ایران چونکہ اہل تشیع مکتب فکر کا اکلوتا مرکز رہا ہے اس لیے یہاں اہل تشیع کے نظریات پر مبنی اسلامی کورسس بڑی تعداد میں پڑھائے جاتے ہیں ۔پوری دنیا سے اہل تشیع مکتب فکر کے طلباء ایران سے اسلامی علوم میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔حکومتی سطح پر ایسے طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ایران کے حوزے دینی تعلیم کے فروغ اور تخصصات کے لحاظ سے پوری دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔خصوصا ’حوزہ علمیہ قم‘ کو بلند مقام حاصل ہے۔مکتب تشیع کی اس دینی علمی روایت کی تاریخ کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں، اس مضمون کا موضوع ہے۔مضمون نگار محقق اور اسلامی علوم وفلسفہ کے ماہر ہیں۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
ایران میں ابتدائی/پرائمری مرحلے کو ”مقدمات“ کہتے ہیں۔ اس مرحلے میں طالب علموں کو نصاب میں شامل بنیادی عربی، فارسی، گرائمر، منطق، فقہ و اصولِ فقہ سے آشنائی، عرصہ چھ سال تک پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہائی سکول لیول جسے ایران میں ”سطح“ کہا جاتا ہے، میں فقہ، اصولِ فقہ، قرآن، تفسیر، حدیث، کلام اور فلسفہ کی تدریس قدرے تفصیل کے ساتھ عرصہ چار سال تک پڑھائے جاتے ہیں۔(یاد رہے، کہ درج بالا مرحلوں کے دوران بحث و مباحثہ اور خطابت پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے) درس خارج: یہ مرحلہ چار سال اور مزید کچھ سالوں پر محیط ہوتا ہے، جس میں زیادہ تر توجہ تخیل و قیاس کے ذریعے(خود بقول ان کے) جدید مسائل کا شرعی حل نکالنے پر مرکوز ہوتا ہے، جیسے فقہ قیاسی بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ مرحلہ رتبہ مجتہد کی طرف لے جاتا ہے۔ کئی عوامل کی بنا پر طلبا کی ایک نہایت محدود تعداد درس خارج میں شامل ہوتی ہے، جس میں زیادہ تر ایرانی اور عرب ہوتے ہیں۔
شہرِقم کی تاریخ
قم کا شمار اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم شہروں میں ہوتا ہے اور یہ ایران کا آٹھواں بڑا شہر ہے ۔جو تہران سے تقریباً۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے ۔شہر قم کے شمال میں تہران،جنوب میں اصفہان،مشرق میں صوبہ سمنان اور مغرب میں صوبہ مرکزی واقع ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کےمطابق قم شہر کی کل آبادی ۱۱۵۱۶۷۲نفوس پر مشتمل ہے ۔
عراق کے شہر نجف اشرف کے بعد قم مسلمانوں کا سب سے اہم علمی مرکز سمجھا جاتاہے ۔قم اس لئے بھی قابل احترام ہے کہ یہاں پر آٹھویں امام حضرت علی رضاکی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ کا مزار بھی ہے ۔شہر قم کی آبادی کا ایک بڑا حصہ علماکرام، فقہاعظام اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلاب پر مشتمل ہے ۔شہر قم کو اس کی علمی ،تاریخی اور معنوی اہمیت کے پیش نظر مختلف ناموں اور القاب سے یاد کیا جاتاہے ۔جن میں سے مشہور قم المقدسہ،شہر علم،علماکا شہر اور شہرکریمہ اہل بیت وغیرہ ہیں۔
