محققین مدرسۂ نظامیہ بغداد کو ’’اسلامی نشأۃ ثانیہ‘‘ کا ادارہ قرار دیتے ہیں۔اسے عظیم سلجوق سلطنت کے وزیرنظام الملک ابو علی حسن ابن علی الطوسی نے گیارہویں صدی میں قائم کیا تھا۔ نظام الملک خود بھی اعلی علمی شخصیت تھے اور اہلِ علم کو اپنے قریب رکھتے تھے۔ ان کی دینی خدمات کی وجہ سے علما نے انھیں ’’قوام الدین ‘‘ کا لقب عطا کیا۔ نظام الملک نے نیشا پور اور دوسرے شہروں کے مدرسہ نظامیہ کی طرز پر مدرسے قائم کیے۔ یہ مدارس اسلامی دنیا میں اعلی تعلیم کے منظم ادارے تھے۔بعد میں منگولوں نے جب حملے کیے توانہوں نے مدرسوں کو بھی تباہ کیا۔ لیکن بعد میں عثمانی سلطنت نےنظامیہ مدارس کے ماڈل کو اپنا کر اسے جاری رکھا۔یہ تعلیمی ڈھانچہ کس طرح اونچ نیچ کا شکار ہوا،اور استعماری عہد میں بالخصوص اس میں کیا اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی،اس مضمون میں اسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔مضمون نگارسکالر و تربیت کارہیں اور امن وامان کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔
بغداد کا مدرسہ نظامیہ مسلم تہذیب میں نمایاں حیثیت کا حامل رہا ہے،اور اس کے اثرات کافی وسیع رہے ہیں۔یہ نظام تعلیم ایک ماڈل کے طور پہ طویل عرصے تک باقی رہا ہے۔استعماری عہد کی شروعات تک کے مرحلے میں مسلم دنیا کے اندر اسی سے ملتا جلتا تعلیمی نظام قائم رہا۔ سلطنت عثمانیہ نے اسی نظام کی سرپرستی کی اورانفرادی سطح پر بھی مسلم خطوں میں اس کو باقی رکھا گیا۔اگرچہ عثمانی سلطنت یورپ کی فکری بیداری اور اس کی علمی تحریکوں سے بہت پہلے واقف ہوچکی تھی لیکن وہ اس نئی اٹھان کے اثرات و افادیت کو تسلیم کرنے سے قاصر رہی۔ عثمانی سلطنت کے پاس وسائل بھی خوب تھے اور اگر حکمران چاہتے تو اس تعلیمی اصلاحات کو پوری مسلم دنیا میں متعارف کراسکتے تھے۔ لیکن عملا ایسا ممکن نہیں ہوا۔ بلکہ عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں جب سلاطین کو احساس ہوا کہ مغرب کی اٹھان کے پیچھے دراصل تعلیمی تحریک ہے تو سلاطین اس وقت تنازعات میں گھر چکے تھے اور خارجہ سطح پر انہیں کئی چیلنج درپیش تھے۔ تب ان کے پاس وسائل کی محدودیت بھی ہوگئی تھی اور یکسوئی بھی باقی نہ تھی۔ اس لیے تعلیمی اصلاحات جو ممکن ہوسکیں وہ ترکی کے اندر تک رہیں جو عملی حیثیت میں زیادہ مؤثر بھی ثابت نہ ہوسکیں۔
مسلم دنیا میں تعلیمی اصلاحات کی انفرادی کوششیں
دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ استعماری عہد میں مسلم دنیا کے بعض خطوں میں انفرادی سطح پرہی تعلیمی اصلاحات کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔اگر اُس وقت کے مؤرخین ومفکرین کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو انداہ ہوتا ہے کہ بعض مسلم خطوں میں یہ تأثر قائم ہوگیا تھا کہ عثمانی سلاطین ان کی تعلیمی پسماندگی کا سبب تھے۔بہرحال استعماری عہد میں انفرادی سطح پر جو تعلیمی تحریکیں شروع ہوئیں ان کے اثرات بہت وسیع رہے۔ اس میں عرب دنیا کے اندر مصر کی تعلیمی تحریک بہت مؤثر ثابت ہوئی اور اس نے پورے عرب خطے کو متأثر کیا۔
مصر میں میں تعلیمی اصلاحات کی سرگرمیاں
