مسلم تاریخ میں مدارس دینیہ کا آغاز و ارتقاء

ادارتی ٹیم

0

اسلامی تہذیب میں دینی مدارس کو ریاستی و سماجی سطح پر بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کارِریاست چلانے میں معاون پڑھے لکھے افراد مدارس فراہم کرتے تھے، اسی طرح مذہبی امور میں رہنمائی بھی انہی اداروں سے آتی تھی۔چونکہ دینی علوم کے ادارے شروع سے ہی مسلم سماج و ریاست کے لیے ایک ضرورت بن گئے تھے، اس لیےان کا ارتقاء بڑی تیزی کے ساتھ ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں جگہ جگہ مدارس کھل گئے۔ نہ صرف بغداد اور حجاز میں، بلکہ خراسان اور افریقی خطوں میں بھی تاریخی ادارے وجود میں آئے،اور ان کا تسلسل ابھی تک چل رہا ہے۔زیرنظر مضمون میں مدارس کے اسی تاریخی ارتقاء کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگار مجلہ تحقیقات کے مدیر اعلی اور ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ کے سربراہ ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

مدارس کی ابتدائی شکل اور طریقہِ تدریس

قدیم مسلم تاریخ میں مدارس کی شکل بہت ہی مختلف تھی۔مدارس کی تعلیم انتہائی سادہ اور آزادانہ ماحول میں ہوتی تھی۔ تعلیم مفت تھی، کوئی فیس نہیں تھی، رہائش، خوراک سمیت سب ضروریات منتظمین مہیا کرتے تھے۔ نہ عمر کی قید، نہ داخلہ اور حاضری کی پابندی تھی۔ طالب علم جب تک چاہتے پڑھتے  جب چاہتے چلے جاتے۔ سب کچھ طالب  علم کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ ہر شخص اپنے ذاتی شوق سے پڑھتا تھا۔ مگر علم کا شوق بے حد و حساب تھا۔اساتذہ مسجدوں میں مختلف اوقات میں مختلف علوم و فنون کی تعلیم دیتے تھے۔  بعض روزانہ اور بعض ناغہ سے دیتے تھے،وہ نظم و ضبط سے بندھے ہوئے نہیں تھے۔ طلبہ زیادہ سے زیادہ اسباق میں شرکت کرنے کی غرض سے مسجدوں کے درمیان ایک طرح سے دوڑ لگاتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے: ’’اگر کوئی شخص بغداد کی گلیوں میں دوڑ تا نظر آئے تو سمجھ لو یا تو وہ کوئی طالب علم ہے یا پھر پاگل شخص ہے‘‘۔ نصاب تعلیم کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ ابتدائی سات صدیوں تک عالم اسلام کے مدارس میں تدریسی کتابوں کا رواج نہیں تھا۔ ہر استاد ایک خاص مضمون کو بطریق لیکچر پڑھاتا تھا۔ وہ کسی کتاب اور مصنف کے اقوال کا پابند نہیں ہوتا تھا۔  بعض نے اپنے لیکچر کتابی شکل میں مرتب کر لئے تھے۔ ہر سال وہ اسی کو پڑھاتے تھے۔  طریق تدریس قرات وسماع والا ہوتا تھا۔استاد لیکچر دیتا تھااور طلبہ اس کو سنتے تھے۔ دوسرا طریقہ املاء اورکتابت کا تھا۔ وہ ہمارے زمانے کے نوٹس سے مشابہ تھا۔ استاد اپنے حافظہ سے لکھواتا جاتا تھا اور طلبہ اس کو مرتب کر لیتے تھے۔ حدیث کے درس میں خاص طور پر مجمع بہت بڑا لگ جاتا تھا۔ اس لئے استاد کی آواز دور دور تک پہنچانے کے لئے بسا اوقات درمیان میں جگہ جگہ لوگ کھڑے ہو جاتے تھے، جو استاد کے جملوں کا اعادہ کرتے تھے اور ان کو مستملی کہا جاتا تھا۔

