مغربی سیاست و سماج میں اسلاموفوبیا: اسباب، مسائل اور تدارک

0

فکری حلقوں میں جب مذہبی آزادی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ جو پہلو زیربحث آتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ بعض ادیان یاکمیونیٹیز کو کچھ علاقوں میں زیادہ منافرت کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے اور ان سے خوف کا احساس کیسے پیدا کردیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال مغرب میں اسلاموفوبیا ہے، جو پہلے سماجی سطح تک تھا مگر وقت کے ساتھ مرکزی سیاست میں بھی اس کے اثرات نظر آنے لگے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کے بلاشبہ ٹھوس اسباب ہیں، تاہم اس خوف یا منافرت کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس کا تدارک کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے مغرب میں موجود ایک بڑی کمیونٹی کو خطرات لاحق ہیں اور اس فوبیا کے سبب مسلم دنیا بارے عدم اعتماد کی فضا تنازعات کو مزید ہوا دیتی ہے۔ اِس مضمون میں مغربی سیاست و سماج میں اسلاموفوبیا کے اسباب، مسائل و تدارک پر گفتگو کی گئی ہے۔ مضمون نگار سماجی کارکن اور دانشور ہیں، بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔

فوبیا کا لغوی معنی بے جا خوف اور نفرت ہے، انگریزی میں Xenophobia(دوسرے ملک کے لوگوں سے نفرت/خوف) Anti-Semitism (یہودیوں کے خلاف نفرت / خوف) جیسے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں، مجموعی اعتبار سے ان تمام اصطلاحات  میں عدم رواداری اور نسل پرستی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

یہ اصطلاح دو لفظ سے مل کر بنی ہے، یعنی اسلام اور فوبیا، ان دونوں لفظوں کے بیچ میں انگریزی زبان کا ’’O‘‘ بھی بڑھایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان نسبت کا معنی پیدا ہو جائے، اس طرح اسلامو فوبیا کا معنی اسلام سے بے جا خوف، نفرت اور مسلمانوں کے بارے میں منفی ذہنیت رکھنا ہے۔

اسلامو فوبیا کی ابتدا و ارتقاء

اگرچہ اسلامو فوبیا ایک جدید اصطلاح ہے مگر اس کی بنیادیں کافی قدیم ہیں، ایک ریسرچ اسکالر کی رائے ہے کہ اس اصطلاح کو 1921 میں سب سے پہلے فرانسیسی مستشرقEtienne Diet نے استعمال کیا،  اس کے بعد 1991 میں امریکی رسالہ “Insight Magazine” میں یہ اصطلاح  استعمال ہوئی، اس اصطلاح کو شہرت اس وقت ملی جب 1991 میں برطانیہ  کے ایک مشہور ادارہ Runnymede Trustنے اسلامو فوبیا کے موضوع پر ایک تفصیلی رپورٹ “Islamophobia: A Challenge for all us” کے عنوان سے  شائع کی۔ جنوری 2001 میں Stock Holm International Forum نے Xenophobia اور Anti-Semitism کی طرح  اس لفظ کو بھی نسل پرستی اور عدم رواداری کے دائرہ میں شامل کر لیا گیا۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثہ کے بعد  اسلامو فوبیا کا لفظ کثرت سے استعمال ہونے لگا، یہاں تک کہ 2004 میں اقوام متحدہ نے  اسلامو فوبیا پر قابو پانے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جناب کوفی عنان نے اسلامو فوبیا کو افسوس ناک ، تکلیف دہ اور امتیاز پر مبنی رجحان قرار دیا، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اسلامو فوبیا  مغربی ملکوں میں ہمیشہ رہا ہے، البتہ پچھلے دو دہوں سے  اس رجحان میں شدت اور تیزی پیدا ہو گئی ہے۔اس رائے کی تائید میںHumphriies, Pater  اور  Naikلکھتے ہیں:

“Islamophobia has always been present in Western countries and cultures. In the last two decades, it has become accentuated, explicit, and extreme.”  (The 3 R,s in social work – Religion, Race, Racism PP.197-198).

اس کے بر خلاف ماہر سماجیات پروفیسر Vertovec کی رائے ہے کہ اس رجحان میں تیزی نہیں آئی ہے، بلکہ عوامی زندگی میں  اس کو دریافت کرنے کا صرف مزاج پیدا ہوا ہے۔

“Islamophobia has not necessarily escalated in the past decades, but that there has been increased public scrutiny of it.” (Islamophobia and Muslim recognition in Britain PP32-33).

