جمعیت علمائے اسلام: سیاسی قدامت پسندی سے جدیدیت تک

0

پاکستان کے مذہبی حلقے کا عالمی سطح پر یہ تصور بن گیا ہے کہ وہ غیرروادار اور سخت گیر ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہاں سے اٹھنے والی کچھ شدت پسند تحریکیں بھی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سخت گیر عنصر پاکستان کے مذہبی طبقے کا عمومی چہرہ نہیں ہے۔ مذہبی حلقے سے ہی ایسی جماعتیں بھی موجود رہی ہیں جنہوں نے شدت پسند کے خلاف موقف اپنایا۔ یہاں کی مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ جمہوریت کے حق میں رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال جمعیت علمائے اسلام ہے جس کی جمہوری جدوجہد طویل بھی ہے اور تابناک بھی۔ اس مضمون میں جماعت کے جمہوری سیاسی چہرے کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ حقیقت میں کیسا ہے۔ مصنف فداءالرحمان بلوچستان میں ژوب یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور اسلام آباد میں واقع ادارے‘اسلام اینڈ لبرٹی نیٹ ورکس’ کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ مضمون انگریزی کتاب ‘مسلم دنیا میں جمہوری تبدیلیاں’ سے ماخوذ ہے۔

ماسوائے چند مستثنیات کے، مسلم دنیا کے تقریباََ تمام معاشرے جمہوریت کی جدید اور آئیڈیل شکل سےنامانوس رہے ہیں۔ جمہوری نظم سے بے اعتنائی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ استعماری قوتوں کے ساتھ ان کے تجربات اچھے نہیں رہے۔ گزشتہ صدی کے دوران مسلم مفکرین کی ایک بڑی تعداد جمہوریت کے حق میں یا اس کی مخالفت میں تسلسل کے ساتھ بات کرتی رہی ہے۔ لیکن عمومی طور پہ جو فضا ابھر کر سامنے آئی اس میں عوامی سطح پر جمہوریت کے لیے بہت زیادہ جدوجہد نہیں ملتی۔ بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اس سیاسی ڈھانچے کے لیے دوٹوک نہیں رہا۔

پاکستان کی نمایاں مذہبی سیاسی جماعت ‘جمعیت علمائے اسلام (ف)’ بھی ایک عرصے سے پارلیمانی سیاست کا حصہ ہے۔ یہ جماعت اپنی ایک طویل سیاسی تاریخ رکھتی ہے اور اس سفر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی عوامل کی بنا پر کئی مراحل سے گزری ہے اور ضرورت کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لاتی رہی ہے۔ ایک ایسی جماعت جس نے کسی وقت افغانستان میں مسلح جدوجہد کی حمایت کی تھی اب اس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیاسی نظام میں ہمواریت سیاسی تحریک وسعی کے تحت ہونی چاہیے جو مکمل طور پہ پرامن اور ثمرآور ہو۔ اس کے مطابق شریعت کے نفاذ کے لیے بھی مجاز ریاستی میکنزم کے تحت کام کرنا چاہیے اور جمہوریت میں اس کے لیے مواقع موجود ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس کا شمار پاکستان کی ایسی سب سے بڑی سیاسی مذہبی جماعت کے طور پہ ہوتا ہے جس نے خود کو وقت کے ساتھ وسعت پسندانہ خیالات کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ حالانکہ ماضی میں اس کے تعلقات سخت گیر تحریکوں کے ساتھ بھی رہے ہیں لیکن بعد میں ملک کی اقلیتوں کے لیے اس جماعت نے کھل کر گفتگو کی۔ کئی مواقع پر جے یو آئی نے تمام مسالک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور سیاسی اتحاد قائم کیے۔ اس نوع کے تمام سیاسی اتحادوں کا سہرا اصل میں جمعیت علمائے اسلام کو ہی جاتا ہے کہ بنیادی طور اس کی کوششوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا۔ ماضی قریب میں اس کی سب سے بڑی مثال متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ملتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہوسکتا ہے جماعت کا مزاج یا اس کا طریق کار سراپا جمہوری نہ ہو لیکن اس چیز سے انکار ممکن نہیں کہ مذہبی سیاست میں جمہوریت کے لیے سب سے توانا آواز جمعیت کی رہی ہے۔ ویسے تو ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی مکمل طور پہ جمہوری ڈھانچہ نہیں رکھتیں، ایسے میں اگر ایک مذہبی جماعت جمہوریت کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ہمقدم ہوکے چلتی ہے اور کام کرتی ہے تو اس سے اغماض نہیں برتا جاسکتا اور نہ اس کی اہمیت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ زیرنظر بحث میں جمعیت علمائے اسلام کے جمہوری نظم کے حوالے اٹھائے گئے خاص اقدامات پر بات کی جائے گی جس سے واضح ہوگا کہ اس جماعت کے جمہوریت کے لیے کیا افکار ونظریات ہیں اور بالخصوص مذہبی سیاست میں یہ  دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں سے کس قدر ممتاز ہے۔

