معاشرے کو اپنی زندگی میں دوام اور تغیر کی اقسام کے ساتھ لازما ہم آہنگی اختیار کرنی چاہیے۔اس کے پاس اپنی اجتماعی زندگی کو باقاعدہ باضابطہ بنانے کے لیے لازما غیرمتبدل اصول ہونے چاہئیں۔کیونکہ ان کا غیرمتبدل ہونا مسلسل متغیر ہونے والی دنیا میں ہمیں قدم جمانے کی جگہ مہیا کرتا ہے۔دائمی اصولوں کے بارے میں جب یہ سمجھ لیا جائے کہ انہوں نے تغیر کے جملہ امکانات کو خارج کردیا ہے جوکہ ازروئے قرآن کریم اللہ تعالی کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے تو یہ ایک ایسا میلان ہوتا ہے جو اس چیز کو ساکن کردیتا ہے جو اپنی فطرت میں اساسی طور پہ متحرک ہوتا ہے۔یورپ کی سیاسی اور معاشرتی علوم میں ناکامی اول الذکر اصول کا اظہار کرتی ہے،جبکہ اسلام میں جمود جوکہ گزشتہ پانچ سو سال رہا، مؤخرالذکر اصول کا اظہار کرتا ہے۔پھر اسلام کی ساخت میں جو اصولِ حرکت ہے اسے اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کا مطلب یہ نہیں کہ نیا مذہب تخلیق کیا جا رہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کے مستقل اصولوں کی تعبیر کرنا اور انہیں ہر عہد میں لاگو کرنا ہے۔اجتہاد محض ایک فنی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ انسانی ضرورت اور زمانے کا تقاضا ہے۔ حضررت ابواسحاق شاطبی نے اپنی معروف کتاب ’الموافقات‘ میں لکھا ہے کہ اجتہاد کی ضرورت تاقیامت رہے گی۔کیونکہ انسان نے شریعت پر عمل کرنا ہے(الموافقات فی اصول الشریعہ:63)شریعت بنیادی اور وسیع تر اصول فراہم کرتی ہے لیکن چیزیں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور نئے نئے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ایسے مسائل کے حل کے لیے شریعہ کے بنیادی اور وسیع اصولوں کی نئی تعبیر اور ان کے اطلاق کے طریقوں کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔
ہمیں عہد حاضر میں عمومی اور کلی اجتہاد کی ضرورت ہے،جس کے نتیجے میں فکراسلامی کی تشکیلِ جدید کی ضرورت ہے۔حضرت اقبال نے 1929ء میں اپنی کتاب ” فکر اسلامی تشکیل جدید” [10] میں اس عظیم کام کو شروع کیا۔عہدحاضر شدید تقاضا کرتا ہے کہ اس تشکیل جدید کے عمل کو جلدازجلد آگے بڑھایا جائے تشکیل جدید کلی اجتہاد سے ہوتی ہے ۔
اجتہاد کا دروازہ بند ہوجانے کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شخصیت پرستی ہے۔مسلمان سابق ادوار کی شخصیات کے فیصلوں اور ان کی آراء سے انحراف نہیں چاہتے۔وہ ذہنی اور علمی تنقید کی حوصلہ فزائی نہیں کرتے اور نہ اس کی حمایت کرسکتے ہیں۔تاہم اس قسم کا طرز عمل اسلام کے دور اول میں نہیں ملتا۔ہماری فقہ کی ابتدائی تاریخ ایسی عصبیت کی عکاسی نہیں کرتی حالانکہ اول اسلام ایسا نہ تھا۔اول فقہ میں ایسا نہ تھا۔حضرت امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے پچاسی فیصد معاملات میں استاد سے اختلاف کیا اور آج کل فقہ حنفی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی آراء پر قائم ہے[11]۔ شاید اس سے بھی زیادہ نمایاں بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اس امر کی کافی مثالیں ہیں جن میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہﷺ سے اختلاف کرکے آپ ﷺ سے تبادلہ خیال کیا اور اپنی آراء پیش کیں۔
جہاں اجتہاد نہیں ہوتا وہاں زوال بلکہ تباہی آتی ہے۔ سید ابوالحسن علی ندوی ترکوں کی سلطنت کے زوال کے اسباب بارے لکھتے ہیں:
“سب سے بڑا مرض جو ترکوں میں پیدا ہوتھا وہ جمود تھا۔ جمود بھی دونوں طرح کا۔علم وتعلیم میں میں بھی جمود اور فنونِ جنگ اور عسکری تنظیم و ترقی میں بھی جمود۔ قرآن مجید کی آیت(الانفال: 60) انہوں نے بالکل فراموش کردی: مسلمانوں، جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کرکے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازوسامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ تعالی کے اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو اور حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ان کے حافظہ سے گویا محو ہوگیا تھا کہ” دانائی کی بات مؤمن کا گم شدہ مال ہے، جہاں اس کو مل جائے وہی اس کا زیادہ حقدار ہے”[12]۔ ایسی حالت میں کہ وہ یورپ کی حریف سلطنتوں اور قوموں کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ ان کو فاتح مصر حضرت عمو بن العاصؓ کی وصیت ہمیشہ پیش نظر رکنی چاہیے تھی جو انہووں نے مصر کے مسلمانوں کو دی تھی کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا کہ تم قیامت تک خطرہ کی حالت میں ہو۔ایک اہم ناکہ پر کھڑے ہو۔ اس لیے تم کو ہمیشہ ہوشیار اور مسلح رہنا چاہیے۔ کیونکہ تمہارے چاروں طرف دشمن ہیں اور ان کی نگاہیں تم پر اور تمہارے ملک پر لگی ہوئی ہیں”۔
علمی جمود اور ذہنی اضمحلال اس وقت صرف ترکی اور اس کے دینی و علمی حلقوں کی خصوصیت نہیں تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلامی مشرق سے مغرب تک ایک علمی انحطاط کا شکار ہے۔ دماغ تھکے تھکے سے اور طبیعتیں بجھی بجھی سی نظرآتی ہیں۔ اگر ہم احتیاطا آٹھویں صدی ہجری سے اس ذہنی اضمحلال کی ابتدا نہ کریں تو اس میں شک نہیں کہ نویں صدی ہجری وہ آخری صدی ہجری تھی جب جدتِ فکر، قوتِ اجتہاد اور ادب و شاعری، حعکت وفن میں ندرت اور تخلیق کے آثار نظر آتے ہیں۔
آج کے دور میں انڈونیشی تعبیر کو بہت اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ یہ مسلم دنیا، بالخصوص پاکستانی مذہبی طبقے کے لیے ایک نمونہ ہے جس سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ عصرحاضر میں کس طرح عوامی سطح پر دین اور دینی ادار کو مقبول بنائے رکھنا ہے، کس طرح لوگوں کو دین کے ساتھ جوڑ کے رکھنا ہے، رواداری کو جگہ دینی ہے اور غیرامتیازی معاشرے کی تشکیل کرنی ہے۔دیکھا جائے تو انڈونیشی علما اور عوام دین کی کسی نص کی مخالفت نہیں کرتے، کسی مظہر کو پس پشت نہیں ڈالتے۔ اس کے ساتھ مگر انہوں نے ایسے مذہبی فہم کو فروغ دیا ہے جس میں توسع ہے اور بے جا سختی نہیں ہے اور وہ عصری تقاضے پورے کرتی ہے۔ان کی اسی تفہیم کے سبب معاشرے میں اسلام کا احترام کیا جاتا ہے ،سماج میں توازن،رواداری اور ترقی کا عمل جاری ہے، علماء کا احترام کیا جاتا ہے،دینی تعلیم کا احترام کیا جاتا ہے۔ انڈونیشی علماء نے کلی اجتہاد کے فریضے کو انجام دے کر اسلام اور اپنے سماج کی بہت خدمت کی ہے۔وقت ہے کہ ہم انڈونیشی اسلام سے سیکھیں اور اپنے سماج میں امن، رواداری اور ترقی کے لیے کردار ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] صحیح مسلم
[2] صحیح مسلم
[3] صحیح مسلم
[4] جامع ترمذی، ابواب الجہاد
[5] صحیح بخاری، کتاب النکاح
[6] مسند امام احمد بن حنبل، شمائل ترمذی
[7] شمائل ترمذی
[8] البدایہ والنہائیہ، ج: 3، ص: 267
[9] رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2، ص: 448
[10] The Reconstruction of Religious Thought in Islam
[11] خطبات بہاولپور، ص:92
[12] کنزالعمال، رقم الحدیث: 8542