عالم اِسلام میں پاکستان مدارسِ دینیہ کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کیونکہ یہ مدارس دین کے فروغ اور احیاء کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ان کے اس نمایاں کردار کے باوصف یہ بھی ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وقت کے اعتبار سے جو تبدیلیاں اہم ہیں ان پر سوچ بچار کی جائے۔ مدارس کا مسئلہ صرف نصاب کا ہی نہیں ہے، بلکہ انتظامی،منہج تدریس،تحقیق اور تنقیدی شعور کے حوالے سے بھی کئی چیزیں قابل توجہ ہیں۔ اس مضمون میں اختصار کے تمام جزوی امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔مضمون نگار ماہر تعلیم، مصنف اور کالم نگار ہیں۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
انتظامی حوالے سے مسائل اور مشکلات
ایسی انتظامیہ کسی بھی اعتبار سے کامیاب اور مؤثر انتظامیہ قرار نہیں دی جاسکتی جس کی بنیاد طلبہ پر محض دباؤ اور سختی پر ہو۔ مدارس کا انتظام و انصرام اور نظم و ضبط ہی وہ بنیادی پہلو ہیں جو ان اداروں کی تعلیمی تدریسی اور سماجی فضا کو مستحکم اور بار آور بنا سکتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی نرم خوئی،شگفتہ روئی، بچوں سے شفقت، احترام انسانیت حتی کہ جانوروں تک سے صلہ رحمی کا رویہ ہیں یہ سبق دیتا ہے کہ عام انسان بہر حال نرمی کے حق دار ہیں، لیکن جو بچے دین حق کی خدمت اور اس کا فہم حاصل کرنے آئے ہیں وہ تو اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے مہمان ہیں اور ان کے ساتھ عمومی رویوں میں مزید احتیاط اور توازن کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس میں انتظامی مسائل کے اہم پہلو درج ذیل ہیں۔
تدریسی عملے کے مسائل
دینی مدارس میں سب سے مرکزی عنصر اساتذہ کرام ہوتے ہیں جو اکثر اپنے آبائی علاقے سے دور ، نہایت کم مشاہرے پر، سخت محنت اور بڑی باقاعدگی کے ساتھ طالب علموں کے سامنے دینی علوم کے رموز کھولتے ہیں۔لیکن یہی تدریسی عملہ کچھ تو وسائل کی کمی کے باعث اور کچھ انتظامیہ کی پسند و ناپسند کے سبب، سخت معاشی افسردگی اور ذہنی دباؤ کا شکر رہتا ہے۔ ان کے ماہانہ مشاہروں میں سالانہ ترقی یا اچھی کاکردگی پر کسی لگے بندھے اصول کے تحت رقم کے اضافے کا کوئی ضابطہ نہیں پایا جاتا۔ یہ چیزیں ان اساتذہ کرام کی بلند نگاہی کو مجروح کرتی اور عزم میں ضعف لاتی ہیں۔ اس لئے مختلف وفاقوں کو اپنے اساتذہ کرام کے تعلقات کے حوالے سے ترقیاتی فارمولے کا تعین کرنا چاہیے۔
طلبہ کوگروہ بندی سے بچانا
وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت سے مدارس ، انتظامیہ اور اساتذہ کی ایک طرح کی چپقلش اوربعض اوقات گروہ بندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسا ماحول مدارس کی مقدس اور علمی فضا کو زک پہنچانے میں خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ مدارس میں طلبہ اپنے محبوب اور محترم اساتذہ کے زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں۔ یوں افرا ط و تفریط کی فضا پیدا ہوجانے کا بہرحال امکان موجود رہتا ہے، اسی طرح انتظامیہ اور اساتذہ میں کچھ لوگ طلبہ کو حلیف یا حریف بنانے کا کام شروع کردیتے ہیں۔ مدارس میں طلبہ کا اقامتی طالب علم ہونا اور اس صورتحال کے پیدا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔
باہمی تعاون کی فضا کا قیام
بعض مدارس میں انتظامیہ اور مدرسین، اور طلبہ اور بعض جگہوں پر انتظامیہ، مدرسین اور طلبہ تینوں کے باہمی تعلقات اس طرح استوار نہیں کہ تعلیم و تربیت کے مقاصد کو حاصل کرنا آسان ہو۔ مشکلات کی یہ وجہ بالکل ہی داخلی نوعیت کی ہے۔ اگر انتظامیہ، مدرسین اور طلبہ تین ستونوں کی طرح مدارس کی بنیاد اور نشو و نما میں کردار ادا کریں تو مدارس کی صورتحال کی ہر لحاظ سے بہتری کی منزل دور نہیں۔
جمہوری روایات کی پاسداری
