طاقتور کی اخلاقیات
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک اخبار میں غزہ مسئلے پر ایک کالم لکھا جہاں میں نے حماس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوۓ اس بات پر زور دیا کہ جنگ یا لڑائی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید بگاڑ کا سبب ہے۔ مگر اپنے اس مضمون میں میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں کیونکہ میں نے وہ کالم لکھتے ہوئے دانشورانہ منافقانہ رویہ اختیار کیا اور حقیقت کی پردہ پوشی کی کیونکہ ہمارے ہاں یہی چال چلن ہے صرف لکھنے والوں کا ہی نہیں بلکہ ہر شعبے سے منسلک شخص اخلاقیات کا درس دیتا رہتا ہے جبکہ اس کے اپنے اعمال اس کے درس سے مختلف ہوتے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ درس اس شخص کو دیا جاتا ہے جو مظلوم ہوتا ہے اور طاقت ور کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوتا ہے اور نتیجتاً اخلاقیات کے چلتے وہ اپنے بچاؤ کے لئے کچھ نہیں کر پاتا اور ظلم کی چکی میں پستا رہتا ہے۔
اخلاقیات کا درس بھی اس پر عمل نہ کرنے والا دیتا ہے یا صرف اسی کو دیا جاتا ہے جو دبا ہوا ہو۔ کسی کے ساتھ برا نہ کرو، یہ بات بھی ہمیں طاقت ور گروہ کی جانب سے سننے کو ملتی ہے جب ایسے طبقات کو اپنی من مانی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس طبقے کے لئے برائی بھی وہ چیز ہے جو برائی کی راہ میں حائل ہو۔ جس معاشرے میں اخلاقیات کا درس بھی اخلاقیات کے پرخچے اڑانے والوں سے ملے وہاں اخلاقیات ہونے کے کتنے آثار نظر آتے ہیں،یہ واضح ہے۔ یہاں طاقت ور طبقے سے مراد سرمایہ دار، فوج یا حکمران ہی نہیں بلکہ یہ طبقہ ہر چھوٹی سے چھوٹی جگہ موجود ہے چاہے اسکول ہوں، کوئی بھی ادارہ ہو یا چاہے گھر ہوں وہاں کوئی نہ کوئی طاقت ور ہوتا ہے جو ایک کمزور کا استحصال کرتا ہے۔
اس معاشرے میں انسان کو بطور انسان عزت دینے کا رواج نہیں۔ یہاں صرف اس کی عزت ہے جس کے پاس دولت اور طاقت ہے۔ ایسے معاشرے میں کوئی بات کرنا ہی بیکار ہے کیونکہ یہاں صحیح غلط معنی نہیں رکھتا کیونکہ ہر بات کا مطلب طاقت کے الفاظ میں سمجھا جاتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو وہ بذریعہ طاقت ممکن ہے۔ اگر خود کو ظلم سے بچانا ہے تو وہ بھی بذریعہ طاقت ہی ممکن ہے۔
حماس کے حملے کا مقصد اسرائیل پر قابض ہونا تو تھا نہیں بلکہ اسرائیل کے قبضے سے خود کو آزاد کروانا تھا مگر آج پوری دنیا حماس کو جنگ کی شروعات کرنے پر قصور وار ٹھہرا رہی ہے کیونکہ اسرائیل کی طاقت کا پلڑا بھاری ہے، اس لئے نہیں کہ حماس قصور وار ہے۔ اس معاشرے میں کمزور بھی وہی نظر آتا ہے جس کے پاس خود کو کمزور دکھانے کی طاقت ہو اور آنسو بھی کسی ایسے کمزور کے لیے ہی بہاۓ جاتے ہیں جو طاقت کا سرچشمہ ہو۔ اس کی ایک مثال مشہور پاکستانی لیڈر ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وگرنہ پاکستان میں نہ جانے کتنے ہی مظلوم اور کمزور ہیں مگر ان کی آواز کوئی سننا بھی پسند نہیں کرتا کیونکہ وہ حقیقت میں کمزور ہیں۔
اس میں قصور معاشرے کا بھی نہیں۔ دنیا بنی ہی ایسے اصولوں پر ہے کہ یہاں اپنی اپنی بقا کی سب کو جنگ لڑنی ہے۔ اس تماشے میں فاتح کوئی کمزور تو ہو نہیں سکتا۔ صرف خیال ہی کیا جا سکتا ہے کسی ایسے جہاں کا جہاں کمزور فاتح ہوتا اور طاقت ور لوگوں کے لیے زندگی مشکل ہوتی جس کی آسانی کے فروغ کے لیے میں یہ مضمون لکھ رہا ہوتا۔ بہر حال بات کی جائے حماس کی تو پاکستان میں جو لوگ حماس کو اسپورٹ کرتے نظر آ رہے ہیں ان کے اپنے سیاسی یا معاشی مفاد وابستہ ورنہ وہ کوئی انسانیت کی خاطر یا مظلوم لوگوں کی خاطر آواز بلند نہیں کر رہے۔ ایسے لوگوں کے فائدے میں اگر حماس کے خلاف ہونا بہتر ہو گا تو یہ اس چیز سے بالکل بھی دریغ نہیں کریں گے۔ میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ میں پس جانے کی تکلیف کو جانتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اس درد کو جو پیچھے رہ جانے والے کمزور لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اصل تکلیف کسی چیز کے چھن جانے کی نہیں ہوتی بلکہ درد ہوتا ہے آپ کی اپنی نالائقی اور با صلاحیت نہ ہونے کا کہ آپ اپنے دم پر ان مگرمچھوں کے معاشرے میں خود کی حفاظت کر سکیں۔ خیر یہی دنیا کی ریت ہے۔
آج ہم لوگ جو دنیا میں موجود ہیں وہ ماضی میں کسی کے پیچھے رہ جانے اور ہمارے زیادہ طاقت ور ہونے کے باعث ہیں ورنہ ہماری جگہ آج انسان کی کوئ اور قسم موجود ہوتی۔ دنیا ہمیشہ طاقت کے اصول پر چلتی رہی ہے اور چلتی رہے گی مگر کم از کم طاقتور کو اتنے ظرف کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ اخلاقیات اور شرافت کا جھوٹا درس نہ جھاڑے خاص کر تب جب اس کے ظلم کے خلاف کوئی خود کو بچانے کا جتن کرے ورنہ یہ کمزوری کی علامت ہی سمجھی جا سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے کمزور لوگوں کی تو ان کو تاریخ یاد نہیں رکھتی اور اگر رکھے بھی تو کیا فائدہ؟ ان کو جینے کا حق نصیب تو نہ ہو سکا۔ دیکھیے ذرا میں یہاں کمزور لوگوں کے فائدے کی بات کر رہا ہوں جبکہ کمزور لوگوں سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ سچائی ماننے کے علاؤہ کوئ راستہ نہیں رہ جاتا۔