مغرب میں مذہبی آزادی اور آزادیِ اظہار: توازن کی تلاش

نورحیات خان، غیاث احمد

0

آزادیِ اظہار کے اصول کیا ہیں؟

اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغرب اور مشرق کے مابین اختلافات کے اسباب جہاں عصری سیاسی و معاشی امور سے جڑے مفادات ہیں، وہیں سب سے سے پہلا اور مرکزی سببب تہذیبی ہے، یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کا اختتام جن فکری مباحث پہ ہوا وہ ’تہذیبوں کا تصادم‘ کے عنوان کے تحت تھیں۔ اس میں بلاشبہ مذہب کا واضح عمل دخل ہے کہ اسلامی تہذیب میں دینی اخلاقیات کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔

اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز آزادیِ اظہار رائے ہے۔ یہ قدر اور اس کے تقاضے ایسے ہیں جن پر اب تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس قدر کے مظاہر کی زد میں مذاہب بھی آجاتے ہیں۔ لہذا اس پر سوال اٹھتا ہے کہ آزادی اظہار اور مذہبی آزادیوں کی حدود اور ان کے اصول کیا ہیں۔ دیکھا جائے تو مغرب نے اگرچہ مذہب کو اجتماعی زندگی کے اظہاریوں سے کافی الگ کردیا ہے لیکن اس پر کوئی قدغن کا اعلان نہیں کیا، بلکہ مذہبی آزادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کی ہے۔

مغرب میں آزادیِ اظہار کا ارتقاء

جب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی تو آزادی اظہار ِ رائےکے بہت برے نتائج نکلا کرتے تھے،جس سائنس کی بدولت مغرب نے ترقی کی ہے ،اس راستے میں گلیلیو جیسے عظیم بڑے بڑے دماغوں کی قربانیاں شامل ہیں اوران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں کا ‘وچ ہنٹ’ کلیسا کے مظالم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ،جس نے مغربی اقوام کو آزادی اظہارپر پابندی اور ظلم و جبر کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے دساتیر ،قوانین اور آئینوں میں آزادی اظہارِرائے کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ قیام امریکہ کے بنیادی مقاصد میں کہا گیاہے کہ یہ وطن یورپ سے بھاگ کر آنےوالےان مسافروں’پلگرمز‘ کی بدولت وجود میں آیا جو کلیسا کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی دنیا میں پناہ لینے آئے تھے۔ لہذا یہ قرار پایا کہ یہاں انہیں تحریر و تقریر، مذہب اورعقیدے کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی اظہارِرائے کا تعلق مغربی تہذیب کے ارتقا سے ہے ،جو اس کو اس معاشرت کا بنیادی عنصربناتی ہے۔

آزادیِ اظہار مغربی  دساتیر کا بنیادی وصف

مغربی دنیا کے دساتیر اور کوڈوں میں آزادی اظہار رائے کا بہت ہی واضح طور پر ذکر موجود ہے۔ اور اس کی ایک خوبی اور ترقی کا راز بھی ہے۔اس کی وضاحت سےنہ صرف باہمی عزت ،محبت کا ماحول بنتا ہے،بلکہ امن و سلامتی بھی میسر آتی ہے۔اس لیے ان ممالک میں آزادی اظہار رائے کی حدود کے تعین کابھی تذکرہ موجود ہے۔مثلاً :افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق آرٹیکل 9، آسیان ڈیکلریشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل 23[1] یورپیئن کنونشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل10، ساؤتھ افریقن آئین سیکشن 16، کینیڈین کریمینل کوڈ سیکشن 319، کریمینل کوڈ آف نیدرزلینڈ آرٹیکل137،بلجئیم اینٹی ریس ازم لاء[2] وغیرہ جتنے بھی دساتیر کے آزادی سے متعلق دفعات اور سیکشنز ہیں ، سب میں کسی کے ساتھ مذہب ، جنس،یا رنگ و ثقافت،نسل وغیرہ کی بنیاد پر،نفرت کو ہوا دینا،ہتک آمیز رویہ رکھناممنوع ہےاور اسے جرم قرار دی گیا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی منشوراقوامِ متحدہ نے 1948ءمیں منظور کیا۔دیگر باتوں کے علاوہ موضوع زیربحث سےمتعلق اس میں درج ذیل حقوق کاتذکرہ ملتا ہے:

تمام انسان آزاد ہیں اور حقوق وعزّت کے لحاظ سے برابری رکھتے ہیں ۔تمام انسانوں کے لئے قطع نظر مذہب ،نسل، جنس،سیاسی سوچ اور قومیّت کےایک جیسے انسانی حقوق ہیں۔سب انسان آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق رکھتے ہیں۔ہر قسم کا تشدّد ممنو ع ہے ۔تمام انسان تحفظ کاقانونی حق رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں آزادی کی تحدید کا ذکردفعہ 2-29 میں یوں ملتا ہے:

“اپنی آزادی اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا، جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق ، امن عامہ اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لئے قانون کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں “۔[3]

آزادی اظہار رائےیا ‘فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن’ اسلامی والہامی اور جدید مغربی دساتیر کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔ اور جن کے لیےقومی وبین الاقوامی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور عرصہ دراز سے اس کےحصول کے لیے دنیا میں کوشاں ہیں ۔ تاہم اس بنیادی انسانی حق (آزادی رائے) کی پاسداری کے لیے یہ تنظیمیں عام طور پہ جس نقطہ نظر سے کام کرتی یا آزادی اظہار کے جو معیارقائم کرتی ہیں وہ تقریبا مغربی تصورات پر مبنی ہیں۔ اس میں جداگانہ طور پہ دیگر اقوام کے ثقافتی یا تہذیبی و مذہبی مسائل اور ان کی حساسیتوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا جس سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔

عہدِ حاضر میں مذہبی رواداری کی کوششوں کی تاریخ

اسلام اور مسیحیت کے درمیان گفتگو کا خیال 1923 میں پیدا ہوا۔ حکومت فرانس نے اپنے کچھ نمائندوں کو الازھر یونیورسٹی‘ مصر بھیجا اور یہ تجویز پیش کی کہ ابراہیمی ادیان کے درمیان وحدت و اتحاد قائم کرنے کے لیے ایک عالمی کانفرنس تشکیل دی جائے۔ اس کے بعد 1933 میں پیرس کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ترکی‘ اسپین‘ پولینڈ‘ اٹلی‘ امریکا‘ سوئٹزر لینڈ برطانیہ اور فرانس کی یونیورسٹیوں سے وابستہ مبلغین اور ماہرینِ علومِ شرقیہ نے شرکت کی تھی۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل 1936 میں ایک ادیان کانفرنس منعقد ہوئی اس کے بعد ادیان کے درمیان مذاکرہ کا دوسرا مرحلہ 1964 میں شروع ہوا جس میں پوپ پال ششم کا پیغام بھی پیش کیا گیا جس میں انہوں نے مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والوں کو گفتگو کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت کے بعد 1949 میں ویٹیکن شہر سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ’’مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان گفتگو کے بنیادی اصول‘‘۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے درمیان ادیان و مذاہب اور فرہنگ و تمدن کے درمیان گفتگو پر مشتمل تیرہ اجلاس منعقد ہوئے جن میں سب سے زیادہ اہم ’’دین اور صلح‘‘ عنوان کے تحت منعقد ہونے والا دوسرا عالمی اجتماع ہے جو بلجیم میں منعقد ہوا تھا اور جس میں مختلف ادیان و مذاہب کے 400 سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی تھی۔ دوسرا اہم اجتماع قرطبہ کانفرنس کے نام سے 1974 میں اسپین میں منعقد ہوا تھا جس میں 23 عیسائی اور اسلامی ملکوں کے مندوبین موجود تھے۔ اس کے بعد 1979 میں تیونس (Tunisia) کے قرطاج نامی علاقے میں اسلامی مسیحی اجلاس منعقد ہوا تھا۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ 1993 میں جارڈن (اردن) میں عرب اور یورپی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1994 میں شہر خرطوم میں ادیان کانفرنس ہوئی۔ پھر 1995ء میں دو ادیان کانفرنس کی تشکیل عمل میں آئی۔ ان میں سے ایک سویڈن کے اسٹاک ہوم میں اور دوسری ارڈن کے عمان نامی شہر میں منعقد ہوئی۔ اس کے بعد بھی اردن میں آل البیت یونیورسٹی میں 1994 میں اسلامی و یورپی ملکوں کے درمیان ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔

اسلامی و مسیحی مذاکرات کا دسواں دور 30 اکتوبر 2002 میں بحرین میں منعقد ہوا جس میں فقط علماء ہی نہیں بلکہ تحریک مذاکرہ ادیان سے جڑی ہوئی بعض عظیم شخصیتوں نے بھی بھرپور شرکت فرمائی۔ ان سبھی کانفرنسوں کے انعقاد کا اہم ترین مقصد اور بنیادی سبب یہ تھا کہ ادیان کے درمیان اس گفتگو کی وجہ سے باہمی تال میل پیدا ہو جائے اور کمیونزم کے ذریعہ تمام مذاہب کو جو خطرہ محسوس ہو رہا تھا وہ زیادہ موثر ثابت نہ ہو۔ سبھی ادیان کی پیروی کرنے والوں نے یہ ضروری سمجھا کہ کفر و بے دینی کے مدمقابل اقدام کرنا لازمی ہے اور اس کام کے لیے ایک مشترکہ محاذ کی تشکیل زیادہ کارآمد ثابت ہو گی۔

ہم لوگ جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ’’عالمی‘‘ خصوصیات اور دیگر مختلف پہلؤوں کی حامل ہے۔ چنانچہ مالی اور صنعتی شعبوں میں ہم ’’عالمی تجارت‘‘ اور ’’عالمی اقتصاد‘‘ کی بات کرتے ہیں اور سیاست کے میدان میں ’’عالمی حکومت‘‘ اور ’’عالمی برادری‘‘ کی اصطلاح رواج پا چکی ہے۔ فوجی شعبہ میں بھی ’’عالمی محافظین صلح‘‘ جیسی عبارت اور علاقائی و عالمی سطح پر باہمی اتحاد عصری ضرورت کا رنگ و روپ اختیار کر چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کے دیگر شعبوں کی طرح مذہب نے بھی عالمی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اگرچہ عالمی زندگی کے مختلف پہلؤوں میں سے مختصر سے حصے نے ادیان و مذاہب کو ایسے بے مثال مواقع فراہم کر دیے ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے ادیان و مذاہب کی سعادت آمیزی کو بڑی آسانی سے ساری دنیا تک پہنچایا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعض حصے مذہبی معاشرہ کی پریشانی کا باعث بن گئے ہیں۔

11 ستمبر کو رونما ہونے والے واقعات کے گہرے سایہ اور دنیا پر چھائی ہوئی جنگی فضا میں 4 اور 5 اکتوبر 2001ء کو اسلام اور عیسائیت سے وابستہ ایک اجلاس روم میں منعقد ہوا جس میں عالمِ اسلام کی عظیم مذہبی اور علمی شخصیتوں کے علاوہ نامور مسلم دانشوروں نے بھی شرکت کی‘ جیسے مفتی مصر نصر فرید واصل‘ شیخ یوسف قرضاوی‘ ڈاکٹر احمد کمال ابو المجد‘ مصری ماہرِ قانون ڈاکٹر محمد سلیم العواء‘ ڈپٹی چیف ایڈیٹر الاحرام اور یونیورسٹی پروفیسر فہمی ہویدی‘ شیخ زائد بن سلطان کے ثقافتی مشیر عزالدین ابراہیم‘ تنظیم اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری ڈاکٹر عبداﷲ نصیف‘ مورٹیانا کے سابق ثقافتی وزیر ڈاکٹر محمد ولد‘ الجزائر کے سابقہ وزیر خارجہ احمد طاہر ابراہیمی اور دیگر علماء کرام وغیرہ۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالمجید نے اعلان کیا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اب تک سینکڑوں اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ان اجلاس میں مختلف تمدنوں کے درمیان فوری اور لگاتار گفتگو پر کافی زور بھی دیا گیا۔ ان اجلاس کے دوران مذاہب اور تمدنوں کے درمیان مشترکہ پہلوؤں کی نشاندہی بھی ہوئی تھی لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۱۱ ستمبر کو رونما ہونے والے حوادث کی وجہ سے ان کامیابیوں کا بالکل خاتمہ ہو جائے اور دنیا پھر مقامِ صفر پر واپس آجائے۔ حالانکہ ان دھماکوں سے قبل تنظیم اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک دستاویز تیار کیا جاچکا تھا جس کی روشنی میں ایک ایسی خصوصی تنظیم کی تشکیل ہونی تھی جو تمدنوں کے درمیان گفتگو کی تقویت و حمایت کا کام انجام دیتی۔