عام طور پر ایک دینی مدرسہ مشترکہ تعاون کی ایک تنظیم یا اجتماعی کاوش کا ایک مظہر ہوتا ہے جس میں کئی لوگ اعانت کرتے ہیں اور متعدد لوگ انتظام و انصرام کے علاوہ تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مدرسے کی دینی، تدریسی اور انتظامی فضا کو بہتر اسلوب پر نشو نما دینے کے لیے شورائی فضا کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ متعلقہ امور میں ان سب لوگوں کو مشاورت میں رکھا جائے تاکہ مدارس پر ایک طرح کی آمریت زدہ معاشرے کی چھاپ نہ لگنے پائے۔
قدیم طلبہ کا مدارس سے عدم تعلق
جس طالب علم نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے، ان دیواروں، جائے نمازوں، الماریوں، اساتذہ کرام الغرض مدرسے کے کونے کونے سے انہیں ایک عقیدت اور وابستگی ہوتی ہے۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے ان قدیم طلبہ کی انجمنیں مدرسے کی مالی، انتظامی اور سماجی مدد کے لئے معاونت میں ایک مدد گار عامل بن سکتی ہیں اس لئے مناسب ہے کہ مدرسے کی انتظامی اور مالی حالت کو بہتر بنانے کے لئے متعلقہ مدارس کے قدیم طلبہ کی انجمن سازی کو رواج دیا جائے۔
تعلیمی مسائل و مشکلات
دینی مدارس کے مسائل میں تعلیمی مسائل کو اولین اہمیت حاصل ہے جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:
کیرئیر پلانگ کی ضرورت
دینی مدارس میں فرد کی آئندہ زندگی کے بارے میں اکثر اوقات واضح تصور کی کمی ایک سنگین مسئلے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ پہلے تو طالب علم اپنے اساتذہ کے اشارات اور احکامات کی روشنی میں طے کرتا تھا کہ اسے کہاں اور کس شکل میں خدمات سرانجام دینی ہیں لیکن اب پیشہ تدریس کے محدود امکانات اور مدارس کی گروہ در گروہ تقسیم نے ان امکانات کو بڑی حد تک کم کردیا ہے۔ اس لئے جو طالب علم قدرے پختگی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اسے روز گار کی فکر دامن گیر ہوتی ہےے اس کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم کے آخری سالوں میں طلبہ کا رجحان دیکھ کر اس کے روز گار کے لئے اسے رہنمائی فراہم کی جائے، چاہے وہ باقاعدہ کسی منظم ادارے کے تحت ہو یا انفرادی طور پر ہو۔
نصاب تعلیم کا مسئلہ
لازمی طور پر نصاب ایسا ہونا چاہیے جس کا فارغ التحصیل طالب علم ، دین اسلام کی تبلیغ کے جذبے سے سرشار اور حکمت تبلیغ کے رموز سے آشنا ہو، اسلامی علوم پر گہری بصیرت سے واقفیت ہو اور معاصر جملہ افکار سے اس حد تک واقف اور شناسا ہو کہ دین اسلام پر گفتگو کرتے وقت مخاطب کے ذہنی پس منظر کی رعایت سے ایمان، اعتماد اور دلیل سے بات کرسکتا ہو۔ درس نظامی بھی کسی نہ کسی شکل میں تبدیلی کے مرحلے سے گزرتا آیا ہے اب بھی درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے دور رس اور انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
کتب کی بجائے فن پر توجہ
مدارس میں فن کی کتابوں پر اس طرح توجہ دی جاتی ہے کہ استاد کی تمام تر توجہ کتاب کے کچھ صفحات حل کرنی کی طرف ہوتی ہے۔ ادب، عربی، حدیث، فقہ اور کلام کو کتابوں کے متن کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے، جبکہ قرآن کریم اس حق سے محروم رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ طالب علم میں متعین کتاب کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس فن کا ذوق بھی پیدا ہو، وہ مختلف کتابوں سے متعلقہ مواد کا تقابلی مطالعہ کرنے کے قابل ہوجائے اور آئندہ کے لیے مزید مطالعہ، تحقیق اور جستجو کی راہ آسان ہوجائے۔
طلبہ پر تشدد کا پہلو
دنیا بھر کی درس گاہوں میں رفتہ رفتہ طالب علم پر تشدد اورسزا دینے کا چلن اگر پوری طرح ختم نہیں ہوا تو اس میں بہت حد تک کمی ضرور آچکی ہے۔ اگر اکا دکا واقعات نظر آتے ہیں تو اس کےنتیجے میں بھی طالب علم کی نفرت کا ہدف استاد کے ساتھ خود تعلیم بھی بنتی ہے۔ ہمارے حفظ قرآن کےمدارس میں تشدد کا سہارا اب بھی لیا جاتا ہے ۔ان سزاؤں اور اس طریقہ کار کا اسلامی اخلاقیات کو مسلمہ اصولوں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہوتا۔ دینی مدارس میں نظم وضبط کی آڑ میں اتنی سختی اور کھردرے پن کو رواج دیا گیا ہے جس سے خود طلبہ میں سختی اور اکھڑ پن جنم لیتا ہے اور ان کا مزاج خشک ہوجاتا ہے ۔
