اسلامی اورپاکستانی قانون میں مذہبی آزادی کے معیار

0

 اسلام میں مذہبی آزادی کاعمومی تصور فکری حلقوں میں واضح اور دوٹوک ہے جبکہ عوامی و سماجی سطح پر اس بارے کافی کنفیوژن یا لاعلمی پائی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں بعض اوقات ایسے سانحے بھی رونما ہوجاتے ہیں جو افسوسناک ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی قوانین بھی اس معاملے میں کافی شفاف ہیں کہ اقلیتیں اس ملک کی برابر شہری ہیں اور انہیں تمام حقوق ملنے چاہئیں۔ لیکن ان قوانین کا عوامی سطح پر کوئی ادراک نہیں ہے، حتی کہ تعلیمی نصاب میں بھی اس مسئلے پر کوئی رہنمائی نہیں کی جاتی۔ لہذا ہم آہنگ مزاج کی تشکیل کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ عوامی سطح پر دینی اور ملکی مذہبی آزادی کے تحفظ کے قوانین بارے آگہی فراہم کی جائے۔ اس مضمون میں ان دونوں پہلوؤں کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگار خواجہ فرید یونیورسٹی  آف انجنئیرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی،رحیم یار خان میں انسٹیٹیوٹ آف  ہیومینٹیز اینڈ آرٹ کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔

تعارف

اصل میں ہر شخص کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے کی آزادی اور انفرادی طور پر یا معاشرے میں دوسروں کے ساتھ کھلے عام یا نجی طور سے تعلیمات، عمل، عبادت اور رسومات میں اپنے مذہب یا عقیدے کے اظہار کی آزادی شامل ہیں۔ ہر فرد مذہبی وابستگی یا کسی عقیدے سے وابستگی نہ ہونے سے قطع نظر قانون کے تحت مساوی تحفظ کا حق دار ہے۔اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی خدا کا عطا کردہ حق ہے جو ہر ایک کو حاصل ہے۔خدا کی تلاش اور اس کے مطابق عمل کرنے بشمول اپنے ضمیر کے مطابق عمل کا انفرادی حق انسانوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومتیں کسی انسان سے جائز طور پر یہ حق واپس نہیں لے سکتیں۔ اور اسی طرح  مذہبی آزادی کادفاع اور تحفظ ہر ملک اور عالمی برادری کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ اندرون ملک اور بین الممالک امن و استحکام کے لیے مذہبی آزادی لازمی حیثیت رکھتی ہے۔

مذہبی آزادی دور اثر، عالمگیر اور عمیق انسانی حق ہے جس کا دنیا بھر میں تمام لوگوں اور نیک نیت حکومتوں کو دفاع کرنا چاہیے۔ مذہبی آزادی عالمگیر اور ناقابل انتقال ہے اور ممالک کو ہر صورت اس انسانی حق کا احترام اور تحفظ کرنا چاہیے۔جہاں کہیں مذہبی آزادی کا تحفظ ہوتا ہے وہاں اظہار، میل جول اور پر امن اجتماع جیسی آزادیاں بھی فروغ پاتی ہیں۔ مذہب پر آزادانہ عمل کو تحفظ دینے سے براہ راست مذہبی آزادی، معاشی ترقی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں باہم جنگیں، عدم استحکام اور دہشت گردی اور خون ریزی دکھائی دیتی ہے۔

مذہبی آزادی( اسلامی آئین و قوانین کے تناظر میں)

