اسلام میں مذہبی آزادی اور رواداری کا تصور

فتح اللہ گولن

0

فتح اللہ گولن ترکی سے تعلق رکھنے والے معروف مبلغ اور سیاسی شخصیت ہیں۔اس کے علاوہ ’گولن تحریک‘ کے بانی بھی ہیں۔ اس وقت خودساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کی شہرت مکالمہ پر یقین رکھنے والی شخصیت کی ہے۔ انہوں نے ویٹی کن اور کئی یہودی تنظیموں کے ساتھ بین المذاہب مکالمے شروع کیے۔تُرک سیاست، اسلام اور جدید دنیا سے متعلقہ فکری مباحث میں پیش پیش رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں انہوں نے اسلام کے تصورِ مذہبی آزادی پر کلام کیا ہے، کہ کس طرح دینی روح میں اجتماعی و انفرادی دونوں سطح پر غیرمسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔اس میں انہوں نے نصوص و فقہی دلائل کی مدد سے عصرحاضر کے تناظر میں رواداری کے مفہوم کی عمدہ وضاحت کی ہے۔یہ مضمون ’فتح اللہ گولن‘ ویب سائٹ پر شائع ہوا۔

عصر حاضر میں مذاہب کے مابین دوریاں بڑھ رہی ہیں، تہذیبوں کا تصام ایک ایسا نظریہ ہےجس نے کافی مقبولیت حاصل کی، اس کے علاوہ حالات اس قدر مخدوش ہو رہے ہیں کہ دنیا میں مذاہب کی بنیاد پر جنگوں کی بات بھی ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کی اصل جڑ در اصل مادیت پسندانہ تصور میں پیوست ہے ، جس نے عصری سماجی زندگی میں مذہب کا عمل دخل بری طرح سے محدود کردیا ہے،  اور اس کا نتیجہ انسانیت اور فطرت کے مابین توازن کے بگاڑ کی صورت میں نکلا ہے ۔

معاشروں میں صرف مختصر طبقہ ایسا ہے جسے اس بات کا احساس ہے کہ سماجی ہم آہنگی ،نظام فطرت کے ساتھ موافقت،انسانوں کے مابین امن واتفاق اور فرد کی ذات کے اندر حسن ترتیب ، صرف اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤں میں باہمی مفاہمت اور جوڑ پیدا ہوگا ۔ نظام فطرت کے ساتھ موافقت ، سماج میں امن وانصاف اور تکمیل ذات صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب بندہ اپنے رب کے ساتھ جڑا ہو۔

مذہب متضاد چیزوں میں مفاہمت کا ذریعہ

مذہب بظاہر متضاد چیزوں مثلاً مذہب اور سائنس ،دنیا وآخرت ،فطرت اور صحائف آسمانی ، مادیت اور روحانیت اور روح وجسم میں ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرتا ہے۔ مذہب سائنسی مادہ پرستی سے ہونے والے نقصانات کے خلاف ایک مضبوط دفاع کا کام کرتا ہے۔ سائنس کو اس کے درست مقام پر لاتا ہے اور اقوام اور لوگوں کے مابین تصادم کو ختم کرتا ہے ۔فطری سائنس ایک روشن زینے کی بجائے جوکہ رب کائنات سے قربت کا ذریعہ بنتی بے یقینی اور بے اعتقادی کا ایک ایسا ذریعہ بن چکی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔

بین المذاہب مکالمے کا مقصد محض یہ نہیں کہ سائنسی مادہ پرستی کو نیست ونابود کرتے ہوئے اس کا عالمی سطح پر تباہ کن اثرختم کیا بجائے بلکہ مذہب کی اصل روح اس چیز کی متقاضی ہے کہ مذاہب ایک دوسرے کے لیے وسعت پیدا کریں۔ یہودیت ، مسیحیت اور اسلام اسی مقصد کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ بحیثیت ایک مسلمان ہر فرد تمام انبیاء کرام اور تاریخ میں مختلف قوموں کے لئے بھیجی جانے والی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتا   ہے۔ایک مسلمان حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ ، حضرت داود ، حضرت عیسیٰ اور دیگر تمام انبیاء علیہم السلام کا سچا پیرو کار ہوتا ہے ۔ کسی ایک بھی نبی یا آسمانی کتاب پر ایمان نہ رکھنے کا مطلب مسلمان نہ ہونا ہے، اس لئے ہم مذاہب کی بنیادی یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں جو کہ رب کائنات کی رحمت کا ذریعہ اور مذہب پر ایمان کی آفاقیت کی دلیل ہے۔

