کتاب: ملائیشیا اور انڈونیشیا میں ریاست، علماء اور اسلام کا باہمی ربط

0

مصنف:نورشہرل سات NorsharilSaat

تلخیص:ازمل محمد طیبAzmil Muhammad Tayeb

جغرافیائی اعتبار سے انڈونیشیا مسلمانوں کی تعداد ملائیشیا کی مسلم آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ بلکہ انڈونیشیا میں بسنے والے مسلمان پوری دنیا کی مسلم آبادی کا 12 فیصد ہیں۔ اگرچہ انڈونیشیا کے مقابلے میں ملائیشیا کے مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن وہاں شرعی قوانین زیادہ مؤثر طریقے سے لاگو کیے گئے ہیں اور سیاسی میدان میں بھی مذہب اور مذہبی حلقے کا اثرورسوخ زیادہ اور منظم ہے۔ ان دونوں ممالک کی سیاست میں مذہب اور حلقوں کے اثرورسوخ کو سمجھنے کے لیے ان کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر کا جائزہ لینا اہم ہے۔

انڈونیشیا میں 99 فیصد آبادی مسلمان عقیدہ کے حامل لوگوں کی ہے، جبکہ ملائیشیا میں مسلمان آبادی 63 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ملائیشیا میں مسلمان بہت پہلے سے رہ رہے ہیں جبکہ دیگر آبادکاروں کی زیادہ تر تعداد استعماری عہد میں یہاں لائی گئی تھی جب برطانیہ نے چین اور بھارت سے مزدوروں اور کام کرنے والوں کی بڑی تعداد کو یہاں بلایا تھا، یہ لوگ بعد میں ملائیشیا میں ہی رہنے لگے۔ چونکہ ملک میں نئی آنے والی آبادی تعداد میں بڑی تھی اور ان مذہب بھی مختلف تھا تو مقامی لوگوں کے اندر ایک قسم کا عدم تحفظ پیدا ہوگیا، اور ان میں مذہب اور نسل کے حوالے حساسیت پیدا ہوگئی کہ کہیں انہیں خطرات لاحق نہ ہوجائیں۔ اس لیے مذہب اور نسل پسندی کے معاملات ان کی سیاست میں اساسی حیثیت اختیار کرگئے۔ ملائیشیا میں نسل اور مذہب کے مابین ایک خاص تعلق ہے جو گہرا اور مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا میں حکومتوں نے مقامی نسلی عنصر اور مذہب کے درمیان ربط کو مزید گہرا بنانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا اور یہ دونوں چیزیں سیاست میں اہمیت کی حامل رہیں۔

ملائیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان سیاست میں مذہبی عنصر کی فعالیت کا یہ مختلف تاریخی وثقافتی فرق انہیں الگ مقام عطا کرتا ہے۔ ملائیشیا میں مذہبی نیشنل ازم  کا پرچار ریاست نے خود کیا ہے۔ یعنی کہ ریاست سیاسی اور اخلاقی دونوں قسم کی اتھارٹی کی حامل رہی ہے۔

نہ صرف یہ کہ ملائیشیا کی سیاست میں مذہبی کا عمل دخل صرف دینی تہذیبی شناخت کو تحفظ دینے کی حد تک محدود رہا ہے، بلکہ اس سے زیادہ وسیع ہے، وہاں مذہبی اقدار کو ترقی اور معاشی بہتری کی ضمانت بھی خیال کیا گیا ہے۔ مہاتیر محمد کے دورحکومت میں مذہب کو پہلے کی بہ نسبت زیادہ اثرورسوخ حاصل ہوا اور اس عہد میں معاشی ترقی کو بھی نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ ملائیشیا میں اسلامائزیشن کا عمل دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہا ہے، اور یہ محض عدالتی قوانین تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات بشمول بیوروکریسی کے ریاست کے سارے انتظامی دھانچے میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

