انڈونیشیا کے مذہبی ادارے اور قومی مرکزی دھارے میں ان کا کردار

ادارتی ٹیم

0

بیسویں صدی کے آغاز میں انڈونیشیا سے بڑے پیمانے پر حج کے لیے آمدورفت شروع ہوئی، تو ان میں متعدد حجاج کرام مکہ یا مدینہ میں دو چار برس کے لیے مقیم ہوجاتے، اور عربی کا فہم حاصل کرتے۔ پھر انڈونیشیا سے آنے  والے حاجیوں کی ایک تعداد چند برس بعد جب اپنے وطن لوٹتی تو وہ معیاری دینی مدارس  قائم کرنے کو سعادت مندی خیال کرتی۔اسی طرح انڈونیشیا میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے مصر کو منزل بنایا گیا۔یوں اس ملک کا دینی ڈھانچہ برصغیر کی مذہبی روایت سے الگ رہا۔اگرچہ انڈونیشیا میں دینی مدارس کی روایت بڑی قدیم تھی، لیکن مندرجہ بالا تجربے کے ساتھ دینی مدارس قائم کرنے کی اس لہر کے کئی امتیازات سامنے آئے۔ ان میں ایک بڑا امتیاز یہ تھا کہ شروع ہی سے ان مدارس پر شیخ محمد عبدہ اور الازہر یونیورسٹی مصر کے اثرات، طاقتور انداز سے مرتب ہونا شروع ہوئے۔انڈونیشیا کا موجودہ مذہبی تعلیمی نظام کیسا ہے، زیر نظر مضمون میں اسی کو موضوع بنایا گیاہے۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

انڈونیشیا کی آزادی کے بعد ابتدائی دنوں میں ہی تعلیمی نظام میں مذہبی عنصر اور تعلیم میں اس کی حیثیت پر گرما گرم بحث چھڑ گئی تھی۔ ڈیڑھ سال کے بحث ومباحثے کے بعد انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کو مندرجہ ذیل پالیسی اختیارکی:

“سرکاری اسکولوں میں مذہبی تعلیم فراہم کی جائے گی،البتہ والدین فیصلہ کریں گے کہ آیا ان کے بچے ان اسباق میں شرکت کریں گے یا نہیں”۔ ظاہر ہے اس شرط کی وجہ یہ تھی کہ ملک میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی  رہتے ہیں۔

شروع میں مذہبی تعلیم سے متعلقہ ہدایات تعلیمی ایکٹ 1950کا حصہ تھیں۔ مگرمسلم گروہوں اور وزارت مذہبی امور کی طرف سے  دباؤ آیا کہ، اسلامی نظام تعلیم کو مجموعی طور پر تعلیمی ایکٹ 1950 سے خارج کر کے،باقاعدہ اسے وزارت مذہبی امور کے ماتحت کر دیا جائے۔اس کے بعدتعلیمی نظام سے متعلق عمومی مذہبی ہدایات کوتو ایکٹ میں شامل رکھا گیا، لیکن اسلامی مذہبی ہدایات کو وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری کے تحت کردیا گیا، چاہے یہ اسلامی تعلیم سیکولر اسکولوں میں ہی کیوں نہ فراہم کی جائے۔اُس وقت سے لے کر اب تک، سیکولر اسکولوں میں بھی مذہبی تعلیم کی پالیسی کے نفاذ کو وزارت مذہبی امور اور وزارت تعلیم مشترکہ طور پر دیکھتی ہیں۔

1960 کے بعد انڈونیشیاکےسیاسی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلی آئی،تو اس کے بعدغیر لازمی مذہبی تعلیم کو پہلی جماعت  سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک، سب کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا۔ 1965میں بغاوت کی کوشش ہوئی، جس  میں کمیونسٹ اور بنیاد پرست قوم پرستوں کو کامیابی نہ مل سکی،اور فوج اور مسلم گروہ مزید مضبوط ہوئے۔اس سے اسکول کے نصاب میں مذہبی تعلیم کی حیثیت کوپہلے سے بہتر بنانے کا ایک نیا موقع مل گیا۔تب کمیونزم کے خلاف جنگ  میں مذہب کو ایک اہم عنصر سمجھا جاتا تھا۔ 1966 میں اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک اسکولوں میں مذہب کو بطور مضمون بنایا جائے۔