اسلام جو قدیم آسمانی مذاہب ہی کا تسلسل ہے  نے بھی تمام رسولوں اور پیغمبروں خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اِحترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔اسلام ایک استدلالی وعقلی اور مبرہن ومدلل مذہب ہے۔پیغمبراسلام ﷺ پر جو صحیفہٴ ربانی نازل ہوا، اس نے سب سے پہلے عقل انسانی کو مخاطب کیا۔اور غور وفکر، فہم و تدبر کی دعوت دی کہ اسلام اپنی کسی بھی تعلیم کو لوگوں پر زبردستی نہیں تھوپتا ہے۔ بلکہ وہ لوگوں کو غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتا ہے۔ ضلالت وگمراہی اور نجات و فلاح کے راستے سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے پھر یہ کہ جو مذہب اپنی ترویج واشاعت کے لئے دعوت و تبلیغ، ارشاد و تلقین کا راستہ اختیار کرنے اور سوچنے سمجھنے کا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھلا کیوں کسی مذہب کے پیروکاروں کو جبر وکراہ کے ذریعہ اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور زور زبردستی اختیار کرے گا۔متعصبین اور معاندین اسلام اس کی اشاعت کو فتوحات اور ملکی محاربات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھک رہی ہے کہ، اسلام کو بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے اپنی ذاتی خوبیوں اور محاسن سے لوگوں کو اپنا مطیع فرمان نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت و قوت سے جبر واکراہ کے ذریعہ دین اسلام کا قلاوہ ان کی گردن میں ڈال دیا ہے اور اسی جبر واکراہ نے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رضا ورغبت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ لیکن ہم تعلیمات اسلام کی روشنی میں اس قسم کی مسموم ذہنیت رکھنے والوں کے باطل خیالات کو پرکھیں گے، کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی صلى الله عليه وسلم میں مذہبی آزادی کے سلسلہ میں کیا احکام وتعلیمات موجود ہیں اوراسلام کے ماننے والے ان تعلیمات پر کتنا عمل پیراہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو طویل معرکہ آرائیوں سے سابقہ پڑا ہے۔ ان کے یہ محاربات جارحانہ ہوں یا مدافعانہ، فتوحات کے لئے ہوں یا اعلاء کلمة اللہ کے لئے، ان تمام محاربات و فتوحات کا مقصد اور حاصل یہ نہ تھا کہ کسی کو بزورِ شمشیر اور حکومت و اقتدار کے بل بوتے پر مسلمان بنایا جائے ۔اسلام نے تو صرف اور صرف اپنی خوبیوں اور محاسن سے عالم میں رسوخ اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس نے جس تیزی کے ساتھ اقوام وملل کے اذہان و قلوب کو مسخر کیا اس طرح کی نظیر دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہ بات کہ اسلام میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے، اس کو ثابت کرنے کے لئے شریعت اسلام کے اصول، رسول صلى الله عليه وسلم کے اوصاف وخصائل اخلاق حمیدہ وطریقہ تعلیم اور پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کا طرز عمل یہ ساری چیزیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ شریعت اسلام نے بہ زور و تخویف کسی کو مسلمان بنانے کی سخت ممانعت کی ہے قرآن کی مندرجہ ذیل متعدد آیات اس بات پر شاہد عدل ہیں:

لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللّٰہ فقد استمسک بالعروة الوثقٰی لا انفصام لہا واللّٰہ سمیع علیم.[1]

ترجمہ: زبردستی نہیں ہے دین کے معاملہ میں بے شک جدا ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے اب جب کوئی نہ مانے گمراہ کرنے والوں کو اور یقین لائے اللہ پر تو اس نے پکڑلیا حلقہ مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے۔

افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین.[2]

ترجمہ: کیا تو زبردستی کرے گا لوگوں پرکہ ہوجائیں با ایمان؟۔

ولا تسبو الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبو اللّٰہ عدواً بغیر علم.[3]

ترجمہ: اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا بس وہ برا کہنے لگیں گے بربنائے دشمنی بغیر جانے۔

وما انت علیہم بجبار فذکر بالقرآن من یخاف وعید۔[4]

ترجمہ: تو نہیں ہے ان پر زور کرنے والا سو تو سمجھا قرآن سے اس کو جوڈرے میرے ڈرانے سے۔

