رحمت شاہ آفریدی جیسا آدمی پھر جانے کب پیدا ہو

0

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی،دانشور اور ’دف فرنٹئر پوسٹ‘کے بانی ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی گزشتہ دن 74 سال کی عمر میں وفات پاگئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک اردو زاخبار ’میدان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔صحافت، انسانی حقوق اور قبائلی مسائل کے لیے ان کی نمایاں خدمات کی وجہ سے  کل سے پورے ملک میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات انہیں خراج تحسین پیش کر رہی ہے اور یقینا رحمت شاہ آفریدی نے اپنی زندگی میں صحافت اور حقوق کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اور ہر کڑے وقت میں جس طرح صحافتی اخلاقیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، یہ چیز انہیں بہت ممتاز اور دراز قد بناتی ہے۔

بلاشبہ رحمت شاہ آفریدی کا انتقال ایک عہد کا اختتام ہے۔جو لوگ 1980 کی دہائی کے وسط کے بعد کی صحافت سے جڑے رہے، یا انہیں کچھ شغف تھا، وہ جانتے ہیں کہ ’دی فرنٹئر پوسٹ‘ نے  اس شعبے کے اندرملک میں کتنا بڑا کردار اداکیا اور اس اخبار کا کیا مقام تھا۔وہ اصل میں محض صحافی نہیں تھے،بلکہ وہ بلندخیال دانشور اوراستاد بھی تھے۔ ان کے اخبار نے جو فکر، صحافتی ہنرمندی اور حقائق کو پیش کرنے کا جو طریقہ سکھایا وہ اپنے آپ میں  ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے۔

انہوں نے سچائی کو منظر عام پر لانے، سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ کو تشکیل دینے میں ان کا ایک بڑا کردار رہا۔وہ  صحافت سے ہٹ کر،نجی زندگی میں آزاد رائے رکھنے والے ایک دلیر انسان تھے ، جس کی انہیں قیمت بھی چکانی پڑی اور وہ لگ بھگ ایک دہائی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔اسی دوران ان کا اخبار بھی مسائل کی زد میں آگیا اور اس کی آب وتاب گہنا گئی۔اس کے باوجود انہوں نے جتنا عرصہ بھی قید سے پہلے  ’دی فرنٹئر پوسٹ‘ کو چلایا اور جس انداز میں تحقیقاتی صحافت کو پیش کیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک یادگار بن گیا۔

رحمت شاہ نے صرف کتابیں اور اخبار پڑھ کے صحافت  نہیں سیکھی تھی  اور نہ یہ محض نوجوانی کا شوق اور ولولہ تھا۔ اس سے پہلے وہ افغانستان کی لڑائی میں کچھ عرصہ عملا حصہ لے چکے تھے اور حکمت یار کی حزب اسلامی سے منسلک رہے۔وہ فیض احمد فیض اور ولی خاندان کے بہت قریب رہے۔جمہوریت کو کمزور ہوتے دیکھا اور انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ ملکی صحافت پاکستان کے بڑے قومی مسائل میں اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔ تب انہوں نے اپنا انگریزی اخبار نکالا اور یہ ایک بے باک قدم تھا کہ شروع میں ہی مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہوگئے۔بعد میں ان کی سیاسی وابستگی نے ان کے لیے مسائل پیدا کیے، حالانکہ انہوں نے صحافت میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔1999 میں ان کی گرفتاری سے قبل تک’دی فرنٹئر پوسٹ‘نے قومی اُفق پر ایک گہماگہمی برپا کیے رکھی۔اگر وہ انتقام کا نشانہ نہ بنائے جاتے اور ان کی زندگی کی دو دہائیاں ضائع نہ ہوتیں تو یہ ملک کے لیے کتنا اچھا ہوتا، مگر رحمت شاہ آفریدی جیسے آزادی اظہارِ رائے پر یقین رکھنے والے اور دلیر لوگوں کے لیے جگہ کہاں اتنی وسیع ہے۔

پشتون معاشرے میں صحافت کے بانی رحمت شاہ آفریدی 2008 میں اپنی رہائی کے بعد تقریبا خاموشی کی زندگی گزاری۔ خیبرپختونخواسمیت ملک بھر کے نامور صحافیوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز’دی فرنٹئر پوسٹ‘ اخبار سے کیا تھا۔ رحیم اللہ یوسفزئی مرحوم سے لے کر معروف ماہرِ آئینی و پارلیمانی امورظفراللہ خان صاحب تک کئی نامور شخصیات اس اخبار سے وابستہ رہیں۔انہوں نے اصول پسند صحافت کی قیمت ادا کی ۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی  کی وجہ سےجعلی مقدموں میں پابندسلاسل  رہے۔

والد مرحوم کا فاٹا کے تمام معززین کےساتھ ایک تعلق رہا تھا۔ رحمت شاہ آفریدی کے والد بھی ہمارے والد صاحب کے متعلقین میں سے تھے۔ پھر رحمت شاہ صاحب کیےاتھ بھی تعلق رہا۔ پیپلز پارٹی کی 2008 میں حکومت اتے ہی جیل سے رہا ہوگئے۔ ان دنوں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ہو نہ سکی تھی۔بعد میں وہ زیادہ عرصہ لاہور رہے۔ مگر جوں جوں صحافتی برادری کے قریب ہوتا گیا ہر جگہ رحمت شاہ آفریدی کے کام اور بلند مقام کی گونج سنائی دی۔ ان کی سیاسی زندگی سے اختلاف ممکن ہے مگر انہوں نے پشتونوں میں شعور کو بلند کیا۔ اس کی بھی انہیں قیمت چکانی پڑی جو اس ملک کے ہر باشعور شخص کو اٹھانی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