کسی کتاب کی مدد کے بغیر محض اپنے حافظہ سے قرات کرنے(لیکچر دینے) کا طریقہ تاتاری حملے تک جاری رہا۔ لیکن جب مشرق میں علماء کو تاتاریوں نے قتل کرنا شروع کیا،اور عالم مغرب میں اندلس میں فرانسیسی استعمار نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، تو بعد کے ادوار میں علماء کی سابقہ روش جو بلاد اسلامیہ کا خاصہ تھی، باقی نہ رہی۔ پھر ہر شہر میں، ہر قسم کے علوم و فنون کی شاخوں پر لیکچر دینے والوں کا فقدان ہوگیا۔ ان حالات میں تدریسی کتب کا استعمال بڑھنے لگا۔اسی دور میں ہلاکو خان کے وزیر نصیر الدین محقق طوسی(1274ء) نے تعلیم و تدریس کی از سر نو تدوین کی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عالم اسلام میں تدریسی کتابوں کا استعمال شروع ہوا۔ سید سلیمان ندویؒ نے درسی کتاب کے دو قدیم ترین حوالے دریافت کئے ہیں۔ صدر الشریعت عبیداللہ بخاری 747ھ(1346ء) نے شرح وقایہ کے دیباچے میں سبقاً سبقاً پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ تیموری دور میں جب اسلامی علوم و فنون کا احیاء ہوا تو مصنفین نے نصاب تدریس کی ازسر نو تدوین کی اور اس کے لئے نصابی انداز میں  کئی کتابیں لکھیں۔ یہ نصاب دراصل بعد میں آنے والے تمام نصابوں کی بنیاد ہے۔ برصغیر میں رائج’’درس نظامی‘‘ بھی تیموری نصاب پر مبنی ہے۔ صرف میر، صرف نحو، مطول وغیرہ اس نصاب کی کتابیں ہیں۔ یہ ان دو بزرگوں کا عالم مشرق پر بڑا احسان ہے۔ سعدالدین تفتازانی (1391ء) اور میر شریف جرجانی(812ھ) اپنے دور کے بہت بڑے استاد تھے۔ 1391

مدارس کا باقاعدہ آغاز

یوں تو آغاز اسلام سے ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اسلام کی ابتدائی چند صدیوں میں باقاعدہ مدارس کی بجائے  مساجد کے صحن، خانقاہوں کے حجرے اور علماء کے مکانات ہی درس گاہیں تھیں اور یہیں سے عظیم قراء کرام، مفسر، محدث، فقہیہ، مجتہد، ادباء، شعراء اور مؤرخ پیدا ہوئے  جن کے نام علمی دنیا میں درخشندہ ہیں۔یورپین مؤرخین کی تحقیق ہے کہ  سب  سے پہلے عباسی دور میں مامون نے خراسان میں باقاعدہ مدرسہ قائم کیا تھا  چنانچہ انسائیکلو پیڈیا  بر ٹانیکا میں لکھا ہے کہ  مامون نے اپنے ولی عہدی کے زمانہ میں  خراسان میں  کالج بنوایا  تھا جس میں مختلف ممالک سے  نہایت  قابل اساتذہ بلا کر مقرر کیے۔ [1]

اس اعتبار سے دوسری صدی میں مدارس کے قیام کا آغاز ہوگیا تھا۔ مگر عربی مصادر سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ عام مؤرخین مدارس کے قیام کا آغاز مدرسہ نظامیہ بغداد سے یعنی پانچویں صدی سے کرتے ہیں لیکن صحیح  یہ ہے کہ چوتھی صدی میں نیشا پور میں متعدد مدارس قائم ہوچکے تھے۔ سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے بھائی امیر نصر بن سبتگین نے نیشا پور میں مدرسہ بیہقیہ  اور مدرسہ سعیدیہ قائم کیے۔[2]