سیاسی وسعت نظری

پاکستان کی عمومی سیاست میں شخصیت پرستی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ ملک کی تقریباََ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ البتہ مذہبی سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی کا عنصر نظریاتی عنصر سے کمزور ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹر اگرچہ اپنے امیر کی اطاعت کرتا ہے لیکن اس کے پیچھے اصل محرک نظریاتی ہوتا ہے۔ گویا پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی خصوصیت ہے کہ ان میں نظریاتی سیاست کابیج ابھی تک کافی توانا اور مضبوط ہے۔

اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی فکری سطح پر تقسیم کی جائے تو ان کی تین انواع سامنے آتی ہیں۔ پہلی قسم ان جماعتوں پر مشتمل ہے جو پارلیمانی سیاست پر اعتماد کرتی ہیں اور جموری ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ دوسری قسم ان جماعتوں کی ہے جو زیادہ تر سماجی روحانی امور پہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم میں وہ جماعتیں شامل ہیں جو طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہیں، وہ یا توعملی طور پہ جہاد کے نام پر مسلح سعی کررہی ہے یا پھر اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ فکری سطح پر ان تینوں طرح جماعتوں میں اختلاف کے باوجود ان کےمابین روابط کا بعد بہت کم پایا جاتا ہے اور کئی امور میں وہ متحد بھی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کا تعلق پہلی قسم سے ہے اور اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے۔ مولانا فضل الرحمان 19 جُون 1953ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد مفتی محمود کے سیاسی جانشین کے طور سامنے آئے اور اب تک جماعت کی زعامت انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مفتی محمود کی وفات کے بعد 1980ء میں کیا اور 1988ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے بعد پارلیمان کا حصہ بنے۔ اس دور میں مولانا فضل الرحمان کے افغان طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوئے۔ اس کے بعد 1990ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مولانا کامیاب نہیں ہوسکے۔ بعدازاں جب 1993ء میں ‘اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ’ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم ہوا تو اس کی چھتری تلے وہ دوبارہ قومی اسمبلی کی نشست پر جیت کر پارلیمان میں پہنچے۔ 1997ءمیں ایک بارپھر وہ اپنی نشست سے کامیاب نہ ہوسکے۔

مولانا فضل الرحمان کی شہرت ایک سیاستدان کی ہے جن کی زیرک مزاجی کو ملک کے سیاسی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کا زیادہ ووٹ بینک خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے لیکن ان کا احترام سارے سیاسی قائدین کرتے ہیں۔ اس کی وجہ جمہوری استحکام کے لیے ان کی کوششیں اور ملک کے مذہبی طبقے کے اندر ان کا اثرورسوخ ہے۔ ان کا نام اور کردار ہر بڑے سیاسی بحران کے وقت سامنے آتا ہے اور انہوں نے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا۔ نائن الیون واقعے کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے ملک میں اس حملے کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیے اور اس اقدام کی مخالفت کی۔ انہوں نے صدرپرویز مشرف کے خلاف بھی سخت بیانات دیے اور پاکستان کی طرف سے امریکی حملے کی حمایت پر تنقید کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں حکومت نے کچھ عرصے کے لیے ان کے آبائی گھر میں نظربند کیے رکھا۔ 2002ء میں انہیں رہا کردیا گیا اور ان کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔

2002ء کے عام انتخابات کے دوران وہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اسمبلی میں پہنچے۔ اس مرحلے میں خیبرپختونخوا میں اس نئے مذہبی سیاسی اتحاد کی حکومت قائم رہی۔ مولانا 2004ء سے 2007ء کے دوران حزب مخالف کے سربراہ بھی رہے۔ پاکستان کے اندر مولانا فضل الرحمان کو ایسے رہنما کے طور پہ بھی دیکھا جاتا ہے جنہوں نے پڑوسی ملک افغانستان کے طالبان کی بڑی حد تک حمایت کی ہے، اگرچہ وہ اس بات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔ انہوں نے ہر جگہ خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پہ پیش کیا ہے جو مسلح تحریکوں سے اپنی ذات وجماعت کو دور رکھتے ہیں۔ وہ شریعت کو جمہوری پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے نافذ کرنے کے حق میں ہیں۔ اپنے دینی پس منظر کے باوجود جب ضرورت پڑی تو انہوں نے ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد کیا۔ ان کی اس وسعت نظری کے سبب کالعدم مسلح گروہ جنداللہ نے ان پر تین دفعہ قاتلانہ حملے بھی کیے جن میں وہ محفوظ رہے۔

