معاصر معاشرت اور مسلم تاریخ:تکثیریت پسندی کی مثالیں

0

معاصر معاشرت جن جدید تصورات پر کھڑی ہے مسلم دنیا میں ان تمام تصورات کی عملی صورت گری نہیں ہوسکی۔اسی لیے باقی دنیا کی طرح مسلم دنیا میں بھی  بلاشبہ اقلیتوں کے مسائل موجود ہیں جو کہیں کہیں شدید نوعیت کے بھی ہیں۔یوں مسلم دنیا کے بارے میں یہ تصور راسخ ہوگیا ہے کہ ان میں اقلیتوں اور مذہبی آزادی کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مسائل کی موجودگی کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تصور میں کچھ غلط فہمیاں بھی شامل ہیں۔اہل مغرب میں اسلام کے بارے یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اقلیتو ں کے حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مغرب سے مکالمہ میں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عہدِ رسالتﷺ اور اس کے بعد کی اسلامی دنیا بالخصوص مصر، لبنان ،انڈیا اور عثمانی ترکوں کے دور میں ہمیشہ قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے ۔اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیر یت کا وجود اس موقف کی واضح شہادت مہیا کرتاہے ۔ ماضی میں ہسپانیہ کے مسلم عہد میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل رہےوہ اُس دور کے اعتبار سے ایک ایسی مثال تھی جسے آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اُس وقت خصوصا یہودیوں کے لیے اگر کوئی امن کی جگہ تھی تو  وہ صرف مسلم خطے تھے۔جب صلیبی جنگیں عروج پر تھیں تب بھی اقلیتوں کو اتنا تحفظ اور حقوق میسر تھے کہ یہودی اور مسیحی شہری اپنی کتب مسلمانوں کے چھاپہ خانوں سے شائع کرارہے تھے۔

اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آج مسلم دنیا کے کئی خطوں میں مذہبی رواداری کی عمدہ مثالیں اور نمونے بھی موجود ہیں۔ بالخصوص مشرق وسطی میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔خلیجی ممالک باقاعدہ ریاستی سطح پر اس حوالے سے بین الاقوامی معیار کے پرزور اقدامات کر رہے ہیں۔ادارے قائم کیے جارہے ہیں، تصنیفی و تحریری مواد شائع کیا جا رہا ہے،طلبہ کی تربیت کی جارہی ہے۔ بلاشبہ اِس وقت مشرق وسطی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جس طرز کے اقدامات ہو رہے ہیں ایسا کسی اور جگہ نہیں ہو رہا۔ یہ صورتحال وقت کے ساتھ بہتر ہوتی محسوس ہوتی۔