جمہوریت اور انسانی حقوق: اسلام کے تصورِ حرکت کی روشنی میں

0

اسلام اور اس کی تعلیمات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں جمود نہیں سکھایا گیا۔ بلکہ اس کے برعکس وقت کے تقاضوں کے ساتھ خودکو ہم آہنگ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہی اصول سیاست کے میدان میں بھی ہے کہ اسلام نے کچھ اقدار متعارف کردی ہیں اور اس کے بعد یہ آزادی فرا ہم کی ہے کہ اپنی ضرورت کے حساب سے کوئی ڈھانچہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں اسلام کے اسی تصور حرکت کو بنیاد بناکر واضح کیا گیا ہے کیسے مسلم سیاسی کلچر جمود کا شکار ہوا، حالانکہ یہ اسلام کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ مصنف بیرسٹر ظفراللہ خان قانون دان، دانشور اور سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ گزشتہ حکومت میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ آپ متعدد کتب کے مصنف بھی ہیں۔

اسلام کا تصورِحرکت

مسلمانوں نے ماضی میں تغیر اور جدوجہد کے دائمی اصولوں کی روشنی میں ہر چیلنج کا جواب دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کیسے فتوحات حاصل کیں اور کس طرح دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں شایانِ شان طریقے سے حکمرانی کرتے رہے۔ انہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں بنی نوع انسان کے ارتقاء میں نمایاں کردار ادا کیا۔  اس مضمون میں، صرف چند ایک چیلنجوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا جو مسلمانوں کو اپنے دورِ حکمرانی میں پیش آئے اور چندمثالیں پیش کی جائیں گی جو اس امر کو افشا کریں گی کہ اس عہد کے مسلمان اپنے دور کے ان چیلنجوں سے کس طرح نبرد آزماہوئے اور انہوں نے کس طرح دنیا کو اپنی آرزؤوں کے مطابق ڈھال کردکھایا۔ یہ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ اس امر کا تعین کرے گا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم خود احتسابی کے تقاضوں سے استقامت کے ساتھ عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟ کیا ہم تغیرات اور اپنے زمان و مکان کے چیلنجوں کا مناسب جواب دے رہے ہیں؟

اس کارگاہ عالم میں اللہ تعالیٰ کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ وہ بے حد و حساب نئی سے نئی وضع اور شکل اوصاف پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اوراس کا خالق ہر بار اُسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔

يُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّيْلَ وَالنَّھَارَ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ.

(رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے)

یہ آیات اس بدیہی (Manifest) صداقت کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں بنیادی اصول حرکت ہے، جمود(Inertia) نہیں۔ یہاں مسلسل آگے کی طرف بڑھتی ہوئی ایک حرکت اور ایک مستقل تخلیقی بہاؤ ہے، نہ کوئی ٹھہراؤ ہے اور نہ رکاوٹ ہمیشہ ایک پیش قدمی ہے، ہر لمحہ نیا ہے اور ہر لمحہ ایک نئی دنیا سامنے لاتا ہے۔ کائنات متحرک ہے اور مستقلاً حرکت میں رہتی ہے۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی واضح و صحیح تقسیم نہیں۔ جدید سائنس اس حقیقت کی دریافتوں کے ساتھ شہادت دیتی ہے کہ مادہ(Matter) مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ سیال حالت میں رہتا ہے۔

لیکن کائنات کی تبدیل ہوتی ہوئی حالت کے بارے میں ہمارے علم کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے جس میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ صرف تغیر مستقل ہے۔ خالق حقیقی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف اہل بصیرت حالتِ تغیر کو سمجھ سکیں گے بہ الفاظ دیگر نادان مستقل رہتے ہیں اور حالتِ موجود میں خوش و خرم رہتے ہیں اور وہ مستقلاً تبدیل ہوتے ہوئے زمانے اور ہمیشہ برپا رہتی ہوئی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ یقینا فہم و بصیرت سے محروم ہیں۔

