خواتین کی تعلیم کے فروغ میں مدارس اور این جی اوز شانہ بشانہ: بنگلہ دیش کامنفرد ماڈل

رباب زینب

0

1990 کی دہائی کے بعد سے بنگلہ دیش نے نے اپنے ہاں  صنفی مساوات کے تناسب کو بہتر بنانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔بنگلہ دیش میں  2015 سے پہلے ہی پرائمری اور سیکنڈری اسکولنگ میں صنفی برابری کے بین الاقوامی معیار کے ہدف کو حاصل کر لیا گیا۔ اب یہ ایک ایسا ملک ہے جو ثانوی تعلیم تک خواتین کی تعلیم کے لیے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے مسلم دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک اہم مثال بن گیا ہے۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اور ماڈل اختیار کیا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی وہ کافی منفرد ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس ضمن میں بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی جہاں کوششیں کیں، وہیں اس کے ساتھ بڑا کردار نجی تعلیمی سیکٹر کا رہا ہے۔زیرنظر مضمون میں نجی تعلیمی سیکٹر کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگار ’وائس میڈیا نیٹ ورک‘ کی سربراہ ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

دو متوازی نظامِ تعلیم ایک ساتھ

نجی تعلیمی سیکٹر جس کے سب ملک میں تعلیمی سطح پر صنفی تفریق  ختم ہوئی، اس میں حیران کن طور پر دو متوازی نظام تعلیم شامل حال رہے ہیں۔ پرائمری سطح کی تعلیم تک این جی اوکے شعبے نے نمایاں کردار ادا کیا اور اس کے بعد ثانوی درجے تک  دینی مدارس کا کردار اہم رہا ہے۔اور یہ جو تعلیمی انقلاب آیا اس کا دورانیہ نوے کی دہائی سے لے کر موجودہ وقت تک کا ہے۔ 1980 کی دہائی کے دوران بنگلہ دیش میں رجسٹرڈ مدرسوں میں زیادہ تر تعداد لڑکوں کی تھی- مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد محض 7فیصد تھی۔ تاہم، یہ منظرنامہ صرف ایک دہائی کے اندر تبدیل ہوگیا۔1990 کی دہائی کے دوران تعلیمی اداروں میں خواتین کے اندراج میں تیزی آئی۔ مدارس میں خواتین کی تعداد جو کل طلبہ کا 7 فیصد تھی 1990کے بعدبڑھ کر سال 2008 میں 52 فیصد ہو گئی۔. رجسٹرڈ غیر سرکاری ثانوی مدارس اور اسکولوں میں آج ہر لڑکے کے مقابلے میں ایک لڑکی کا داخلہ ہو رہا ہے۔

’دیہی ترقیاتی کمیٹی برائے بنگلہ دیش‘

مدارس سے ہٹ کر،پچھلی دو دہائیوں کے دوران  ملک میں این جی اوز کے تحت چلنے والے پرائمری اسکولوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل سے لے کر اب تک این جی او اسکولوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے اور آج ملک میں پرائمری اسکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد اسی نجی سیکٹر کے تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتی ہے۔

بنگلہ دیش میں نجی تعلیمی ادارے چلانے والی سب سے بڑی این جی او ’دیہی ترقیاتی کمیٹی برائے بنگلہ دیش‘(BRAC:Bangladesh Rural Advancement Committee) ہے۔بنگلہ دیش میں پرائمری اسکول کے شعبے میں داخلے کا تقریباً 80فیصد حصہ سرکاری اور ریاستی امداد یافتہ غیر سرکاری اسکولوں میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں جوملک کے پسماندہ  اورمعاشی طور پہ کمزورگروہوں کے لیے غیر رسمی اسکولوں کا نیٹ ورک چلاتی ہیں۔بنگلہ دیش میں 400 سے زیادہ این جی اوزلوگوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے  کے کام سے وابستہ ہیں۔ BRAC ملک کی سب سے بڑی این جی او ہے جو پرائمری تعلیم کے فروغ  پر کام کر رہی ہے اور یہ این جی او نجی سطح پر چلنے والے پرائمری سکولوں کے 76فیصد ادارے چلاتی ہے۔ BRAC کا غیر رسمی پرائمری تعلیم پروگرام 1984 میں 22 تجرباتی اسکولوں کے ساتھ شروع ہواتھا۔ یہ پروگرام ان  دیہی علاقوں میں شروع کیا گیا جہاں تعلیم کے کوئی مناسب انتظامات نہیں تھے۔ 1990 کی دہائی کے آخر تک،اس ادارے نے  تقریباً 35,000 اسکول کھول لیے تھے جو ملک کے کل  84,000 دیہاتی علاقوں میں سے 50,000 علاقوں تک پھیلے ہوئےتھے۔  2008 تک یہ ادارے38,000  تک ہوگئے ، جن میں دس لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ BRAC اسکولوں کی  متعدد امتیازی خصوصیات ہیں۔ ایک تو وہ ترجیحی طور پہ  ان بچوں کو لیتے ہیں جوپہلے کبھی سکول نہیں گئے ہوتے،یا جنہوں نے اسکول چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ مدارس کی طرح، یہ ادارہ بھی بچوں کے زیادہ تر تعلیمی اخراجات خودبرداشت کرتا ہے۔ اس کےپرائمری اسکولوں میں طلباء کی اکثریت غریب ترین آبادی سے  ہوتی ہے۔دوسرا، ان اسکولوں میں پڑھنے والے 70 فیصدطلبہ  لڑکیاں ہوتی ہیں۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ، BRAC اسکولوں میں تدریس سے وابستہ 97فیصداساتذہ خواتین ہیں جو اسی گاؤں سے ہوتی ہیں جہاں اسکول واقع ہوتا ہے۔