مسلم دنیا میں مصر وہ ملک ہے جہاں مذہبی تعلیم کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی کوششیں ہوئیں۔اس میں مصر کے بڑے تعلیمی اداروں نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، بلکہ ان اصلاحات کو قبول کیا۔مصر کے اند اُنیسویں صدی کی ابتداء میں جن شخصیات نے مذہبی تعلیم میں اصلاحات کے لیے ڈول ڈالا اور عملی کوششوں کی ابتداء کی ان میں جمال الدین افغانی،محمد عبدہ، خیرالدین پاشا اور رفاعہ طہطاوی ک نام لیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک اور شخصیت علی پاشا مبارک کی بھی تھی جنہیں مصر میں اُس وقت ’ابو التعلیم‘ کا لقب ملا۔جبکہ محمد عبدہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے جامعہ ازہر میں تعلیمی اصلاحات کو متعارف کرایا تھا اور انہی کے توسط سے جامعہ ازہر میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔اُس وقت ملک کے دینی اداروں میں دیگر ادیان سے متعلق کتب شامل کی گئیں ، تاکہ طلبہ میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے بارے میں غیریت کے تصور کو ختم کیا جاسکے اور ہم آہنگی کا شعور پیدا کیا جائے۔اسی شہریت اور حقوق کے موضوعات پر بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مواد شامل کیا گیا تھا۔مدارس سے ہٹ کر اگر انفرادی سطح پر دینی تعلیم میں اصلاحات سے متعلق لکھی گئی کتب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا میں مصر اور شام وہ دو ممالک تھے جہاں اس طرح کا مواد کثرت کے ساتھ شائع ہوا۔بلکہ مصر میں تو اُس وقت قرآن کریم کی متعددسائنسی تفاسیر بھی لکھی گئیں۔اخبارات میں بھی بہت سے مباحثے ہوئے اور مذہبی و لبرل مفکرین سب اس موضوع پر لکھتے تھے۔
ایشیائی مسلم ممالک میں تعلیمی اصلاحات
استعماری عہد میں جنوب مشرقی ایشیائی مسلم ممالک میں ملائیشیا کے اندر پہلے تعلیمی اصلاحات متعارف ہوئیں۔ملائشیا میں اسلام کے ورود کے ساتھ ہی دینی تعلیم کا باقاعدہ نظام شروع ہوگیا تھا۔بلکہ ملائیشیا اور اور انڈونیشیا میں جو سیاسی و سماجی سطح پر مذہبی عنصر کا رسوخ نظر آتا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی ڈھانچے میں مذہبی عنصر بہت پہلے سے موجود رہا ہے۔ملائشیا میں انیسویں صدی میں ہی اقامتی مذہبی ادارے موجود تھے جہاں مصری دینی تعلیم کی طرز پہ مناہج کی تدریس ہوتی تھی۔چونکہ ملائیشیا نے دینی تعلیم کے زمرے میں برصغیر کی بجائے مصر کے ساتھ ربط رکھا، اس لیے مصر کی طرح وہاں بھی دینی تعلیم میں اصلاحات شروع میں ہی ظاہر ہونے لگی تھیں۔آج بھی ملائیشیا میں دینی سطح پر ازہر اور مصری مذہبی اداروں کا اثروررسوخ زیادہ ہے۔ اس لیے وہاں جو مدارس قائم ہیں وہ برصغیر کے مدارس اور مناہج سے کافی مختلف ہیں۔
برصغیر میں تعلیمی تحریکیں
اس کے علاوہ برصغیر میں بھی استعاری عہد میں تعلیم کے بارے میں بہت زیادہ حساسیت ابھر سامنے آئی۔ چند ایک نصاب مرتب کیے گئے جن میں آراء کے اختلاف کی بنا پر فرق بھی تھا۔مختلف مدارس وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ سرسید کی تحریک اٹھی جس کے اپنے اثرات تھے۔برصغیر کے تعلیمی نصاب پر الگ سے بات چند صفحات مخصوص ہیں۔ سردست یہاں عثمانی عہد میں تعلیمی اصلاحات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ میں جدید تعلیم کی ابتداء وارتقاء