مسلم سیاسی کلچر

اسلام کے تصورِ حرکت کے عملی فہم کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حالتِ تغیر کو قبول کرنا ہوگا۔ ہر تغیر ایک لمحہ پہلے مستقل (Constant) تھا۔ تسلسل، تغیر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ حال (Present) کے لیے ماضی (Past) ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت میں تغیر اور تسلسل؍استقلال (استحکام) پہلو بہ پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک دائمی قانون ہے جو بتاتا ہے کہ پائیداری اور تغیر کو لازماً ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ صرف حالتِ استحکام (Stability) میں موجود رہنے کا مطلب جامد (Static) رہنے اور ملیامیٹ ہو جانے کی طرف میلان کا مظہر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناعاقبت اندیشی سے تبدیلی کر دینا دروازے کے قبضے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی آدمی استحکام کے ساتھ زنجیر سے بندھا رہے اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے تو وہ ماضی کی یاد گار بن جائے گا، یا زیادہ بہتر الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ ایک پتھرایا ہوا ڈھانچہ (Fossil) کہلا سکے گا۔ اگر وہ صرف تبدیلی کے ہی ساتھ رہے تو وہ ماضی کے استحکام کے ساتھ اپنے نفع بخش روابط منقطع کر بیٹھے گا۔ شواہد کے اس مجموعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تسلسل اورتغیر کائنات کے دو مطلق حقائق ہیں اور ان کامسلسل باہمی انحصار انسانی زندگی کے توازن کی ضمانت ہے۔

اسلام کی آمد کے زمانے میں جزیرہ نمائے عرب میں جو سیاسی نظام مرّوج تھا وہ نیم قبائلی اور نیم شاہی تھا جبکہ ہمسایہ علاقوں میں موروثیت اور مستبد بادشاہتوں پر مبنی نظام تھا۔ اس ماحول میں عام لوگوں کے کوئی شہرییا سیاسی حقوق نہیں تھے نہ ہی امور مملکت میں ان کی کوئی آواز ہو سکتی تھی۔ حضور نبی پاکﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو یہاں ایک ریاست کی رسمی بنیادیں رکھیں۔ حکمرانی کے لیے ایسا نظام وضع کیا جو شراکت اور باہمی مشاورت پر مبنی تھا۔  ‘شوریٰ’ (مشاورت) سیاسی و سماجی تنظیم کے اسلامی تناظر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ مسلم فقہاء کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ ‘شوریٰ’عظائم الاحکام (Great Commandments) کا حصہ ہے اور ان کی اطاعت کرنا حکمران اور مسلم عوام دونوں کے لیے فرضِ عین ہے۔

اس شورائی تصور کے ہوتے ہوئے بھی ہم ماضی میں ہم رومیوں اور ایرانیوں کے نقش قدم پر چلنے لگے۔ ہم نے ان کے رسم و رواج اختیار کرتے ہوئے موروثی خاندانی حکمرانی قائم کر لی۔ بلا شبہ یہ مسلم بادشاہتیں تھیں لیکن اسلامی حکومتیں نہیں تھیں۔ اسلام کا انقلابی اور جمہوریجذبہ بہت جلد ختم ہو گیا۔ مسلم بادشاہوں نے خود کو زمین پر خدا کا سایہ (ظل اللہ) ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں خدائی حقوق (Divine rights) حاصل ہیں۔ بہت سے علماء نے بد امنی پھیلنے کے خوف سے ان کے اس سراسر غیر اسلامی تصور کی غیر مشروط تائید کی۔ بد قسمتی سے ہم مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں زیادہ زیر بحث عوام کے حقوق کی بجائے امیر (حکمران) کے بنیادی کردار پر پاتے ہیں۔ عوام کو اطاعت امیر کا درس دیا جاتا تھا۔ یعنی یہ کہ ان پرامیر کی اطاعت ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کہ شوریٰ(پارلیمنٹ) صرف مشورہ دے سکتی ہے جب کہ امیر اس کے مشوروں اور نصیحتوں کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہے۔

