مدارس میں سائنسی وعقلی علوم کی تدریس کے امکانات

محبوب احمد

0

ایک وقت تھا کہ اسلامی تاریخ کے قدیم مدارس میں جس طرح مذہبی علوم پڑھائے جاتے تھے، اسی طرح  فلکیات، فلسفہ اور طبعی علوم بھی زیرتدریس ہوتے تھے۔ مدارس ہی تعلیم کے واحد ایسے مراکز تھے جو علم سے جڑی تمام ضروریات کو پورا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ قدیم کتب میں مدارس کے تعلیمی نظام میں طبعی علوم پڑھائے جانے کے کثیر شواہد ملتے ہیں۔ مگر استعماری عہد کے بعد سے صورتحال کافی تبدیل ہوگئی۔ مدارس میں محدود انداز میں منطق و فلسفہ کی چند کتب تو شامل درس ہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ خاص نہیں پڑھایا جاتا۔ حتی کہ علوم کی جو تقسیم کردی گئی ہے اس میں مدارس کے لیے صرف دینی علوم خاص کردیے گئے ہیں۔ مدارس میں سائنسی علوم پڑھائے جاسکتے ہیں یا نہیں، زیر نظر مضمون میں اس کا ایک تاریخی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔مضمون نگار ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ میں تربیت کار اور منتظم ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

قدیم مدارس میں سائنسی وعقلی علوم

مسلم تاریخ میں قدیم زمانے سے ہی مدارس کا چلن تھا اور ان میں تحصیل علم کے مضامین وسیع انداز میں دو انوع میں منقسم تھے۔ پہلی قسم مذہبی یا علوم شریعہ ونقلیہ تھی، جو تعلیم کے ان شعبوں کا تعین کرتی جن کی اصل اور بنیاد کا تعلق اسلام سے ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر، علم الحدیث، فقہ، علم کلام وغیرہ۔ تحصیل علم  کے وہ شعبے جن کا تعلق عربی زبان، فلسفہ، صرف و نحو، فصاحت و بلاغت وغیرہ سے تھا۔ انہیں مذہبی علوم سے متعلق تصور کیا جاتا تھا۔ کیونکہ قرآن و حدیث کی تفہیم ان کے بغیر ممکن نہ تھی۔علوم کی  دوسری قسم میں منطق، فلسفیانہ یا طبعی علوم جیسے مضامین تھے۔ان میں فلسفہ، حساب، علم الادریہ، فلکیات، طبیعات، جغرافیہ وغیرہ بھی شامل تھے۔ علوم دینی کو دیگر علوم کےمقابلے میں یقینی طور پر زیادہ قدرو منزلت حاصل تھی۔

بہر حال تحصیل علم کی تمام شاخیں اور شعبے مفید اور سود مند تصور کیے جاتے تھے۔ان میں سے بعض زیادہ اہم تھے۔ مثال کے طور پر امام غزالیؒ نے ارشاد فرمایا:

’’ان علوم کی تحصیل جو مسلمانوں کے دینی اور دنیوی فوائد کے لئے لازمی ہیں اجتماعی مذہبی فریضہ(فرض کفایہ) ہے‘‘۔

مزید براں، انہوں نے علم کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس کی تحصیل اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ہے جو اللہ کا وصف ہے۔ یہ اس کے ساتھ منسوب ہے‘‘۔(احیاء العلوم، 223)

دنیائے اسلام کے یہ رجحانات قابل قدر ہیں کہ، دینی اور عقلی علوم دونوں ساتھ ساتھ نشوونما پاتے رہے ہیں۔

موجودہ روایتی مدارس

روایتی اسلامی نظام تعلیم تقریباً ایک ہزار سال بڑے اطمینان بخش انداز سے سرگرم کار رہا اور اپنی شمع روشن کیے رہا ہے۔ ہر خاص و عام کو تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے، خواندگی کے تناسب کو بڑھانے اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کا اعزاز اسی نظام تعلیم کو حاصل ہے۔ اس نظام نے اسلامی دنیا میں، خاص طور پر شہری علاقوں میں ابتدائی سطح پر مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور انہیں ایسا علم عطا کیا جس سے وہ اپنے خالق کے ساتھ رشتہ قائم کرسکیں اور جس کے مطابق انہیں اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔ دوسری طرف اعلی تعلیم کے اداروں نے فاضل مدرسہ، قانون دان، مصنفین اور انتظامی افسر پیدا کیے۔ خالص علمی ہدایات مہیا کرنے کے علاوہ اس اسلامی نظام تعلیم نے ان کی زندگیوں کو روحانی اور اخلاقی اقدار سے بھی آشنا کیا۔