شہر قم قدیم زمانے سے علمی مرکز رہاہے ۔ حجاج بن یوسف ثقفی کے دور میں جب بنوہاشم کے چاہنے والوں پر سر زمین عرب تنگ ہونے لگی تو انہوں نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے سر زمین عرب کو خیر باد کہتے ہوئے دور دراز علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کیا۔ اسی دوران سر زمین کوفہ سے تعلق رکھنے والے اشعری نامی ایک قبیلہ کے لوگوں نے کوفہ سے ہجرت کرکے قم کو اپنا مسکن قرار دیا ۔جیسا کہ محمد شریف رازی نے لکھاہے کہ :”انہوں نے قم کو جو ۱۶ قلعوں پر مشتمل تھا ایک شہر میں تبدیل کردیا اور اپنے مخالفین کو وہاں سے باہر نکال دیا ،یوں شہر قم علم حدیث کا مرکز بن گیا”۔
حوزہ کا مفہوم
حوزہ یا الحوزہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی کنارہ ،طبیعت اور سرحدوں کے درمیان گھراہوا وسطی اور مرکزی علاقہ کے ہیں،اسی مناسبت سے ملک کے دار الخلافہ کو بھی حوزہ کہتے ہیں ۔جبکہ عام اصطلاح میں لفظ حوزہ یاحوزہ علمیہ اس دینی تعلیمی مرکز کو کہا جاتاہے جہاں ابتدائی کلاس سے لیکر اجتہاد کے درجے تک کی دینی تعلیم دی جاتی ہو۔عام طور پرجب حوزہ علمیہ قم یا حوزہ علمیہ نجف اشرف یا کسی اور حوزہ علمیہ کی بات کرتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتاہے کہ حوزہ علمیہ قم یا حوزہ علمیہ نجف کسی خاص مدرسہ کا نام ہوگا،جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ قم اور نجف کو ان کی علمی مرکزیت کی وجہ سے حوزہ علمیہ کہا جاتاہے جہاں پر سیکڑوں مدارس ہیں جو “شورای عالی حوزہ ہای علمیہ “یعنی حوزات علمیہ کی سپریم کونسل نامی ادارے کے زیر نظر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ حوزہ علمیہ مشہد مقدس اور حوزہ علمیہ اصفہان کے علاوہ(ان دونوں حوزات علمیہ کی اپنی اپنی الگ سپریم کونسل موجود ہے ) ایران کے دیگر صوبوں میں موجود تمام دینی مدارس بلکہ بعض بیرون ملک کے مدارس بھی اسی شورای عالی کے زیر نظر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ حوزہ علمیہ قم نے اپنی طویل زندگی میں زمانے کے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔حالات نے بارہا اس کی ترقی کی راہیں مسدود کی ہیں اور مشکلات نے اکثر و بیشتر اس کی رفتار ترقی کو متاثر کیاہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ وہ نامساعد حالات اور پے درپے مشکلات کے باوجود ترقی کی منزلیں طے کرتارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا حوزہ علمیہ قم اس حوزہ سے بہت مختلف ہے جس نے آج سے تقریباً ستانویں سال قبل سن ۱۹۲۱ء میں آیت اللہ عبدالکریم بروجردی کی سرپرستی میں بڑئی بے سروسامانی کے عالم میں اپنی تعلیمی اور تدریسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یقیناً اس وقت حوزہ کو یہ سہولیات میسر نہ تھیں جو آج کے حوزہ کو میسر ہیں آج حوزہ علمیہ قم کو اس کی ضرورت کی تمام سہولیات ، عمارتیں،سماعت گاہیں،کتب خانے دستیاب ہیں کہ جن کے در ودیوار کسی عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی کی عظمت و وقار کا پتہ دیتے ہیں جہاں کے پروقار اور پرسکون ماحول میں صبح و شام تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں ،بلکہ دن رات اس کے کتب خانوں کی روشنیاں دورسے جھلملاتی نظرآتی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں شمع علم کے پرستار ہمہ وقت مصروف مطالعہ رہتے ہیں ۔