ملائیشیا میں بیورکریسی انتظامیہ کی اسلامائزیشن میں یونائٹڈ مالے نیشنل آرگنائیزیشن (UMNO) اور ملائیشین اسلامک پارٹی کے مابین مقابلے کی فضا نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوںمذہبی نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی کرنے والی  جماعتیں ہیں لیکن ان کے درمیان مذہبی تشریحات کا کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ تاہم اختلاف کے باوجود دونوں جماعتیں اسلامی عنصر کو مضبوط بنانے کا ایجنڈہ رکھتی ہیں، جس سے ملائیشیا میں مذہبی عنصر طاقتور ہوا ہے۔ یونائٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن ملک کی سب سے قدیم اور زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والی جماعت ہے، حالیہ وزیراعظم اسماعیل صبری یعقوب کا تعلق بھی اسی جماعت کے ساتھ ہے۔ ملائیشین اسلامک پارٹی جسے PAS (Party Islam SE-Malaysia) بھی کہا جاتا ہے 1951ء سے کام کررہی ہے لیکن 1982ء سے اس نے مذہبی عنصر کو زیادہ ترجیح دی اور اپنی جماعت میں انتخابات کے لیے مذہبی طبقے کو نمائندگی دی۔ یہ جماعت شروع سے یونائٹد مالے کے مقابل رہی ہے۔ لیکن 2019ء میں ان دونوں جماعتوں کے مابین قربت آئی اور دونوں نے ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ ان کے رہنماؤں نے ایک متفقہ میثاق نامہ بھی جاری کیا جس میں ان امور کو نمایاں حیثیت حاصل تھی:

آئینی تقاضوں کا احترام اور تحفظ کیا جائے گا۔

اسلام کو سیاسی عمل اور ریاستی انتظامیہ میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔

حکومت میں ملائیشیا کی مقامی قیادت کو نمایاں حیثیت حاصل رہے گی۔

ملاوی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہے گا۔

اگرچہ یہ دونوں جماعتیں ملائیشیا کی دیگر شناختوں اور نسلی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کو بھی اہمیت دیتی ہیں اور انہیں حکومتوں میں بھی نمائندگی دی جاتی ہے لیکن جیساکہ میثاق کی ان چند شقوں سے بھی واضح ہوتا ہے، ملائیشیا کی مرکزی مذہبی سیاسی جماعتیں اسلام اور ملاوی نسلی عنصر کو سیاست میں سب سے اوپر رکھتی ہیں۔

انڈونیشیا میں بھی اسلامی عنصر عام لوگوں کی زندگیوں میں دیکھا جاسکا ہے، اور سیاسی سطح پر بھی مذہبی اثرورسوخ کم نہیں ہے، لیکن یہاں مذہبی عنصر ریاستی پالیسیوں کا محور نہیں ہے بلکہ یہ مذہبی جماعتوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بالخصوص نہضۃ العلماء اور محمدیہ جیسی جماعتیں اس کے پیچھے ہیں جنہوں نے سماج میں اپنی مقبولیت بنائی ہوئی ہے۔ انہوں نے پورے ملک میں دعوت وتربیہ کے مراکز قائم کیے ہوئے ہیں جو تعلیمی اداروں سمیت زندگی کے باقی شعبوں میں اپنا کام کرتے ہیں۔ ان جماعتوں نے فلاحی کاموں کا ایک وسیع جال بچھایا ہوا ہے جس سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔  نہضۃ العلماء اور محمدیہ جیسی جماعتوں نے ملک اپنا تعلق سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بنایا ہوا ہے اور انتخابات کے وقت وہ رائے عامہ کو بھی ہموار کرتے ہیں، اس لیے ان جماعتوں نے اسلام کا معتدل تصور اپنایا ہوا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سماج وسیاست میں مذہبی عنصر کے لیے جگہ بنا سکیں۔

انڈونیشیا کی یہ دونوں جماعتیں مسلم دنیا کی سب سے بڑی جماعتیں تصور کی جاتی ہیں۔ صرف نہضۃ العلماء کے ساتھ انڈونیشیا کے اندر 90 ملین افراد منسلک ہیں، جبکہ انڈونیشیا سے باہر 30 ملین لوگ اس جماعت کے رکن ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے انسلاک کی وجہ سے جماعت کا انتظامی ڈھانچہ بھی وسیع ہے جو مختلف شعبوں کے تحت پھیلا ہوا ہے جن میں صحت، تعلیم، دعوت اور رفاہ وبہبود سے متعلقہ امور شامل ہیں۔ پھر ہر شعبے میں مرکزی رابطہ گاہ کے علاوہ ہر صوبے اور ذیلی سطح پر شہروں و گاؤں میں ان کے دفاتر و مراکز قائم ہیں جو ایک مربوط انداز میں اپنا کام کرتے ہیں۔ بیرون ممالک کے رہائشی کارکنان کے لیے باقاعدہ منظم وِنگ ہیں جو ان سے رابطہ رکھتے ہیں اور ان کے مسائل کے حل میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ نہضۃ العلماء اور محمدیہ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تسلسل کے ساتھ ورکشاپس کا انعقاد کرتی رہتی ہیں اور نوجوانوں کو اپنی عریق تاریخ سے آگاہ کرتی ہیں۔