علمی سطح پر اس علم نے انسانی علم کے تمام شعبوں میں  نمایاں مفکر و دانشور اور محقق پیدا کیے ہیں۔ تخصص اور تخصیص کے مختلف شعبوں کے نقطہ نگاہ میں یکسانی اس نظام کا ثمرہ تھی۔

تقریباً سولہویں، سترھویں صدی میں مسلم تہذیب کے اندر زوال کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔اسے مختلف الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ، مغربی تہذیب دنیا کی تاریخ کے سٹیج پر نمودار ہوئی۔ یہ قوت کے نئے ذرائع اور وسائل سے لیس تھی۔ اس نے مسلم تہذیب پر غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا۔ جمودو زوال جلد ہی مسلمانوں کی علمی زندگی پر بھی طاری ہوگیا اور دینی اور عقلی علوم کے شعبوں میں مسلمان تخلیقی صلاحیت، جدت اور اختراع کے لحاظ سے کمزور ہو گئے اور نامعلوم سمت کے تعاقب اور تجسس کے لئے جس صبرو تحمل، استقلال اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہو گئے۔

اس زمانے میں سائنس اور عقلی علوم کی طرف مسلمانوں کی توجہ بہت کم ہو گئی۔ ان علوم میں ان کے لئے کوئی دلکشی نہ تھی۔ علمی توجیہات، تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہوگئیں اور ان کی نگاہیں کلی طور سے مذہبی علوم پر مرتکز ہو کر رہ گئیں۔ یہ صورت حال جس نے اسلامی تہذیب کی علمی ر وایت کو جمود کی طرف دھکیل دیا اس وقت وقوع پذیر ہوئی، جب یورپ علمی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور اس کے علمی افق تیزیں سے وسیع ہوتے جا رہے تھے۔

سترھویں صدی میں بہت سے ذہین اور  سلیم الطبع افراد پر یہ واضح ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم، تعلیمی عمل اور وہ تعلیمی ادارے جن کی بنیاد پر یہ نظام قائم کیا گیا  تھا زوال پذیر ہو رہے ہیں۔نہ صرف یہ کہ، روایتی دینی نظام تعلیم انسانی علم کی نشو ونما اور ترقی کا ساتھ دینے میں ناکام ہو چکا تھا۔ بلکہ یہ اس علم کو جس کی دریافت اور اکتشاف ہو چکی تھی اور وہ ٹیکنالوجی جسے دوسری قوموں نے بہت ترقی اور نشو ونما دے دی تھی، اسے بھی اپنے اندر جذب کر لینے کی اہلیت سے محروم تھا۔

ممتاز و معروف ترکی مصنف کاتب چلبی(Katib Chelebi )(متوفی 1657ء) نے اپنی زندگی میں اس تشویشناک رجحان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس المناک صورت حال پر دل سوزی سے اظہار خیال کیا:

’’لیکن بہت سے ناسمجھ لوگ،چٹان کی طرح ساکن، جامد اور غیر متحرک رہے۔ وہ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید میں جمود کا شکار رہے اور منجمد ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے نئے علوم کو بغیر کسی فکروتدبر اور غوروخوض کے، تحقیر آمیز انداز سے ٹھکرا دیا۔ وہ علماء کی اندھی تقلید کرتے رہے اور اس ترقی پذیر دور کے تقاضوں سے ناواقف اور بےخبر رہے، وہ ان علوم کے شائق رہے جنہیں وہ فلسفیانہ علوم کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زمین و آسمان سے بالکل بےخبر تھے۔ حالانکہ قرآن کی اس آیت کے مطابق انہیں غوروخوض اور فکروتدبر سے کام لینا چاہیے تھا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی، جو خدا نے پیدا کی ہے نہیں آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا(قرآن:7:184 )‘‘