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس پہلی صدی ہجری سے جاملتی ہے ۔اس وقت سے لیکر آج تک بڑی عظیم شخصیات مختلف ادوار میں حوزہ علمیہ قم کی تاسیس نو کے حوالے سے اپناکردار اداکرتی رہی ہیں ۔
عبد اللہ اشعری:
حضرت امام زین العابدین کے دور امامت (۹۳ہجری) میں عبداللہ بن سعد اشعری کوفہ سے قم تشریف لائے اور شہر قم میں پہلا حوزہ علمیہ کی داغ بیل ڈالی اور فقہ کے درس و تدریس کا آغاز کیا یوں آپ شہر قم میں فقہ کے پہلے استاد تھے جو کھلم کھلا اس شہر میں شیعی فقہ کی تعلیم دیتے تھے۔
ابراہیم بن ہاشم:
ابو اسحاق،ابراہیم بن ہاشم بن خیل کوفی جو یونس بن عبدالرحمن کے شاگردتھے جس کا شمار حضرت امام علی بن موسی الرضا کے اصحاب میں ہوتا تھا وہ بھی کوفہ سے ہجرت کر کے قم آئے تھے اور اسے تجدید حیات بخشی۔ آپ ابراہیم بن ہاشم قمی کے نام سے معروف ہوئے۔ابراہیم بن ہاشم حضرت امام علی بن موسی الرضاکے اصحاب میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کوفہ کے بزرگ علماکی احادیث کو قم منتقل کیا۔ابراہیم بن ہاشم کے بعد آپ کے فرزند علی بن ابراہیم بن ہاشم المعروف علی بن ابراہیم قمی جو تفسیر قمی کے مصنف بھی ہیں انہوں نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا۔
علی بن بابویہ:
علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی المعروف ابن بابویہ قمی کا شمار حضرت امام حسن عسکری کے دور کے بڑے علما ءمیں ہوتاہے انہوں نے بھی اپنے دور میں حوزہ علمیہ قم کو حیات نو بخشی۔علی بن بابویہ نے اپنے دور مدیریت میں حوزہ علمیہ قم میں بڑے نامی گرامی علماءکی تربیت کی ہے منجملہ ان میں سے ایک شیخ صدوق کا نام ہے۔ شیخ صدوق حوزہ علمیہ قم سے فراغت کے بعد بغداد تشریف لے گئے۔
حوزہ علمیہ قم کی کامیاب پالیسی ۲۸۰ھ سے لیکر ۳۴۰ھ میں تشیع کی تبلیغ،تعلیم و تربیت کا سبب بنی ۔ بنوامیہ اور بنوعباس کی طرف سے علویوں پر تمام تر دباؤ اور سختیوں کے باوجود اسی حوزہ علمیہ اور اس سے وابستہ علماءکی کوششوں سے علویوں کی دوچھوٹی حکومتیں قائم ہوئیں (یعنی مازندران کے علویوں(ناصر صغیر) اور آل بویہ مختلف علاقوں (فارس، عراق، خوزستان، رے، ہمدان اور اصفہان) میں اپنی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ۔حوزہ علمیہ قم نے چوتھی صدی ہجری کے نصف اول اور پانچویں صدی ہجری میں ترقی کی بلندیوں کو چھولیا تھا لیکن چھٹی صدی ہجری سے لیکر نویں صدی ہجری تک انتہائی مشکلات اور سختیوں سے دوچار ہوا جس کی بنیادی وجہ مغلوں اور تیموریوں کی طرف سے قتل عام کے واقعات ہیں ۔
قم پرحملے اور علمی زوال
۶۲۱ھ میں قم اور کاشان پر منگولوں کے بے رحمانہ حملوں اور خونریزیوں کے نتیجے میں حوزہ علمیہ قم پر بھی بے شمار منفی نتائج مراتب ہوئے جس کی وجہ سے یہ عظیم حوزہ روبزوال ہوا ۔آقابزرگ تہرانی کے بقول ’قمی‘ نسبت رکھنے والے علماکی تعداد چھٹی صدی ہجری میں ۳۴،ساتویں صدی میں ۳ اور نویں صدی میں ۷ تھی جبکہ اس کے مقابلے میں حوزہ علمیہ حلہ میں علماکی تعداد چھٹی صدی ہجری میں ۱۶،ساتویں صدی میں ۳۴،آٹھویں صدی میں ۳۸ اور نویں صدی میں ۱۰ تھی۔ یہ بات بذات خود اس دور میں حوزہ علمیہ قم کے جمود اور روبزوال ہونے پر دلادت کرتی ہے ۔لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اس دوران بھی تمام تر مشکلات کے باوجود حوزہ علمیہ قم کی علمی فعالیت جاری و ساری رہی ہے ۔