اس ناقص اور غیر اسلامی سیاسی نظریے نے ہماری مذہبی اور سیاسی زندگی کے ارتقاء پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ برصغیر میں اکبر کے عہد میں تقریباً چار سو پچاس (۴۵۰) علمائے وقت (مذہبی سکالرز) نے ابو الفضل اور فیضی کی قیاد ت میں ایک محضرنامہ مرتب کیا جو بادشاہ اکبرکو دنیاوی اور مذہبی اختیارات تفویض کرتا تھا اور رعیت پر بادشاہ کی اطاعت لازم قرار دیتا تھا۔ بادشاہ اکبر نے لادینی کے ایک نئے مذہب کو جنم دیا، جس کا نام دین الٰہی رکھا گیا۔ جب شیخ احمد سرہندیؒ اس نئے مذہب کی مخالفت اوراس کے رد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو بہت سے علماء اور صوفی مغل بادشاہ کی طرفداری کرتے ہوئے شیخ احمد سرہندیؒ کی تحریک کی مخالفت کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور انہوں نے دارا شکوہ کی بھی حمایت کی جو شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی مخالفت میں نئے مذہب کی حمایت کررہا تھا۔

اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ مطلق بادشاہت نے مسلم دنیا میں سیاسی جبر کو جنم دیا۔ ہندوستان کے ایک مسلمان حاکم نے کسی شہری سے ناراض ہو کر اسے ہاتھی کے پاوں تلے روندنے کا حکم دیا۔ شام کو جب بادشاہ سلامت مغرب کی نماز پڑھنے لگے تو امام صاحب نے اتفاقاً سورۃ الفیل (جس میں ہاتھی والوں کی بربادی کا ذکر ہے) کی تلاوت کی۔ بادشاہ سلامت برہم ہو گئے کہ امام اس کی تضحیک کر رہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ اس امام کو بھی ہاتھی کے پائوں تلے روند دیا جائے۔ حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں:

کرتی ہے ملوکیّت آثارِ جنوں پیدا
اللہ  کے نشتر  ہیں تیمور  ہو  کہ چنگیز

اسلام کا سیاسی نظم اور انسانی حقوق کا تحفظ

اسلام کا سیاسی نظم ملوکیت اور آمریت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور انسانیت کے لیے مجموعی طور پر چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے۔ ان حقوق کا ہر قسم کے حالات میں التزام اور احترام کیا جانا چاہیے، خواہ کوئی شخص اسلامی ریاست کے اندر کسی علاقے میں ہو یا باہر ہو، خواہ وہ برسِر جنگ ہو یا حالتِ امن میں ہو۔ ان بنیادی حقوق کے اہم خدوخال ذیل کی سطور میں بیان کیے جارہے ہیں:

  • انسانی زندگی ہرطرح کے حالات میں مقدس ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو بلا جواز قتل کرکے زندگی کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو قرآن مجید اس اقدام کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرا ر دیتا ہے۔
  • اسلام میں انسان کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے دی گئی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور مال ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ آج کا (یوم نحر) دن یہ مہینہ (ذوالحجہ) اور یہ شہر حرام (مکہ مکرمہ) ہیں۔
  • اسلام میں انسان کی عزت و آبرو کو تحفظ کر دیا گیا ہے۔
  • اسلام ظلم کے خلاف احتجاج کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

لَا يُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ.

  • اسلام میں ضمیر اور عقیدے کی آزادی کے حق کو تحفظ حاصل ہے۔ قرآن کہتا

ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ.

  • اسلام میں بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَفِيْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ

  • اسلام میں قانون کی حکمرانی کے سامنے سب برابر ہیں۔ جب ایک عالی نسب خاندان کی عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی تو معاملہ حضور نبی کریمﷺ کے سامنے پیش ہوا۔ سفارش کی گئی کہ اسے چھوڑ دیا جائے کیونکہ معاشرے میں اس کا مقام بہت بلند ہے۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے جو قومیں اللہ تعالیٰ نے تباہ کی ہیں ان میں عام آدمی کو تو جرم پر سزا دی جاتی تھی لیکن بڑے خاندانوں کے افراد کو ان کے جرائم پر سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ نے یہ جرم کیا ہوتا تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔
  • اسلام میں ہر انسان کو امور ریاست میں حصہ لینے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰى بَيْنَھُمْ۔