1997/98 میں کرپشن، معاشی ابتری اور بے روزگاری کے باعث ملک کے کچھ علاقوں میں سول تنازعات پھوٹ پڑے۔ان سے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ نسلی بنیادوں پرہونے والے واقعات  ہیں،بعض علاقوں میں یہ یا مذہبی  تنازعات کی صورت اختیار کرگئے،جیسے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین بدمزگی ہوئی۔یہی نہیں بلکہ خود مسلم گروپوں کے اندر بھی تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی، جیسے سامپانگ، مدورا، مشرقی جاوا میں سنی اور شیعہ گروہ مدمقابل تھے۔مختلف مقامات پر احمدیہ اور مسلم گروہوں میں بھی فسادات ہوئے۔ان تنازعات کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پرسیاسی اصلاحات کی گئیں۔

اس پس منظر میں، انڈونیشیا کے تعلیمی نظام ، نصاب، فنڈز کے طریق کار اور انتظامی امور میں بھی  اصلاحات کی خواہش سامنے آئی۔ مذہبی تعلیم سےیہ توقعات وابستہ ہوگئیں کہ  اسے اب دوہرا کام انجام دینا پڑے گا۔ طالب علموں کو عقائد و اخلاقیات کی تربیت دینے اور قومی طور پر ذمہ دار شہری بننے میں مدد کرنے کے ساتھ، انہیں تکثیریت پسند، مکالمے پر یقین رکھنے والا اور اختلافات کے لیے روادار بنانا ہوگا۔

ان فسادات کے بعد اصل میں لوگ فکرمند ہوگئے تھے،کیونکہ ان میں طالب علموں کی شمولیت بھی تھی۔تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کے درمیان شادی سے پہلے جنسی تعلقات، منشیات استعمال کرنے والوں  کی بڑھتی تعداد اور طبقاتی تقسیم جیسے مسائل نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ۔حکام اور لوگوں نے مذہبی تعلیم کی تاثیر پر سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ  ان کے بچوں پر دینی تعلیم نے کیا اثرات مرتب کیے؟ مذہبی تعلیم بچوں کو سماج دشمن سرگرمیوں سے کیوں نہ روک سکی؟ لوگ تعلیمی احتساب کا مطالبہ کرنے لگے۔ مذہبی اساتذہ کومورالزام ٹھہرایا گیا کہ وہ طالب علموں میں اچھے اخلاق پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔کیونکہ لوگ مذہبی تعلیم سے بہت زیادہ توقع رکھتے ہیں جو طلباء کو کسی بھی غیر سماجی سرگرمیوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

اس کے بعد نصاب میں اصلاحات کے لیے کھل کر باتیں ہونے لگیں اور ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ حکومت اسکولوں کے لیے نیا مذہبی نصاب لائے، جس میں نہ صرف ظاہری معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی جائے،بلکہ طلبہ کی شہری  اخلاقی تربیت بھی ہو۔درمیان میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آتی رہیں، مگر2013 میں باقاعدہ ایک تنقیح شدہ مذہبی نصاب معتارف کرایا گیا جسے ’’نصاب 2013‘‘ کہا جاتا ہے۔اس میں  مذہبی تعلیم کو اخلاقی تعلیم کے ساتھ ایک مضمون کے طور پر ضم کردیا گیا ہے جسے ’مذہبی و اخلاقی تعلیم‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، انڈونیشیا کےقومی شعار پانچاسیلا[1](Pancasila)کی تعلیم جو پہلے نصاب سے ختم کردی گئی تھی اسے بھی واپس بحال کردیا گیا۔اس کے بعد انڈونیشین حکومت نے مذہبی اداروں کے نصاب پر بھی توجہ مرکوز کی اور زور دیا کہ اسے شہریوں کے لیے مؤثر بنایا جانا چاہیے۔اس میں اچھے کردار، علم اور مہارتوں کا عمدہ امتزاج ہونا چاہیے۔