نبی کریم ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین نے مختلف اقوام وملل کے ساتھ  جو معاہدات  کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے تیار کئے ان میں ہمیں اسلام کی وسعت نظری کا اندازہ اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔ ان میں چند ایک معاہدات و صلح نامے بطور امثلہ  حوالہ قرطاس کرتا ہوں۔

اہل نجران کی درخواست پر نبی صلى الله عليه وسلم نے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔

” نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمد نبی صلى الله عليه وسلم کا عہد ہے ان کے جانوں کے لئے۔ ان کے مذہب ان کی زمین، ان کے اموال، ان کے حاضر وغائب، ان کے اونٹوں ان کے قاصدوں،اور ان کے مذہبی نشانات سب کے لئے جس حالات پر وہ اب تک ہیں اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا”۔[5]

خلیفہ ثانی حضرت  عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:

“ان کو امان دی ان کی جان ومال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لئے یہ امان ایلیا کی ساری ملت کے ہے۔عہد کیاجاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایاجائے گا”۔[6]

41ھ میں جب فتح دمشق کا واقعہ پیش آیا حضرت خالد بن ولید نے اس موقع سے جو امان نامہ لکھ کر اہل دمشق کو دیا وہ یہ تھا:

“ان کو امان دی ان کی جان ومال کے لئے اوران کے کنیسوں اور ان کے شہر کے فصیل کے لئے ان کے مکانات میں سے نہ کوئی توڑا جائے گا اورنہ ہی مسلمانوں کا مسکن بنایا جائے گا”۔[7]

حضرت ابوبکررضى الله تعالى عنه جس کسی لشکر کو روانہ فرماتے اس کو یہ ہدایت دیتے تھے:

“کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گرجا گھروں میں محبوس کررکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے جو شیطانی سوچ کے حامل ہیں جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑادینا”۔[8]

سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

”اسلام کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لئے اللہ کا قانون ہے۔ دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقویٰ کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت کا منشاء دنیا میں امن قائم کرنا ہے اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے۔ جس کے لئے قوت وطاقت کے استعمال کی ضرورت ہے لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا ارواح کو پاک وصاف کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کرکے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے۔ جس کے لئے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور، دست و پاکا انقیاد نہیں بلکہ دلوں کا جھکاؤ اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ روحوں کی اسیری درکار ہے۔اگر کوئی شخص سرپر تلوار چمکتی ہوئی دیکھ کر لا الٰہ الا اللہ کہہ دے مگر اس کا دل بدستور ماسوی اللہ کا بتکدہ بنارہے تو دل کی تصدیق کے بغیر یہ زبان کا اقرار کسی کام کا نہیں اسلام کے لئے اس کی حلقہ بگوشی قطعاً بیکار ہے”۔ [9]

علامہ سید سلیمان ندوی اپنے مقالہ”ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی” میں لکھتے ہیں: “تمام دنیا کے مذاہب میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ فلسفہ دنیا میں ظاہر کیا کہ ”مذہب یقین کا نام ہے اور یقین تلوار کی دھار اور نیزہ کی نوک سے نہیں پیدا کیا جاسکتا”۔[10]

نبی رحمت کی سیرت اور ان کے اصحاب کا زمانہ خلافت سے اسلام کی وسعت نظری اور دریا دلی سے تاریخ روشن ہے۔ اپنے تو کیا غیروں نے بھی اس چیز کو تسلیم کیا ہے کہ اسلام کس طرح سے غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام محفوظ رکھتا ہے انھیں کس طرح سے مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دیتا ہے۔ بطور مثال کچھ تحاریر پیش کرتا ہوں۔

سرولیم میور لکھتے ہیں:

“رسول خدا نے بنی حارث اور نجران کے پادریوں کو پوری مذہبی آزادی دینے کا اقرار کیا تھا۔ وہ اپنے طریقے پر اپنے گرجاؤں میں جس طرح چاہیں عبادت کریں بشپ اور راہب اپنی جگہ پر بحال رہیں جب تک یہ لوگ امن وامان کے ساتھ رہیں ان کے ساتھ کچھ تعرض نہ ہوگا”۔[11]