اسی زمانے میں نیشاپور میں ایک مدرسہ ابو سعد اسماعیل بن علی واعظ استر  آبادی نے قائم کیا۔ ایک مدرسہ امام ابو اسحاق کے لیے کسی امیر نے بنوایا تھا۔ [3]ایک مدرسہ اہل نیشا پور نے امام  ابو بکر بن حسن المعروف بابن فورک(م406) کے لئے قائم کیا جس میں مختلف  علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔[4] حاکم بامر اللہ فاطمی نے 400ہجری میں قاہرہ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ [5]نظام الملک نے ایک مدرسہ نیشا پور میں قائم کیا  جو مدرسہ نظامیہ نیشا پور کے نام سے مشہور تھا۔

ملک شاہ سلجوقی کے وزیر نظام الملک طوسی نے بغداد میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ مدرسہ کے ساتھ طلبہ کے لئے دار الاقامہ تعمیر کیا۔ سب طلبہ کو وظیفے ملتے تھے۔ اس دور کے نامور علماء درس و تدریس کے لئے مقرر  کئے۔ نظامیہ بغداد کے علاوہ نظام الملک نے  بلخ، ہرات، نیشاپور، اصفہان، بصرہ، مرو، موصل اور عراق کے تمام  شہروں میں مدارس قائم کیے۔[6]

ابن اثیر کا بیان ہے کہ نظام الملک نے ممالک محروسہ کے تمام شہروں میں مدارس اور دارالعلوم قائم کئے اور ان کے مصارف کے لئے بڑی بڑی رقمیں مقرر کیں تھیں۔[7]

نظامیہ بغداد کے قیام کے بعد شہر بغداد میں مدارس اور دارالعلوم کی تعمیرات کا سلسلہ عام شروع ہوگیا۔ ابن جبیر اندلسی 850 میں بغداد پہنچا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں تیس بڑے بڑے دارالعلوم ہیں جن میں سے ہر ایک عمارت بڑے بڑے محلات کو شرماتی ہے۔[8] مستنصر باللہ  نے 625 ہجری میں دارالعلوم مستنصریہ کی بنیاد رکھی، سات برس میں یہ عمارت تعمیر ہوکر تیار ہوئی۔ مدرسہ کے مصارف کے لئے ایک بڑی جائیداد وقف تھی۔[9]

ابن واثل کا بیان ہے کہ روئے زمین پر اس سے بہتر مدرسہ کوئی نہ تھا اور نہ کسی مدرسے کا  اتنا بڑا وقف تھا۔ اس میں چاروں مسالک کی تعلیم ہوتی تھی۔ مدرسہ سے ملحق ایک شفاء خانہ، مطبخ اور ٹھنڈے پانی کے لیے آبدار خانہ تھا۔ طلبہ کو چٹائیاں، فرش، تیل، کاغذ، قلم و دوات مفت اور کھانے کے علاوہ  ہر طالب علم کو ایک اشرفی ماہانہ  وظیفہ ملتا تھا۔ مدرسہ سے ملحق ایک عمدہ حمام بھی تھا۔[10]

قاضی خلفاء کے عہد میں صرف چند مدارس کے قیام کا پتہ چلتا ہے۔ جامعۃ الازہر انہی کی یادگار ہے۔ نور الدین محمود زنگی(541ھ- 569ھ) نے حلب، حماۃ، بعلبک میں بڑے بڑے مدارس قائم کیے، دمشق میں ایک عظیم الشان مدرسہ  بنایا۔ دنیائے اسلام میں جو پہلا دار الحدیث قائم ہوا اسی کے نام سے دارالحدیث نوریہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ اس سے پہلے خاص علم حدیث اور درس کے لئے کوئی مدرسہ تعمیر نہیں ہوا تھا۔ 69-567 ہجری میں نور الدین کے کاتب عماد  کے اہتمام سے مدرسہ عمادیہ قائم ہوا۔ سلطان صلاح الدین(م585ھ) اور اس کے متوسلیں نے مصر، شام، فلسطین وغیرہ کے شہروں میں سینکڑوں مدارس قائم کیے۔ اسکندریہ میں بھی بڑے بڑے مدارس قائم کیے گئے۔ ابن جبیر  نے سلطان کے عہد میں مصر اور شام کی سیاحت کی تھی۔ اسکندریہ کے حالات میں لکھا تھا کہ اس شہر کے مناقب اور مفاخر میں جس کا سہرا سلطان کے سر ہے اس کے مدارس اور اقامت گاہیں ہیں، جو اس نے طلبہ اور صوفیاء کے لئے بنوائیں۔ مصر میں مدرسہ قطبیہ  ملک العادل کی بیٹی مونسہ خاتون نے قائم کیا۔ سلطان کی دوسری خاتون نے حلب میں مدرسہ فردوس کے نام سے قائم کیا۔