انڈونیشیا کی ایک بڑی اسلامی جماعت محمدیہ نے اپنے تعلیمی اداروں کے لیے جو نصاب تیار کیا ہے وہ بہت ہی جدید اور کئی خوبیوں کا حامل ہے۔محمدیہ کا ماڈل جدید تعلیمی نظام کے سیکولر علوم کو مذہبی علوم کے ساتھ جوڑتا ہے تاکہ اسلامی اقدار، انڈونیشیائی عنصر اور جدیدیت کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے۔محمدیہ کے تعلیمی مفکرین اور ماہرین نے اسلامی اقدار، انڈونیشیائی قومی  عنصر اور جدیدیت کو جوڑنے کے لیے مختلف کوششیں کی ہیں۔ ان تینوں ستونوں کو انڈونیشیا کی شناخت کی تشکیل میں بنیادی سمجھا جاتا ہے۔محمدیہ کے مطابق، تعلیم اس وژن کو حاصل کرنے کا سب سے  بہتراورممکنہ طریقہ ہے۔یہ تنظیم انڈونیشیا میں پرامن، اعتدال پسند، اور جمہوری اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔حالانکہ یہ ہدف حاصل کرنا بہ ظاہر آسان نہیں تھا۔

دینی اداروں فضلا کی قومی دھارے میں فعالیت

انڈونیشیا میں مذہبی تعلیم اور مدارس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ استعمار سے آزادی سے قبل بھی دینی تعلیم کے ادارے موجود اور متحرک تھے، اور اس کے بعد بھی یہ صورتحال جاری رہی۔مدارس کو ملک کے اندر کافی مقبولیت ملی ہے، اور کئی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے مدارس کی کوکھ سے جنم لیا۔مدارس کی ڈگریوں کو حکومتی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان سے نکلنے والے افراد مرکزی قومی دھارے میں فعال ہیں۔یہ لوگ زندگی کے تمام شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ملک کے بائیں بازو کو اگرچہ ان مدارس پر تحفظات ہیں، کیونکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو یہ مدارس بڑی وسیع کمک مہیا کرتے ہیں۔1970 کی دہائی میں، انڈونیشیا میں بڑے پیمانے پر تعلیم اور تعلیمی اداروں  کو سیکولر نہج پر غالب کرنے کے لیے سب سے بڑی کوشش کی گئی تھی۔اس وقت کی حکومت نے 61,000 پبلک پرائمری اسکول بنائے،جن کا مقصد تعلیم کے نظریاتی وزن کو تبدیل کرنا تھا۔مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔کیونکہ پرائمری سطح پر اتنی بڑی اسکولنگ اور ڈھانچے کو کھڑا کرنے اور مؤثر بنانے کے لیے حکومت کی ساری توجہ محدود ہوگئی اور پرائمری کے بعد کی سطح کی تعلیم میں مدارس پہلے سے زیادہ فعال ہوگئے۔اس دوران اسلامی شعبہ نہ صرف ریاست کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے نئے مرحلےمیں داخل ہوا، بلکہ رفتہ رفتہ سماجی طلب اور تقاضوں کی بنا پر نئے بنائے گئے اسکولوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک مذہبی نصاب شامل ہوتا گیا۔تاہم، سیکولر تعلیمی نظام  ختم نہیں ہوا ہے،سیکولر تعلیم پبلک کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکول بھی فراہم کرتے ہیں۔سیکولر ادارے زیادہ تر سرکاری ہیں۔ملک کے76فیصد سیکولر اسکول سرکاری ہیں، جن میں 90فیصد پرائمری سطح پر اور 50فیصد ثانوی سطح پر ہیں۔ سیکولر اسکول 1970 کی دہائی سے وزارت تعلیم و ثقافت کی ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت آتے ہیں۔

اسلامی اداروں کی تقسیم

انڈونیشیا میں اسلامی تعلیم فراہم کرنے والے دو طرح کے ادارے ہیں۔ ۱: مدرسہ ، ۲: پیسنٹرن(pesantren)

مدارس دن کے  اوقات میں کام کرنے والے ایسےادارے ہیں جو سیکولر اسکولوں کی طرح تدریسی طریقے استعمال کرتے ہیں لیکن اپنے نصاب میں کافی زیادہ مذہبی مواد شامل کرتے ہیں۔