موٴرخ مسٹرجیسن، لکھتے ہیں:

“آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اسلامی مملکت میں آباد عیسائیوں کی جان، ان کی تجارت اور ان کے مال واسباب اور مذہبی امور کی ادائیگی اور ہر قسم کے تحفظ کی ضمانت دے دی۔ اور رواداری کے اصول پر نہ صرف خلفائے راشدین ہی نے پوری سختی سے عمل کیا تھا بلکہ تمام عرب حکمراں بھی رواداری کے اس اصول پر کاربند رہے۔ اسلام اورمسلمانوں کے عروج کی تاریخ رواداری، بے توجہی اور ان کے اعلیٰ قدروں کو اجاگر کرنے کی تاریخ ہے۔ اس دور کی مسلمانوں کی سلطنتیں ستم رسیدہ، یہودیوں،اور نسطوری، یعقوبی اور دوسرے عقائد رکھنے والے عیسائیوں کی پناہ گاہ تھیں اور ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف کے باوجود مسلم ممالک میں انھیں پناہ لینے کی کھلی آزادی تھی۔ بلکہ انھیں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کو تعمیر کرنے کی بھی آزادی حاصل تھی”۔[12]

ہملٹن نامی ایک انگریز سیاح جو باشاہ عالمگیر کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا وہ اپنے سفرنامے میں مختلف شہروں کا عینی مشاہدہ درج کرتے ہوئے شہر ٹھٹھ کے متعلق لکھتا ہے:

“حکومت کا مسلمہ مذہب اسلام ہے۔ لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں تو ایک مسلمان ہے، ہندوؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پوری طرح برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں، پوجا پاٹ کرتے ہیں اور تہواروں کو اسی طرح مناتے ہیں جیسے کہ اگلے زمانے میں مناتے تھے۔ جبکہ بادشاہت ہندوؤں کی تھی”۔[13]

مذہبی آزادی)پاکستانی آئین و قوانین کے تناظر میں(

پاکستان کے آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور ملک میں تمام قوانین کا اسلام کے مطابق ہونا ضروری ہے۔عدالتوں کی جانب سے توہین مذہب کے قوانین کا نفاذ جاری ہے جن کے تحت مختلف الزامات میں عمرقید سے موت تک سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان الزامات میں “توہین رسالت” بھی شامل ہے۔اور دیگر آئین و قوانین چند ایک  مندرجہ ذیل ہیں۔

  • ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق بھی حاصل ہے بشرطیکہ یہ اظہار ضابطہ تعزیرات کی رو سے اسلام کی عظمت کے منافی نہ ہو۔ ضابطہ تعزیرات کے مطابق”توہین رسالت” کا مرتکب سزائے موت، قرآن کی بے حرمتی، اسے نقصان پہنچانے اور اس کی بے ادبی کا مرتکب عمر قید اور دیگر مذہبی احساسات کی توہین کرنے والا 10 سال قید کا مستوجب ہے،اسی طرح مذہبی بنیاد پر نفرت کو ہوا دینے والے کے لیے سات سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
  • آئین اور ضابطہ تعزیرات کی رو سے احمدی غیرمسلم ہیں اور خود کو مسلمان یا اسلام کے وارث نہیں کہلوا سکتے۔ ضابطہ تعزیرات انہیں اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کسی کا عقیدہ تبدیل کرانے یامسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے سے روکتا ہے۔ ان شرائط کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ ضابطہ تعزیرات کسی بھی مذہب یا اس سے تعلق رکھنے والوں کے مذہبی جذبات جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے انداز میں مجروح کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیتا ہے جس کے لیے 10 برس تک قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
  • ہر مذہبی فرقے کو اپنے ادارے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ کوئی شخص اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ یا اس کے اداروں کی دیکھ بھال کے لیے کسی خصوصی ٹیکس کی ادائیگی کا پابند نہیں ہے۔
  • توہین مذہب اور اسلامی تعلیم جیسے معاملات پر بھی حکام وزارت سے رجوع کرتے ہیں۔ قانون کی رو سے وزارت مذہبی امور اپنے بجٹ میں نادار اقلیتوں کی معاونت، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی مرمت، اقلیتوں کے زیراہتمام چھوٹے ترقیاتی منصوبوں کا اجراء، اقلیتوں کے مذہبی تہوار منانے اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے وظائف کی فراہمی کی بھی ذمہ دار ہے۔
  • مدرسوں میں فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیاد پر نفرت کی تعلیم دینا یا اس کی حوصلہ افزائی ممنوع ہے۔ قانون کہتا ہے کہ تمام مدراس کو پانچ میں سے کسی ایک وفاق (آزاد خودمختار بورڈ) کے ساتھ یا براہ راست حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے تاکہ ان کے غیرملکی ذرائع آمدنی کا حساب رکھا جا سکے، غیرملکی طلبہ قانونی تعلیمی ویزوں پر ہی ان مدارس میں داخلہ لے سکیں اور ان مدارس کی نگرانی ممکن ہو سکے۔ تاہم سکیورٹی تجزیہ کار اور مدرسوں میں اصلاحات کے حامیوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے مدرسے ایسی دستاویزی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہیں۔
  • اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ اور مذہبی تفریق کے بغیر تمام لوگوں کی بہبود کی ذمہ دار ہے نیز اسے فرقہ وارانہ تعصب کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
  • حکومت پاسپورٹ پر مذہبی وابستگی بھی درج کرتی ہے اور قومی شناختی کارڈ کے لیے دی جانے والی درخواستوں میں بھی اس کا تذکرہ لازم ہے۔ مسلمان قرار دیے جانے کے خواہش مند لوگوں کو یہ حلف دینا لازمی ہے کہ وہ محمد کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور احمدیہ تحریک کے بانی کو جھوٹا نبی اور اس کے پیروکاروں کو غیرمسلم سمجھتے ہیں۔
  • آئین کی رو سے ملک کے صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا لازم ہے۔ تمام اعلیٰ حکام بشمول ارکان پارلیمنٹ کو حلف دینا ہو گا کہ وہ ملک کے اسلامی تشخص کا تحفظ کریں گے۔
  • انسانی حقوق کی شق 10 کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصے میں ہے کہ ہر کسی کوآزادیِ اظہار کا حق حاصل ہے جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہوگی۔اسی شق کےدوسرے حصے میں آزادیِ اظہار پر قدغنیں بھی لگائی گئی ہیں کہ آزادیِ اظہار کے ساتھ فرائض اور حقوق بھی شامل ہیں، اور یہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسومات، حالات، ضوابط کے ماتحت ہے اور اس کی آڑ میں کسی فرد یا مذہب کے جذبات مجروح نہیں کیے جا سکتے۔
  • قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ 342 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مخصوص ہیں۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کے لیے تین، پنجاب میں آٹھ، سندھ میں نو اور بلوچستان میں تین نشستیں مخصوص ہیں۔

خلاصہ کلام

ہر معاشرے میں ہر فرد کو انفرادی طور پر اس کے عقیدہ،افکارو  نظریات،ضمیر ،مذہب کی آزادی  حاصل ہے۔اور اسی آزادی سے ہی معاشرے میں امن و استحکام قائم ہوتا ہے۔انسانی تاریخ میں معاشروں کے پھلنے پھولنے میں انفرادی و اجتماعی مذہبی عقیدے اور اظہار کی آزادی کا اہم کردار رہا ہے۔ہر ایک عقیدہ اور ضمیر لوگوں کو امن، رواداری اور انصاف کے فروغ کی ترغیب دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی مذہبی مقدس کتاب اور اپنے مذہب اور انسان ہونے کے ناطے اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرتا ہے یا نہیں۔