اسلامو فوبیا کے اسباب

الف- اسلام کے بارے میں غلط فہمی:

اسلامو فوبیا کا ایک سبب یہ ہے کہ مغربی  قوموں میں اسلام سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، اس غلط فہمی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ان کے سامنے اسلام کی تفہیم بہت مشکل ہے، مثلاً وہ اسلام کو مغرب کے مقابلہ میں مختلف سمجھنے کے بجائے اس کو مغرب سے کمتر سمجھتی ہیں، اسلام کو متنوع اور ترقی پسندمذہب سمجھنے کے بجائے اس کو منجمد اور ترقی کا دشمن مانتی ہیں، اسلام ان کی نظر میں حلیف ہونے کے بجائے حزب مخالف ہے، اس لئے یہ قومیں  اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیاز کو نو صرف درست خیال کرتی ہیں بلکہ  اس کی پزیرائی بھی کرتی ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مغرب میں امتیازو نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والے ہیں، ان کی نظر میں بھی اسلامو فوبیا کوئی بری بات نہیں ہے، صورتحال یہ ہے کہ یورپ اور مغربی دنیا میں   اسلام اور مسلمانوں کی ایسی تصویر بٹھا دی گئی ہے  کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان ان کی قومیت اور تہذیب کے بالکل برعکس ہیں، لہذا ان سے مفاہمت او ر  ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔

ب- مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی

یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے عرصہ میں یورپ، امریکہ، برطانیہ وغیرہ میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے ، چنانچہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی 5 ملین ہو گئی ہے، جرمنی  میں مسلمانوں کی آبادی 4 ملین سے متجاوز ہےاور اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ترکی یورپ میں شامل ہو گیا تو  یورپ میں مسلمان اکثریت میں آجائیں گے، امریکہ میں بھی مسلمانوں کی آبادی 5 ملین ہو چکی ہے اور پھر اس تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، اسی وجہ سے مغربی قومیں مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں، حکومتیں اس کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ مگر ماہر سماجیات پروفیسر Steven Vertovec  کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے مسلمانوں کو عوامی زندگی میں نمایاں مقام تو ضرور ملے گا مگر اس سے اسلامو فوبیا کا ازالہ نہیں ہو سکے گا، کیونکہ مسلم مخالف افراد اور تنظیموں کے منفی جذبات  اس سے اور بڑھیں گے۔

“As the public sphere shifts to provide a more prominent place for Muslims, Islam phobic tendencies may amplify.” (Islamophobia and Muslim Recognition in Britain PP 32-33).

ج- میڈیا کا منفی کردار

اسلامو فوبیا کو فروغ دینے میں میڈیا سب سے زیادہ پیش پیش رہی ہے، اس بات کا اعتراف الیزبتھ پال نے انسائکلوپیڈیا آف ریس اور ایتھنک اسٹڈیز میں کیا ہے، مثال کے طور پر 1994 سے لے کر 2004 تک برطانوی پریس میں شائع ہونے والے  مضامین کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے نقطہ نظر کی نمائندگی بہت کم ہوئی ہے اور اگر کچھ ہوئی بھی تو وہ منفی نقطہ نظر سے۔ جواد اور بین لکھتے ہیں:

“Hostility towards Islam and Muslim are closely linked to media portrayals of Islam as barbaric, irrational, primitive and sexist.” (Benn, Jawad).

دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامو فوبیا

دنیا کے اکثر حصوں میں اسلامو فوبیا کے واقعات رونما ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں بھی اسلامو فوبیا کے اثرات دیکھنے میں آتے ہیں، گودھرا فسادات اس کی واضح مثال ہیں،سچر کمیٹی رپورٹ میں بھی اس بات کا  اعتراف کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، اس  کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں، سماجی اور سیاسی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی تشویشناک حد تک کم ہے، مثلاً مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 27 فیصدہے  لیکن سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب بمشکل 3 فیصدملے گا۔

