عسکریت پسندی کے نئے نظریاتی خدوخال کا تجزیہ کرتی ایک اہم کتاب

0

’عسکریت پسندی کا بیانیہ اور پیغامِ پاکستان‘ یہ عنوان ہے نوجوان دانشور اور عالم شمس الدین حسن شگری کی نئی شائع ہونے والی کتاب کا۔  یہ کتاب ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے جب اس کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس وقت ملک میں شدت پسندی کی لہر  عروج پر ہے  اور ملک  میں ہر فورم پر اس کی بات ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ یہاں  نیا نہیں ہے اوراس سے نمٹنے کے لیے کوششیں پہلے سے ہو رہی ہیں۔اسی طرح ، اس مسئلے کی تفہیم اور نظریاتی سدباب کے لیے کافی کچھ مواد سامنے آچکا ہے۔ لیکن یہ کتاب کئی حوالوں سے اپنے اندر کافی کچھ نیا لیے ہوئے ہے۔ عسکریت پسندی نئی نہیں ہے، لیکن اس نے نہ صرف انتظامی لحاظ سے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کی ہیں، بلکہ اس کے ساتھ نظریاتی اعتبار سے بھی  عسکریت پسندوں نے پہلے زیادہ مربوط بیانیے پیش کیے ہیں، جو یقینی طور پہ پہلے سے مختلف ہیں۔

اِس وقت عسکرریت پسند جماعتیں پہلے سے زیادہ طاقتور اور فکری لحاظ سے خود زیادہ منظم کیے ہوئے ہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ پاکستان اور خطے کی صورتحال پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں اور اسے عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے لیے وہ  ذرائع ابلاغ کے مختلف طریقوں کا بھرپوراستعمال کرتے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں ہے، کہ ہماری ریاست کے ذمہ داران  عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے مساعی بروئے کار لا رہے ہیں اور اس کے لیے متعدد فورم بھی قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاستی و غیرریاستی سطح پر کام کرنے والے ادارے عام طور پہ عسکریت پسندوں کے  ارتقاء پذیر ہوتے نظریات  کی نبض شناسی پر اتنا توجہ نہیں دے رہے جتنی ضرورت ہے۔

عسکریت پسندوں کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ اُردو اور انگریزی زبانوں کے علاوہ  دیگر مقامی زبانوں میں شائع ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر بھی ان مقامی زبانوں میں عام لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ مقامی زبانیں ہیں جنہیں عام طور پہ مرکزی میڈیا اور اس مسئلے پر کام کرنے والے ادارے  اہمیت نہیں دیتے یا بوجوہ  نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

شگری صاحب کی زیرتبصرہ کتاب کی خصوصیت  یہ ہے کہ اس میں ان ساری کمیوں کو پورا کیا گیا ہے۔ عسکریت پسندوں کے نئے بیانیے پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے، اس کا تعارف دیا گیا ہے اور اس  کا جواب بھی دیا گیا ہے۔  اس سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو عسکریت پسندوں کے نظریات کی تفہیم میں غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔کتنے ہی نوجوان ہیں جو مخصوص دینی نوعیت کی  اصطلاحات  کے سبب ان نظریات کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں اوران دفاع کر رہے ہوتے ہیں یا بعض تو ان گرہوں کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔

اس کتاب میں صرف عسکریت پسندووں کے تحریری مواد کا تجزیہ ہی نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے علاوہ بھی خطبات یا انٹرویوز کی شکل میں جو مواد سامنے آیا، اس پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی لحاظ سے عسکرریت پسندی کے  افکار کی تفہیم اور ان کے جوابات کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔

کتاب کے مصنف صرف عسکریت پسندی کے معاصر بیانیے  کو ہی موضوع نہیں بناتے ، وہ سیاسی اسلام کی تحریکات کے بنیاد مقدمات اور ان کے نظریات کے باہمی تعلق پر بھی بات کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اس مسئلے کی حقیقی جڑوں کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مسائل دراصل کہاں سے پیدا ہوئے ہیں۔ شگری صاحب  پاکستان میں سیاسی اسلام  کی تحریکات اور ان سے جڑے مسائل  پر دسترس رکھنے  والے چند گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر پہلے ہی ایک وقیع کتاب ’انتہاپسندی کا بیانیہ ‘ تصنیف کی ہوئی ہے۔

معاصر عسکریت پسندو کے نظریات کا محور صرف مذہبی مقدمات و اساسات نہیں ہیں، بلکہ کچھ سماجی اور خصوصا بین الاقوامی حالات و مسائل بھی اس کا حصہ ہیں۔ یوں یہ سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ  اس طرح کے گروہوں کی رسائی ہر قسم کے شعبوں اور ہر قسم کے افراد تک کیسے ممکن ہوجاتی ہے اور وہ ان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں۔

مصنف نے اس موضوع پر کسی ایک طبقے کی علمی  آراء  کو ہی  شامل نہیں کیا ہے، بلکہ اہل تشیع اورر دیگر طبقات کے آراء کو بھی شامل کیا ہے اور ان سب کے  فکری  تانے بانے  واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کون کس طرح اس معاملے میں اثرانداز ہوا ہے۔

اسی طرح ، وہ شخصیات جنہوں نے اس موضوع پر پہلے کام کیا ہے، ان کا تعارف بھی اس  میں شامل کیا گیا ہے۔

یوں ان تمام خصوصیات کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شگری صاحب کی یہ کتاب موجودہ حالات میں خاصی متعلقہ ہوجاتی ہے اور اس سے استفادہ کرنا بھی مطالعہ کرنے والے کے لیے فکری پختگی کا سبب بنے گا۔

پاکستان میں  جہاں اور بہت سے پہلوؤں پر کام ہورہا ہے ، اس کے ساتھ اگر عسکریت پسندوں کے ارتقاء پذیر ہوتے فکری ڈھانچے پر بھی کچھ توجہ دی جائے تو ان گرہوں کی نظریاتی کشش کو معاشرے سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

ادارہ ’انٹر نیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ اور اس کے سربراہ محمد اسرار مدنی  تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے امن وامان میں بگاڑ کا سبب بننے والے حقیقی مسائل پر خاص توجہ دیے ہوئے ہیں اور ایسے سلگتے موضوعات پر متعدد کتب شائع کرچکے ہیں۔ یہ  معاشرے کے لیے بڑی  خدمت ہے جو ایک عرصے سے کشیدگی، بدامنی اور داخلی تنازعات کا شکار ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان موضوعات پر مزید کام کیا جائے اور جو کام ہو رہا ہے اسے عام لوگوں میں، طالب علموں اور ان موضوعات سے دلچسپی رکھنے والوں تک پہنچایا جائے۔

اس کتاب کو نیچے دیے گئے لنک سے ڈائنلوڈ کیا جاسکتا ہے:

https://ircra.org/wp-content/uploads/2024/07/V8-AskariatPasandiKaByania.pdf

Publications