یہ انگریزی میں لکھی گئی کتاب The Prophet’s Heir کا اردو ترجمہ ہے۔ کتاب کے مصنف بین الاقوامی سطح پر معروف عالمی سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس ہیں، پروفیسر حسن عباس واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سینئر استاد ہیں۔
کتاب کا اردو ترجمہ زہرا عابد صاحبہ نے کیا ہے۔ جسے عکس پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ اس تقریب میں مختلف طبقات فکر سے اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، کتاب کے مصنف و مترجم کے علاوہ خرم دستگیر، ڈاکٹر شیریں مزاری اور افتخار عارف صاحب سمیت متعدد دانشوروں نے اسلامی تاریخ و سیاست کے اولین کرداروں میں سے اہم ترین کردار حضرت علی کی حیات و میراث پر مذکورہ کتاب کے تناظر میں پرمغز گفتگو کی۔
کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے:
پیش لفظ
تعارف
باب اوّل: اوائل اسلام اور اس کی مشکلات
باب دوم: علویے علی
باب سوم: وداع رسول اور ولایت کی سپردگی
باب چہارم: جانشینی کی تگ و دو اور استعماری اسلام
باب پنجم: علی بطور اسلام کے خلیفہ چہارم
باب ششم: میراث علی
حرف آخر : علی اور مستقبل اسلام
کتاب کا مطالعہ شروع کیا ہے، ابتدائی تاثر یہی ہے کہ کتاب کا ترجمہ رواں ہے، بین الاقوامی سیاسیات کے ماہر کے طور پر مصنف نے مغربی قارئین کو پیش نظر رکھ کے شیعہ سنی قدیم مآخذ کی روشنی میں اسلامی تاریخ کے سب سے موثر، صاحب علم و حکمت، سماجی انصاف کے علمبردار، بطور چوتھے خلیفہ اصولی سیاست کے امین، پیغمبر اسلام کے سب سے قریبی اور وارث اور تصوف و تشیع کے سرچشمے کے طور پر حضرت علی کا تعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔
کتاب میں شیعہ سنی تقسیم کے حوالے سے فرقہ وارانہ حساسیتوں پر محیط تاریخی حقائق و واقعات کو بیان کرتے ہوئے احتیاط اور توازن سے کام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی فیملی تین نسلوں سے بین المسالک شادیوں کی مضبوط روایت رکھتی ہے، اس لیے انہیں امت کی کمزور رگوں کا خوب اندازہ ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں بھی وہ حضرت علیؑ کو متحد کرنے والی مشترک شخصیت کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور علیؑ جیسی بڑی شخصیت کو مسلمانوں میں باعث تقسیم و تفریق ہونے پر بار بار شکوہ کناں نظر آتے ہیں اور عقیدتوں اور تعصبات کی زنجیروں سے آزاد ہو کر حضرت علیؑ کو بار دیگر دریافت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
کتاب پر تفصیلی تبصرہ مطالعے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے اپنی حالیہ کتاب “جمہوریت اور پاکستانی نوجوان” ڈاکٹر صاحب کو بطور تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے کمال محبت سے قبول فرمایا اور بہت خوشی کا اظہار کیا اور خوب حوصلہ افزائی کی، اور تقریب کے آخر میں ان سے ان کی کتاب کا دستخط شدہ نسخہ وصول کیا۔
ڈاکٹر حسن عباس صاحب کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات دو ہزار سترہ میں نیویارک میں ہوئی تھی، پھر ایک دفعہ افغانستان میں سفارتی و عسکری ذمہ داریوں کے لیے تعیناتی کے لیے ان کے زیر تربیت سینئر امریکی عہدہ داران کے وفد کے ساتھ ہماری خصوصی نشست رکھ لی، ہم نے ان کے ساتھ اپنے تجربات و خیالات شیئر کیے اور ثقافتی تنوع اور حساسیتوں سے متعلق ان کے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے۔
دو ہزار اٹھارہ میں ہم نے امام الخوئی فاؤنڈیشن اور عتبہ عباسیہ کے اشتراک سے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی، اس کانفرنس میں پروفیسر حسن عباس بھی سپیکرز میں شامل تھے۔پھر کئی دفعہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ان کے دفتر میں ملاقاتیں رہیں، ایک دفعہ برادر اسرار مدنی صاحب کو لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنی تصنیفات سمیت مختلف موضوعات پر کتابوں کے تحفے دیے۔ اپنے گھر میں عید میلاد النبی کا پروگرام رکھا تھا تو اس میں مجھے بطور سپیکر مدعو کیا تھا۔
وہ جنوبی ایشیا کے سیاسی و سلامتی امور کے ماہر شمار ہوتے ہیں، متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں، اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی کانفرنسز میں تجزیے اور خطابات کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کے لیے انہوں نے عراق، سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کے سفر کیے۔
کتاب حاصل کرنے کے لئے عکس پبلی کیشنز کے محمد فہد بھائی سے اس نمبر پر رابطہ کریں:
03004827500