تجاویز

ان مختلف اجتماعات کے دوران بہت سی تجاویز منظور ہوئیں۔ ذیل میں بعض سفارشات کا خلاصہ حاضرِ خدمت ہے:

-1        توحیدی اور ابراہیمی ادیان کے درمیان مشترک پہلؤں بالخصوص عقیدہ و اخلاق و ثقافت کی شناخت اور ادیان و ثقافتوں کے درمیان لازمی پہلؤں پر تاکید۔

-2        حکومتوں کی سیاست اور قوموں کی ثقافت سے دشمن کے مفہوم کو پوری طرح نابود کرتے ہوئے ادیان و مذاہب کے درمیان باہمی صلح آمیز زندگی کی تشکیل کے لیے انسانی حقوق کے معیار پر مشترک میثاق کی تدوین۔

-3        بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی کو حذف کرنے کے لیے تاریخ اور تعلیمی نظام پر نظرثانی اور دینی تعلیمات کے لحاظ سے ایسے انسانی اور اساسی علوم کی تقویت جس کے ذریعہ صبر و تحمل اور مشترکہ تفاہم کو فروغ حاصل ہو سکے۔

-4        بعض موضوعات کا اہتمام اور درج ذیل عناوین کے سلسلے میں مشترک نتائج اور مفاہیم تک رسائی حاصل کرنا: عدالت، صلح، عورت، انسانی حقوق، جمہوریت، اخلاق کار، کثرت گرائی، آزادی، عالمی صلح، باہمی صلح آمیز زندگی وغیرہ۔ جیسا کہ اس سے قبل کیا جاچکا ہے کہ سرد جنگ کے دوران ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کمیونزم سے مقابلہ کے لیے نہایت ضروری تھی لیکن سوویت یونین کے بکھرائو اور سرد جنگ کے اختتام کے بعد دین و مذہب نے عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے اور ثقافتی‘ سیاسی اور سماجی شعبوں میں یہ کردار زیادہ موثر رہا ہے۔ آخرکار ایک اہم عالمی سیاسی ادارہ کی حیثیت سے تنظیم اقوامِ متحدہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عالمی اقتصادی اجتماع کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی رہنماؤں کا بھی ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد کیا جائے تاکہ عالمی سطح پر ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو ہو سکے۔ اس بین الاقوامی کائونسل کے ۱۳ رکن تھے جس میں دنیا کے مختلف ادیان اور مکاتبِ فکر کے لوگوں کو نمائندگی حاصل تھی اور مذہب اسلام کی نمائندگی اسلامی جمہوریہ ایران اور انڈونیشیا کے سپرد تھی۔

مذہبی علما کا بین الاقوامی کردار

اگست 2000ء میں اقوامِ متحدہ میں یہ طے پایا کہ عالمی مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ بلند مرتبہ سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہی ساتھ عظیم المرتبت مذہبی علماء کا بھی ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوتا کہ مذہبی اور سیاسی علماء و ماہرین باہمی گفتگو کے ذریعہ مسائل و مشکلات کا حل تلاش کر سکیں اور عالمی انسانی برادری امن و سلامتی اور مسرت و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکے۔ موجودہ دنیا میں دین و مذہب‘ سیاست کے میدان میں اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ خیال ہے کہ سبھی لوگ ایک طوفان زدہ کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں لہٰذا سب لوگوں کو مشترکہ کوشش اور مذاہب کے درمیان موجود مشترکات پر بھروسہ کرتے ہوئے جنگ اور لڑائی جھگڑے سے دور رہتے ہوئے اس کشتی کو ساحل نجات تک پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

