افغانستان ڈائری: امارتِ اسلامیہ میں ہمارے مشاہدات(آخری قسط)
پچھلی پانچ اقساط میں ہم نے افغانستان کے اپنے سفر میں سامنے آنے والے تجربات و مشاہدات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ اس کے ساتھ کچھ مسائل کا بھی ذکر آیا جن کے حوالےسے عوامی سطح پر خدشات پائے جاتے ہیں، پھر ان پر طالبان کی آراء کا بھی جائزہ لیا گیا کہ وہ کیا سوچتے اور کہتے ہیں۔اس تناظر میں ہمارے لیے ایک اہم پہلو پاکستان کے ساتھ تعلقات کا بھی تھا ، اور یہ کہ کونسے ایسے عوامل ہیں جو اس میں زیادہ پیچیدگی کا سبب ہیں۔اب اس سلسلے کی آخری قسط میں ہم کچھ مسائل کے حل پر بات کریں گے۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ افغانستان کے تمام علاقے اور وہاں کی طالبان قیادت خیالات کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہیں۔ حالانکہ ملک میں مجموعی طور پہ طالبان ہی اقتدار میں ہیں،لیکن فکری حوالے سے جو فرق ملتا ہے وہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اثرات شاید وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ مزید سامنے آتے جائیں گے۔ مثال کے طور پہ قندھار کا خطہ الگ مزاج کا حامل ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ننگرہار، خوست،پکتیا اور پکتیکا کے علاقوں کی قیادت ذرا مختلف ہے۔ جو قائدین اور اراکین قندھار سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مزاج میں قدرے سختی ہے۔ وہ بین الاقوامی امور و تعلقات کی اہمیت و حساسیت کو اس طرح نہیں دیکھ پاتے جس طرح کہ ننگرہار، پکتیا اور پکتیکا کی قیادت محسوس کرتی ہے۔ ثانی الذکر علاقوں کے طالبان قائدین کے مزاج میں کچھ نہ کچھ لچک موجود ہے اور وہ ان معاملات کی حساسیت کو بھی سمجھتے ہیں۔مزاج کے اس فرق کی کچھ بنیادی وجوہات بھی ہیں۔ مثال کے طور پہ قندھار کی طالبان قیادت جنگ کے دنوں میں زیادہ تر بلوچستان رہی ہے،ظاہر ہے کہ یہ صوبہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت روابط اور معلومات کی ترسیل کے حوالے سےسے الگ تھلگ ہے،اور وہاں مرکزی دھارے کا میڈیا اتنا فعال نہیں۔وہاں کی زندگی بھی زیادہ تر روایتی اور محدود وسائل کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے وہاں رہنے والے قائدین کا مزاج تبدیل نہیں ہوسکا ۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکا کو زورِِبازو سے شکست دی اور خطے سے نکالا ہے۔جبکہ دوسری طرف پکتیا،ننگرہار اور پکتیکا کے طالبان قائدین زیادہ تر وزیرستان،چارسدہ،مردان، لکی مروت، پشاور اور بنوں وغیرہ جیسے علاقوں میں رہے جہاں معلومات کے ذرائع وسیع اور بین الاقوامی میڈیا تک رسائی بھی تھی۔اسی طرح عومی زندگی بھی زیادہ تر شہری نوعیت کی ہے۔پھر ان علاقوں میں القاعدہ اوررٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ بھی تھے۔ تو اس طرح ان کا فکری افق ذرا وسیع ہوگیا۔
طالبان کے مابین فکری حوالے سے ایک فرق اس تناظر میں بھی ہے کہ جنگ کے عرصے میں طالبان کی قیادت جب مذاکرات کر رہی تھی تو اس دوران قطر اور پاکستان میں طویل عرصے تک ان کا دیگر ممالک کے سیاسی عناصر کے ساتھ ان کا میل جول رہا اور افہام وتفہیم کا معاملہ چلتا رہا۔ لہذا مذاکرات کرنے والی طالبان قیادت سمجھتی ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ انہوں نے دنیا کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا ہے۔ اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں اور یہ کہ عوامی خدشات کو مدنظر رکھنا بھی کیوں ضروری ہے۔جبکہ طالبان میں جنجگو کی صورت جو دیگر افرادی قوت ہے وہ بس یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے امریکا کو زورِ باز سے باہر نکالا ہے اور اسے شکست دی ہے۔ یہ فرق بھی موجود ہے۔