سلطنت عثمانیہ میں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح دینی تعلیم کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ روایتی اسلامی مدارس میں بالغان کو دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان روایتی مدارس کے علاوہ بعض مخیر حضرات نے بچوں کی تعلیم کے لیے شہروں، قصبوں اور گاؤں میں مدارس الصبیان/ الکتاتیب کے نام سے سکول کھولے ہوئے تھے۔ دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض علماء دین سر انجام دیتے تھے۔
سلطنت عثمانیہ کے اولین سلاطین اور امراء، عسکری اور انتظامی امور کے ساتھ ساتھ تعلیمی امور کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے سلطنت کے مختلف حصوں میں روایتی اسلامی مدارس قائم کیے اور ان میں تدریس کے لیے پورے عالم اسلام سے علماء کو بلایا۔
1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے استنبول میں جامع مسجد کے اطراف میں اعلی تعلیم کے آٹھ مدارس قائم کیے جن کو’’صحن ثمان‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان مدارس میں داخلے کے لیے اہل طلبہ کو تیار کرنے کے لیے ابتدائی تعلیم کے مدارس بھی کھولے گئے۔ سلطان محمد فاتح نے اعلی تعلیم کے ان آٹھ مدارس میں سے دو مدارس میں ایسا نصاب مختص کرنے کا حکم دیا تھاجو بچوں کے مدارس کے لیے اساتذہ تیار کرنے کے لیے موزوں ہو ۔انہوں نےبچوں کے مدارس میں ایسے لوگوں کو بطور معلم تعینات کرنے سے منع کردیا تھا جنہوں نے عربی صرف ونحو، بلاغت، منطق حساب، اصول تدریس، علم الحال(علوم دینیہ) ریاضیات، ہندسہ اور علم ہیئت کے علوم نہ سیکھے ہوئے ہوں۔
سلطان سلیمانی القانونی نے مدرسہ سلیمانیہ کھول کر سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس نے اپنی تعمیر کردہ مسجد کے قریب مدرسہ طب اور ہسپتال بنائے۔ مدرسہ سلیمانیہ اور مدرسہ طب فوج کے لیے درکار انجینئروں اور ڈاکٹروں کو تیار کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس نے علم ریاضیات کے لیے چار مدارس اور ایک دار الحدیث بنایا۔ سلیمان نے استنبول کے علاوہ اناطولیہ کے بڑے مراکز میں بھی یہ مدارس قائم کیے۔
عہد عثمانی سے پہلے کے قائم کردہ مدارس کو نہ صرف بحال رکھا گیا بلکہ ان کی ترقی اور دوام کے لیے اوقات وقف کیے گئے۔ مختلف ولایتیں اپنی آمدن کے ذرائع میں سے کچھ مدارس کے لیے وقف کرتیں۔ سلاطین امراء اور اغنیاء بھی اپنی ملکیتوں میں سے کچھ حصہ مدارس کے لیے وفق کرنے سے نہیں کتراتے تھے۔
زوال
روایتی اسلامی مدارس کا سلطنت عثمانیہ کی ترقی اور نشوونما میں اہم کردار تھا۔ سترھویں صدی عیسویں تک یہ مدارس مطلوبہ توقعات کے مطابق اپنا کام کرتے رہے۔ لیکن اس کے بعد ان کے اوقاف اور نظا م میں خلل و گراوٹ کے سبب ان مدارس کی معاشرے اور ملک کے لیے خدمات سست پڑگئیں اور یہ معاملہ بھی ملک کے نظام سے مبراء نہیں تھا جو زوال اور پستی کا شکار تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے بعد کے ادوار میں نظام تعلیم کی اصلاح کی اشد ضرورت رہی۔ خاص طور پر جب ملک کو عسکری اور معاشی میدانوں میں ہزیمت اٹھانی پڑی تو نظام تعلیم کی کمزوریوں کو دور کرنا حکام کی ذمہ داری تھی۔مگر تعلیم کی اصلاح کے لیے جو کوششیں کی گئیں وہ ناکافی تھیں۔
آخری ادوار میں تعلیمی اصلاحات کی کوششیں