اس آیت اور اس کے مفہوم نے ان نے قلوب و اذہان پر کوئی اثر نہ ڈالا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ زمین و آسمان کے متعلق غوروفکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ گائے کی طرح انہیں ٹک ٹک دیکھتے رہو اور اپنی جگہ پر جمودکی علامت بنے رہو‘‘۔(کشف الظنون)

دنیا کے مسلمانوں کی پسند و ناپسند اور ردو کد سے قطع نظر مغربی نظام تعلیم اور اس کے ضمن میں مغربی علمی اور تعلیمی روایت نے مسلم ممالک میں نفوذ کرلیا۔ اس نظام تعلیم  اور تعلیمی روایت کو یا تو ان مسلم حکمرانوں نے اپنے ملکوں میں متعارف کروایا، جو اس کی افادیت پر پورا اطمینان محسوس کرتے تھے، یا پھر ان ملکوں میں مغربی نو آبادیاتی طاقتور نے اس نظام کو ان محکوم مسلمانوں پر ٹھونس دیا۔ یورپ کے جدید نظام تعلیم کے تعارف اور نفوذ کے وقت اسلامی تہذیب کی زوال پذیری کا یہ عالم تھا کہ مسلمان اپنی صلاحیتوں کے احساس و انتخاب کی اہلیت سے بھی محروم ہوچکے تھے اور تنقیدی نقطہ  نگاہ کے  ساتھ مفید عناصر کے ساتھ توافق پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کھو چکے تھے۔

مدارس اور سائنسی علوم

آزادی کے بعد بدلے ہوئے حالات میں مدارس کے قیام کے اس مخصوص پس منظر کا تقاضا  ہے کہ ان کانصاب تعلیم معروف دینی علوم، قرآن و حدیث اور ان کے متعلقات  تک محدود نہ رہے۔ مدارس کے نظام  کے مطالعہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نظری طور پر فلسفہ جدیدہ اور سماجیات و اقتصادیات ہی نہیں خالص سائنسی علوم(Pure Sciences ) کو بھی ان کے اندر سمانے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ بلکہ جہاں تک دارالعلوم دیوبند کا سوال ہے وہ نظری سے آگے عملی طور پر اس کا تجربہ بھی کرچکا ہے۔ ’’طب‘‘ کا خالص سائنسی علم ہونا مسلم ہے۔ دارالعلوم کی 1895ء کی روداد سے پتہ چلتا ہے کہ، وہاں’’طب یونانی‘‘ کی تعلیم کا باقاعدہ نظم قائم کیا گیا تھا۔ اور مولانا محمد یعقوب صاحب مدرس اول اس علم کی کتابیں پڑھاتے تھے۔اس خالص سائنسی علم کو پوری وسعت دینا بھی پیش نظر تھا۔

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اپنے مخصوص تلامذہ کوجدید سائنس کی کتابیں پڑھاتے تھے تھے۔ مزید برآں آپ کا کہنا تھا کہ ’’اب علماء کو قدیم فلسفہ و ہیئت کے ساتھ جدید فلسفہ و ہیئت کو بھی حاصل کرنا چاہئے۔‘‘ دوسرےذرائع سے پتا چلتا ہے کہ علامہ موصوف دینی نصوص کی توجیہ و تشریح میں بھی اپنی ان سائنسی معلومات سے فائدہ اٹھاتے تھے[1] جہاں نک ندوۃ العلماء کا سوال ہے، تو معلوم ہی ہے کہ، وہ ’’ بین القدیم النافع و الجدید الصالح‘‘، کا علمبردار ہے۔ ظاہر ہے کہ نئے دور میں سائنس و ٹکنالوجی کے بغیر اسلام کی خدمت کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ ندوۃ العلماء کے قیام کے جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان کے اندر صاف طور پر وہ دفعات موجود ہیں جن سے اس کے نصاب تعلیم کے لیے سائنس و ٹکنالوجی کی ضرورت کو آسانی کے ساتھ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ ندوہ کے قیام سے مدارس عربیہ کے نظام کے جس خلاء کو پر کرنا پیش نظر تھا، اس کی اولین دفعہ میں اس کمی کا اظہار کیا گیا تھا کہ:

’’جو طلبہ علوم عربیہ سے فارغ ہوتے ہیں وہ امور انتظامی دنیا اور معیشت سے محض ناواقف رہتے ہیں۔‘‘[2]