ابن طاؤس (متوفی۶۹۳ھ) نے قم میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے۔ جو ان دنوں سرگرم عمل تھا اور شاید قم کے بازار کے قریب واقع مدرسہ رضویہ اسی مدرسے کی یادگار ہے ۔اسی طرح ابن عنبہ(متوفی۸۲۸ھ) نے بھی بازار قم کے نزدیک”سورانیک” کے علاقے میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے ۔ جس میں امام حسن مجتبیٰ کی اولاد میں سے ایک امامزادہ “ناصر الدین علی بطحانی” مدفون ہیں ۔”خواندمیر”اپنی کتاب دستور الوزرا میں تیموری بادشاہوں کے وزیر برہان الدین عبدالحمید کرمانی (متوفی ۸۷۷ھ) کے حالات زندگی بیان کرتے ہیں جنہوں نے قم کے ایک مدرسے میں سکونت اختیار کی تھی ۔مدرسی طباطبائی نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ وہی مدرسہ غیاثیہ تھا جو تقریبا ۷۳۰ھ میں خواجہ غیاث الدین امیر محمد بن رشید الدین فضل اللہ کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا اور آج بھی اس کے داخلی دروازے کا بالائی حصّہ اور مینارے موجود ہیں ۔
شیعہ حکمرانوں کے علمی حوزوں پر اثرات
صفوی بادشاہوں کا شیعہ ہونا شیعہ مدارس اور حوزات علمیہ(خصوصاً حوزہ علمیہ قم) کی رونق میں اضافے کا سبب بنا۔صفویوں ہی کے دور میں مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ چند نئے مدارس بھی تعمیر کئے گئے جیسے مدرسہ مہدی قلی خان،مدرسہ جہانگیر خان اور مدرسہ مومنیہ وغیرہ(۱۴) حوزہ علمیہ قم عملی طور پر سرزمین ایران میں تشیع کا دوسرا بڑا مرکز بن گیاتھا یہاں تک کہ صفویوں کے آخری دور حکومت میں متعصب لوگوں نے قم پر چڑھائی کی جس کی وجہ سےحوزہ علمیہ قم نے اپنا رونق کھودی۔
محمد خان قاجار نے حصول اقتدار کی خاطر ایران کے مختلف شہروں منجملہ قم پر حملہ کردیا اور انہیں ویران کردیا لیکن اس کے بعد فتح علی خان قاجار نے شہروں کو دوبارہ رونق بخشنےکی پالیسی اپنائی اور مذہبی شہروں اور مقدس مقامات پر خاصہ توجہ دی اور یہ وصیت بھی کردی کہ اس کے مرنے کے بعد اسے قم میں دفن کیا جائے ۔اس دور میں شہر قم کو پھر سے رونق تو ملی لیکن وہاں پر کوئی ایساعالم موجود نہ تھا جو حوزہ علمیہ قم کو سنبھالتا۔یہاں تک کہ میرزاابوالقاسم قمی صاحب قوانین الاصول جس کا شمار میرزا آیت اللہ وحید بہبہانی (حوزہ علمیہ کربلا میں اصولی نظریات کا بانی)کے شاگردوں میں ہوتا ہے، قم تشریف لائے انہوں نے عالم تشیع میں اصولی نظریات پر مبنی دوسرے حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھ دی۔ میرزای قمی کے وجود سے حوزہ علمیہ قم کی رونقوں میں اضافہ ہوا علماءاور طلبہ کی ایک بڑی تعداد قم میں اکھٹی ہوئی ۔
اس کے علاوہ مدرسہ فیضہ اور دیگر مدارس تعمیرات نو کی گئی اور تمام مدارس کی عظمت رفتہ پھر سے لوٹ آئی ۔ان کے بعدآیت حائری یزدی قم تشریف لائے ۔قم تشریف لانے سے قبل آپ حوزہ علمیہ اراک میں خدمات انجام دے رہے تھے اس وقت بھی بعض علماء قم میں درس وتدریس میں مشغول تھے منجملہ ان میں سے ایک شیخ ابوالقاسم قمی (متوفی۱۳۵۳ھ)کا نام لیا جاسکتاہے ۔آپ مسجد امام میں نماز جماعت کی امامت فرماتے تھے اور اس کے ساتھ صبح کے وقت طلباء کو درس دیتے تھے جبکہ شام کے وقت عوام الناس کو درس دیا کرتےتھے۔ یوں آپ نے قم میں علم کے چراغ کو روشن رکھاتھا۔
رضا شاہ کے بعد حوزات علمیہ