محمود ثانی کے دور حکومت(1808- 1839ء)میں جب معاشرتی زندگی میں وسیع اصلاحات کی تحریک شروع ہوئی تو تعلیم کو ان اصلاحات میں خاص اہمیت دی گئی اور یہ محسوس کیا گیا کہ موجودہ حالت میں تعلیم ملکی ضروریات اور مطالبات کو پورا نہیں کرسکتی ۔لہذا تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے مغربی طرز پر نئے تعلیمی ادارے کھولے گئے، تاکہ ان سے فارغ التحصیل طلبہ ملک کی معاشی، اجتماعی اور ادارتی اصلاح کے قابل ہوں۔ لیکن سلطان محمود ثانی اس سلسلے میں عملی قدم اٹھانے میں اپنی حکومت کے آخری دو سالوں میں کامیاب ہوئے۔ کیونکہ محمد علی پاشا کی مصر میں بغاوت نے ملک کو الجھائے رکھا۔ محمود ثانی نے تعلیم کے میدان میں ’’مجلس امور النافعہ‘‘کے قیام کا حکم دیا تاکہ ضروری تعلیمی اداروں کا لائحہ عمل اور مدارس الصبیان کی تنظیم کا خاکہ تیار کرسکے۔ [1]
امور سلطنت کے ذمہ داران نے روایتی اسلامی مدارس کو نظر انداز نہیں کیا لیکن مدارس الصبیان کو تعلیم کی بنیاد ہونے کے سبب خصوصی توجہ دی گئی۔
مجلس نے 5 فروری 1839ء میں ایک لائحہ عمل پیش کیا۔ جس میں تعلیم کی اصلاح کی ضرورت پر زور دیا گیا اور ملک کو پستی سے نکالنے کے لیے تعلیم کی ترقی و توسیع کو ضروری قرار دیا گیا۔ ملک اور عسکری شعبہ کی ترقی کے لیے ایسے جدید تعلیمی ادارو ں کے قیام کو ضروری قرار دیا گیا جو عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
محمد علی پاشا کی مصر میں بغاوت اس دور میں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی اور عثمانی عسکری قوتیں ان پر غلبہ پانے میں ناکام ثابت ہورہی تھیں۔ ان حالات نے ملک کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے انتہائی کوششوں پر مجبور کردیا۔ مجلس نے اپنے لائحہ عمل میں یورپ کی علمی ترقی اور اس کی بدولت جنگی میدانوں میں عسکری برتری کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ یہ اعتراف بھی کیا کہ دولت عثمانیہ اپنے عروج کے زمانہ میں تعلیم اور علوم میں آگے تھی لیکن یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا۔ اور ان کا اہتمام بتدریج کم ہوتا گیا۔ اگرچہ ملک میں عسکری، انجینئرنگ اور طبی شعبوں میں چند اعلی ادارے قائم کیے گئے مگر یہ مدارس ناکافی تھے اور مطلوبہ حاجات کو پورا نہیں کرتے تھے۔ اس کے لیے ابتدائی تعلیم کی اصلاح کو ناگزیر قرار دیا گیا۔ اس کے لیے جو لائحہ تیار کیا گیا وہ یہ تھا:
- ابتدائی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔
- انفرادی تعلیم سے اجتماعی تعلیم کی طرف توجہ۔
- اساتذہ کو اپنی خواہشات کے مطابق پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
- مدارس کے نصاب تعلیم کو انسپکٹرز اور نگرانوں کی مرضی کے ماتحت کرنا۔
- مدارس میں اساتذہ کو بہتر تعداد میں تعینات کرنا۔[2]
- ایسے بے گھر بچے جن کے سرپرست نہیں ان کے لیے اقامتی درس گاہیں قائم کرنے کی سفارش کی گئی۔
الباب العالی، دارالشوری اور دیوان الاحکام العدلیہ کی طرف سے بعض ترامیم کے بعدسلطان نے لائحہ عمل کی منظوری دے دی۔ اس کے فوری بعد’’مدرستہ المعارف العدلیۃ‘‘[3] کی بنیاد رکھی گئی اور استنبول کے مختلف حصوں میں پانچ مدارس رشدیہ کھولے گئے۔
سلطان عبدالحمید کے عہد میں تعلیمی اصلاحات
سلطان عبدالحمید کےدورکو تنظیمات کا دور کہا جاتا ہے۔ صدر اعظم رشید پاشا نے 1839ء میں فرمان جاری کیا، اس فرمان میں ملک کے سیاسی اور اجتماعی نظام میں بعض اصلاحات جاری کی گئیں۔ سلطان عبدالحمید نے 1856ء میں ایک دوسرا فرمان ’’فرمان الاصلاحات‘‘ جاری کیا۔ اس میں تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔
1845ء کے فرمان میں تسلیم کیا گیاکہ تعلیم کے میدان میں اب تک جو تدابیر اختیار کی گئیں ان کے مثبت نتائج نہیں نکلے۔ سلطان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور اس سلسلہ میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا جیسے جہالت کا خاتمہ کرنا، تعلیم کو عام کرنا اور اسے عام زندگی سے ہم آہنگ بنانا اور پوری سلطنت میں مدارس کا جال بچھانا۔ اس کے بعد تعلیم سے متعلق اقدامات میں تیزی آگئی۔
1839ء میں مدارس رشدیہ کے معاملات کی نگرانی کے لیے ’’نظارۃ الدراسۃ الرشدیۃ‘‘ بنائی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست نےصرف مدارس کو کھولنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان مدارس کی تنظیم اور بہتری کی طرف بھی توجہ دی۔ لیکن ریاست کے اندر تمام مدارس حکومتی نگرانی میں نہیں تھے۔ 1840ء تک یہی صورت حال رہی۔ 1840ء میں’’مجلس المعارف الموقت‘‘ قائم کی گئی۔ ایک سال بعد اس کو’’مجلس العارف العام‘‘ میں تبدیل کردیا گیا جو تعلیم کے بارے میں براہ راست جواب دہ ہوگی۔ اسی سال نظارۃ المدارس العمومیۃ بنائی گئی۔ تاکہ مجلس المعارف العام کی قراردادوں کی تنقید کا جائزہ اور نظر رکھی جاسکے۔ مگر یہ ادارہ بھی سابقہ اداروں کی غیر موثر رہا۔ مدارس رشیدیہ ان سے باہر رہے۔ 1849ء میں یہ مدارس نظامت کے ماتحت ہوئے۔ اس زمانے میں مدارس رشیدیہ کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن اس میں اساتذہ علمی اور تربیتی لحاظ سے اہل نہیں تھے۔1848ء میں استنبول میں دار المعلمین کے نام سے اساتذہ کی تربیت کے لیے پہلا مدرسہ کھولا گیا۔
مدارس اور اس میں پڑھنے والے طلبہ کی کثرت نے درسی کتابوں کی مانگ بڑھا دی۔ اس لیے1849ء میں یورپ سے پرنٹنگ پریس مشینری منگوائی گئی تاکہ کتابوں کی مانگ کو پورا کیا جاسکے۔ حکومت اب تک تمام مدارس کے لیے یکساں درسی کتابیں تجویز نہ کرسکی تھی۔ اس لیے 1851ء میں انجمن دانش کے نام سے انجمن بنائی گئی تاکہ یہ دولتِ عثمانیہ میں تعلیم کا سب سے اعلی و ارفع ادارہ بنے۔ اس کے۔ اصل ممبران کی تعداد چالیس تھی جو ریاست کے بڑے بڑے عہدے دار تھے۔ جبکہ غیر اصل ممبران کی تعداد غیر متعین تھی۔ اس انجمن میں صدراعظم، شیخ الاسلام، سپہ سالار، رئیس المجلس العالی، وزیر خارجہ اور وزیر تجارت شامل تھے۔ اس انجمن نے درسی کتابوں کی تالیف و ترجمہ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔[4]
17 مارچ 1857ء کو سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کے میدان میں اہم پیش رفت ہوئی۔ اور وہ ’’نظامت معارف عامہ‘‘ کی تاسیس ہے۔[5]
محرم 1285ھ اپریل 1868ء میں غیر ملکوں کی زبانوں کی تدریس کے لیے’’مدرسۃ السلطانیۃ‘‘ کی تاسیس کا فرمان جاری کیا گیا۔ اس مدرسہ میں ملک کے مسلمان اور غیر مسلمان شہریوں کو بلا امتیاز داخلے کی اجازت دی گئی۔ اسی دور میں دار الشفعۃ اور مدرسۃ الطبیعۃ الملکیۃ کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی سال ملک کی مجلس شوری وجود میں آئی جس نے قرار داد پاس کی کہ وزارۃ المعارف ایلیمنٹری اساتذہ کے لیے استنبول میں دارالمعلمین کی بنیاد رکھے اور ملک کی مختلف ولایتوں میں مدارس رشیدیہ کی تعداد بڑھائے اور استنبول میں لڑکیوں کے لیے مدارس رشیدیہ کھولے۔ ان قراردادوں پر مکمل عمل کیا گیا اور ملک کے مختلف مدارس میں تعلیم کے عمل کی تنظیم بھی کی[6]۔
