شرعی قوانین کے تناظر میں سماج سازی: آچے کا تجربہ

مائیکل فینر

0

کتاب کا نام: Sharia and Social Engineering: Implementation of Islamic Law in Contemporary Aceh, Indonesia

مصنف:مائیکل فینرMichael Feener

انڈونیشیا کا سب سے بڑا صوبہ آچے جو نانگرو، آچے دارالسلام بھی کہلاتا ہے۔ یہ اٹھاون ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے- اس میں ایک سو انیس جزیرے ہیں ، بہتر بڑے دریا ہیں اور دو نہایت خوبصورت جھیلیں ہیں۔ آچے انڈونیشیا کا باب الاسلام کہلاتا ہے کیونکہ یہاں آٹھویں صدی میں عرب تاجروں نے مقامی باشندوں کو اسلام سے متعارف کرایا۔ بہت سے عرب تاجر یہیں آباد ہو گئے اور آٹھویں صدی کے آخر میں یہاں پہلی اسلامی سلطنت قائم ہوئی- سترویں صدری میں آچے میں سلطان اسکندر مداکی سلطنت پورے جنوب مشرقی ایشیا میں طاقتور سلطنت سمجھی جاتی تھی۔ آچے کے عوام نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے 1873ء میں ولندیزیوں کے خلاف جنگ شروع کی جو دنیا کی طویل ترین جنگ شمار ہوتی ہے- یہ جنگ 1942ء تک جاری رہی۔ 1945ء میں جب مسلح جدوجہد کے بعد انڈونیشیا ولندیزی غلامی سے آزاد ہوا تو آچے انڈونیشیا کا حصہ بنا لیکن اس کو ملک کا خصوصی خودمختار علاقہ قرار دیا گیا۔

انڈونیشیا کے مغرب میں واقع آچے کو ایک انتہائی مذہبی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر آبادی مسلمان  ہے اوریہاں کے باشندے شریعت کے رسوم و رواج اور قوانین کے مطابق رہتے ہیں۔ اس انڈونیشی صوبے میں شرعی قوانین کا نفاذ ہے، جہاں متعدد جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو شرعی سزائیں سنائی جاتی ہیں اور ان سزاؤں پر عملدرآمد لوگوں کے سامنے کھلے عام کیا جاتا ہے۔

حالانکہ انڈونیشیا کی مرکزی حکومت کو آچے کے مکمل شرعی نظام پر کچھ اعتراضات ہیں لیکن اس صوبے کو خودمختاری حاصل ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت زیادہ دخل اندازی نہیں کرتی۔ اس کی وجہ آچے میں علیحدگی کی سوچ کا پایا جانا ہے، جس کے لیے آچے کے عوام ماضی میں کوششیں بھیکرتے رہے ہیں۔ انڈونیشیا کی مرکزی حکومت اس صوبے میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتی تاکہ وہاں کے عوام مرکز سے دور نہ ہوں۔ آچے تیل، گیس اور دیگر معدنی ذخائر کے اعتبار سے مالامال علاقہ ہے۔

اگرچہ آچےمیں مذہبی تشخص کی طرف رجحان میں اضافہ 2004ء کے سونامی کے بعد ہوا تھا لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی آچے میں حکومتوں نے اس جانب کئی اقدامات اٹھائے تھے۔ صوبے کی حکومت نے 1965ء میں علماء کو ریاستی ڈھانچے میں شمولیت کی طرف قدم اٹھایا تھا اور مجلس علماء تشکیل دی تھی جو ایک قسم کی شرعی فورس تھی جو ریاست کو شرعی امور میں مشاورت فراہم کرتی اور تجاویز پیش کرتی تھی۔ اسی کو دیکھتے ہوئے بعد میں 1975ء میں صدر سہارتو نے بھی مرکزی سطح پر مجلس علماء انڈونیشیا قائم کی تھی۔ آچے میں مذہبی پولیس کو بھی قانون سازی کے ذریعے ریاستی انتظامیہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ وہاں کی حکومت نے علماء کونسل کی ذمہ داری بنائی ہے کہ وہ اسلام کاری کے عمل میں حکومت کی مدد کرے اور اپنی سفارشات دے۔ اس ضمن میں کونسل کا کردار نمایاں ہے اوروہ اب تک صوبے میں فعال وطاقتور ہے۔

صوبے میں ریاست ومذہب کے مابین تعلق کو باہم مربوط بنانے کے لیے کئی اہم دینی ادارے تشکیل دیے گئے ہیں جو ریاستی مشینری کے ساتھ قانونی حیثیت میں کام کرتے ہیں، ان میں علماء کونسل کے علاوہ، ولایت الحسبہ اور سٹیٹ شریعہ ایجنسی بھی شامل ہیں۔ اس ساری سعی کا مقصد آچے کے سماج کو مذہبی تشخص کے ساتھ ڈھالنا ہے۔

آچے مسلم دنیا کا ایسا علاقہ ہے جہاں اسلامائزیشن سماج کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ آچے میں سن 2005 میں شرعی سزاؤں کا باقاعدہ  نفاذ کیا گیا تھا۔

اس صوبے میں جوا، زناکاری، شراب نوشی اور ہم جنس پرستی یا شادی سے قبل سیکس جیسے مروجہ جرائم پر کارروائی شرعی قوانین کے تحت کی جاتی ہے۔

آچے میں ایک سپیشل فورس بھی تشکیل دی گئی ہے، جو مخبری پر چھاپے مارتی ہے اور ان جرائم میں ملوث لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے۔

یہاں خواتین کے لیے حجاب پہننا بھی لازمی ہے۔

اسلامی قواعد کے مطابق ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان کو یہ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ وہ ہم جنس پرست افراد اور ٹرانس جینڈرز کو اپنے ہاں ملازمت پر مت رکھیں۔ مزیدیہ کہ ایسے مقامات پر نامحرم مردوں کے ہمراہ آنے والی خواتین کو سروسز فراہم نہ کی جائیں اور رات نو بجے کے بعد اکیلی خواتین کو ریستواروں اور کیفے میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔

حال ہی میں آچے میں انتظامیہ نے ہوائی جہازوں پر خواتین کے عملے کے لیے دوران پرواز اور لینڈنگ کے بعد بھی اسکارف پہننے کا حکم دیا تھا۔

انڈونیشیا کے اس صوبے میں تمام شرعی سزائیں قانونی طور پہ نافذ ہیں۔ حدود وجنایات کے معاملات سے متعلقہ امور میں بھی مکمل شرعی نظام پر عمل کیا جاتا ہے۔

یہ آچے کے مذہبی تشخص کا ایک رخ ہے، جبکہ اس کے ساتھ یہ جاننا اہم ہے کہ اس صوبے میں مذہبی ہم آہنگی بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہاں کی حکومت اور مذہبی طبقہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ غیرمسلم آبادی کو حقوق کے مسائل نہ ہوں اور انہیں کوئی خطرات لاحق نہ ہوں۔ اس کے لیے وہ وقتاََ فوقتاََ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ علماء کونسل دہشت گردی اور سخت گیر عناصر کے خلاف بھی کام کرتی ہے اور اس پر عوام کو آگہی دی جاتی ہے۔ اسی طرح کرپشن اور دیگر اخلاقی برائیوں کے خلاف دعوتی واصلاحی بھی کام کیا جاتا ہے۔

انڈونیشیا کے اس صوبے میں مذہبی تشخص کو عام کرنے کے لیے ریاست نے بہت کام کیا ہے۔ یہ تجربہ ریاست ومذہب کے تعلق کے امور میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے سودمند ہے۔