انڈونیشیا میں ان دونوں جماعتوں کی سربراہی میں ہسپتالوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جو لوگوں کی صحت کے مسائل میں مدد کرتا ہے۔ اسی طرح سکول سے لے کر یونیورسٹی تک طلبہ کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں بھی پیش پیش ہیں۔ زرعی شعبوں میں عوام کی رہنمائی اور تعاون کے لیے بھی وِنگ قائم ہیں۔ یہ تمام سہولیات صرف جماعتوں کے ممبران یا کارکنان کے لیے مختص نہیں ہوتیں بلکہ بلاتفریق سب لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔

نہضۃ العلماء اور محمدیہ ایک صدی پرانی جماعتیں ہیں۔ یہ نیدرلینڈ سے آزادی سے قبل وجود میں آئیں اور ان کا اساسی ہدف فلاحی کاموں میں انشغال تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ سیاسی معاملات میں بھی رائے دینے لگیں اور اب یہ صورتحال ہے کہ ملک کی حکومتیں بہت سارے معاملات میں ان جماعتوں سے تعاون طلب کرتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں آپس میں ایک دوسرے کی حریف بھی سمجھی جاتی ہیں لیکن بنیادی مذہبی معاملات میں ان باہمی ربط بھی بہت گہرا ہے۔ 1937ء میں انہوں نے ‘سپریم اسلامک کونسل آف انڈونیشیا’ نام کے تحت ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا تھا جس کے تحت ملک کے اہم مذہبی معاملات میں رائے پیش کی جاتی ہے جسے عوام میں قبولیت عامہ حاصل ہوتی ہے۔

نہضۃ العلماء نے انڈونیشیا میں پہلے براہ راست سیاست میں بھی حصہ لیا تھا، لیکن بعد میں عدم اطمینان اور فلاحی کاموں کے متأثر ہونے کی وجہ سے براہ راست سیاست سے راہیں جدا کرلیں۔ اس نے سب سے پہلے 1955ء کے جمہوری انتخابات میں حصہ لیا اور 45 نشستیں حاصل کی تھیں جو مجموعی نشستوں کا 18 فیصد تھیں۔ لیکن 1982ء میں جماعت نے اعلان کیا کہ وہ اپنی مذہبی سماجی خدمات پر توجہ مرکوز رکھے گی۔

انڈونیشیا کے اسلامی تحریکی ورژن کو مسلم دنیا کا سب سے معتدل ورژن کہا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے اس نمونے کے ساتھ مسلمان مذہبی جماعتیں معاشروں میں اپنا اثرورسوخ وسیع کرسکتی ہیں۔ یہ نہایت دلچسپ امر ہے کہ کوئی جماعت ایک صدی پرانی ہو لیکن اس کی آب وتاب میں کوئی کمی واقع ہونے کی بجائے اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا ہو۔ ورنہ دنیا کی دیگر قدیم مذہبی جماعتیں اپنی فعالیت و مقبولیت کو اس انداز میں آگے نہیں بڑھاسکیں کہ وہ متنازع ہوئے بغیر اب تک دنیا میں ایک ماڈل کے طور پہ دیکھی جاتی ہوں۔ ان دونوں جماعتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے انڈونیشیا کے ثقافتی رنگوں کو مضمحل نہیں ہونے دیا۔ ان کا ہر وہ مقامی ثقافتی حصہ جو اسلامی تعلیمات کے صریحاََ خلاف نہ ہو اسے باقی رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پہ انڈونیشین ٹوپی، ٹی شرٹ اور چادر پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ وہاں کی خواتین بھی اپنا ثقافتی مقامی لباس پہنتی ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