1869ء میں’’نظام المعارف العام‘‘ کے صدور تک تعلیم یا تعلیمی اداروں کے لیے ہمہ جہت نظام نہیں تھا۔ اس نظام میں ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم امور کی تنظیم اور تعلیم کی ترقی و توسیع کو ہدف بنایا گیا۔ یہ نظام پانچ شعبوں پر مشتمل تھا جس میں کل 198 شقیں تھیں۔
پہلا شعبہ مدارس کی کل اقسام اور اس کے درجات سے متعلق تھا۔ مدارس کو پانچ درجات میں تقسیم کیا گیا جو درج ذیل ہیں:
صبیان، رشدیہ، اعدادیہ، سلطانیہ اور عالیہ۔ اعلی تعلیم میں دار المعلمین، دار المعلمات اور دارالفنون/ یونیورسٹی شامل تھے۔
نظام کا دوسرا شعبہ’’معارف عامہ‘‘ کی تشکیلات سے متعلق تھا۔ تیسرا شعبہ امتحانات کے نظام سے متعلق تھا۔ چوتھا شعبہ اساتذہ سے متعلق تھا اور پانچواں شعبہ المعارف کے مالی معاملات سے متعلق تھا۔ اس نظام میں دار الفنون کے لیے51 شقیں مخصوص تھیں لیکن اس نے وزارت دفاع کے ماتحت مدارس حربیہ اور طبی مدارس کے لیے کوئی شق مختص نہیں کی گئی۔ اس نظام میں’’مجلس معارف کبیر‘‘ کے دو شعبے تھے ایک علمی اور دوسرا ادارتی۔
علمی شعبے کی ذمہ داری درسی اور مختلف علمی کتابوں کی تالیف و ترجمہ اور یورپی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تھا۔
ادارتی شعبے میں مدارس، معارف کی کمیٹیوں، میوزیم، لائبریریوں، چھاپے خانوں کے ادارتی امور کی مدد کرنا اور تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے افراد کے ذاتی معاملات میں مدد کرنا تھا۔
اس نظام نے مدارس کی تمام اقسام اور اس سے متعلقہ تمام امور کو اپنے دائرہ کار میں لیا لیکن روایتی اسلامی مدارس کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ بعض محققین نے روایتی اسلامی مدارس سے بے توجہی کو عثمانی تعلیمی سیاست کی کوتاہی قرار دیا ہے۔جبکہ بعض دوسرے محققین نے اس کا سبب ان مدارس کا وزارت تعلیم کے ماتحت نہ ہونے کو قرار دیا ہے۔
عملی اقدامات کی کمی
نظام المعارف کے تحت تعلیم کے میدان میں ریاست نے جو تجاویز دیں ان میں سے بیشتر پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ تعلیم کی ترقی کے لیے وزارت تعلیم کا کردار عموماغیر موثر رہا۔ 1876ء میں جب عبدالحمید ثانی نے حکومت سنبھالی تو یہ وزارت ایک ادارتی ادارے سے زیادہ نہ تھی۔ دو ولایتوں کے علاوہ کسی ولایت میں تعلیمی معاملات کو دیکھنے کے لیے کل وقتی ذمہ دار موجود نہیں تھا۔ مالی وسائل اور اساتذہ کی کمی کے باعث تعلیم کی ترقی اور تعلیمی اداروں کے پھیلاؤ کی حکومتی کوششیں غیر مؤثر رہیں۔ 1869ء میں نظام المعارف کی منظوری کے باوجود 1876ء تک استنبول میں چند اور دارالحکومت سے باہر ایک مدرسہ اعدادیہ کی تاسیس ممکن ہوئی اور ریاست نے جو امیدیں باندھی تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں۔
اصلاحات کا تیسرامرحلہ