جمہوری استحکام کے لیے سعی

اگرچہ مذہی گروہوں کا تعارف ایک ایسے عنصر کے طور پہ مشہور ہوا ہے جو جمہوریت کا حامی نہیں ہے۔ یہ تناظر ساری دنیا کی مسلم مذہبی جماعتوں کے لیے پایا جاتا ہے اور میڈیا میں مذہبی حلقے کی شہرت لگ بھگ ایسی ہی پیش کی گئی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں یہ تصور درست نہی ہوگا۔ اس جماعت نے اس وقت بھی پاکستان میں جمہوری استحکام کے لیے باآوازبلند نعرہ لگایا جب ملک میں خوف کی فضا قائم تھی اور مسلح گروہوں کے لیے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانا مشکل نہیں تھا۔ جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مسلح تحریکوں کی حمایت کرے۔ اس جماعت سے ربط رکھنے والی کئی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا جن میں مولانا حسن جان اور مولانا معراج الدین کے نام سرفہرست ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبدالغفورحیدری پر بھی حملے ہوئے۔ لیکن اس سارے دباؤ کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے اندر کسی بھی نوع کی مسلح تحریک کے حق میں ایک جملہ بھی نہیں کہا۔

تاریخی طور پہ پاکستان کے عوام میں مذہبی سطح پر جمہوریت کے لیے ذہن ہموار کرنے والی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کا نام سرفہرست ہے۔ کیوں کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس نے ایسے وقت میں بھی جمہوریت کی مخالفت نہیں کی جب جمہوریت کو اسلام مخالف نظام گردانا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی بھی اگرچہ انتخابی سیاست کا حصہ رہی ہے لیکن اس کے لٹریچر میں جمہوریت کو مغربی اور اسلام کےمتوازی نظام ہی بتایا گیا تھا۔ بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب پوری دنیا میں سیاسی اسلام کی تحریکیں زوروں پر تھیں اور ان کے نتیجے میں مسلح دینی تحریکیں وجود میں آرہی تھیں، جمعیت علمائے اسلام کے لٹریچر کی مجموعی چھاپ جمہوریت مخالف نہیں تھی۔ اس کے قائدین ہمیشہ اسلامی قوانین لاگو کرنے کی بات کرتے رہے لیکن اس کا راستہ پرامن سیاسی جدوجہد کا رہا۔

یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی نمائندگی صرف سیاسی یا سماجی حلقوں میں دلچسپی رکھنے والے مذہبی تک محدود نہیں ہے بلکہ تبلیغی جماعت اور خانقاہی سلاسل بھی مولانا فضل الرحمان کی حمایت کرتے ہیں۔ مولانا کی یہ بہت بڑی خوی ہے کہ انہوں نے نہ صرف مذہبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ ان کی سیاسی حوالے سے یہ ذہن سازی بھی کی کہ ملک میں جمہوری استحکام اور سیاسی جدوجہد اہمیت رکھتے ہیں۔

پاکستان کے اندر جمہوری استحکام کے لیے جمعیت علمائے اسلام کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ماضی میں خود کو فوجی چھتری تلے بننے والے سیاسی اتحاد ‘دفاعِ پاکستان کونسل’ سے علیحدہ رکھا۔ اس اتحاد میں کئی فعال مذہبی سیاسی جماعتیں شامل تھیں اور چند مسلح جدوجہد کی دعوت دینے والے گروہ بھی اس کا حصہ تھے۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران ملک میں تحریک طالبان پاکستان کی فعالیت بہت زیادہ تھی اور ان کی خواہش تھی کہ کم ازکم ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں جمہوری جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کریں یا ان کی طاقت کو کم کیا جائے، تو اس وقت جمعیت علمائے اسلام کے انتخابی منشور کی پہلی شق یہ تھی کہ ‘سیاست میں ہماری پہلی اولین ترجیح امن کا قیام ہوگا’۔