انڈونیشیا میں اسلام کے معتدل تصور کے مختلف عوامل بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی ہے کہ یہ مشرقی سمت میں مسلم دنیا کا دوردراز اور الگ تھلگ ملک ہے جسے پہلے عالمی مسلم مفکرین کی بہت کم توجہ حاصل رہی اور اسے مسلم دنیا کے مسائل میں کم نمائندگی حاصل رہی۔ اس لیےیہاں کے مذہبی عنصر پر مشرق وسطی کے اثرات زیادہ نہیں مرتب ہوئے اور ثقافتی طور پہ یہاں کے مقامی اثرات جیسے تھے ویسے ہی برقرار رہے۔ انڈونیشیا کی اسلامی جماعتوں نے مقامی ثقافت کے تحفظ میں اہم کردار اداکیا۔ اس کے علاوہ اس ملک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اسلام کے معتدل تصور کے پھیلاؤ کے لیے بہت پہلے سے ہی کوششیں شروع ہوگئی تھیں، اس ضمن میں صرف نہضۃ العلماء اور محمدیہ جیسی جماعتیں ہی پیش پیش نہیں تھیں بلکہ اور بھی کئی جماعتیں کام کرتی رہی ہیں۔

عبدالرحمان وحید جو نہضۃ العلماء کے تین بار سربراہ رہے اور ایک بار انڈونیشیا کے صدر بھی منتخب ہوئے ان کی کتب میں کثرت کے ساتھ ایک اصطلاح ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں مذہبی تشخص کو کس طرح مقامی کلچر کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی سنجیدہ سعی کی گئی ہے۔ وہ اصطلاح ہے Indigesation of Islamیعنی کہ مذہبی مقامیت پروری۔ یا اسلام کو مقامی تشخص کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی۔

اس فکر نے انڈونیشیا کو سیاسی حوالے سے جمہوریت کے قریب رکھا ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ انڈونیشیا میں سہارتو آمریت (1998ء-1968ء) کے دوران جن دو شخصیات نے جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد کی وہ نہضۃ العلماء اور محمدیہ کے رہنما تھے۔ عبدالرحمان وحید نہضۃ العلماء سے جبکہ امین رئیس محمدیہ کے رہنما تھے۔ امین رئیس پانچ سال تک People’s Consultative Assembly  کے چیئرمین بھی رہے جس نے تیس سالہ آمریت کے اختتام کے بعد ملک میں صدر اور نائب صدر کے انتخاب کی ذمہ داری نبھائی اور آئین میں جمہوریت کے حق میں ترامیم متعارف کرائیں۔ عبدالرحمن وحید 1999ء سے 2001ء تک انڈونیشیا کےصدر بھی رہے۔

سہل محفوظ نہضۃ العلماء سے تعلق رکھنے والے انڈونیشیا کے چوٹی کے عالم کہلائے جاتے تھے اور ان کا ساری جماعتوں میں احترام تھا، انہوں نے سیاست کے اہداف کو بیان کتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سیاست میں حکومت کا کام سماجی انصاف کو یقینی بنانا، خوشحالی کے لیے سعی کرنا، عالمی امن کے لیے سنجیدگی رکھنا اور مذوبی ونسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے’۔ انڈونیشیا میں متعدد ایسی نئی مذہبی جماعتیں وجود میں آئی ہیں جو سخت گیر کہلاتی ہیں،یہ اقلیتوں کے خلاف جذبات کو مہمیز دیتی ہیں، ان میں ایک نمایاں جماعت Defend Islam Movement کے نام سے ہے۔ وہاں حکومتیں ان کے اثرات سے عوام بچانے کے لیے محمدیہ اور نہضۃ العلماء سے تعاون طلب کرتی ہیں۔ انڈونیشیا میں نہضۃ العلماء اور محمدیہ جیسی جماعتوں کا کردار کم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ ایک واضح اور شفاف پالیسی کی حامل جماعتیں ہیں جن کا مقصد ملک میں جمہوری نظم کی حمایت، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، فلاحی کاموں میں انہماک اور عدم برداشت کے خلاف توانا آواز بن کر سامنے آنا ہے۔ یہ ایسے امور ہیں جو سیاست وسماج کی بہتری کے لیے بنیادی ضرورت ہیں، اور یہ جماعتیں منظم انداز میں اپنے مقاصد کی خاطر کردار ادا کررہی ہیں۔ اسی لیے ساری دنیا میں انڈونیشیائی مذہبی عنصر کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

انڈونیشیا کے ماڈل سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اسلام پسند عناصر کو غیر لبرل اثرات پیدا کرنے کے لیے قومی انتخابات میں فاتح ہونے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ انڈونیشیا واضح مسلم اکثریت کا حامل سیکیولر شناخت والا ملک ہے اور وہاں عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے کبھی 8 فیصد سے زائد ووٹ نہیں لیے، مگر مقامی اداروں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھنے والے 400 سے زائد قانون منظور کیے جاچکے ہیں۔