ثانوی تعلیم اورخواتین کے مدارس

بنگلہ دیش میں پرائمری درجے تک تو بہت سے ایسے اسکول موجود ہیں، مگر ثانوی سطح پر این جی او سکولوں کی کوئی خاص موجودگی نہیں ہے۔ بلکہ ثانوی تعلیم سرکاری اسکولوں میں،اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں اور مدارس کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے ریکارڈ کے مطابق،جو دینی مدارس ثانوی سطح کی تعلیم فراہم کررہے ہیں وہ بنگلہ دیش کے کل ثانوی اسکولوں کا لگ بھگ 32 فیصد بنتا ہے۔یہ سب رجسٹرڈ مدارس ہیں جنہیں ریاست امداد فراہم کرتی ہے۔دیہی علاقوں میں ثانوی تعلیم پانے والے90 فیصد طلبہ مدارس  سے ہوتے  ہیں۔

بنگلہ دیش میں آج 90فیصد سے زیادہ رجسٹرڈ ثانوی مدارس طلباء کو داخلہ دیتے ہیں اور ان میں داخلہ لینے والے طلباء میں سے نصف لڑکیاں ہوتی ہیں۔

خواتین کے مدارس میں اضافے کے اسباب

دینی مدارس میں خواتین کے داخلوں میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ تھی  سابقہ مردانہ، غیررجسٹرڈ مدارس  کی ایک بڑی تعدادکو حکومتی رجسٹرڈ مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے، حکومت نے ان رجسٹرڈ مدارس میں اساتذہ کی تنخواہ کی ذمہ داری اٹھالی، اورنصاب میں جدید مضامین شامل کرنے کی شرط عائد عائد کردی۔اس کے ساتھ ہی  حکومت نے بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں ثانوی تعلیم میں داخلہ لینے والے طلبہ کے گھرانوں کے لیے چھوٹا سا مشروط وظیفہ مقرر کردیا دیا، تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کو کسی بھی رجسٹرڈ تعلیمی ادارے (سرکاری، نجی، مذہبی) میں بھیج سکیں۔اس ضمن میں داخلہ لینے، باقاعدہ حاضری، اور پاسنگ گریڈ کی کچھ شرائط عائد کردی گئی تھیں۔ مزید برآں اس پراجیکٹ کا حصہ بننے والے ہر ادارے کے لیے حکومت نے خواتین کی تعداد کے لحاظ سے  مالی امداد جاری کردی گئی۔اس ترغیب کے بعدوہ مدارس جو پہلے صرف مرد طلبہ کے لیے مخصوص تھے،انہوں نے بھی زیادہ سے زیادہ حواتین کی تعلیم کے لیے  اپنے دروازے کھولنے لگے۔

بنگلہ دیش میں نصابی اصلاحات کی اسکیم جو اصل میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں شروع کی گئی تھی اس نے روایتی دینی مدارس کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے میں مدد دی۔یہ مدارس جو پہلے بہت کوشش سے عوام سے فنڈز اکٹھا کرتے تھے،اور جدید مضامین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

مگراصلاحاتی اسکیم کے بعد 1980 سے 1994 کے درمیان رجسٹرڈ ہونے والے مدارس میں اضافہ ہوا اور نصاب میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ 1994 کے بعد کے سالوں میں، خواتین طالبات  کے داخلوں میں بھی حیران کن اضافہ ہونے لگا۔وہ مدارس جو صرف لڑکوں کو تعلیم دے رہے تھے، اب لڑکیوں کی بھی ترجیح دینے لگے۔یہاں تک کہ2008 تک، مدارس میں ثانوی تعلیم کے شعبے میں خواتین  کے داخلوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہوگیا۔

یہ بھی قابل توجہ ہے کہ،ملک میں سیکولر تعلیمی اداروں کے مقابلے مدرسوں میں خواتین کے اندراج میں اضافہ کئی گنا زیادہ ہے۔یہ پاکستان جیسے  مسلم جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک سبق ہے کہ جہاں دینی مدارس کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود ان میں خواتین طلبہ کی تعداد بہت کم ہے، اور نصاب بھی اب تک پرانا اور روایتی ہے۔لہٰذا، مدارس میں خواتین کے اندراج میں اضافے کی نوعیت اور عمل کو سمجھنے کے لیے بنگلہ دیش کے نظام کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔یہ نتائج بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں تعلیمی شعبے کے اندر صنفی تفاوت کو کم کرنے میں مذہبی اداروں کے کردار کو بھی واضح کرتے ہیں۔

حکومت کی اس پالیسی اور اسکیم کے کامیاب ہونے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ اس نے مدارس کو فنڈز کی فراہمی کا معاہدہ کیا، بلکہ کئی عوامل مل کر اس ماڈل کو کامیاب بناتے ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں دینی مدارس کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور والدین ان پر اعتماد کرتے ہیں۔اسی طرح یہ بھی وجہ ہے کہ غریب  اور دیہی علاقوں کے گھرانے  ویسے بھی دینی تعلیم کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔پھر اس  کے ساتھ ان گھرانوں کی مالی معاونت بھی ایک سبب ہے۔

بہرحال، بنگلہ دیش مدارس کی تعلیم، خصوصا خواتین کے حوالے سے مسلم دنیا کا ایک منفرد ماڈل رکھتا ہے جو ان ممالک کے لیے استفادے کے کئی مواقع رکھتا ہے جو خواتین کی تعلیم اور ان کی شرح خواندگی میں اضافہ چاہتے ہیں۔