مذہب ایمان کا ایک ایسا نظام ہے جو تمام نسلوں اور تمام عقائد کو اپنی آغوش میں لیتا ہے اور ایک ایسی شاہراہ ہے جو کہ ہر فرد کو بھائی چارے کے ہمہ گیر دائرے میں لیتی ہے ۔

قطع نظر اس کے ہر مذہب کے پیرو کار اپنی روز مرہ زندگی میں کس طرح اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں، مذہب بالعموم پیار محبت ، باہمی احترام، رواداری ، عفو ودر گزر، خدا ترسی ،انسانی حقوق کی پاسداری ، امن آشتی ،بھائی چارے اور آزادی جیسی اقدار کو اولیت دیتا ہے ۔ ان میں سے اکثر اقدار کو حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ السلام ، اور حضرت محمدﷺ کے پیغام میں نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بدھا ‘زردشت ‘ لاؤزو ‘ کنفیوشس اور ہندو سکالرز کے پیغام میں بھی۔

اسلام عقیدے کی آزادی کو ترجیح دیتا ہے

اسلام میں “عقیدہ کی آزادی”  کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی اعتقاد کے اپنانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اور کسی اعتقاد کی وجہ سے اسے نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے جس پر وہ یقین رکھتا  ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

“لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ  قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ  فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ”۔[1]

(دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا ۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط رسی کوتھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اوراﷲ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔)

عقیدہ کی آزادی اہم ترين انسانی حقوق ميں سے ايك  ہے جس کا اسلام نے اقرار  کیا ہے ، اور قرآن کریم کی بہت سی اور مختلف نصوص کسی شخص کے اس عقیدے کو قبول کرنے کے حق کی تصدیق کرتی ہیں جس میں اس کا دل مطمئن ہو، کیونکہ اللہ تعالٰی نےانسان کو ایمان اور کفر کے درمیان بھی انتخاب کرنے کی آزادی دے رکھی ہے :

“فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ”[2] (اب جو چاہے، ایمان لے آئے، اور جو چاہے کفر اِختیار کرے۔)

اور خدا تعالی اپنے رسول ﷺ کو بھی یہی ہدایت دیتے ہیں کہ جب حق اور بھلائی کا راستہ واضح ہو جائے تو عقیدہ کا انتخاب کرنے کی آزادی کو اس شخص پر چھوڑ دیا جائے ۔ فرماتے ہیں  :

“أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ” [3] (پھر کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں۔)

اسلام آزادی اعتقاد كو انسانی عقل و ضمیر کے لئے احترام کے اعلی درجے اور قدر کی نگاہ سے ديكهتا ہے ، اللہ تعالی نے انسان کو ایک ایسی عقل سے نوازا ہے جو حق اور باطل کے مابین فرق کرنے كے قابل ہے اور اسے خدا کو قبول کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے ، اور ایمان اور کفر کے درمیان بھی انتخاب کرنے کی آزادی عطا کرتی ہے ، آزادی غلامی کے برعکس ہے ، کیونکہ انسان ہمیشہ انتخاب کی حیثیت میں رہتا ہے۔ لہذا وہ اپنے کاموں کا  خود ذمہ دار ہے ، اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا بھی وہُ خود ذمہ دار ہے :

“مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ  وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا”[4] )جو کوئی نیک عمل کرتا ہے، وہ اپنے ہی فائدے کیلئے کرتا ہے، اور جو کوئی بُرائی کرتا ہے، وہ اپنے ہی نقصان کیلئے کرتا ہے (

اسلام میں مذہبی آزادی کی توثیق کا مطلب مذہبی تعدد کو تسلیم کرنا ہے۔

فکری آزادی

اسلام فکر و یقین کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالی نے اسے مومنوں پر ایک تکلیفی حکم کے طور پر فرض فرمایا ہے، اس نے سب سے پہلے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کو انسانیت کے بارے میں اس نئے اصول کی تعلیم دیناشروع کی تاکہ اس کا ایمان پر قائم رہنے کا حرص اسے لوگوں کو زبردستی پکڑ کر انھیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کرے ،جسے اسلام کلی طور پر مسترد کرتا ہے ، لہذا رضا مندی کے بغیر زور زبردستی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کو اسلام منافقت تصور کرتا ہے ، اور اسلام میں منافقت کو سراسر کفر سمجھا جاتا ہے ، اور اسی وجہ سے اسلام کی دعوت رضامندی اور خوشنودی  پر مبنی ہے۔