خاندان صلاحیہ کے بعد 923ھ تک  مصرو عرب پر ترک و چراکسہ نے حکومت کی۔ اتراک نے 783ھ تک حکومت کی پھر چراکسہ کے ہاتھوں میں زمام  حکومت آئی۔ یہ دونوں خاندان زر خرید غلام تھے۔جو ترکی کے منصب حکومت تک پہنچے تھے۔ ملک منصورقلاؤن (689ھ) نے مدرسہ منصوریہ قائم کیا۔ ناصر محمود قلاؤن نے مدرسہ ناصریہ قائم کیا جس میں چاروں مسالک کا درس ہوتا تھا۔ امام فخر الدین  انجیلی(579ھ ) نے مکہ معظمہ  میں بہت عمدہ مدرسے بنوائے۔  خلیفہ المستغنی باللہ کی کنیز طالب الزمان نے 570ھ میں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں فقہاء شافعین مدرس تھے۔ 621ھ میں ایک مدرسہ قائم ہوا جس کا بانی  الملک المنصور عمرو بن علی وائی یمن تھا۔ عبدالباسط جو سلطان  ظاہر کی فوج کا ناظر تھا،اس نے مکہ معظمہ میں بہت عمدہ  مدرسے بنوائے۔ ملک اشرف قاتیبائی نے جو خاندان چراکسہ سے تھاچاروں مذاہب کے لئے عظیم الشان مدرسہ بنوایا جس میں بہتر 72  کمرے تھے۔

بنگال کے خود مختار حکمران سلطان غیاث الدین نے مکہ معظمہ  میں مدرسہ قائم کرنے کے لیے یاقوت نامی خادم کو حسن بن عجلان شریف مکہ کے پاس زر خطیر دے کر روانہ کیا۔ یاقوت نے باب امہانی کے قریب بارہ ہزار مثقال میں دو مکان خرید کر مدرسہ بنوایا۔ سلطان سلیمان نے 926ھ میں چار بڑے بڑے مدرسے قائم کیے۔ تیونس میں ایک مدرسہ جامعہ زیتونہ کے نام سے قائم ہوا۔ یہ مدرسہ ساتویں صدی ہجری میں حکومت حفصیہ کے عہد میں افریقہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ مراکش کےشہر فاس میں قزوین یونیورسٹی245ھ میں قائم ہوئی۔ اس یونیورسٹی کو ایک خاتون فاطمہ بنت  محمد الفسرس نے قائم کیا تھا۔

مغربی سوڈان میں 1240ء میں قبیلہ مزنگ نے سلطنت مالی کی بنیاد رکھی ۔تب تمبکتو اسلامی علوم کا مرکز تھا۔ اس شہر میں بہت بڑی یونیورسٹی قائم کی گئی۔ تلمسان پرانے زمانے میں مغرب متوسط کا دارالحکومت تھا۔ مدائن میں740ھ میں مسجد سدی تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کے اوقاف میں ایک مدرسہ تھا۔ جو 747ھ میں تعمیر ہوا۔ پانچویں صدی کے شروع میں ابو جعفر طوسی نے نجف میں ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی تھی، یہی درسگاہ آج ’’جامعہ نجف‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مدرسہ سلیمیہ، مدرسہ خلیلی اور مدرسہ بروجروی بھی مشہور ہیں۔ ایک درسگاہ جامعہ النجفہ ہے جس کی  خوبصورت عمارت کی تعمیر پر اس دور میں تین لاکھ دینار صرف ہوئے۔