اسلامو فوبیا کا اظہار حالیہ دنوں میں ہونے والے ’’گلوبل مانیٹر‘‘  نامی ادارہ کے ایک سروے سے بھی ہوتا ہے، اس سروے کے مطابق 62% جرمن  باشندے اسلام کی وسعت سے فکر مند ہیں جبکہ 33% لوگ  اسلام کی اشاعت سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں  اور صرف 29 فیصدلوگ  اس بارے میں معتدل رائے رکھتے ہیں ، اسی ادارہ کی جانب سے ہونے والے دوسرے سروے میں بتایا گیا ہے کہ 37% برطانوی باشندوں کا  خیال ہے کہ مساجد کے میناروں پر پابندی لگائی جائے۔ 25فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ  میناروں پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہے،امریکہ میں 21فیصدلوگوں کی رائے ہے کہ میناروں پر پابندی لگنی چاہئے جبکہ 19فیصدلوگ اس کے خلاف ہیں، کینیڈا میں بھی 35فیصدلوگوں کی  رائے ہے کہ مساجد کے میناروں پر پابندی لگنی چاہئےجبکہ 27فیصدلوگوں نے اس سے اختلاف کیا ہےپیورریسرچ سنٹر کے سروے کے مطابق ٹیکساس میں قائم فورٹ ہوڈ آری سنٹر پر میجر ندال ملک حسن کی فائرنگ کے بعد52فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ اسلام  امریکہ کے لئے شدید خطرہ ہے، اس قسم کے سروے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں سے عمومی طور پر خوف زدہ ہے اور مغرب میں خاص طور پر اس بارے میں سماجی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

اسلامو فوبیا کی تردید

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اس اصطلاح کی کوئی اصل نہیں ہے، مارچ 2006 ء میں اس  نظریہ سے وابستہ 12 مصنفین نے  ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس اصطلاح کو غلط  قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل پرستی ہی کی ایک قسم ہے، اس لئے اس کو ایک الگ نام دینے کی ضرورت نہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامو فوبیا کی اصطلاح کے ذریعہ  اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگتی ہے اور روح تنقید متاثر ہوتی  ہےجو کسی بھی ترقی یافتہ معاشرہ کے لئے مناسب نہیں ہے، انہوں نے یہ الزام لگایا کہ مسلمانوں کے خلاف  نفرت کا جو ماحول ہے وہ مسلمانوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سےہے،  اس لئے مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے نہ کہ  ان کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش۔

Roger Kinball کا کہنا ہے کہ اسلامو فوبیا غلط اصطلاح ہے؛ کیو ں کہ فوبیا کامطلب بے جا خوف ہے جب کہ اسلام کا خوف بجا ہے اور اس خوف کی بنیادیں درست ہیں:

“A phobia describes an irrational fear, and it is axiomatic that fearing the effects of radical Islam is not irrational, but on the contrary very well-founded indeed.” (After the suicide of the west-2006)

“Many of the stereotypes and misinformation that contribute to the articulation of Islamophobia are rooted in a particular perception of Islam, such as the notion that Islam promotes terrorism; especially prevalent after the September 11, 2001 attacks.” (Islamophobia watch)

Runnymede Trust نے اپنی رپورٹ میں مغربی نظریات کو 8 شقوں میں بیان کیا ہے، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

  • Islam is seen as a monolithic bloc, static and unresponsive to change.
  • It is seen as separate and “other”. It does not have values in common with other culture, is not affected by them and does not influence them.
  • It is seen as inferior to the west. It is seen as barbaric, irrational, primitive and sexist.
  • It is seen as violent, aggressive, threatening, supportive of terrorism and engaged in a clash of civilization.
  • It is seen as a political ideology, used for political or military advantage.
  • Criticisms made of “the west” by Muslims are rejected out of hand.
  • Hostility towards Islam is used to justify discriminatory practices towards Muslims and exclusion of Muslims from mainstream society.
  • Anti-Muslim hostility is seen as natural and normal. (Runnymede trust,s report on Islamophobia-1997)

1 – اسلام کے بارےمیں خیال ہے کہ یہ ایسا سیاسی  نظام ہے جو کسی دوسرے نظام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ وہ  تبدیلیوں کے خلاف ہے۔

2 – ان کا خیال ہے کہ اسلام مغربی دنیا سے الگ تھلگ  رہنے والا ایک جامد مذہب ہے اور وہ مشترکہ اقدار حیات میں یقین نہیں رکھتا ہے، اس میں نہ قبول کرنے کی صلاحیت ہے اور  نہ  ہی اثر انداز ہونے کی۔

3 – اسلامی نظام کو مغربی نظام سے کمتر سمجھا جاتا ہے، اور اس غیر مذہب، عیر معقول، قدامت پرست اور جنسی امتیازات کی وکالت کرنے والا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔

4 –    اسلام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تشدد کا حامی،جارحانہ، خطرناک، دہشت گردی کو فروغ دینے والا اور تہذیبی تصادم کو بھڑکانے والا مذہب ہے۔

5 – اسلام کو روحانی مذہب سمجھنے کی بجائے اس کو ایک ایسا سیاسی نظام سمجھتے ہیں جس کا استعمال سیاسی اور عسکری بالادستی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

6 – مسلمانوں کی طرف سے مغرب کے  خلاف جو آواز اٹھائی جاتی ہے  اس کو فوراً رد کر دیا جاتا ہے۔

