پاکستان کے مدارس میں رائج نصاب تعلیم بنیادی طور پر درس نظامی سے ہی اخذ شدہ ہے۔ یہ نظام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ردو بدل کے ارتقائی عمل سے بھی گزرتا رہتا ہے۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ طرز ِتعلیم ایک حکمت عملی تھی جو مسلمانان ہندے کے اکابر نے اپنائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی انگریزوں کے زمانے میں جب مسلمانوں سے مرکزی قیادت چھین لی گئی تو ان کے پاس اس بات کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ اسلامی علو م و فنون کے تحفظ کے لئے ایک خالص دینی نظام کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو زمانے اور ریاست کی دست برد سے بچایا جاتا۔لیکن اس کے ساتھ ہی اسے جامد نظام تسلیم نہیں کیا گیا، شروع سے ہی علماء اپنی اپنی آراء دیتے رہے ہیں۔ اس مضمون میں چند اہم آراء جمع کی گئی ہیں۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
استعماری عہد میں اکابرعلماء نے دینی نظام اور دینی تعلیمات کو زندہ رکھنے کے لیے اور انفرادی حیثیت میں لوگوں کی مذہبی رہنمائی کے لیے مدارس قائم کیے تھے جو اصل میں استعماری تعلیمی نظام کا متبادل تھا۔مدارس کے نظام کو باقی رکھنے کے لیے مختلف علمی تحریکیں بھی چلیں۔ متحدہ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند جامعہ ملیہ، علی گڑھ اور ندوۃ کا قیام اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کہتے ہیں:
’’جن حالات میں ہمارے بزرگوں نے جدوجہد کی، وہ آئیڈیل صورت نہ تھی اور نہ ہی آئیڈیل حالات تھے۔ نہ وسائل دستیاب تھے نہ حکومتی سرپرستی حاصل تھی اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی کے لئے تیار نہ تھا۔ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسے کے خاص دائرہ تک محدود تھی۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے ا س کو موجودہ زندگی سے متعلق کیا جائے۔ اور اس کو معاشرہ میں فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے‘‘۔[1]
مدارس کے نصاب اور مدارس کے نظام میں تبدیلی کی یہ سوچ مثبت بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد علماء اور فضلاء جو اس نظام سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے، مدارس کی جوہری خاصیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلیوں اور جدت کے قائل رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کاذکر کرتے ہوئے، ان کی آراء کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد
مولانا ابو الکلام آزاد نامور سیاسی اور مذہبی رہنما تھے۔ سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ اعلی پائے کے مصنف اور علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا کے نزدیک مدارس کے طلبہ پر ایک ہی وقت میں تین مختلف زبانوں کے سیکھنے کا بوجھ حیرت انگیز ہے۔ ان کا خیال تھا کہ درس نظامی ہماری زندگی کی ضروریات کی ہرگز کفالت نہیں کرتا، ایک مکتوب کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’ایک بچہ آٹھ برس کا عربی زبان کو شروع کرتا ہے، آپ میزان اور منشعب سے اسے شروع کرواتے ہیں فارسی زبان اس کے لیے اجنبی زبان ہے۔ خود اس کی مادری زبان اردو ہے، آپ ایک ہی وقت میں اس پر تین بوجھ ڈالتے ہیں اس کی ساری دماغی قوت یتنھ حانوں میں بٹ رہی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جتنے فنون آلیہ ہیں، ان کی پہلی کتاب مادری زبان میں ہونی چاہیے‘‘۔
نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے 194ء میں ان کا موقف یہ تھا کہ:
’’لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے یہ تبدیلی نہیں کی، تو کم از کم ہم کو یہ تبدیلی پچاس برس پہلے کرنا چاہیے تھی لیکن آج 1947ء میں ہم اپنے مدرسوں میں جن چیزوں کو معقولات کے نام سے پڑھا رہے ہیں، وہ وہی چیزیں ہیں جن سے دنیا کا دماغی کارواں دو سو برس پہلے گزر چکا۔ آج ان کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔
مولانا شبلی نعمانی
مولانا شبلی نعمانی ہندوستان کے محقق عالم ہیں، تاریخ، سیرت، علم الکلام اور رجدید فکرپر ان کو خصوصی دسترس حاصل تھی۔ان کے خیال میں درس نظامی ہندوستان کا کیمرج ہے ہندوستان میں آج کلکتہ سے پشاور تک جس قدر تعلیمی سلسلے پھیلے ہوئے ہیں، سب اس درس کی شاخیں ہیں۔ کوئی عالم عالم نہیں مانا جا سکتا، جب تک کہ ثابت نہ ہو کہ اس نے اسی طریقہ درس کے مطابق تعلیم حاصل کی ہے، جس طرح کھوٹہ سکہ ٹکسال سے باہر آجاتا ہے اسی طرح کسی کتاب کا درس نظامیہ سے خارج ہونا اس بات کی دلیل ہےکہ وہ نصاب تعلیم میں داخل ہونے کی قابلیت کادعوی نہیں کرسکتی۔[2]
مولانا شبلی نعمانی مدارس نظامیہ کے نصاب میں اپنی موافقانہ رائے رکھنے کے باوجود اس بات کے قائل تھے کہ اس میں ترامیم و اضافہ جات کیے جائیں ان کا خیال تھا کہ وہ ’’ہمارے نزدیک ضروریات زمانہ کے باعث ہر لحاظ سے درس نظامہ میں بہت کچھ ترامیم و اضافہ کی ضرورت ہے‘‘۔[3]
مولانا محمود حسن(مذہبی رہنما، صدر المدارسین دارالعلوم دیوبند)
شیخ الہند مولانا محمود حسن ہندوستان کی معروف علمی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے۔ دارالعلوم دیوبند ہندوستان میں درس نظامی اور درس ولی الہی کا امتزاج تھا۔ مولانا موصوف اس کے صدر مدرس تھے لیکن درس نظامی کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص کر انگریزی زبان سیکھنے کے حامی تھے۔ مولانا عبیداللہ سندھی جو ان کے نامور نو مسلم شاگرد تھے کو ایک موقعہ پر کہا:
تمہاری عمر کے نوجوانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ دورہ حدیث شریف کے بعد بی اے کے اسٹینڈر تک، جب تک انگریزی زبان میں استعداد بہم نہ پہنچائیں، عملی زندگی میں قدم نہ رکھیں، ہمارا تجربہ ہے کہ یہ نصاب پڑھنے کے بعد نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ یونیورسٹی کے کسی تعلیم یافتہ سے کم نہیں ہوتے۔
مولانا مناظر مناظر احسن گیلانی
مولانا مناظر احسن گیلانی برصغیر پاک و ہند کے نامور محقق، ماہر تعلیم اور تاریخ نویس ہیں۔ پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت کے موضوع پر ان کی باقاعدہ تصنیف ہے۔ جس میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ مولانا گیلانی لکھتے ہیں:
’’قرآن و حدیث ، فقہ ان تین علوم کے سوا ہمارے مدرسوں کے سارے علوم نظر ثانی کے محتاج ہیں صورت جسمیہ بدلتی رہتی ہے لیکن ہیولی ہر حال میں مشترک رہا ہے‘‘۔[4]
مولانا گیلانی کا خیال تھا کہ علوم اصلیہ کی تین کتابیں(قرآن مجید، مشکوۃ(خلاصہ صحاح) اور فقہ میں شرح و قایہ باقی رہنے دی جائیں اور معقولات جو قدیم زمانے میں رائج تھیں ان کی جگہ علوم عصریہ(جدید علوم) اور فارسی کی جگہ انگریزی کو پڑھایا جائے اس طریقہ کار سے ایے افراد پیدا ہوں گے جو حالت و زمانہ کی سوجھ بوجھ رکھنے اور علوم قدیمہ اور جدیدہ سے کماحقہ واقفیت رکھنے والے ہوں گے)۔
مولانا ابو الاعلی مودودی
مولانا مودودی جدید دنیا کے نامور سکالر تھے، اگرچہ بذات خود مدارس کے نظام کا حصہ نہیں رہے لیکن ذاتی محنت اور لیاقت کے سبب بہت علمی شہرت پائی۔ مولانا کے خیال میں مدارس کے نصاب میں تبدیلی یا رائے کسی فرد واحد کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پور ی جماعت کی ذمہ داری ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ نصاب میں تبدیلی کی غرض سے معاصر تعلیمی اداروں کے نصابات کے مطالعہ سے کوئی سمت متعین نہیں کی جاسکتی۔ مدارس کے نصاب تعلیم کے متعلق ایک استفسار کے جواب میں انہوں نے لکھا:
’’کتابوں کے نصاب کی تفصیلات طے کرنا شخص واحد کا کام نہیں۔جماعت کی مقرر کردہ کمیٹیوں نے اپنا کام اب تک مکمل نہیں کیا ، لےدے کر تعلیمی کانفرنس کی روداد اور اس کا طے کردہ تعلیمی لائحہ عمل ہے جس کی روشنی میں آپ خو د اپنے حال کے لیے کتب نصاب متعین کرسکتے ہیں۔ اور شخصاً دوسرے دلچسپی رکھنے والے حضرات سے مشورہ کرسکتے ہیں۔ اگر ضرورت سمجھیں تو دیوبند، مدرسۃ الاسلام ، مظاہر العلوم سہانپور نیز پنجاب یونیورسٹی، دکن یونیورسٹی وغیرہ کے نصاب آپ مطالعہ فرما لیں ‘‘۔
مولانا سید محمد میاں(تاریخ نویس، محقق، مصنف)
مولانا سید محمد میاں برصغیر کے معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا موصوف درس نظامی کے بنیادی نصاب میں زیادہ تبدیلی کے قائل نہیں تھے، لیکن بااعتبار مجموعی اس میں مفید اصلاحات کے حق میں تھے، مولانا فضل محمد کے ججواب میں انہوں نے لکھا:
’’میں تبدیلی نصاب کے بارے میں زیادہ روشن خیال نہیں ہوں، بلکہ مقلد ہوں، اگرچہ موجودہ نصاب میں کچھ تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن جزوی طور پر تنسیخ ٹھیک نہیں۔ مثلاً عربی کی ابتدائی کتابیں، فارسی کے بجائے اردو میں پڑھائی جائیں، شروع کی طوالت کو حذف کردیا جائے۔ البتہ متون میں بعض مناسب اضافہ ضرور کردیا جائے‘‘۔
مولانا اعزاز علی(مصنف، مدرس)
مولانا اعزاز علی دارالعلوم دیوبند کے ادب کے استاذ اور کئی کتابوں کے مصنف اور شارح تھے۔ مولانا کے خیال میں حصول علم کے لیے جو محنت درکار ہے طالب علم اس سے تہی دست ہوتے جارہے ہیں اور ہمتیں پست ہوتی جارہی ہیں جس کا تدارک نصاب کی تبدیلی سے ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ وہ کچھ تبدیلی و ترمیم کے حق میں بھی ہیں۔ تاہم مکمل نصاب کی تبدیلی ان کے نقطہ نظر کے مطابق درست نہیں۔ نصاب کی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے مکتوب کے جواب میں لکھا ہے:
’’سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ قومی مدارس میں ایسے اساتذہ رکھے جائیں جو خود ذی استعداد، محنتی، فرائض تدریس کے انجام دینے میں کوتاہی نہ کرنے والےہوں۔ میری ہرگز رائے نہیں ہے کہ کنز الداقائق اور کافیہ جیسی کتابیں درس نظامی سے کم کی جائیں اور درس نظامی کا اصل مقصد یہ کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو قرآن و حدیث کو اچھی طرح سمجھنے والے ہوں، نہ کہ اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ اہل مصر کی طرح عربی بولنے والے، عصری علوم کا بھی درس نظامی میں پایا جانا ضروری ہے تاکہ کامل الفن لوگ پیدا ہوں ‘‘
مولانا سعید احمد اکبر آبادی(مصنف ، محقق)
مولانا سعید احمد اکبر آبادی مشہور ماہر تعلیم اور استاد تھے۔ ہندوستان سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی پرچے کے مدیر تھے۔مولانا کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدارس کے نصاب میں اصلاح اور تبدیلی کی ازبس ضرورت ہے کیونکہ مدارس عربیہ کا نظام عمل صرف دینی اغراض تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، اگرچہ اس کے اسباب طبعی اور قدرتی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا سعید احمد مولانا ابو الکلام آزاد کی بنائی گئی تعلیمی اصلاحی کمیٹی کے ممبر بھی تھے، ان کے خیال میں ہندوستان میں مدارس میں رائج نصاب تعلیم (شاہ ولی اللہ ) اور (فرنگی محل) کے خیالات سے مستعار شدہ ہے، جس کی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی ضرورت ہے منطق اور فلسفہ کی غیر اطلاقی ابحاث کی بھی فی نفسہ ضرورت نہیں ہے۔ اپنے ایک سلسلہ گفتگو میں انہوں نے اس بارے میں کہا:
’’ہندوستان میں علوم وسط ایشیا کے راستے آئے، مختلف کتابیں داخل درس ہوئیں۔یہاں دو گروپ بن گئے ایک گروپ منقولی(شاہ ولی اللہ) اور دوسرا معقولی(فرنگی محل) جب بعض علماء نے دیکھا کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ نہیں چل سکتے تو انہوں نے اسے یکجا کرکے ایک درس گاہ(دارالعلوم دیوبند) میں رائج کردیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت مفیدچیز تھی۔ لیکن وہیں مضر بھی کہ وہیں قدیم طریقہ قائم ہےاور قوت اجتہاد و تفکر مفقود۔ اگر آپ واقعی اسلام قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ درس گاوہیں کیسے قائم رکھیں اور ان میں کیا پڑھائیں‘‘۔[5]
مفتی محمد شفیع عثمانی(بانی دارالعلوم، کراچی)
مفتی محمد شفیع عثمانی دارالعلوم کراچی کے بانی اور شیخ الحدیث تھے، آپ نے قرآن مجید کی مشہور تفسیر، معارف القرآن لکھیں، علاوہ ازیں دیگ کئی کتابوں کے تحریر کنندہ ہیں۔ مفتی محمد شفیع نصاب میں تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے خیال میں نامور علماء فضلاء اسی نصاب کے تیار شدہ تھے البتہ ایسے اساتذہ اور معلمین باقی نہیں رہے، جن کی محنت اورتدریس کی مہارت سے ذی استعدد طلباء تیار ہوں۔ ان کے بقول:
’’جتنے اکابر علماء اب تک پیدا ہوئے وہ اسی نصاب کے فاضل ہیں جس کو آج فرسودہ کہا جاتا ہے۔ مگر اساتذہ ماہرین و کاملین تھے، اسی لیے اسی نصاب سے سب کچھ حاصل ہوگیا، اور عام سکولوں اور کالجوں میں ہر تیسرے سال نصاب بدلنے والی کمیٹیاں بیٹھتی ہیں، مگر رجال کار کی طرف توجہ نہیں ہوتی، اس کے غلط نتائج کسی بصیر انسان سے پوشیدہ نہیں‘‘۔
مولانا عبدالحق(بانی دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک)
مولانا عبدالحق مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کے بانی و مہتمم اور شیخ الحدیث تھے۔آپ نے درس وتدریس کے ساتھ ملی، سیاسی اور سماجی خدمات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اسلامی قوانین کے سلسلے میں جن آٹھ علماء کا مشاورت کے لیے انتخاب کیا تھا ان میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔1952 میں دیگر علماء کے ساتھ مل کر جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی۔تین مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔1973 کے آئین کی تشکیل میں بھی حصہ لیا تھا اور دو سو سے زائد ترامیم پیش کیں۔آپ دینی مدارس کے نصاب سے متعلق کسی بڑی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے،البتہ کچھ اصلاحات کے حق میں تھے،مگر وہ جو خود علماء تجویزکریں ،نہ کہ حکومتی مطالبات کی اساس پر۔ان کے بقول:
’’تبدیل شدہ نصاب کو صرف اسی صوت قبول کیا جائے گا جب اس کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے گی۔اس کام کے لیے جدید علوم کے ماہرین اور اسلامی علوم کے ماہرین کا باہمی تعاون ازحد ضروری ہے۔نئی اصلاحات میں عمرانیات کے علوم بھی شامل کیے جانے چاہئیں۔عالم اسلام کے مسائل، جدید دور کے حالات اور معاشرتی و اقتصادی امور بھی زیربحث لائے جانے چاہیئں تاکہ طلبہ میں دورِ جدید کے مسائل کا فہیم پیدا ہوسکے‘‘۔
مولانا سید ابو الحسن علی الندوی