ترکوں نے اپنے عہد عروج میں بے شمار مدرسے قائم کیے۔ سب سےپہلے سلطان ارخان(726ھ- 760ھ) نے اریبق کا مدرسہ قائم کیا۔ سلطان محمد فاتح نے 865ھ میں قسطنطنیہ میں ایک بڑی یونیورسٹی قائم کی،جس کے ماتحت آٹھ دارالعلوم تھے۔ سلطان نے ایک کالج مفتیوں اور قاضیوں کی فقہی تعلیم کے لیے قائم کیا۔ بقول ارکھاٹ’’ترکی میں کوئی  سلطان ایسانہیں ہے جس نے اپنے پیچھے  ایک کالج نہ چھوڑا ہو اور اس پر کوئی جائیداد وقف نہ کی ہو ‘‘۔ علامہ شبلی نے اپنے مضمون’ مدرسے اور دارالعلوم‘ میں ترکی حکومت کے بہت سے مدارس اور ان کے نام لکھے ہیں ۔ان میں سلاطین کے ساتھ امراء اور خواتین کے نام بھی ہیں۔[11]

ترکوں کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کریسی لکھتا ہے’’محمد ثانی کے پیش رؤں خصوصاً اورخاں(Our Khan ) کو سکولوں، کالجوں کے قائم کرنے کا بہت شوق تھا ،لیکن محمد ان سب سے بڑھ گیا۔ اس نے سلسلہ علماء قائم کیا اور سلطنت کے مفتیوں اور تاجروں کی تعلیم و ترقی کا ضابطہ مرتب کیا۔ حاکم قسطنطنیہ خوب جانتاتھا کہ ایک بہت بڑی سلطنت پیدا کرنے اور اس کو قائم کرنے کے لئے شجاعت اور فوجی قابلیت کے علاوہ کچھ اور بھی ضروری ہے۔ محمد نے جو خود بھی علوم میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا،اپنی رعایا میں تعلیم پھیلانے کے لئے بڑی عالی حوصلگی سے کام لیا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عدالت کا نظام درست رکھنے کے لیے قاضیوں کا احترام ضروری ہے اور ان کا احترام قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ  نہ صرف   علم و دیانت سے آراستہ ہوں بلکہ سلطنت کے اونچے اور معزز عہدوں پر فائز کیے جائیں اور فکر معاش کی جانب سے ان کو مطمئن کر دیا جائے‘‘۔

محمد نے ابتدائی مدارس کے علاوہ بہت سے بڑے بڑے مدرسے قائم کیے۔ ان میں مختلف علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ قرآنی علوم، صرف و نحو، منطق، مابعد الطبیعات، تاریخ، زبان، فصاحت و بلاغت، اقلیدس، ہیئت،وغیرہ پڑھائے جاتے۔ یہ ایک ایسا نصاب تعلیم تھا جس کا موازنہ یقیناً پندرھویں صدی  کے پیرس اور آکسفورڈ کے نصاب تعلیم سے کیا جا سکتا ہے۔ جو طلبہ ان سب علوم میں پوری دستگاہ حاصل کرتے تھے  ان کو دانشمند کا لقب دیا جاتا تھا۔[12]

یہ دانشمند بغیر مزید تعلیم حاصل کیے کسی ابتدائی مدرسے کے اعلی مدرس ہونے کا حق ادا کر سکتا تھا ،لیکن اس صورت میں بھی وہ علماء کی جماعت کا رکن نہیں بن سکتا تھا ۔جماعت علماء کا رکن بننے کے لیے فقہ  کے ایک طویل نصاب کو پورا کرنا ضروری تھا اور یکے بعد دیگرے مختلف امتحانات میں  کامیابی حاصل کرکے متعدد  سندیں لینا پڑتی تھیں۔[13]