بے شک اسلامی مؤقف واضح اور مضبوط ہےجو ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ جو چاہے عقائد اپنائے، اور اپنے لئے جو افکار چاہے اختیار کرے حتی کہ اگر اس کے عقائد ملحدانہ ہیں تب بھی کوئی شخص اسے نہیں روک سکتا جب تک اس کے یہ افکار و خیالات اس کی اپنی ذات کی حد تک ہوں اور وہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ لیکن اگر وہ ایسے خیالات کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے جو لوگوں کے اعتقادات کے منافی اور ان کی ایسی اقدار سے متصادم ہوں جنہیں وہ عزیز رکھتے ہیں تب وہ لوگوں کے دلوں میں شک کا فتنہ پیدا کرکے ملک کی عمومی نظم و ضبط پر حملہ آور ہوتا ہے۔

اور جو بھی شخص کسی بھی قوم میں ریاست کے عمومی نظم و ضبط پہ حملہ کرتا ہے تو اسے سزا دی جائے گی جو بیشتر ممالک میں قتل ہے۔ چنانچہ اسلامی قوانین میں مرتد کی سزا اس لئے نہیں کہ وہ مرتد ہوا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس نے اسلامی ریاست میں عمومی نظم و ضبط(قوانین)کو توڑتے ہوئے فتنہ و انتشار بپا کیا ہے۔ لیکن اگر وہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کئے اور پھیلائے بنا خود ذاتی طور پر مرتد ہو جا‏ئے تو کوئی بھی شخص اس کے ساتھ برا نہیں کر سکتا، صرف اللہ تعالی ہی ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔

تشدد اور جبر کی نفی

اسلام متشدد گروہوں کو مسترد کرتا ہے جو لوگوں کو اسلام لانے پہ زبردستی مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلام نے اپنے کسی مبلغ کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ لوگوں کو فرض کی ادائیگی پر مجبور کرے اور نہ ہی دینی فرائض میں کوتاہی پہ کسی شخص کو سزا دینے کا حق ہے۔ لہذا کچھ افراد جو دینی امور میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں بعض مذہبی لوگ شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے دائرے سے ہی خارج کر دیتے ہیں۔

چنانچہ اس قسم کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حضور سب لوگ برابر ہیں اور تقوی اور عمل صالح کے سوا کسی ایک کو دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں ہے، مذہب ایک داخلی یقین ہے جو بیرونی دباؤ یا جبر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مذہب میں جبر اور زبردستى  سے “مومن” نہیں بلکہ “منافق” پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی كو منافقوں کے نفاق کی ضرورت نہیں ،چنانچہ اسلام نے آزادئ عقائد کے اصول میں تاکید کی خاطر اسے قرآنی نصوص میں بیان فرمایا کہ لوگوں کے عقائد پر کسی انسان کو اختیار نہیں دیا گیا ہے حتی کہ رسول الله ﷺ کو بھی لوگوں کے عقائد کے بارے میں اختیار نہیں ہے۔

اس بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

“ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ”[5] (رسول پر سوائے تبلیغ کرنے کے کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔)

پھر ایک اور جگہ فرمایا:

” لسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ”[6] (آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لئے  مسلط نہیں کیا گیا۔)

الله رب العزت نے اپنے نبی رسول ﷺ کو تمام لوگوں کے لئے بطور رہنمابناکر بھیجاہے اور ان پر قرآن کریم نازل کیا ہے جو ہر طرح کی رواداری اور ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہر طرح کی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کو رد کرتا ہے۔ اسلام اعتدال پسندی کا مذہب ہے ، جس کی تعلیمات مذہب اور اعتقاد کے معاملات میں ہر طرح کے غلو اور انتہا پسندی کی مخالفت کرنے میں واضح ہیں، اور قرآن پاک نے اس آزادی کے تعین میں اعلی معیارکا مظاہرہ کیا ہے، اور مسلمانوں پر یہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے اعتقادات کا احترام کریں ۔ بلکہ اس نے مسلمانوں کو سابقہ تمام آسمانی ادیان پر ایمان رکھنے کا پابند بنایا ہے، اور اسے مسلمان کے اعتقاد کا لازمی جزو بنا دیا۔