1964ء میں ویٹیکن شہر میں منعقد ہونے والے دوسرے اجتماع کے دوران کیتھولک چرچ نے مذہب اسلام کے بارے میں جو خیال ظاہر کیا تھا، وہ اسلام اور کیتھولک مسیحیت کے درمیان گفتگو کی پہلی کرن تھی۔ اسلام اور مسیحیت کے درمیان موجود زیادہ مشترکات نے گفتگو کی زمین کو مزید ہموار کر دیا تاکہ وہ مغربی سامراج اور مسیحی مشنریوں کی حمایت سے رونما ہونے والی تلخ یادوں اور مخاصمانہ احساس پر غلبہ حاصل کر سکیں۔

واضح رہے کہ اسلام اور مسیحیت کے درمیان بہت سی مشترک باتیں پائی جاتی ہیں جیسے خداے خالق پر عقیدہ و ایمان‘ انبیاء علیہم السلام کا خدا کی طرف سے ارسال کیا جانا‘ وحی پر اعتقاد اور روزِ قیامت و روزِ عدل پر اعتقاد و ایمان وغیرہ۔ اسی طرح اسلام اور مسیحیت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہیں۔ تثلیث کا مفہوم‘ جو مسیحی الٰہیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ اسلام کی نظر میں قابلِ قبول نہیں ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف مسیحیت یہ تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے کہ قرآن آخری کلامِ الٰہی ہے اور اس کو دیگر آسمانی کتابوں پر فضیلت حاصل ہے۔

مذاہب کے مابین مکالمہ اور عالم اسلام

اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران اس قسم کے اجتماعات میں ہونے والے روز افزوں اضافہ کا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے لیکن عالمِ اسلام میں اس موضوع کے سلسلے میں ایک رائے اور ہم خیالی نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بارے میں مسلمان مفکرین کے درمیان استقطاب یعنی قطب خواہی (Polarisation) اور محاذ سازی و گروہ بندی کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے اور اس میدان کے ایک قطب میں مخالفین کے ساتھ گفتگو نہ کرنے کا محاذ آمادہ ہو چکا ہے۔ مخالفین کی ایک جماعت کا عقیدہ و ایمان ہے کہ ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کی تحریک نسبیت کی فکر کی بنیاد پر سربلند ہوئی ہے اور دین مبین اسلام کی حقانیت مطلقہ اور ایمان و عقیدہ کے ساتھ ہر گز میل نہیں کھاتی ہے۔ دوسرے گروپ سے وابستہ مفکرین و دانشور اس تحریک کے بنیادی اصول سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس خیال کے حامل ہیں کہ ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کی حمایت و طرفداری کرنے والے لوگ اپنی دعوت میں صداقت نہیں رکھتے ہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے میں ہمہ تن سرگرمِ عمل ہیں۔ دوسری طرف ادیان کے درمیان گفتگو کی حمایت کرنے والوں نے علیحدہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔ مفکرین اور دانشوروں کی یہ جماعت اس عقیدہ کی حامل ہے کہ حقیقت کی تلاش کے سلسلے میں پنے موقف پر اڑے رہنے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ آخرکار مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک و تردید کی ترویج کے اس دور میں علماء دین ادیان کا تاریخی مطالعہ و تجزیہ کرتے وقت تواضع اور انکساری کی بنیاد پر اپنی دینی معلومات کی تردید کریں اور اسے ہرگز آخری اور قطعی معلومات قرار نہ دیں ۔

[1] European Court of Human Rights,” European Convention on Human Rights, Article 10

[2] Belgium: Discrimination on the basis of race and national origin in the provision of goods,” http://adapt.it/adapt-indice-a-z/wp

[3] http://www.unhchr.ch/udhr/lang/urd.htm