لارنپٹ لکھتا ہے،’’1765ء میں سلطان  مصطفے ثالث کے عہد  حکومت میں صرف  حدود قسطنطنیہ کے اندر دو سو پچھتر مدرسے تھے اور انیسویں صدی کے وسط میں سلطان عبدالمجید کے  زمانے میں یہ تعداد تین سو سے اوپر پہنچ گئی تھی۔ عبدالحمید کے زمانہ میں ہر شہر میں کم سے کم  ایک مدرسہ موجود تھا۔ بڑے بڑے شہروں مثلاً ا بغداد اور قاہرہ میں پچاس پچاس مدرسے  تھے ‘‘۔[14]

اُس وقت کی تعلیم کی ترقی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1892ء میں ہر قسم کے مدارس  جو قسطنطنیہ میں تھے  ان کی مجموعی تعداد پانچ سو  تھی جن میں تیرہ بڑے کالج تھے ۔ان  کالجوں اور سکولوں میں سےیہ بہ طور نمایاں تھے:

  1. ’’مکتب حربیہ شاہانہ‘‘ اس کو سلطان محمود ثانی نے فرانس کے فوجی کالج کے نمونہ پر 1830ء میں قائم کیا تھا۔
  2. ’’مکتبہ سلطانی‘‘یہ کالج مکتبہ حربیہ کے سوا تمام کالجوںمیں ممتاز تھا۔
  3. ’’مکتبہ ملکیہ سول سروس کالج‘‘سلطان عبدالحمید خان ثانی کا قائم کردہ تھا۔
  4. ’’مکتبہ الحقوق(قانونی کالج)‘‘ اس میں حسب ذیل مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ ’’قرآنی علوم،فقہ، اصول فقہ، رومن لاء، قانون تجارت، اصول محاکمہ، تعزیرات، قانون بحری، علم سیاسیات، قوانین سلطنت ہائے یورپ،  قانون کی ایجاد کی تاریخ اور اس کا عہد باعہد ارتقاء‘‘۔
  5. ’’مکتبہ الہندسہ‘‘ اس میں مدت تعلیم چھ برس تھی۔
  6. ’’مکتبہ اللسان‘‘ جس میں جرمن، فرانسیسی، یونانی، ارمنی، لاطینی، اطالوی اور روسی زبانیں سکھائی جاتی تھیں۔
  7. ’’مکتبہ الصناعتہ‘‘ (ٹیکنکل اسکول) اس میں حراوی اور نجاری وغیرہ سکھائی جاتی تھی۔
  8. ’’ مکتبہ نواب‘‘ اس کالج میں وہ طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے جو قاضی اور مفتی کے عہدوں کے امیدوارہوتے تھے۔
  9. ’’مکتبہ بحریہ‘‘ اس میں جہاز رانی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
  10. ’’مکتبہ الزراعہ‘‘ 1851ء میں قسطنطنیہ کے قریب سان اسٹیفانو کے مقام پر قائم کیا گیا اور اس میں زراعت، نباتات اور جانوروں کے متعلق نظری اور عملی تعلیم دی جاتی تھی۔
  11. ’’مکتبہ طبیہ‘‘ایک ہسپتال اور حیوانات، نباتات اور طبیعات کا ادارہ بھی اس سے متعلق تھا۔[15]
  12. ’’فوجی انجیئروں کے لیے کالج‘‘ یہ سلطان سلیم ثالث نے قائم کیاتھا ۔
  13. ’’ٹرینگ کالج‘‘ یہ اساتذہ کے لیے مخصوص تھا۔[16]

مذکورہ بالا مدارس میں دینی علوم کے ساتھ کئی دیگر علوم وفنون بھی پڑھائے جاتے تھے۔اب مسلم تاریخ کے چند مزید مدارس کا بہ طور خاص مختصر ذکر کیا جاتا ہے:

سپین کے مدارس

شعبہ تعلیم و تدریس میں اہل سپین نے بہت ترقی کی اور اس ترقی کا ورثہ یورپ کو ملا جس کی برکت سے پورپ نے علوم و فنون میں ترقی کی۔سپین کی چند مشہور جامعات و مدارس کا ذکر حسب ذیل ہے:

سپین کے مشہور جامعات میں جامعہ قرطبہ،جامعہ اشبیلیہ،جامعہ غرناطہ اورجامعہ مالقہ کے نام آتے ہیں۔ جامعہ قرطبہ کا سنگ بنیاد عبدالرحمن الداخل نے رکھا تھا۔ بڑے بڑے علماء اس میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ اورباقاعدہ اس کی طرف سے قلمی سائنسی اور تاریخی معلومات شائع ہوتی رہتی تھیں۔ اشبیلیہ اور مالقہ کی جامعات  دورامیہ میں قائم ہوئی تھیں اور ان کا عروج دورِ طوائف الملوکی میں ہوا تھا۔ غرناطہ کی جامع بنو نصیر کے ساتویں بادشاہ ابو الحجاج یوسف کے زمانہ میں قائم ہوئی تھی۔ لسان الدین ابن الخطیب نے اس جامعہ کو چار چاند لگائے۔ ان کے علاوہ سرقسط اور بطلیموس کے مدارس بھی کافی شہرت یافتہ تھے۔ طلیطلہ کی یونیورسٹی مسلمانان اسپین کی باقیادت  الصالحات کو محفوظ کرنے  کا ایک اہم مرکز بن گئی تھی۔ ایک مدرسہ’’دارالشفقہ‘‘ یتیموں کے لیے مخصوص تھا۔

مصر کے مدارس

مصطفے کمال پاشا مصری نے ایک عظیم الشان مدرسہ مصر میں  قائم کیا جس کا نام مدرسہ مصطفے کامل تھا۔ 7 مارچ 1899ء میں اس کا اقتتاح ہوا۔ علاوہ ازیں مصر میں کثیر تعداد میں مدارس قائم کئے گئے تھے۔

ثمر قند کے مدارس

امیر تیمور اور اس کے جانشینوں نے علم و ہنر کو ترقی دینے کے لیے مدارس قائم کیے۔ ہر مدرسے میں علماءاور مدرسین مقررر کیے۔  وہ علوم دینیہ کا درس مسلمانوں کو دیتے تھے۔ امیر تیمور اپنی تزک میں خود لکھتا ہے:

’’میں نے دین حق کو پھیلانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام مسلمانوں کا ایک صدر مقرر کر دیا جو کہ ان سے اوقات کی پابندی کراتا۔ متولین مساجد اور مؤذنین مقرر کیے۔ قاضیوں، مفتیوں اور محتسبوں کا تعین کیا  اور علماء و مشائخ کے لیے  جاگیریں اور وظیفے مقرر کیے‘‘۔

امیر تیمور نے شہر میں مدارس کھولے جہاں قابل اور نامور اساتذہ مسلمانوں کو دینی علوم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ہیر لڈیم لکھتا ہے:

’’شہر ثمر قند امیر تیمور کے ہاتھوں میں آکر ایشیا کا روما بن گیا۔ ارباب علم و فضل کے لیے بڑے بڑے مدرسے اور کتب خانے قائم کیے۔ ثمر قند میں ایک قدیمی مدرسہ’’مدرسہ بی بی خانم‘‘ تھا جسے تیمور کی چینی بیوی نے قائم کرایا تھا۔ تیمور کے  بیٹے شاہ رخ اور اس کے پوتے الخ بیگ نے ہرات کو بھی علم و ہنر کا مرکز بنا دیا تھا ۔ یہاں بڑے بڑے مدارس قائم ہوئے ۔مدرسہ نظامیہ اور مدرسہ عثمانیہ ان میں بہت مشہور تھے۔ ترک ملوک اور امراء نے ترکستان کو اسلامی علوم کا مرکز بنایا۔ ترکستان  کے شہر بخارا، ثمرقند، مرو، ہرات، ترمذ، بلخ اور کاشغر اسلامی علوم کا سرچشمہ تھے۔ بخارا کے ’مدرسہ مردہرہ‘ میں پانچ ہزار کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے تھے‘‘۔[17]مدرسہ’’کوطلناس‘‘(قائم شدہ1426ء) میں ایک سو پچاس کمرے تھے۔ مدرسہ’’میر عرب‘‘(قائم شدہ 1529ء) میں ایک سو کمرے تھے۔ بخارا کا یہ مدرسہ  وسط ایشیا کے قدیم ترین مدرسوں میں سے ایک ہے۔