پیسنٹرن(pesantren)،رہائشی ادارے ہیں جو اسلامی علوم کی تدریس کے لیے وقف ہیں۔انڈونیشیا میں مدارس  کے مقابلے میں پیسنٹرن زیادہ فعال اور سیاسی رجحانات کے حامل ہیں۔ان میں زیادہ تفصیلی طور پہ مذہبی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور حکومت کی طرف سے نگرانی کاپہلو بھی کمزور ہے۔

مذہبی اداروں کی اکثریت نجی طور پر چلائی جاتی ہے۔ اس میں تمام پیسنٹرن اور 92فیصد مدرسے شامل ہیں۔1967 میں، حکومت نے تمام نجی مدرسوں کو ریاست کے زیر انتظام آنے اور اضافی فنڈنگ دینے کی دعوت دی۔مگر یہ کوشش ناکام ہوگئی کیونکہ زیادہ تر مذہبی اداروں نے نجی رہنے کا انتخاب کیا۔ مذہبی شعبے کی آزادی کو برقرار رکھنے کی شدید خواہش نے انڈونیشیا کے دوہرے تعلیمی نظام کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔لیکن اب حالات تبدیل ہورہے ہیں۔

سیکولر اور مذہبی اداروں کے درمیان نصاب کا فرق

اسلامی اسکول بہت سے ایسے مذہبی مضامین پڑھاتے ہیں جو سیکولر اسکولوں میں شامل نہیں ہیں۔ ان اداروں  کے پانچ بنیادی مضامین ہیں: اسلامی قانون (فقہ)، اسلامی نظریہ اور اخلاقیات (عقیدہ اور اخلاق)، قرآن اور حدیث، عربی زبان، اور تاریخ انبیاء(قصہ الانبیاء)۔1950 کی دہائی میں انڈونیشیا کے تمام اسلامی و سیکولر ادارے لگ بھگ ملتا جلتا نصاب پڑھاتے تھے۔لیکن بعد میں یہ فرق بڑھتا گیا۔مثال کے طور پہ،اب  سیکولر اداروں میں گریڈ 6 کے طلباء اگر مذہبی تعلیم پر ہر ہفتے کل 2 گھنٹے صرف کرتے ہیں،تو اسلامی اسکولوں کے طلباء مذہبی مضامین پر تدریسی وقت کا 25 سے 40 فیصد تک خرچ کرتے ہیں۔

تعداد اور اخراجات کا فرق

انڈونیشیا کے تمام نجی اسکولوں کا60 فیصد اسلامی اسکولوں پر مشتمل ہے۔یعنی کہ ملک کے آدھے سے زیادہ پرائیویٹ سکول اسلامی ہیں۔اگرچہ ملک کے کچھ علاقوں میں سیکولر نجی اسکولوں کی طرف رجحان پایا جاتا ہے، مگر ان کا نصاب اور تعلیم کا منہج بالکل الگ ہے۔پرائمری سطح پر تو ملک میں 43 فیصد اسکول اسلامی ہیں،جبکہ اس کے بعد مڈل اورثانوی اسکولوں کی سطح پر اسلامی ادارں کا تناسب اور بھی زیادہ  بڑھ جاتا ہے۔اسلامی اور ریاستی اسکولوں کے مابین تعلیمی  اخراجات کا فرق بھی پایا ہے، مگر یہ محدود ہے۔ پرائمری سطح پر،ایک طالب علم کا اسلامی اسکولوں میں تقریباً 20ڈالر سالانہ خرچ آتا ہے، تو ریاستی اسکولوں کے لیے 21 ڈالرکے اوسط سالانہ اخراجات آتے ہیں۔مڈل اسکول کی سطح پر، ریاستی اسکولوں میں سالانہ اخراجات اوسطاً 34ڈالر اور مدرسے میں 29ڈالر ہیں۔

[1] یہ پاچ اصول ہیں جن پر تمام انڈونیشین یقین رکھتے ہیں: ایک خدا، مہذب انسانیت،ملکی اتحاد،جمہوریت اورسماجی انصاف۔