آرمی پبلک سکول حملے کے 9 سال: آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

0

آج آرمی پبلک سکول حملے کے 9 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ پشاور میں ایک درسگاہ کے  بچوں پر ہونے والا خوفناک حملہ پوری قوم پر  کے لیے شدید صدمے کا باعث بنا  جو اصل میں اس بات کا ثبوت تھا کہ ملک کے اندر شدت پسندی اور دہشت گردی سے جڑے مسائل کس حد تک گہرے ہوچکے ہیں۔

اس سانحے کے بعد دہست گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہوئی اور ایک ایسا بیانیہ سامنے آیا جس نے دہشت پسندی کی لہر کا راستہ روکنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی مقتدرہ نے باہمی مشاورت کے ساتھ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے تحت ایسے اقدامات کیے گئے جن سے ملک میں امن کی فضا ہموار کرنے میں مدد ملی۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت نقصان اٹھائے اور کئی حوالوں سے مصائب کا سامنا کیا، لیکن 16 دسمبر کو بچوں پر ہونے والے حملے نےجس کرب  کو جنم دیا اور جو زخم پاکستانی قوم کے دل پر لگائے اس کے گھاؤ کبھی بھرے نہیں جاسکیں گے۔

آج اس واقعے کو یاد کیا جا رہا ہے تو اس کے ساتھ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم اور ریاست اس پر غور کریں کہ یہ واقعہ ہم پہ ایک قرض بھی رکھتا ہے اور ہم وہ قرض چکانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے اور آج کہاں کھڑے ہیں۔ حالات و واقعات اور اخبارات کی سرخیاں یہ بتاتی ہیں کہ چند برسوں کے وقفے کے بعد ملک میں امن و امان کی فضا ایک بار پھر ویسے ہی خرابی کی طرف گامزن نظر آتی ہے جیسے 2014 میں تھی۔ عام لوگ اور سکیورٹی اداروں کے نوجوان آئے روز مختلف مقامات پر نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پھر سے ملک بدامنی کی طرف کیسے لوٹ رہا ہے اور یہ عفریت جو وقفے وقفے سے قوم کے سر پر مسلط ہوتا ہے اسے کس طرح ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہی 16دسمبر کا حقیقی قرض ہے اور اصل سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