طالبان کی فکری ہیئت کی تفہیم کے لیے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگرچہ وہ مسلکی اعتبار سے دیوبندیت کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ خود کودیوبندی ہی کہلاتے ہیں۔ لیکن سیاسی اسلام کے مسئلے میں وہ جمہوری دیوبندی فکر سے ہٹ کر نظریہ رکھتے ہیں۔ طالبان نہ صرف یہ کہ ریاست میں اسلامی نظام کے قیام کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اس کی قدیم ڈھانچے خلافت کی شکل کے احیاء کے بھی داعی ہیں۔ یہ نظریہ بنیادی طور پہ دیوبندی مسلک کا نہیں ہے،بلکہ الاخوان المسلمون اور مولانا مودودی کی فکر سے آیا ہے۔ ایسے میں طالبان یہ خیال کرتے ہیں کہ دیوبندی مسلک اور قیادت اس مسئلے میں تساہل کا شکار ہوئے ہیں اور انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس فریضے سے دور کردیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے پاکستانی علماء کے مکالمے کے باوجود طالباان اس سے دستبردار نہیں ہوئے اور ان کا یہی خیال ہے کہ پاکستان کے دیوبندی غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ایک عام رجحان ہے کہ وہاں لوگ زیادہ تر قومی ریاست کے تصور سے آشنا نہیں ہے۔ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ شاید جدید ریاست مذہبی ریاست کے مدمقابل کو ئی نظام ہے جس کا نمائندہ مغرب ہے۔ اس کی وجہ چار دہائیوں سے جنگی صورتحال ہے جس نے سماج کو کئی حوالوں سے بے بہرہ رکھا ہے اور وہ لاعلم ہیں۔
پہلے اور اب کی بہ نسبت ایک فرق یہ بھی ہے کہ موجودہ نظام میں طالبان اپنی امیج کے لیے بہت حساس ہیں۔ اپنی پہلی حکومت میں وہ کوئی بھی اقدام کرتے تھے تو یہ نہیں سوچتے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، میڈیا میں کیا رپورٹ ہوگا اور عالمی تأثر کیا بنے گا۔ مگر اب وہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا میں اپنے امیج کے حوالے سے کافی حساس ہیں،اور بہت سے امور میں نرمی برتنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پہ سفر کے دوران مجھے کابل کی ایک سڑک پر سینما اور اس کا اشتہار نظر آیا، جس پر میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سینما مکمل بند نہیں کیے ہیں، صرف یہ ہے کہ وہاں اسلامی فلمیں اور مواد نشر کرنے کی اجازت ہے۔سینما میں لوگوں کا رجحان تو بہت کم ہے، مگر اس حد تک سینما اب کھلے رہتے ہیں۔
تجارتی ضمن میں جو چیز قابل توجہ رہی وہ یہ تھی کہ پاکستان کا اثرورسوخ وہاں کی مارکیٹوں میں کم ہوتا جا رہا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کا اثرورسوخ اور فعالیت بڑھتی جا رہی ہے۔
اسی طرح تعلیمی سطح پر خواتین کے مرکزی ادارے تو بند ہیں، لیکن چھوٹے موٹے کورسز کے نجی ادارے شہروں میں مل جاتے ہیں۔ جیساکہ انگریزی سیکھنے کے لیے ادارے موجود ہیں جہاں خواتین زبان سیکھ سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ جو ایک اور چیز توجہ کے قابل رہی وہ یہ تھی کہ وہاں کا مذہبی طبقہ سفارتی حیثیت میں یا دیگر معاملات میں امریکا کے ساتھ روابط یا بات چیت پر تنقید نہیں کرتا، اسی وہاں وہ کئی امریکی فلاحی تنظیمیں کام بھی کررہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کا مذہبی اس حوالے سے ذرا سخت گیر ہے۔ یہ امریکا کے ساتھ تعلقات یا کسی کے ملنے جلنے کو اچھا نہیں سمجھتا۔یہ فرق بہت اہم اور قابل غور ہے۔
یہ تو مجموعی طور پہ کچھ چیزیں ہیں جنہیں بیان کرنا ضروری تھا۔ اب اس طرف آتے ہیں کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟
ان تمام مسائل کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری کریں اور اسے من وعن نافذ کریں۔یہ معاہدہ شرعی ، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔اسلام میں اس طرح کے بین الاقوامی معاہدات کی بڑی اہمیت ہے اور خود قرآن کریم میں اس طرح کی صورتحال پر ہدیات موجود ہیں۔ رسول اللہﷺ کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اللہ تعالی نے اُس وقت آپﷺ کو ہدیات عطا فرما دی تھیں۔ قرآن کریم میں واضح آتا ہے کہ :
وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا۔
اور عہد کی پابندی کرو کیونکہ عہد کے بارے میں تم سے باز پرس ہوگی۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا. اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۔
اور اگر تم نے اللّٰہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو ۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو ۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللّٰہ کو ضامن بناچکے ہو جو تم کرتے ہو، اللّٰہ اسے خوب جانتا ہے۔
لہذا دوحہ معاہدے میں طالبان نے جن چیزوں کو قبول کیا تھا ان پر عمل کرنا لازم ہے۔
یہاں پر البتہ ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب امریکا معاہدے کی کئی شقوں کی پاسداری نہیں کررہا تو ہم کیوں کریں۔ اس میں بھی شریعت کی ہدایات واضح ہیں کہ اگر دوسری طرف معاہدے کی پاسداری نہ کی جا رہی ہو، تب بھی ان کو اپنی حد تک اس کا لحاظ کرنا لازمی ہے۔ یا پھر اس کی دوسری صورت جو شریعت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہکہ معاہدے کو کھلے عام توڑنے کا اعلان کردیا جائے کہ اگر آپ پابندی نہیں کریں گے تو ہم بھی اسے توڑتے ہیں۔ لیکن اگر یہ نہیں کیا جاتا تو پھر معاہدے پر عمل کرنا کم ازکم ان کی طرف سے ضروری ہے۔ قرآن میں آیت ہے:
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىٕنِیْنَ
اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہوتو ان کا عہد ان کی طرف اس طرح پھینک دو کہ (دونوں علم میں ) برابر ہوں بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
لہذا اگر طالبان کھلے عام اس کو مسترد نہیں کرتے اس پر عمل کرنے کے پابند بنتے ہیں۔
یہی معاملہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی ہے۔ جب آپ نے دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ ہماری سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی تو اس طرح کے عناصر کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ ٹی ٹی پی والے ان کے پرانے دوست ہیں ، وہ ان کے ساتھ کھڑے رہے اور معاونت کی تھی۔ تو پھر بھی کم ازکم اِس معاملے میں ضروری ہے کہ بدلے میں ان کی مدد اس سطح پر نہیں کی جائے گی کہ وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کاروائی کریں۔کیونکہ آپ کا دنیا کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ کسی افغانستان کی سرزمین یا اس کے لوگ کسی دوسرے ملک کے خلاف کام کرنے والوں کے ساتھ اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کریں گے، بلکہ اپنی سرزمین سے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔قرآن کریم میں ہے:
وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔
اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
لہذا ٹی ٹی پی اگر ان کے معاو ن بھی رہے ہوں پھر بھی شرعی لحاظ سے پاکستان کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے انہیں اپنی زمین پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔
یہ افغانستان کے حوالے سے ایک عمومی تجزیہ ہے جہاں مسائل کئی سارے ہیں، مگر بنیادی چیز جو حل میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے یہی ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل کیا جائے۔
اس کے ساتھ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ایک مستحکم ریاست ہے اور مستحکم ادارے رکھتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ایک نئی حکومت کے ساتھ معاملات میں سمجھوتے کو مدنظر رکھا جائے اور مزاج شناسی کی بنیاد پر مسائل کو حل کرنے کی طرف بڑھا جائے۔