مسلم دنیا میں برپا ہونے والی جمہوری تبدیلیوں سے کیسے سیکھا جاسکتا ہے؟
’مسلم دنیا اور جمہوریت:تحدیات وامکانات‘ ایسا موضوع ہے جو فکری لحاظ سے مختلف جہات کا حامل ہے۔ عالم اسلام میں سیاسی نظم کے حوالے سے بنیادی طور پہ جو مباحث زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہیں وہ اسلام اور جمہوریت کے تعلق کے حوالے سے رہی ہیں اور یہ عموماََ نظری نوعیت کی ہیں، کہ کیا جمہوریت اسلام کے متوازی کوئی سماجی انصرام ہے یا ان کی اقدار کے مابین ہم آہنگی پائی جاتی ہے؟ قطع نظر اس کے کہ اس بحث کے تاریخی محرکات کیا رہے،یہ بحث اتنی زیادہ رہی ہے کہ مجموعی طور پہ مسلم معاشروں میں جمہوریت کے حوالے سے ایک گونہ شک کا عنصر شامل ہوگیا۔ لیکن اس کے ساتھ ایک دوسرے عامل نے بھی کردار ادا کیا کہ جن مسلم ممالک میں بظاہر سیاسی ڈھانچہ جمہوری تھا وہاں یہ تجربات خاص ثمرآور ثابت نہیں ہوئے،اس سے بھی عوام کے اندر جمہوریت کے لیے کچھ بے اعتمادی نے جنم لیا۔ یوں مسلم معاشروں میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کرنے والے عناصر کو اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا اور ان کا اثرورسوخ قدرے وسیع ہوا۔
مسلم ممالک میں جمہوریت کے حوالے سے تشکیل پانے والی اس فضا کو دیکھتے ہوئے مفکرین وماہرین نے یہ مباحث بھی اٹھائیں کہ کیا مسلم معاشرے اپنی تشکیل ومزاج میں جمہوریت کے لیے سازگار ہیں بھی یا نہیں؟ ایک حلقے میں یہ تأثر قوی ہے کہ مسلمان ممالک وعوام جمہوری اقدار کو اپنے اندر سمونے کی اہلیت وصلاحیت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوری تجربات ناکام رہے ہیں۔ یہ اپنی تشکیل میں ہی غیرجمہوری مزاج کے حامل ہیں۔
مسلم دنیا میں جمہوری تجربات کی بالعموم ناکامی کے اسباب چاہے تاریخی ہوں، دینی ہوں، یا بیوکریسی اور مطلق العنانیت کی طرف سے حائل رکاٹوں کے ، اس مسئلے میں مذہب اور مذہبی حلقوں کے کردار کوزیادہ زیربحث لایا گیا ہے، اور یہ تأثر ابھرا ہے کہ مسلم مذہبی عنصر اس مسئلے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ یہ بحث کا وہ رُخ ہے جو عمومی ہے۔ تاہم بعض مسلم ممالک میں جمہوریت کے کچھ صحت مند تجربات بھی سامنے آئے، اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان ملکوں میں مذہبی عنصر وطبقے کا کردارنمایاں رہا، اس کی مثال میں بالخصوص تیونس، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیاکو سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
لہذا بحث کی جہت چاہے اسلام وجمہوریت کے تعلق کی ہو، مسلم سماجی تشکیل کی ہو، یا پھر ان محرکات کی جو اثرانداز رہے، اس سارے منظرنامے میں عملی طور پہ مسلم دنیا کے جمہوری تجربات اور کامیابی یا ناکامی کے اسباب کا وسیع تناظر میں جائزہ لینا اہم ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے اہم یہ بھی کے جمہوری انصرام کے ضمن میں مذہبی عنصر کا حقیقی کردار کیا رہا ہے، کیونکہ عالمی میڈیا پر مسلما ن مذہبی جماعتیں چاہے مسلح ہوں یا سیاسی، ان سب کو ایک ہی عدسے سے دیکھا اورپرکھا جاتا ہے۔
اگر سیاسی نظم کی بحث میں پاکستانی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی حقیقی جمہوری اقدار کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا سرا کسی ایک جگہ یا شعبے کے ساتھ جا کر نہیں ملتا بلکہ یہاں سیاسی افراتفری اور پیچیدگی کا عمل پھیلا ہوا ہے جو سماجی جڑوں سے لے کر اُوپر تک جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عوام کی اکثریت اس انتشار سے پیدا ہونے والے مسائل سے تو واقف ہے لیکن اس کے اصل محرکات کی کھوج لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں آگہی کے سرچشموں سے ایسی مباحث نہیں پھوٹتیں۔ نصاب میں جمہوری اقدار اور جدید سیاسی نظم وسماج کی تشکیل کے حوالے سے نوجوان نسل کو آگاہ نہیں رکھا گیا۔ میڈیا اس سے اغماض برتتا ہے اور فکری حلقوں میں بھی تشنگی کا ماحول ہے۔ لہذا یہاں جمہوریت اور خوشحال معاشرے کی خواہش تو موجود ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جاتے جو ضروری ہیں اور جن کے ثمرات سامنے آسکتے ہیں۔ لہذا اس امرکی اشد ضرورت ہے کہ جمہوریت کے بارے میں سماجی سطح پر کھلی بحث ہو اور ان تمام عوامل ومحرکات کی نشاندہی کی جائے جنہیں ملحوظ رکھنے سے ایک فلاحی خوشحال معاشرہ جنم لے سکے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہاں کے فکری حلقوں میں جمہوریت اور اس سے جڑے مسائل کی بات ہوتی ہے تو عام طور پہ وہ اسلامی نظام یا سیکولر ازم کی مباحث کے حوالے سے کی جاتی ہے، حالانکہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ جاتا ہے۔ جمہوریت اسلام یا سیکولرزم کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی سماجی انصرام کا مسئلہ ہے جسے اسلامی یا غیراسلامی کا لیبل لگانا قطعی ضروری نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بعض مسلم ممالک سے استفادے کی حاجت ہے کہ کس طرح وہاں جمہوریت کو نظریاتی تاروں کے ساتھ نتھی نہیں کیا اوروہ کامیاب رہے۔