رضا خان نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد جب ملک سے اسلام کی جڑوں کوکاٹنا شروع کیا تو اس کے کردار کو دیکھتے ہوئے قم کے علماء نے حوزہ علمیہ قم کو فعال کرنے کا پروگرام بنایا ۔اس سلسلے میں شیخ مہدی حکمی(معروف پایین شہری) نے آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی سمیت قم اور تہران کی جید علماء کی اپنے گھرپر دعوت کی اور علماء کی موجودگی میں شیخ حائری سے حوزہ علمیہ اراک کو قم منتقل کرتے ہوئے اس کی زعامت سنبھالنے کی دعوت دی ۔اس موقع پر آیت اللہ حائری نے قرآن مجید سے استخارہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور جب آپ نے استخارہ نکالاتو سورہ مبارکہ یوسف کی یہ آیت آئی ”وآتونی بأهلکم أجمعین“ علماء کرام کی تاکید کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تائید بھی حاصل ہونے پر آیت اللہ حائری نے قم میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا ۔
آیت اللہ حائری نے حوزہ کے تعلیمی امور ،درس وتدریس اور اسکالر شپ یعنی شہریہ کا نظام کو ٹھیک کرنے کے ساتھ اچھے اور پائے کے اساتذہ کو جذب کرنے نیز طلبا کے امور کی دیکھ بال کی ذمہ داریاں الگ الگ لوگوں کو سونپی۔آپ نے ایک ایسا سنگ بنیاد رکھاکہ رضا شاہ(شاہ ایران) نے آپ کے ۱۵سالہ دور مدیریت کے دوران حوزہ علمیہ قم کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری دولت کو داوپر لگانے کےساتھ ساتھ تمام تر اقدامات کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔یہاں تک کہ رضا شاہ کو یہ کہنا پڑا کہ :میں نے سب کو تو ہٹالیا لیکن اگر ایک اس(آیت اللہ حائری)کو بھی ہٹاتا تو پورے ملک سے ان کو مٹا سکتاتھا۔ ایک ایسے ماحول میں آیت اللہ حائری ۱۵سال تک حوزہ علمیہ قم کے مدیر رہے اور ۴۰۰ جامع الشرائط مجتہدین اور فقہا کی تربیت کی اور انہیں پورے ایران میں پھیلایا۔ آیت اللہ حائری نے حوزہ علمیہ قم کی کچھ اس طرح سے بنیاد رکھی اور ایسے علماکی تربیت کی کہ یہاں تک کہ آپ کے ارتحال کے بعد بھی رضا شاہ اور اس کا بیٹا محمد رضا حوزہ علمیہ کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور یہ اپنی جگہ قائم ودائم رہا۔ ۱۹۳۶ء میں آیت اللہ حائری یزدی نے اس دار فانی کو وداع کہا اس زمانے میں شاہی حکومت کی طرف سے اس قدر سختی کی جاتی تھی اور مظالم ڈھائے جاتے تھے کہ حوزہ علمیہ کے بزرگ علمافرماتے تھے کہ:ہمیں کسی بھی قسم کے حادثے کا انتظار ہوتاتھا ہم سوچتے تھے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ روس اور ترکی والاسلوک کریں گے اور راتوں رات سب کو جمع کرکے دریا میں بہادیں گے یا کسی میدان میں پھینک کر گولیوں سے چھلنی کردیں گے”۔ اس قسم کے حالات میں آیت اللہ حائری کے تین شاگردوں( آیت اللہ سیدصدرالدین صدر،سید محمدکوہ کمرہ ای اور سید محمد تقی خوانساری )نے حوزہ علمیہ قم کی مدیریت کو سنبھالا اور جس نہج پر آیت اللہ حائری نے حوزہ کو ڈالاتھا اسی پر چلاتے رہیں ۔اس زمانے میں بعض دیگر بزرگ علما جیسے امام خمینی،آیت اللہ مرتضیٰ حائری(فرزندآیت اللہ حائری)آیت اللہ گلپایگانی،آیت اللہ مرعشی نجفی،آیت اللہ میرزا ہاشم آملی آیت اللہ بہاالدینی اور دیگر علماحوزہ علمیہ قم میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے اور مذکورہ بالا تینوں آیات عظام کی مدد کرنے میں مشغول تھے ۔