عبدالحمید ثانی نے 1876ء میں اقتدار سنبھالا تو اس نے مدارس الصنائع کے بانی مدحت پاشا کو صدراعظم مقرر کیا۔ اس سے ترقی پسند عثمانیوں کی تمنائیں برآئیں۔ اس نے پہلے سال نئے دستور کا اعلان کیا۔ اس سے اگلے سال سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کی پہلی پارلیمان کا افتتاح ہوا جس کا نام’’مجلس المبعوثان‘‘تھا۔ لیکن اسی سال روس کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی جس میں سلطنت کو شکست ہوئی۔ بلقان اور اناطولیہ کے علاقے کی بہت ساری زمین ہاتھ سے نکل گئی۔ سلطان نے پارلیمنٹ کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دے کر مجلس کو برخاست کردیا۔ اس دور میں تعلیم کے میدان میں کافی ترقی ہوئی۔ بہت سے پیشہ ورانہ اور فنی تعلیم کے ادارے کھولے گئے۔ تعلیم کے عمل کو جدید طرز پر ڈھالا گیا۔ اور ابتدائی مدارس کو وزارت المعارف سے مربوط کیا گیا۔ اگرچہ مدارس الصبیان میں تدریس سے وابستہ افراد نے اس عمل کی مخالفت کی اور اس معاملے میں مملکت کے فرامین کی مزاحمت کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ پہلی مرتبہ مختلف مدراج کے جدید تعلیمی ادارے قائم ہوئے جن میں اعلی تعلیم کے ادارے بھی تھے۔ اعلی تعلیم کے ادارے پورے ملک میں قائم کیے گئے جن میں عربی ولایات کا حصہ زیادہ تھا۔
جولائی1879ء میں وزارت المعارف نے تنظیم نو کا اعلان کیااوراپنے اداروں کو انتظامی لحاظ سے پانچ حصوں میں تقسیم کیا۔ تعلیمی اداروں کے معاملات کو آسان کرنے کے لیے اور اس کے کام کو مطلوبہ شکل میں پورا کرنے کے لیے ہر ادارتی وحدت کو مجلس المعارف کے ایک ممبر کی نگرانی میں دیاگیا۔ وزارت المعارف کے پانچ شعبے درج ذیل تھے:
- شعبہ مدارس عالیہ
- شعبہ مدارس رشدیہ
- شعبہ مدارس الصبیان
- شعبہ تالیف و ترجمہ
- شعبہ پریس[7]
16 فروری 1882ء میں ہر ولایت کے مرکز میں مجلس المعارف کی تشکیل کی گئی اور اس میں ایک مدیرِ معارف تعینات کیاگیا تاکہ ولایات میں تعلیمی امور چلانے میں آسانی ہو۔ 1908ء میں سلطان عبدالحمید ثانی کے خلاف انقلاب کے بعد بھی تعلیم کی ترقی کا سلسلہ جاری رہا۔ 1913ء میں ابتدائی تعلیم کے لازمی ہونے کا قانون جاری ہوا جو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک نافذ رہا۔ اس قانون کی بدولت سلطنت میں تعلیم مفت اور لازمی ہوگئی۔ مگر جب عثمانی خلافت کا سقوط ہوگیا تو ملک میں ایک ہر شعبے کے اندر تبدیلی رونما ہونے لگی۔ ہر شعبہ زندگی کو مغربی طرز میں ڈھالا جانے لگا اور ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو جدید قومی ریاست کے تناظر میں اس سے بالکل مختلف تھا جو عثمانیوں کے عہد کا خاصہ تھا۔
مذکورہ بالا ساری تفصیل سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عثمانی عہد میں خلافت کے مقتدر ذمہ داروں نے تعلیمی اصلاحات کا کام بہت دیر سے شروع کیا تھا۔اگر خلافت عثمانیہ کے تحت ترکی میں اور باقی مسلم دنیا میں باقاعدہ اور منظم انداز میں ایک تعلیمی تحریک شروع ہوتی تو آج مسلمان ممالک میں اس کے اثرات بھی نظر آتے اور معاملہ کافی مختلف ہوسکتا تھا۔
[1] سالنامہ نظارت معارف عمومیہ، 1316ھ،17
[2] فاضل بیات، المؤسسات التعلیمیۃ فی المشرق العربی العثمانی،17
[3] مکتب معارف عدلیہ۔ یہ ایلیمنٹری سطح کا تعلیمی ادارہ 1837ء میں ریاستی اداروں کے ملازمین کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا۔ اس سکول میں عدلیہ کا لفظ عدل یا قانون کے معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ سلطان محمود الثانی کے لقب’’عدلی‘‘کی نسبت سے استعمال ہوا۔ یہ مدرسہ1862ءتک قائم رہا۔
[4] سالنامہ معارف عمومیۃ ،1317ھ، 25
[5] ایضاً
[6] ایضاً
[7] فاضل بیات۔ المؤسسات التعلیمیۃ فی المشرق العربی العثمانی۔ ص:21