خاص وضع کا التزام
مدرس میں طلبہ کی ظاہری وضع قطع کی ایک خاص نوع پر اصرار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ خود کو معاشرے سے کٹا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ میں خود اعتمادی کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے۔ لہذا، طلبہ کو لباس وغیرہ اور ظاہری وضع میں ایک مخصوص طرح کے طرز کا پابند کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
اختصاص کی ضرورت اور مسائل
مدارس کے تعلیمی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ طلبہ کے اختصاص(Specialization ) کا ہے۔ یہ شعبہ اکثر مدارس میں موجود نہیں اور اگر ہے تو عدم توجہ کا شکار ہے۔ بڑے مدار س اگر مرکزی موضوعات(قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تقابل ادیان) میں سے ایک یا دو موضوعات کے مراکز اختصاص قائم کرلیں اور طلبہ کی رہنمائی کے لیے قدیم و جدید علوم کے ماہر، اہل اور لائق اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں تو امکانات کی ایک نئی دنیا پیدا ہوسکتی ہے۔ یوں اگر طالب علموں کو ان کے ذوق اور پسند کے مطابق تحقیق و مطالعہ کے مواقع فراہم کریں تو اس سے ٹھوس بنیادوں پر افرادی قوت کی تنظیم اور تیاری ممکن ہے۔
سطحیت سے گریز
مدرسے میں تعلیم و تعلم کی صحت مند فضا کو پراوان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسے میں ٹھوس علمی ماحول کا چلن ہو۔ محض سرسری اخذ و اکتساب کے ذریعے روایتی مضمون نویسی یا خام صحافت کاری کے شوق کے پروان چڑھانے کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے بلکہ اس کی جگہ ٹھوس علمی مواد پیش کرنے اور علمی ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ سطحی، سرسری اور عقبی دروازے کی صحافت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے تاہم دور جدید کی واقفیت اور ابلاغ عامہ کے فکری اور عملی مظاہر پر خصوصی لیکچروں کا اہتمام ضروری ہے۔
تربیتی مسائل و مشکلات
دین میں تعلیم کا تصور محض معلومات کی منتقلی تک محدود نہیں، بلکہ یہ تصور تعلیم و تربیت سے موسوم ہے۔ یہ سمجھ لینا کم فہمی کی بات ہے کہ دینی مدارس چونکہ ہر وقت قال اللہ اور قال الرشولﷺ کا ورد جاری رہتا ہے اور طلبہ ظاہر شریعت پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے انہیں کسی خاص تربیت کی ضرورت نہیں۔ ذیل میں دینی مدارس میں تربیت کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
نظافت و نظم
چیزوں کے رکھنے اور استعمال کرنے کے طریقے کے ساتھ ساتھ خصوصی نظم اور نظافت کا ذوق پیدا کرنا بھی اساتذہ اور مدرسے کے اجتماعی ماحول کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے محض وسائل نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور توجہ و شوق کی ضرورت ہے۔
طرز خطابت میں اصلاح کی ضرورت
خاتم الانبیاء نبی کریمﷺ پورے وقار کے ساتھ، سکینت اور پوری توجہ کے ساتھ ، سامعین کی نفسیات اور ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر بات سمجھایا کرتے اور آپﷺ کا انداز گفتگو ایسا تھا جیسے منہ مبارک سے موتی جھڑ رہے ہوں ۔مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ عوام، جن میں سے بیشتر شریعت اور مزاج شریعت سے بے خبر ہوتے ہیں، صرف ایسے مقرر کی تقریر سننا پسند کرتے ہیں جو شعلہ بیان ہو، اور الفاظ کا جادو دکھا سکے۔ علماء کی ایک بڑی تعداد اپنے کلام و بیان میں شائستگی، حلم اور خدا ترسی کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے علماء کی مقبولیت کا دائرہ وسعت اختیار نہیں کرپاتا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کو سوچنا چاہیے، طلبہ کی تربیت کی جانی چاہیے اور واعظین و خطباء کے ساتھ مذاکرہ جاری رکھنا چاہیے تاکہ ان کی تقریر کے نتیجے میں آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔
ہم نصابی سرگرمیاں