مولانا سید ابو الحسن علی الندوری نامور تاریخ نویس اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ دور جدید کے انتہائی معتبر سکالر اور مصنف کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تاریخ دعوت و عزیمت، پرانے چراغ اورسید احمد شہید(سوانح) آپ کی تحریر کردہ معروف ہیں۔ مدارس کے نصاب کے حوالے سے ان کی رائے یہ تھی کہ علوم مقصودہ میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ،البتہ مدرسین اور طلبہ جدید زمانے کے اشکالات اور تقاضوں سے عموماً بے خبر ہوتے ہیں، اس لیے جدید علوم حاصل کرنا ضروری ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخری درجات یعنی دور حدیث سے پہلے طلباء کو اخلاقیات کی کتابیں پڑھائی جائیں، ایک مکتوب کے جواب میں انہوں نے لکھا:
’’علوم مقصودہ تفسیر و حدیث وفقہ میں کتابوں میں اتنی تبدیلی اور اضافہ کی ضرورت نہیں جتنی طرز تعلیم، مطالعہ اور استعداد آفرینی کے لحاظ سے ضرورت ہے۔ ہمارے مدارس میں ان فنون کے لیے جو مستند کتابیں داخل ہیں ان سے استثناء مشکل ہے اور ان کابدل بھی آسان نہیں لیکعن طرز تعلیم کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اصل انحصار معلمین، ان کی تربیت، زمانہ کے فہم اور روح دعوت، جدید علم سے واقفیت پر ہے۔ طلباء کے لئے دورہ حدیث سے پہلے سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ کوئی کتاب ایسی پڑھائی جائے کہ طالب علم کو روحانی اور اخلاقی فائدہ ہو‘‘۔
ڈاکٹر رشید احمد جالندھری(ایڈیٹر، مصنف، تاریخ نویس)
ڈاکٹر رشید احمد جالندھری دور جدید کے معروف محقق ہیں، تاریخ دیوبند انہی کی تصنیف ہے، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے شائع ہونے والے جریدے ’’معارف ‘‘ کے ایڈیٹر تھے، درس نظامی کے نصاب میں چند تبدیلیوں کے ساتھ اس کو مفید قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں اگر کوئی طالب علم اس کو محنت سے پڑھے تو علمی صلاحیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’بے شک درس نظامی سے دقت نظر پیدا ہوتی ہے، بشرطیکہ طالب علم اپنا سفر جاری رکھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس میں بعض ضروری مسائل کا اضافہ نہ ہوسکا‘‘۔
مولانا سلیم اللہ خان(سابق صدر وفاق المدارس، شیخ الحدیث)
مولانا سلیم اللہ خان وفاق المدارس العربیہ کے صدر تھے۔ زندگی کا ایک طویل عرصہ تدریس میں گزارا، مدارس کے اتحاد اور نصاب کے بارے میں ان کی طویل خدمات ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان کی رائے تھی کہ ایسے علماء تیار ہوں جو دور جدید کے ہر چیلنج کامقابلہ کرسکیں۔علماء کا صرف یہ کام ہے کہ وہ صرف قرآن پڑھائیں ، حدیث یا فقہ پڑھائیں، یہ ضرور پڑھائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بھی سعی کریں۔ مولانا کی یہ رائے ایک طرح سے وفاق والمدارس کے تعلیمی و نصابی منہج کی بھی عکاسی کرتی ہے، کہتے ہیں:
’’ آپ باقاعدہ ایسے انگریزی مدارس قائم کریں جس کے اندر اعلی درجے کی انگریزی زبان سکھائی جائے اور اعلی درجے کی ان کی تربیت بھی کی جائے اور ان کو ایسا بنایا جائے کہ وہ عصر حاضر کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرسکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ سمجھنا کہ صاحب ہمارا کام تو قرآن پڑھانا ہے ، ہمارا کام تو حدیث پڑھانا ہے، ہمارا کام تو فقہ پڑھانا ہے، میں کب کہتا ہوں کہ یہ سب چھوڑ کر انگریزی پڑھائیں، لیکن متبادل انتظام یہ بھی کریں ۔میں نے عرض کیا تھا کہ آپ کے حلق سے یہ بات بہت مشکل سے اترے گی، لیکن یہ اتارنی ہے‘‘۔
[1] بشیر احمد خان سواتی، دینی مدارس اور عصر حاضر ، شریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، 2007ء، ص:147
[2] حقانی میاں، ڈاکٹر، دینی مدارس اور عصر ی تقاضے، فضلی سنزز، کراچی،2002ء، ص:548
[3] مقالات شبلی، (تعلیمی)جلد نمبر 3
[4] دینی مدارس اور عصری تقاضے، ص: 509
[5] دینی مدارس نصاب ونظام، ص:183- 184 ، نیز ملاحظہ ماہانہ’’ترکھان‘‘دہلی،اپریل54، ص: 36