اسلام كى رُو سے ايمان اور كفر كامعاملہ الله تعالى اور اس كے بنده كےدرميان ہوتاہے- رسول اكرم ﷺنےہميں اس بات كى تعليم دى ہےكہ ہميں كسى انسان كےظاہرپر حكم جارى كرنانہیں چاہيےكيونكہ صرف اور صرف الله ہى دلوں كى باتوں كو جانتا ہے – ظاہرہماراہے اور باطن الله تعالى كا، اسى لئےاپنےبندوں كا حساب كتاب كرنےكا حق صرف اسے حاصل ہے۔

دیگر تہذیبوں و ثقافتوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی

اسلام ميں مذہبى بقائے باہمى كا مطلب دوسرى مختلف ثقافتوں اور تہذيبوں كے ساتھ پُر امن بقائے باہمى ہے، اور اسكا مقصد ہميشہ انسان كى فلاح وبہبود ہى رہا ہے، دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام کی بقائے باہمی كى كئى دليليں قرآن مجيد ميں صاف واضح ہيں،  فرمان الہى ہے :

(کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ ،وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے، اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو ان سے کہہ دو کہ تم گواہ  رہو کہ ہم خدا کےفرماں بردار ہیں) ۔[7]

رسول پاك محمدﷺپر ايمان نہ لانے كے باوجود، اسلام يہوديوں اور مسیحیوں كو اہل كتاب سمجھتا ہے، كيونكہ اسلام رنگ، نسل، جنس يا مذہب كے اختلاف كو”خلاف” نہيں گردانتا، پس عقيده كے اختلاف كے باوجود اسلام كے رحمت، روادارى اور امن وسلامتى پر مبنى اصلاحى پہلوؤں نے اس اختلاف كو اپنى كامل اور جامع تعليمات كے اندر خوبصورتى سے سموليا ہے، يہاں تك كہ اسلام نے حضرت موسى عليه السلام اور حضرت عيسى عليه السلام پر ايمان  (يعنى ان كو نبى سمجهنا) ايمان كى درستگى كى دليل ماناہے۔

دوسرے مذاہب كے ساتھ پُر امن بقائے باہمى كا اہم ترين ثبوت يہ بهى ہے كہ دين ِ اسلام نے مسلمان مرد كايہودى يا عيسائى عورت سے نكاح جائز  قرار دياہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ بھی جنہیں الہامی کتاب دی گئی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور اسی طرح پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی تمہارے لیے حلال ہیں جب کہ تم انہیں ان کے مہرا دا کر دو،مگر شرط یہ کہ تم انہیں قید ِنکاح میں لانے والے عفت شعاربنو، نہ کہ محض ہوس رانی کی خاطر اعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص احکامِ الٰہی پر ایمان لانے سے انکار کرے اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)[8]

مذہبی اختلاف کی بنا پر کسی غیر مسلم کی جان و مال کو تلف کرنا حرام ہے

دین و مذہب کا اختلاف قطعی طور پر کسی کو قتل کرنے اور مال لوٹنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ کسی انسان پر ظلم وزیادتی کرنا خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو اور وہ ظلم و زیادتی خواہ قتل کی شکل میں ہو، ایذا رسانی یا اس کے اوپرجھوٹے الزام اور تہمت کی شکل میں، سب حرام ہے۔ ایسی ہر قسم کی زیادتی کا قصاص یعنی بدلہ واجب ہوگا۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :

’’يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی‘‘۔[9] (اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں۔)

یہاں قَتْلٰی کا لفظ عام ہے جو مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو شامل ہے اور قصاص میں بھی یہی حکم ہے جیسے جان کا بدلہ جان؛ یہ مسلم اور غیر مسلم ہر کسی کی جان ہو سکتی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعاليٰ ہے :

’’وَکَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ‘‘[10]

(اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے۔)

اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔[11]

لہٰذا یہ امر متحقق ہو جاتا ہے کہ مذاہب کا اختلاف جان و مال کو دوسروں کے لیے حلال نہیں کرتا۔

 غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا تحفظ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو برقرار رکھا۔ علامہ ابن قیم ’’احکام اہل الذمۃ‘‘ میں فتح خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے غیر مسلموں کو ان کی عبادت گاہوں پر برقرار رکھا اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں فرمایا۔ بعد ازاں جب دیگر علاقے سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے تو خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اِتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہوئے ان ملکوں میں موجود غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار نہیں کیا۔[12]