عموماً دیکھا گیا ہے کہ دینی طلبہ اگر اسکولوں میں پڑھنے والے ہم عمر طلبہ سے ربط رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اگر دینی مدارس والے طلبہ کے ساتھ میل جول رکھیں تو اکثر والدین پریشان ہو جاتے ہیں کہ کہیں ہمارا بچہ مولوی نہ بن جائے حالانکہ دونوں اعتراف کا یہ رویہ درست نہیں۔ دینی مدارس کے طالب علموں کی متوازن ہم نصابی سرگرمیوں کو نصابی اور درسی مشغولیات سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان ہم نصابی سرگرمیوں میں خطابت، تحریر، ورزش، کھیل کود اور مارشل آرٹس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چیزیں طلبہ میں مسابقت، ہمت،حوصلے اور جرات کی افزائش کے لیے اشد ضروری ہیں۔ اسی طرح بین المدارس مذاکروں اور مباحثوں کا اہتمام بھی طلبہ کی صلاحیتوں کی نشونما میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
کتب خانوں سے تعلق
طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کے محورو مرکز کے طور پر سب سے اہم چیز لائبریری یا کتب خانہ ہے۔ اکثر دینی مدارس کی لائبریاں صرف اساتذہ کرام کی تدریسی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اور انہیں اساتذہ کرام ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیں کہ ان لائبریریوں کو وسعت دی جائے، ان میں وہ تمام کتب مہیا کی جائیں جنۃہیں طلبہ اپنے میں گہرائی پیدا کرنے کے لئے پڑھیں اور ان میں ہم عصر زندگی کا فہم و ادراک بھی پیدا ہو۔ دینی مدارس کے طلبہ کو اعلی درجے کی علمی اور دینی کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ عمدہ سفر ناموں، تاریخ، سوانح، تذکرے، شاعری اور ناولز کا مطالعہ بھی کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں طلبہ کو پبلک لائبریریوں کا رخ دکھانا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے، وہاں ان کے لیے اجرائے کتب کو یقینی بنایا جائے اور انہیں مراجع کی تلاش اور کتب سے استفادے کے طریقے بھی سکھائے جائیں۔
تحقیقی و تصنیفی میدان میں اصلاح
جہاں دینی مدارس تحقیقی و تصنیف کے میدان میں بہت عمدہ اور نفع بخش خدمات انجام دے رہے ہیں وہاں گاہے بہ گاہے کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں جنہیں تحقیق و تالیف کے میدان میں دینی مدارس کی کارکردگی کے منفی پہلور سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز دی ہیں۔ ذیل میں ان کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔
تحقیق و تصنیف کے میدان میں دینی مدارس کے لیے قابل اصلاح امور :
- دینی مدارس میں تحقیق و مطالعہ کے حوالے سے مسلکی وابستگی اور شخصی عقیدت اور ترجیحات میں فیصلہ کن اولیت حاصل ہے، زیادہ تر وقت انہی دو ترجیحات میں وقف ہوجاتا ہے اور ترجیحات کے بعد کے مراحل کے لئے اکثر اوقات وقت اور صلاحیت دونوں میں گنجائش کم رہ جاتی ہے۔
- فقہی اور مسلکی مباحث کے حوالے سے باہمی مناظرہ و مباحثہ میں افہام و تفہیم اور تطبیق و مفاہمت کے بجائے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا ذوق غالب ہوتا ہے اور اس کے لئے طعن و تشنیع اور تحقیر و تمسخر کی زبان استعمال کرنے سے بھی بسا اوقات گریز نہیں کیا جاتا۔
- تحقیق و مطالعہ کا جدید اسلوب، طریق کار، ذرائع اور بین الاقوامی سطح کی علمی و تحقیقی اداروں کے کام اور طرز سے استفادہ دنی مدارس کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک ابھی تک ایک شجر ممنوع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ صرف بین الاقوامی زبانوں سے نا واقفیت نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بھی اس کا باعث ہیں کہ ہمیں دنیا کے تمام حلقوں پر علمی اور فکری برتری حاصل ہے اور ہمیں کسی دوسرے حلقہ کے علمی کام سےواقف ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
- دینی مدارس میں عالم اسلام کے عامی حلقوں کی تحقیقات، دوسرے مسالک کے علمی کام اور غیر روایتی علمی مراکز کی تحقیقی مساعی سے استفادے کو اپنی نفسیاتی برتری کے منافعی تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بعد اور فاصلہ رکھنے کو بھی تحفظاتی حکمت عملی کا ناگزیر حصہ بنا لیا گیا ہے۔