فرقہ ورانہ عنصر کی حوصلہ شکنی

جمعیت علمائے اسلام نے اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ فرقہ وارانہ عنصر کی حوصلہ شکنی کی۔ 80 کی دہائی میں جب شیعہ سنی مسالک کی آپس میں کشیدگی بڑھی اور بات تشدد تک پہنچی تو اس وقت جمعیت علمائے اسلام نے اس مسئلے کے حل کے لیے تشدد کے راستے کی مخالفت کی۔ حالانکہ ایسا کرنے سے کئی شخصیات جماعت سے علیحدہ ہوئیں اور سپاہ صحابہ کے نام سے نئی جماعت وجود میں آگئی۔ اس سے جمعیت کو اپنے حلقے کی جانب سے طعنے بھی سننے کو ملے، لیکن مولانا فضل الرحمان نے طریق کار سے اختلاف نہیں چھوڑا۔ ان کہنا تھا کہ شیعہ سنی کے مسئلہ کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور یہی حقیقی راستہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی سعی پر یقین اور اعتماد کی وجہ سے ان کی تمام مسالک میں عزت ہے۔ انہیں صرف دیوبندی مسلک کے عوام سے ہی ووٹ نہیں ملتے بلکہ دیگر مسالک کی ایک خاطرخواہ تعداد ان کی جماعت کو ووٹ دیتی ہے۔

حال ہی میں پارلیمان میں کالعدم جماعتوں کے نمائندہ بعض رہنما جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ الحاق کرکے شامل ہوئے ہیں۔ ان میں مولانا حق نواز جھنگوی اور مولانا اعظم طارق کے بیٹے نمایاں ہیں۔ یہ جمعیت کی خوبی ہے کہ اس نے مذہبی عنصر کو جمہوری سیاسی میدان میں یکجا کیا ہے انہیں پرامن سعی کے لیے ہمیشہ قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔

خواتین کے حقوق

ماضی میں جمعیت علمائے اسلام نے سیاست میں خواتین کی قیادت پر اعتراض کیے تھے، لیکن وقت کے ساتھ یہ تناظر بھی تبدیل ہوا ہے۔ اب مخصوص نشستوں پر جمعیت کی طرف سے پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی موجود ہے، بلکہ اس جماعت نے 2008ء میں پیپلزپارٹی کی نامزد سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کے حق میں ووٹ بھی دیا تھا۔ اِس وقت جمعیت کا خواتین کے لیے علیحدہ سیاسی وِنگ موجود ہے جس کی سربراہی نعیمہ کشور کے پاس ہے۔

2013ء کے انتخابات میں جمعیت نے اپنے انتخابی منشور میں خواتین کے حقوق کے لیے کچھ وعدے شامل کیے تھے جو 2018ء کے انتخابات میں بھی جماعت کے منشور کا حصہ تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے مساوی حقوق دیے جائیں گے، اور خواتین کے ساتھ تمام امور میں مردوں کے مساوی معاملہ کیا جائے گا’۔

اقلیتوں کے حقوق

مذہبی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام کو ایسی پہلی جماعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس نے اپنی سرپرستی میں ہونے والی تین روزہ کانفرنس میں ملک کی تمام نمایاں اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے دینی رہنماؤں کو مدعو کیا۔ انہیں نہ صرف یہ مدعو کیا گیا بلکہ انہیں اپنے خیالات کو پیش کرنے کا موقع بھی دیا گیا۔ اِس وقت سینٹ آف پاکستان میں جمعیت کی نشست پر ایک خاتون رکن آسیہ ناصر موجود ہیں۔ انہوں نے کئی بار میڈیا سے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جماعت میں آزادانہ کام کرنے دیا جاتا ہے اور ان کے مذہبی خیالات پر کسی قسم کی پابندیعائد نہیں کی جاتی نہ اس سے ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اقلیتوں کے حقوق کے جمعیت کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ ‘اقلیتیں پاکستان کے برابر شہری متصور ہوں گی اور آئین میں بیان کیے ان کے تمام حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ ملک کی غیرمسلم اقلیتوں کو مذہبی آزادی، شہری حقوق اور ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اور انصاف تک ان کی رسائی کو آسان بنایا جائے گا’۔

جمہوریت ایک ریاضت کا سفر ہوتا ہے جس میں وسعت ظرف، صبر اور مساوات کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلا کا تعلق ایک ایسے مسلک سے ہے جو ماضی قریب میں مسلح جدوجہد کے لیے مشہور رہا ہے، لیکن جمعیت علمائے اسلام نے حق اور شریعت کی آواز بلند کرنے کے ساتھ خود کو ہمیشہ جمہوری جدوجہد کے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ یہ پاکستان کے عوام کے مثلِ نعمت ہے کہ مذہبی سیاست میں اتنا اثرورسوخ ہونے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام نے اپنی جمہوری وابستگی کو کبھی ترک نہیں کیا۔ البتہ مجموعی طور پر اب بھی اصلاحات کی کافی گنجائش موجود ہے۔