قرآن و حدیث کی رُو سے اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ وہ تمام مذاہب کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی حرمت کا خیال رکھے اور انہیں تحفظ فراہم کرے۔ قرآن مجید میں سورۃ الحج میں ارشاد گرامی ہے :

’’وَلَوْ لَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْکَرُ فِيْهَا اسْمُ اﷲِ کَثِيْرًا‘‘[13]

(اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے۔)

امام ابو بکر الجصاص ’’احکام القرآن‘‘ میں درج بالا آیت کی تفسیر میں امام حسن بصری کا قول نقل کرتے ہیں :

’’يَدْفَعُ عَنْ هَدْمِ مُصَلَّيَاتِ أَهْلِ الذِّمَّةِ بِالْمُؤْمِنِيْنَ‘‘۔[14] (اللہ تعاليٰ مومنین کے ذریعے غیر مسلم شہریوں کے کلیساؤں کا انہدام روکتا ہے (یعنی مسلمانوں کے ذریعے ان کی حفاظت فرماتا ہے۔)

اسی آیت کی تشریح میں امام ابو بکر الجصاص مزید فرماتے ہیں :

’’فِی الْآيَةِ دَلِيْلٌ عَلَی أَنَّ هَذِهِ الْمَوَاضِعَ الْمَذْکُوْرَةَ لَا يَجُوْزُ أَنْ تُهْدَمَ عَلَی مَنْ کَانَ لَهُ ذِمَّةٌ أَوْ عَهْدٌ مِنَ الْکُفَّارِ۔‘‘[15]

(اور آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ مذکورہ جگہوں (یعنی عبادت گاہوں) کا گرانا جائز نہیں اگرچہ وہ غیر مسلم شہریوں کی ہی ہوں۔)

اسی آیت کریمہ کی تشریح میں اخفش بیان کرتے ہیں کہ غیر مسلم شہریوں کی عبادت گاہیں ہرگز گرائی نہیں جائیں گی یعنی اسلامی ریاست کا فریضہ ہے کہ انہیں کامل تحفظ فراہم کرے۔ ہر قوم اپنی اقدار کا تحفظ کرتی ہے، اپنی روایات اور ثقافت کو فروغ دینا اس کا جمہوری حق ہے۔ چنانچہ مذہبی اختلافات کے باوجود مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کریں۔

علامہ ابن قیم ’’احکام اہل الذمۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :

يَدْفَعُ عَنْ مَوَاضِعِ مُتَعَبَّدَاتِهِمْ بِالْمُسْلِمِيْنَ…. کَمَا يُحِبُّ الدَّفْعَ عَنْ أَرْبَابِهَا وَإِنْ کَانَ يُبْغِضُهُمْ، وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الرَّاجِحُ، وَهُوَ مَذْهَبُ ابْنَ عَبَّاسٍ۔[16]

(اللہ تعالی مسلمانوں کے ذریعے ان کی عبادت گاہوں کا دفاع فرماتا ہے۔ جیسا کہ وہ ان کے معبودوں کا دفاع کرتا ہے مخالف اور ناپسندیدہ عقیدہ ہونے کے باوجود۔ یہی قول راجح ہے اور یہی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا موقف بھی ہے۔)

اسلام اپنی روح میں الگ تھلگ دین نہیں ہے، بلکہ دیگر تہذیبوں ، ادیان اور ثقافتوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی تعلیم وہ اپنے ماننے والوں کو بھی دیتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی بھی مسلمان آ ج یہ سمجھتا ہے کہ تصادم سے حق کو فروغ ملتا ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ بطور ایک شہری کے ریاست کے اندر تمام انسان مساوی حقوق رکھتے ہیں۔

[1] البقرہ: 256

[2] الكہف: 29

[3] يونس: 99

[4] فصلت 46

[5] المائدہ: 99

[6] الغاشيہ: 22

[7] آل عمران: 64

[8] المائده:5

[9] البقرہ : 178

[10] المائدہ، 45

[11] ابن رشد، بداية المجتہد، 2/229

[12] ابن قيم، أحکام أہل الذمہ، 3/1199

[13] الحج، 40

[14] جصاص، أحکام القرآن، 5/83

[15] جصاص، أحکام القرآن، 5/83

[16] ابن قيم، أحکام اہل الذمہ،3/1169