- بڑے مدارس کو دیکھتے ہوئے بھیڑ چال کے معاشرتی مزاج کے باعث اب جگہ جگہ دار الافتاء قائم ہو رہے ہیں اور ان کا دائرہ ضرورت سے زیادہ پھیلتا جا رہا ہے جس سے فتوی کی اہمیت اور معیار دونوں متاثر ہو رہے ہیں حالانکہ اس کے لیے ایک مخصوص تعلیمی قابلیت، مبلغ علم اور ذہنی سطح کی ضرورت کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔
- اجتماعی اور قومی مسائل میں بھی تحقیق و مطالعہ اور علمی رائے کے اظہار کے لیے مسلکی دائرے میں پابند رہنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور ایسی روایت ابھی جڑ نہیں پکڑ سکی کہ کسی اہم قومی مسئلہ پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام بیٹھیں، مشترکہ طور پر مطالعہ و تحقیق کا اہتمام کریں اور باہمی مشاورت کے ساتھ اجتماعی رائے کا اظہار کریں۔ اس سلسلے میں 3 علماء کرام کے 22 دستوری نکات اور عقیدہ ختم نبوت و ناموس رسالتﷺ کے ناگزیر تقاضوں پر اتفاق کے سوا غیر سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر کوئی اہم کام گزشتہ نصف صدی کے دوران میں ہماری دینی تارخ کا حصہ نہیں بن سکا۔
- دینی مدارس میں تحقیق و تالیف کے ذوق اور صلاحیت کی آبیاری کے لیے کوئی اجتماعی ادارہ جاتی نظم موجود نہیں۔ یہ کام زیادہ تر شخصی رجحان اور ذوق کار کا مرہون منت ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی، سرپرستی اور نگرانی بھی شخصی طور پر ہوتی ہے۔
- دینی مدارس میں لائبریریوں کا نظام نا گفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند مدارس کے علاوہ اکثر مدارس میں یا تو لائبریریاں ہی موجود نہیں اور اگر موجود ہیں تو ان میں ضرورت کی اہم کتابیں، بالخصوص مختلف موضوعات پر حوالہ کی کتابیں میسر نہیں ہیں۔ کتابوں کے انتخاب میں شخصی اور مسلکی ذوق کا غلبہ ہوتا ہے اور اگر کسی مدرسہ کی لائبریری میں کچھ کتابیں پائی بھی جاتی ہیں تو ضرورت، وقت اور سہولت کے مطابق اساتذہ و طلبہ کی ان تک رسائی نہیں ہوتی۔
- انسانی سوسائٹی کا معاشرتی ارتقاء ، تاریخ، نفسیات، تعلقات عامہ، سیاسیات، معاشیات، تہذیب و ثقافت اور دیگر عمرانی نا صرف دینی مدارس کی تدریس، تحقیق اور مطالعہ سے خارج ہیں بلکہ کہ ان کی اہمیت و ضرورت کا احساس ابھی تک اجاگر نہیں ہوسکا جبکہ خود دینی مدارس کے قیام کے مقصد اور ان کے اہداف کے حوالے سے یہ علوم انتہائی ضروری ہیں۔
- زبانوں کا مسئلہ دینی مدارس میں سب سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی بات تو ایک طرف، عربی زبان بھی صرف کتاب فہمی تک محدود رہتی ہے اور دینی مدارس میں سال بہ سال تک پڑھائی جانے والی اس زبان میں فی البدیہ گفتگو، خطاب اور مضمون نویسی کی صلاحیت سے فضلاء کرام کی غالب اکثریت محروم رہتی ہے اور اس سے بھی زیادہ مظلوکیت کا سامنا اردو زبان کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ بطور زبان نہیں پڑھائی جاتی، اردو زبان کی اصطلاح ، جدید علوم سے آشنائی، محاوروں، ضرب الامثال اور اشعار کے برمحل استعمال کی تربیت اور سلامت و شگفتگی کا ذوق بیدار کرنے کا کوئی نظم و اہتمام موجود نہیں ہے۔ بالخصوص مروجہ صحافتی زبان اور اتلوب تو سرے سے دینی مدارس کے ماحول میں اجنبی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھی خاصی علمی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ بھی سادہ اردو میں مافی الضمیر کے اظہار کے لئے دو تین صفحات کا مختصر مضمون لکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ [1]
ڈاکٹر احسن اختر ناز(شعبہ ابلاغیات بنجاب یونیورسٹی) کی رائے میں دینی تعلیمی اداروں اور مدارس کو تحقیقی و تصنیفی میدان میں درج ذیل اصلاحات کی ضرورت ہے۔
- دینی رسائل و جرائد کے ایڈیٹروں اور اہل قلم حضرات پر مشتمل ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جانا چاہیے جو انہیں وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کو سمجھنے اور صرف قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنے میں مدد دے سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتحاد ملت اسلامیہ پر عملاً زور دینا بھی ضروری ہے۔ ان کی ایک الگ مجلس بھی بنائی جاسکتی ہے۔