مگر افسوس آج دنیا انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کے تصور سے کہیں دورہے جس کے مطابق ہر فرد کو فکر، ضمیر،اور مذہب کی آزادی میسر ہے۔آج دنیا بھر میں اس حق پر حملے ہو رہے ہیں جو بنیادی طرف سے انسان کا انفرادی حق ہے اور یہ وہ حق ہے جو انسان کو وراثت میں ملا ہوا ہے۔آج دنیا کی   قریباً 80 فیصد عالمی آبادی میں انسان کا یہ حق سختی سے محدود کر دیا گیا ہے۔آج معاشرے میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ہر سوپر خطر ماحول بنا ہوا ہے۔ آئے روز بےشمار لوگوں کو مذہب، عقیدے یا عقیدہ نہ رکھنے کی بنیاد پر ایذارسانی، جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف کوئی ایسا پروپیگنڈا نہیں جو دشمنوں نے نہ کیا ہو،کوئی ایسی سازش نہیں جو دشمنوں نے نہ کھیلی ہو،کوئی ایسی چال نہیں جو دشمنوں نے نہ چلی ہو۔ حتیٰ کہ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد کے بارے میں بھی سخت سے سخت تنقید کی جارہی ہیں۔  اکثر اوقات تو اسلام اور اس کے قوانین کے بارے میں مبینہ انداز میں مکمل جھوٹ پر مبنی مبالغہ آمیز کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔آج غیروں سے مسلمانوں کا عقیدہ محفوظ نہیں،جان محفوظ نہیں،مال عزت شہرت محفوظ نہیں۔لیکن مسلمان علمی مباحثے پر کبھی اعتراض نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اسلام کے بارے میں جاری مباحثے کا حصہ ہے اور یہ سب کچھ آزادیِ اِظہارِ رائے کی حدود کے اندر ہے۔ کیونکہ دین اسلام آپس میں محبت ،امن ،اتحاد کا درس دیتا ہے۔ ، لیکن مسلمان انہیں نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ رواداری کا رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔لیکن جب اِظہارِ رائے کی آزادی کے اس حق کا غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کی سب سے مقدس ترین آسمانی کتاب قرآن اور مقدس ترین ہستی صاحبِ قرآن ﷺ کی واضح طور پر توہین کی جاتی ہے تو اس سے لازمی طور پر مسلمانوں میں اِضطراب اور اِشتعال پیدا ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے معاشرے کا امن داؤ پر لگ جاتا ہے۔اور بین الممالک قائم اتحاد ٹوٹا نظرآتا ہے۔

[1]  سورہ البقرہ:233

[2] یونس :99

[3] الانعام:108

[4] سورہ ق: 45

[5]البلاذری،احمد بن یحییٰ بن جابر الشہیر،فتوح البلدان ص ۱۲۷-۱۲۸۔ناشر: تخلیقات،لاہور،۲۱۱

[6]طبری،ابن جریر،تاریخ طبری، ج۴، ص۱۵۹، مطبوعہ نورمحمداصح المطابع،کراچی پاکستان،۱۳۸۱ھ۔

[7] فتوح البلدان جلد 1 ص ۱۲۷-۱۲۸

[8]  البیہقی، السنن الکبریٰ، جلد ۹، ص:۸۵، عبدالرزاق المصنف ۵-۱۹۹

[9]مودودی،ابو الاعلیٰ،رسالہ الجہاد فی الاسلام،ص: ۱۶۵،مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور پاکستان۔

[10]  بحوالہ غیرمسلموں سے تعلقات اور مذہبی رواداری، مفتی سرور فاروقی، جمعیت پیام امن۔

[11]  میور،سر ولیم،لائف آف محمد جلد دوم ص۲۹۹

[12]  باغپتی،متین طارق، اسلام اور رواداری ص:۵۹،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز،نئی دہلی

[13] سفرنامہ ہملٹن، ج:۱، ص:۱۲۷-۱۲۸