جزیرہ جاوا کے مدارس

انڈونیشیا کےجزیرہ جاوہ کے مدارس کے متعلق سر تھامسن ارنلڈ اپنی کتاب ’پریچنگ آف اسلام‘ میں لکھتا ہے کہ 1883ء میں جزیرہ جاوہ میں 10913 مدرسے تھے جن میں 6466 طالب علم دینیات پڑھتے تھے۔ 1882ء  کے بعد تین سال کے عرصہ میں مدارس اسلامیہ کی تعداد میں 33 فیصد کا اضافہ ہوگیا اور1885ء میں 16760 مدرسے ہوگئے جن میں 255148 طلبہ پڑھتے تھے۔

غزنی میں مدارس کا قیام

غزنوی خاندان نے علم و فن کے ترویج و اشاعت میں عالی شان درسگاہیں قائم کیں۔ سبگتگین کے  تیسرے بیٹے ابو المظفر رضا نے نیشاپور میں مدرسہ سعیدیہ قائم کیا جس کو مؤرخین  امہات المدارس میں شمار کرتے ہیں۔

سلطان محمود غزنوی  (وفات:410ھ)نےاپنے دارالحکومت غزنی میں ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا جس میں اس دور کے عظیم علماء درس دیا کرتے تھے۔تاریخِ فرشتہ کے مطابق سلطان کے بیٹے شہاب الدین مسعود(422ھ- 432ھ)  نے  تمام شہروں میں اس قدر مدارس و مساجد تعمیر کروائیں کہ ان کی تعداد بیان کرنے سے قاصر تھے۔ روضۃ الصفا کا مصنف لکھتا ہے کہ مسعود نے ممالک محروسہ کے مختلف حصوں میں اس کثرت سے مساجد اور مدارس تعمیر کروائے کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔

ابراہیم بن مسعود(451ھ- 492ھ) نے غزنی اور اطراف میں چار سو سے زیادہ مدارس اور مساجد تعمیر کروائیں۔[18]  امین احمد رازی مصنف ’ہفت اقلیم‘ کے بیان کے مطابق  غزنی میں مدرسوں اور مسجدوں کی تعداد  بارہ ہزار کے قریب تھی۔  غزنوی خاندان کے بعد غوری خاندان کا عروج ہوا۔ سلطان محمود غوری نے صاحب تفسیر  نے کبیر امام فخر الدین رازی کے لیے ہرات میں جامعہ مسجد کے قریب مدرسہ بنوایا۔

[1] انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا، آرٹیکل: المامون

[2] حسن المحاضرہ، ج2، ص:151

[3] حسن المحاضرہ، ج2، ص:151

[4] ابن خلکان، ج3، ص:280

[5] حسن المحاضرہ، ج2، ص:139

[6] طبقات الشفافعیہ، ج3، ص:137

[7] ابن اثیر، ج10، ص:72

[8] سرنامہ ابن جبیر، ص:229

[9] تاریخ الخلفاء، ص:473

[10] تاریخ الخلفاء، ص:375

[11] مقالات شبلی، ج3، مقالہ’’مدرسے اور دارالعلوم‘‘

[12] تاریخ دولت عثمانیہ، ج1، ص:71

[13] تاریخ دولت عثمانیہ، ج1، ص:71

[14] لارنپٹ،  ج2، ص:143

[15] تاریخ دولت عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیز، ج2، ص:383- 401

[16] ایضاً

[17] تاریخ دولت عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیز، ص:384- 402

[18] روضہۃ الصفا