- دینی رسائل سے مختلف فرقوں کی اجارہ داری ختم اور ان کا دائرہ اثر و وسیع ہونا چاہیے۔
- دینی رسائل کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے پرچے کی متعلقہ انتظامیہ کو سفارش کی جائے کہ وہ اپنے عملے سے صرف تعلیم یافتہ صحافی اور تربیت یافتہ افراد ہی کو ملازم رکھیں تاکہ وہ ان رسائل کو مرتب کرتے وقت تکنیکی اور فنی پہلوؤں کو مد نظر رکھ سکیں۔ ہر رسالے کے سرپرست کو چاہیے کہ وہ ایم اے ابلاغیات(صحافت) عملہ رکھے یا اپنے افراد کو یہ ڈگری حاصل کرنے کا موقع اور وسائل فراہم کرے۔
- نیشنل بک فاؤنڈیشن یا صحافتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ انرسائل و جرائد میں کام کرنے والے عملے کے لیے مختلف تربیتی کورسز کا انعقاد کریں، جنمیں ایڈیٹروں، رپورٹروں اور مترجمین کو مزید تربیت دی جائے تاکہ وہ مجلاتی صحافت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کرسکیں۔
- دینی رسائل کی طباعت و اشاعت کے معیار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
- دینی رسائل کے مواد کی تربیت جدید صحافتی رجحان کے مطابق کی جانی چاہیے۔
- دینی رسائل کو عوام الناس کے لئے زیادہ فائدہ مند بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں جزوی اور فروعی مسائل پر زور دینے کی بجائے مشترک قدروں پر ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے اور مختلف پہلوؤں میں مثبت اور عدم جارحیت کا انداز اختیار کیا جائے۔
- دینی رسائل کے مندرجات اور زبان کو جدید تعلیم یافتہ ذہن اور نوجوان نسل کے لئے پرکشش، آسان اور دلچسپ بنایا جائے۔
- دینی رسائل میں ہمارے معاشرے کے حقیقی مسائل کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کرنے پر زور دیا جائے تاکہ عام قارئین ان کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو محسوس کرسکیں۔
- حکومتی سرپرستی کے علاوہ ایڈورٹائزینگ ایجنسیوں کو بھی ان رسائل کو اشتہارات دینے چاہئیں تاکہ ان کی حالت بہتر ہو سکے۔ [2]
رویہ اور طرز فکر میں اصلاح
ذہنی و فکری برتری کا ماحول
دینی مدارس میں اساتذہ و طلبہ میں ذہنی اور فکری برتری کا ایک خاص ماحول ہے جس نے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے گرد رکاوٹوں کی بہت سی بلند و بالا دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ دینی مدارس کو اس ماحول سے نکلنا ہوگا اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے سوا اور لوگ بھی دنیا میں رہتے ہیں اور وہ بھی عقل اور علم تک رسائی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کی رائے سے تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن سرے سے ان کےوجود سے انکار کر دینے کا حق دینی مدارس کو حاصل نہیں۔ دینی مدارس کو درج ذیل دینی سطح کے علمی کاموں تک رسائی کو اپنے اہداف و مقاصد میں ضرور شامل کرنا چاہیے اور ان کے طریق کار سے ستفادہ کرنا چاہیے:
- بین الاقوامی سطح پر مسلم اور غیر مسلم تحقیقاتی ادارے جو دینی مدارس کی دلچسپی کے موضوعلات پر کام کر رہے ہیں اور ان کی علمی کاوشیں مختلف حوالوں سے سامنے آرہی ہیں۔
- پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے علمی ادارے اور تحقیقاتی مراکز جو ان موضوعات پر کام میں مصروف ہیں۔
- دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کی علمی تحقیقات اور مساعی جو جدید پیش آمدہ مسائل پر علمی جدوجہد کررہے ہیں۔
مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت
دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو الگ الگ طور پر اور پھر مشترکہ فورم پر اجتماعی حیثیت سے بھی اس صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے اور خود احتسابی کی جذبہ کے ساتھ ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی چاہیےجن کے باعث آج ہمارے دینی مدارس علوم دینیہ میں گہرا رسوخ رکھنے کے باوجود تحقیقی و تصنیفی میدان میں معاصر اداروں سے بہت پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔
نظام تعلیم و تربیت کی اصلاح
یہ درست ہے کہ یہ دور Specialization یعنی تخصص کا دور ہے۔ ایک مدرسہ بیک وقت علوم دینیہ کے ماہرین اور جدید سائنس کے گریجویٹ پیدا نہیں کرسکتا جیسا کہ جدید یونیورسٹی کے سائنسدان سے ایک اچھا عالم دین ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن اس میں شک نہیں کہ آج مدرسے اور معاشرے میں رابطے کی کمی کا گھمبیر خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ مدرسہ اپنی مخصوص فضا ، زبان اور مسائل میں گھرا ہوا ہے اور معاشرہ ا س ساری فضا سے لاتعلق ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی مدرسہ اور معاشرہ ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ دینی مدارس کے نظام تعلیم و تربیت کو زمانے سے پوری طرح ہم آہنگ کرنے کے لئے مناسب ہے کہ درج ذیل اقدامات کیے جائیں۔
- مسلک پر زور دینے کی بجائے قرآن حکیم کی تعلیم و تدریس ایک عالمگیر کتاب ہدایات کی حیثیت سے کی جائے اور سنت اور سیرت یعنی آپﷺکی شخصیت کا مطالعہ ایک عالمگیر ہادی کے طریق زندگی کے طور پر کیا جائے۔
- فقہ اور اصول فقہ کے مضمون کے ساتھ مروج قوانین اور ان کے ارتقاء کا مطالعہ بھی کیا جائے تاکہ مدرسہ امانت دار وکلاء اور جج فراہم کرسکے۔
- ان سب علوم کی تنظیم و ترتیب(Classification and Codification ) اور ان مضامین میں نت نئی معلومات سے آگاہی کے لئے کمپیوٹر کا استعمال بھی دینی مدارس کے طلبہ کے لئے اعتماذد کا باعث ہوگا لہذا یہ مضمون بھی داخل نصاب ہونا چاہیے۔
- انگریزی زبان جو اب انگریز کی زبان نہیں رہی بلکہ عالمگیر زبان بن چکی ہے، لازمی مضمون کی حیثیت سے مدارس میں پڑھائی جائے۔
- اسلامی معاشیات کو شامل نصاب کرکے جدید اصلاحات میں پڑھا اور سمجھا جائے یہ مقصد اسلامی اور جدید معاشیات کے تقابلی مطالعہ کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ مدارس کے گریجویٹ غیر سودی بینکاری کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔[3]
اس کے علاوہ دینی مدارس کے طلبہ کے ذوق، ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے جس قسم کی اصلاح کی ضرورت ہے، اس کے اہم عنوانات یہ ہوسکتے ہیں:
- ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر۔ خاص طور پر انہیں عوام میں درس قرآن کے طرز اور ذوق سے بہرہ ور کرنا۔
- غیر اسلامی ادیان اور فرق باطلہ سے تعارف اور ان میں مسائل میں مکالمہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان مذاہب کی تاریخ، مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت، متنازعہ معاملات اور ان کی موجودہ پوزیشن سے متعارف کرانا بھی ضروری ہے، تاکہ باہمی معاملات کی صحیح پوزیشن سامنے آئے۔
- صرف، نحو، میراث اور دیگر فنون کے مطالعاتی اور تعارفی دورے۔
- موجودہ دور میں اسلامی کی دعوت و تعارف کی ضروریات اور تقاضوں سے آگاہی۔
- عربی بول چال اور تحریرو تقریر کی مشق اور اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے عملی تربیت۔
- موجودہ فکری تحریکات کے فکری اور تاریخی پس منظر اور ان کے نقصانات سے آگاہی۔
- اصول فقہ ، اصول تفسیر اوراصول حدیث کے تعارفی کورسز۔
- موجودہ بین الاقوامی ماحول، عالمی قوانین و نظام اور مسلمانوں پر ان کے اثرات سے آگاہی۔
- اسلام اور نبی کریمﷺ کے بارے میں مغربی مفکرین بالخصوص مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ ۔
- شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین پر جدید اعتراضات و اشکالات کا جائزہ۔
- پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد اور اس کے تقاضوں سے آگاہی۔
ان مقاصد کے لئے اصل میں تو درس نظامی سے فراغت کے بعد یا دوران تعلیم ہی ایک منظم ترتیب کے ساتھ بڑے جامعات کو تفصیلی کورسز کا اہتمام کرنا چاہیے جو ان میں سے کسی ایک موضوع پر ہوں۔ لیکن تعارفی سطح پر سالانہ تعطیلات کے دوران مختصر کورسز بھی فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔
طریقہ تعلیم میں اصلاح کی تجاویز
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کے مطابق نصاب کے علاوہ مدارس کا نظام اور طریقہ تعلیم میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر مدارس کی کارکردگی میں بہتری مشکل ہے۔ ذیل میں چند تجاویز دی جا رہی ہیں جن سے نظام تعلیم اور طریقہ تعلیم میں بہتری آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
- مدارس کے نظام میں عام طور سے ہر طالب علم کو ’’مجموعہ علوم‘‘ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی ایک خاص فن میں مہارت حاصل نہیں کرپاتا۔ علوم و فنون نے بڑی ترقی اور وسعت حاصل کرلی ہے اس لئے ایک ہی شخص کے لئے جملہ علوم میں مہارت حاصل کرنا ایک دشوار کام ہے۔ لہذا اختصاصی طرز تعلیم کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ ایک خاص مرحلے تک مختلف علوم و فنون سے ضروری واقفیت دینے کے بعد اختصاصی تعلیم کے مختلف شعبے اس سلسلے میں معاونت کر سکتے ہیں جن میں طلبہ اپنے ذوق و رجحان کے مطابق داخلہ لیں۔ یوں مختلف علوم میں ماہر حضرات کی پیداوار کی شرح بڑھنے کا امکان ہے۔
- مدارس میں عام طور پر لڑکیوں کی اعلی تعلیم کی جانب کم توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیم نسواں کی اہمیت کسی طرح بھی اہمیت میں کم نہیں ہے۔ خواتین ہمارے معاشرے کا نصف سے زائد حصہ ہیں اور نئی نسل کی پرورش و تربیت کا بھاری بوجھ بھی انہی کے کاندھوں پر ہے۔ اصلاح معاشرہ اور نئی نسل کی درست تربیت کے لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ خواتین کو بھی علم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ مدارس کو ا س سلسلے میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا از حد ضروری ہے۔
- مدارس میں طلبہ کی غیر درسی مصروفیات کی طرف بھی کم توجہ دی جاتی ہے اور اس کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے اس کی وجہ سے طلبہ کی مختلف صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آپاتیں۔ مدارس کے نظام میں ان ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا ایک جامع لائحہ عمل ہونا چاہیے تاکہ طلبہ میں تحریرو تقریر اور انتظام و انصرام کی صلاحیتوں کے علاوہ دیگر بہت سی صلاحیتیں پیدا ہوسکیں۔
- مدارس کے طریققہ تدریس کی ایک نمایاں شکل کتابی طریقہ تدریس ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ عصر اول میں یہ طریقہ رائج نہیں تھا بلکہ املاء اور لیکچر کا طریقہ عام تھا۔ لیکچر کے طریقہ تدریس کے مفید اور کار آمد ہونے میں دو آراء نہیں ہیں۔ اس سے ایک طرف جہاں وقت کی بچت ہوتی ہے وہاں طالب علم بھی اپنے ذہن کے بند دروازے کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب سے ماخوذ علوم کو ایک لیکچر کی صورت میں طلبہ کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں سوال کرنے پر ابھارا جائے۔
- بہت سے فنون اگر مادری زبان میں سکھائے جائیں تو سیکھنا آسان اور سیکھ بہتر ہوتی ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ طلبہ کو ان کی اپنی اور آسان زبانمیں تعلیم دی جائے۔
- قرآن، حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم میں آزادانہ غوروفکر کی ضرور گنجائش رہنی چاہیے تاکہ طلبہ میں کسی طرح کی عصبت دیکھنے میں نہ آئے اور ان میں اس طرح کے اساسی علوم کی تدریس کے دوران مسائل حاضرہ پر انطباق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوسکے۔[4]
[1] خالد رحمن، اے ڈی میکن،’’پاکستان میں دینی تعلیم‘‘،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد، ص: 201- 202 ملحضاً
[2] خالد رحمن، اے ڈی میکن،’’پاکستان میں دینی تعلیم‘‘، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد، ص:218
[3] احسان الحق، ڈاکٹر، ’’پاکستان میں دینی تعلیم‘‘، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد، ص:58
[4] قادری، حقانی میاں، ڈاکٹر، ’’دینی مدارس، نصاب و نظام تعلیم اور عصری تقاضے‘‘، فضلی سنز پبلشرز، کراچی، ص:303-307