عصرحاضر میں مذہبی آزادی کا سوال

0

مذہبی آزادی کا سوال عصر حاضر میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پوری دنیا میں سیاسی اور سماجی سطح پر یہ امر واضح محسوس کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پھر یہ مسئلہ کسی ایک خطے یا قوم کا نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں مذہبی عدم برداشت ایک مسئلہ بن سامنے آئی ہے۔ اگرچہ وہ خطے جہاں سیاسی اور سماجی ڈھانچے کمزور ہیں اور قانون کی حکمرانی کے مسائل زیادہ ہیں وہاں مذہبی عدم برداشت کے مظاہر بھی زیادہ کھل کر سامنے آتے ہیں۔مسلم دنیا کو بھی اس صورتحال سے استثنا حاصل نہیں ہے۔ یہاں مذہبی آزادی سے جڑے مسائل اور ان کی شدت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا اس بات کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے کہ اس مسئلے کو تسلسل کے ساتھ موضوعِ بحث بنایا جائے۔ صرف اس معنی میں نہیں کہ مسئلے کی موجود گی پہ بات کی جائے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرورت رہی ہے کہ مسئلے کی مختلف جہات کا زیادہ وسیع تناظر میں تجزیہ کیا جائے۔اس کے لیے مسلم دنیا اور مغربی دنیا کے تجربات و افکار کو بھی زیربحث لانے کی ضرورت ہے اور ان امور کو عوامی سطح پر اجاگر بھی کیا جانا چاہیے۔

مسلم دنیا میں مذہبی آزادی کا سب سے بنیادی پہلونظریاتی ہے۔ عام طور پہ اگر عدم برداشت نظر آتی ہے یا اس نوع کے واقعات و سانحے رونما ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ سبب کافرما ہوتا ہے کہ مذہبی آزادی کا حقیقی دینی تصور ذہنوں میں راسخ نہیں ہے۔مذہبی آزادی دراصل سماجی آزادیوں کا ایک لازمی حصہ ہے۔سماجی آزادی یا سول فریڈم، آزادی کے ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جوسماج میں رہتے ہوئے انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہوں۔اس میں انسان کی آزادی (غلامی کے ملکیت والے تصور سے)، غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی ، عقیدے کی آزادی جیسی تمام آزادیاں شامل ہیں۔یہ تصور جدید ریاست و معاشرت کی اساس ہے۔ آزادی کی تعریف پر نظر ڈالتے ہی یہ سوال ابھر کرسامنے آتا ہے کہ کیا مذہب اور آزادی میں مطابقت ممکن ہے؟ یعنی کیا مذہب اور آزادی ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں ؟ عموما مغربی دنیا کے جدید مفکروں کے یہاں آزادی کے حوالے سے گفتگو میں یہ احساس ابھر کرسامنے آتا ہے کہ مذہب آزادی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے اور اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں آزادی اور حقوق حاصل کرنے کے لیے معاشرے کو مذہبی پیشواؤں اور اداروں بالخصوص چرچ کی سخت گیر بیڑیوں سے لمبی لڑائی کے دور سے گزرنا پڑا ہے۔ ماقبل جدید کی تاریخ میں یورپ مذہبی اداروں کے تحت اس قدر جکڑا ہوا تھا کہ زندگی کے ہر شعبے کے تعلق سے انسان بے بس لاچار اور مذہبی پیشواؤں کا مرہون منت تھا۔ علمی وفکری معاملات ہوں یا عائلی اور سیاسی ، سماجی مسائل ہوں یا معاشی، ہر سطح پر اسی مذہبی طبقے کی اجارہ داری اور قبضہ تھا۔ ایسے پس منظر میں اس تصور کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن سوال اسلام اور آزادی کی باہمی نسبت کے حوالے سے اہم ہے کہ کیا اسلام اور آزادی باہم ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ اہل مغرب تو اس تعلق سے مذاہب کے درمیان فرق نہیں کرتے مگر خود مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ یہی گمان کرتا ہے کہ اسلام اور آزادی یکجا نہیں ہو سکتے۔اور یہی نظریاتی پہلو اس مسئلے کی اساس ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی جس قدر مضبوط بنیاد مذہب کے اندر سے پیش کی جاسکتی ہے وہ جدید دنیا میں پیش کی گئی بنیادوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور پائدار معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ مغربی مفکرین کے یہاں آزادی دراصل تقاضا ہے انسانی شرف کا۔جب کہ مذہبی تعلیمات کے مطابق کائنات کی تخلیق کا لازمی تقاضا ہی یہ ہے کہ ہر کوئی آزاد ہو اور اپنی آزادی کے ساتھ اپنے چنے ہوئے راستے کے ثمرات سے مستفید بھی ہو اور ان کے متعلق جوابدہ بھی ہو۔

معاصر معاشرت میں آزادی اظہارِ رائے کو جو حیثیت حاصل ہے اس کا اندازہ بین الاقوامی امور سے واقفیت رکھنے والا ہر فرد لگا سکتاہے، اور اس ضمن میں مذہبی اظہاریے سرفہرست آتے ہیں۔آج آزادیِ تقریروتحریر انسانی حقوق کا ایک اہم جزوہے۔  انسان کے جذبات اور احساسات کو اگر کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو وہ احتجاج کاحق رکھتا ہے ۔ وہ اپنی مظلومیت کا اظہار کرسکتا ہےتاکہ اُس کو انصاف حاصل ہوسکے ۔  دنیا کے تمام معاصر مفکرین متفق ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے سلسلے میں آزادہے البتہ یہ ضروری ہے کہ اس طرز عمل سے دوسروں پر زیادتی نہ ہو۔ اگر کسی قوم یا شخص کے سیاسی،مذہبی اور اقتصادی و سماجی حقوق پامال کئے جاتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز اُٹھا نے کا بھر پور حق رکھتے ہیں ۔ یورپ میں اس طرزِ فکر کی ابتدا وسطی دور میں ہوئی ۔برطانیہ میں اظہارِ رائے کی تاریخ کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے۔ انسان کی انفرادی آزادی اور جمہوری حقوق کے لیے کوشش ہوئی ۔امریکہ میں اس رجحان کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسطی دور سے ہوا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آزادی اظہار رائے کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ۔  انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ ۱۹میں اسے انسانی حق مانا گیا۔