مدرسۃ الاصلاح سرائے میر(اعظم گڑھ) کے دستور میں بھی ایسی دفعات موجود ہیں، جن سے اس کے نظام تعلیم میں سائنس وٹکنالوجی کی پوری گنجائش نظر آتی ہے۔ دفعہ 4 میں مدرسہ کا مقصد ان لفظوں میں واضح کیا گیا ہے:

’’اصلی مقصد اس مدرسے کا مسلمانوں کی مذہبی اور دنیوی تعلیم ہے، اور بوقت توسیع مذہبی تعلیم کو مقدم رکھا جائے گا۔‘‘[3]

ظاہر ہے کہ جس مدرسہ کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی اور دینوی تعلیم دونوں ہو، اس کے نصاب تعلیم سے سائنس و ٹکنالوجی کے علوم کو غیر متعلق کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں آج بھی تعلیم کے علاوہ معاشی مقاصد کے لئے طلبہ کو خطاطی، خیاطی اور جلد سازی وغیرہ صنعتیں بھی سکھلائی جاتی ہیں۔[4] مدرسہ الاصلاح کے دور اول میں بھی  وہاں اس طرح کی صنعتوں کو عملی طور پر (Practical )اختیار کر لیا گیا تو نظری(Theoretical  ) طور پر  اسے اختیار کرنے میں تامل کیونکر ہوسکتا ہے۔

نئے علوم سے دوری کی بنیادی وجہ

مدارس کے نظام میں نظری طورپر سائنس و ٹکنالوجی اور نئے علوم کی پوری گنجائش کے باوجود عملی طور پر یہ علوم ان کے نصاب تعلیم کا جزو نہ بن سکے۔ اس کی وجہ کوئی ذہنی و فکری رکاوٹ نہیں۔ بلکہ اس کا تعلق خالص حکمت عملی اور لائحہ عمل سے ہے۔ اس کے لئے ہمیں خاص طورپر دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس مسئلہ پر بڑی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، مدارس کے قیام سے  مسلمانوں  کی زندگی کے جس خلاء کو پر کرنا مقصود ہے، اصلاً توجہ اسی پر مرکوز رہنی چاہیے۔ مزید برآں ایک وہی وقت میں مختلف مقاصد کا حصول بسا اوقات شخصیت کو منتشر کرنے اور ’’طلب الکل فوت الکل‘‘، کا مصداق ہے۔

قابل عمل صورت

مدارس اور سائنسی تعلیم کی نسبت سے قابل عمل صورت یہی مناسب نظر آتی ہے کہ مدارس کا اصل موضوع اور مرکز توجہ تو خالص دینی علوم قرآن و حدیث اور فقہ و کلام وغیرہ کو ہی ہونا چاہئے۔ ضمنی طور پر زمانہ کے رجحانات سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے اگر مدارس کی ترجیحات اجازت  دیں تو سائنس کے نظری مباحث کے لئے کچھ وقت مختص کیا جاسکتا ہے۔ اس کا فیصلہ بھی حالات کے لحاظ سے ہی ہوگا کہ یہ تعلیم کتابوں کے ذریعہ ہو یا مختلف اوقات میں لیکچرز وغیرہ کے ذریعہ اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔

مدارس دینیہ کے ساتھ اصل خیر خواہی یہ ہے کہ ان کے جو اپنے موضوعات اور ترجیحات ہیں ان کی بہتری اور ان کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور مفید بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اور اس کے لیے مدارس  کے موجودہ نظام میں جزوی ترمیمات کافی ہیں۔ مرکز فروغ سائنس وغیرہ جیسے اداروں کو مدارس میں سائنسی تعلیم کے اجراء کے بجائے اردو زبان میں سائنس و ریاضی وغیرہ کے نئے نصاب وغیرہ کی تیاری پر زیادہ کوششیں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

[1] ڈاکٹر محمد فاروق بخاری ’’علوم عقلیہ میں علامہ انور شاہ کاشمیری کی بصیرت‘‘(ماہنامہ’’برہان‘‘ جون1981ء)

[2] سید محمد الحسنی’’سیرت مولانا سید علی مون گیری‘‘1964ء، مکتہ ندوۃ لکھنؤ، ص:119

[3]مدرسہ الاصلاح’’دستور العمل31/ دسمبر 1928ء‘‘، سرائے میر، اعظم گڑھ

[4] ’’تاریخ دیوبند‘‘، ص:439