ان تینوں بزرگ علما کرام نے ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۴ء تک حوزہ علمیہ کی مدیریت کو چلاتے رہیں اور ۱۹۴۴ءمیں حوزہ کی مدیریت آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے حوالے کردیا۔جس سال آیت اللہ عبدالکریم حائری کے ہاتھوں حوزہ علمیہ قم کی تاسیس ہوئی اسی سال عراقی حکومت نے چودھویں صدی ہجری کے بعض علماءاور مجتہدین کو سر زمین عراق سے نکال دیاجن میں سر فہرست آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی،آیت اللہ میرزاحسین نائینی،آیت اللہ سید علی شہرستانی ،آیت اللہ سید عبدالحسین حجت کربلائی،آیت اللہ شیخ محمد حسین اصفہانی غروی اور آیت اللہ شیخ مہدی خالصی وغیرہ شامل تھے ۔
قم کے بزرگ علمانےحوزہ علمیہ قم کی مدیریت کو کسی ایک شخص کے حوالے کرنے نیز حوزہ کے بارے میں آیت اللہ حائری یزدی کی طرف سے متعین کردہ طویل مدت اہداف پر جلد سے جلد عمل در آمد کرانے کے لیے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو قم آنے پر مجبور کیا ۔اس دور میں دینی مدارس اور حوزات علمیہ کی اصلاح کے حوالے سے امام خمینی کا بہت بڑا کردار تھا۔ اس بات کا اندازہ روح اللہ خمینی کے اس جملے سے ہوسکتا ہے۔”سیاسی امور سے متعلق ایک میٹنگ کے دوران جس میں آقائے بروجردی،حجت،خوانساری اور صدر شریک تھے میں نے کہاکہ سب سے پہلے ان مقدس مآب لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی کی مثال ایسی ہے جیسے دشمن نے آپ پر حملہ کیا ہوا ور کسی نے مضبوطی کے ساتھ آپ کے ہاتھوں کو پکڑا ہو۔”
آیت اللہ بروجردی نے آیت اللہ حائری کی طرف سے مرتب کردہ پروگراموں سے باقی ماندہ کمزوریوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی ،انہوں نے حوزہ علمیہ کے درسی اور شہریہ (اسکالر شب)کےنظام کو انتہائی دقت کے سے تکمیل کو پہنچایا۔اس کے علاوہ پورے ایران میں بڑے بڑے علماکی تربیت کا بھرپور انتظام فرمایا نیز بڑے بڑے علماکو اپنے نمائندوں کے طور پر پورے ایران میں بھیجااور ان سب کا حوزہ علمیہ قم سے روابطہ کو برقرار رکھا۔بعض بزرگ مراجع جیسے امام خمینی،سیدمحمد رضا گلپایگانی،میرزاہاشم آملی ،سید شہاب الدین مرعشی نجفی وغیرہ کو قم ہی میں رکھا تاکہ ان کے بعد حوزہ علمیہ قم کی مدیریت کو سنبھال سکیں۔
امام خمینی کا اثرورسوخ
اسی دوران آیت اللہ بروجردی کے بے پناہ اصرار اور بعض دیگر علماجیسے استاد شہید مرتضی مطہری کی خواہش پر امام خمینی نے فقہ اوراصول کادرس شروع کیا اور آپ نے اس کام پر اپنا بڑا وقت صرف کیا ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد آپ آیت اللہ بروجردی کے بعد حوزہ علمیہ قم کے سب سے بڑے استاد کے طور پر جاننے لگے ۔ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے ارتحال پر محمد رضاشاہ (شاہ ایران) نے اس نیت سے کہ اب حوزہ علمیہ قم کی بساط لپیٹ دینا چاہیےانہوں نے عراق میں مقیم آیت اللہ حکیم کے نام اپنا پیغام بھیجا۔وہ چاہتاتھا کہ ایران کے لوگ نجف کے بزرگ علماکی تقلید کریں تاکہ اس طرح آہستہ آہستہ حوزہ علمیہ قم کو کمزور کیا جاسکے اور یوں وہ حوزہ علمیہ قم اور دین اسلام کے خلاف تیار کردہ پروگرام کو عملی جامہ پہناسکے۔
امام خمینی حوزہ علمیہ قم کے ہی تربیت یافتہ تھے وہ علماکرام کی بھرپور حمایت اور تعاون سے شاہ ایران کی ان غلط پالیسیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اسلامی انقلاب جس کا سنگ بنیاد آیت اللہ حائری نے رکھاتھااور آیت اللہ بروجردی نے پورے ملک میں جس کی جڑوں کوپھیلایاتھا اس پر عمل در آمد کرانے کا اصولی فیصلہ کرلیا اور سنہ ۱۹۶۴ء کو ملک میں اسلامی انقلاب لانے کا اعلان کیا جس پر حوزہ علمیہ قم کے بڑے بڑے مجتہدین اور اعلیٰ شخصیات نے بھی آپ کی آواز سے آواز ملائی یوں ۱۱فروری ۱۹۷۹ ء کو ایران پر مسلط ۲۵۰۰سالہ شہنشاہی نظام کےتختہ کو الٹنے اور اس کی جگہ ایک اسلامی جمہوری حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ۔
سیاست میں کردار
حوزہ علمیہ قم کی شہرت کی ایک بڑی وجہ اس کی انقلابی جدوجہد ہے ۔تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حوزہ علمیہ سے ایک سیاسی انقلاب نے جنم لیا یہی نہیں بلکہ حوزہ علمیہ قم شروع ہی سے قم کی سیاست میں اپنا بھر پور کردار اداکرتا رہاہے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی یہ پورا شہر شیعہ تھا جس کے نتیجے میں یہاں کے والی اور قاضی اکثریتی آبادی سے مقرر کئے جاتے تھے ۔مثال کے طور پر ہارون الرشید نے اپنے دور حکومت میں حمزہ بن یسع بن عبداللہ قمی کو والی قم مقرر کیا جو امام علی رضا ؑ کے راویوں میں سے تھے اور نہیں یہ بھی اجازت دی کہ وہ قم کو اصفہان سے الگ کردیں اور وہاں نماز جمعہ قائم کریں ۔اسی طرح یہاں کا قاضی بھی شہر کے عوام کے مذہب کا پیرو کار ہوتا تھا یہاں تک کہ مکتفی نے قاضیوں کی تقرری کے لئے ضابطہ متعین کیا جس کے تحت قضات کو شہروں سے بھیجے جاتے تھے۔ اس کے باوجود یہاں کے قاضی شہر کے شیعہ علماءمیں سے متعین کئے جاتے تھے۔
خلاصہ
اس تحقیق کا حاصل بحث یہ ہے کہ حوزہ علمیہ قم کا شمار عالم اسلام کے قدیم دینی تعلیمی مراکز میں ہوتا ہے ۔جس نے اپنی طویل تاریخ میں زمانے کے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچا ہے کہ اس وقت حوزہ علمیہ قم کا شمار دنیا کے بڑے اور عظیم تعلیمی مراکزمیں ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے تقریباً ۱۰۰ممالک سے تعلق رکھنے والے ۸۰ہزار سے زائد طلباو طالبات علم کے نور سے اپنے اذہان کو منور کر رہے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ حوزہ علمیہ قم نے معاشرتی اور سیاسی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جس کی سب سے عظیم مثال اس حوزہ سے وابستہ علماء کا آیت اللہ خمینی کی قیادت تاریخ اسلام کا سب سے بڑا انقلاب لانا اور پھر ایک اسلامی فلاحی ریاست کو کامیابی کے ساتھ چلانا شامل ہے۔ خلاصہ یہ کہ حوزہ علمیہ قم نے پوری دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیا ہےکہ اسلامی تعلیمات میں اتنی وسعت پائی جاتی ہے کہ اس میں جدید سے جدید مسائل کا حل موجود ہے۔ نیز یہ بھی ثابت کردیا کہ دینی مدارس اور حوزات علمیہ سے وابستہ علماء زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی معاشرے کی بہترین راہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی زندہ مثال حوزہ علمیہ قم کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