7 –مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کو سماجی دھارا سے خارج کرنے کے لئے اسلام پر ستم ڈھایا جاتا ہے۔

8 – مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کو فطری اور معمول کی کاروائی قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم Runnymede Trust کی رپورٹ خامیوں سے خالی نہیں؛ کیوں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ Self Help کے طور پر مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ  زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہئے اور ہر وہ چیز جس سے یہودیوں کے احساسات کو ٹھیس لگتی ہو، مسلمانوں کی طرف سے اس کی بھرپور مذمت ہونی چاہئے۔ لیکن اسی ادارے نے 1995 ء میں Anti-Semitism پر رپورٹ شائع کی تو یہودیوں کو یہ مشورہ دینا گوارہ نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں کے احساسات کا لحاظ رکھیں۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان دانشوروں کے ہاں بھی اسلاموفوبیا کا عنصر موجود ہے۔

اسلامو فوبیا کے تدارک کی کوششیں

اسلامو فوبیا کے تدارک کے لیےRunnymede Trustنے 60 سفارشات پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو میڈیا اور سیاست میں اپنا اشتراک بڑھانا چاہیے، چنانچہ اس رپورٹ کے بعد ہی  برطانیہ میں مسلمانوں  نے ایک ادارہ’’مسلم کونسل آف برطانیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا تاکہ متحد ہوکر حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں اور انہوں نے میڈیا کے اداروں سے بھی ربط و ضبط بڑھایا تاکہ زرائع ابلاغ میں اپنی بہتر نمائندگی کر سکیں ، ظاہر ہے کہ صرف سیاست اور صحافت کے میدان میں کوشش کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکیں گےبلکہ درجنوں ایسے میدان ہیں جہاں اسلامو فوبیا کا معاملہ درپیش ہے  اور وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلامو فوبیا کے خلاف کئی شخصیتیں اور ادارے سرگرم ہیں مثلاً آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس(امریکہ) جس نے اس رجحان کے لیے دستاویزات تیار کیے ہیں، فرانسیسی مسلمانوں نے دستخطی مہم شروع کی اورپچاس ہزار لوگوں کے دستخط  کے ساتھ سابق صدر کو ایک پٹیشن پیش کی  اور ان سے مطالبہ کیا کہ اسلامو فوبیا  کو نسل پرستی کی طرح قابل جرم قرار دیا جائے۔ کئی برطانوی تنظیموں نے اسلامو فوبیا کے نام پر سیمینار منعقد کئے تاکہ اس رجحان پر قابو پایا جاسکے، ان کے علاوہ کئی تنظیمیں اور ادارےاس میدان میں متحرک ہیں مثلاً’’اسلامو فوبیا واچ‘‘ جس کا آغاز جنوری 2005  میں ہوا، اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامو فوبیا جو مغربی استعمار کی نئی شکل ہے، اس پر قابو پایا جا سکے، خاص بات یہ ہے کہ اس  ویب سائٹ کو دیگر مسلم افراد نے  قائم کیا ہے، اسی طرح Islamphobia.org   اور Islamicawareness.net  جیسی ویب سائٹس اس میدان میں کام کر رہی ہیں، اس رجحان پر قابو پانے کے لیے پروفیسر دیپاکمار جیسی شخصیت اس اہم معرکہ میں حصہ لے رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہر باضمیر انسان کو اسلاموو فوبیا کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

“At time like this, people of conscience need to organize and speak out against Islamophobia.” (Fighting Islamophobia: A response to critics-2006).

متعدد مغربی ملکوں کےدستور میں مسلمانوں کے سیاسی دستوری اور تہذیبی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن ازروئے انصاف ملنے والے حقوق  جبکہ ازروئے حقیقت انہیں جو کچھ ملتا ہے اس میں بڑا فرق اور تضاد ہے، مقامی افسران اکثر انتہا پسند وں سے مل جاتے ہیں اور دستور کے تحت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو دئیے گئے حقوق کی پامالی میں معاون ہوتے ہیں اس کی ایک مثال  نئی مسجدوں کی تعمیر کی عوامی مخالفت ہے ، اور حکام اقلیتوں کو ان کے دستوری حقوق کی ضمانت  دینے میں ہچکچاہٹ  کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عوام کا ساتھ دیتے ہیں، اٹلی، جرمنی اور اسپین میں نئی مساجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج بہت پھیلا ہوا ہے، اگر مقامی حکام نئی مسجدوں کی تعمیر کی اجازت بیھ دیتے ہیں تو وہ شہر سے  دور ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جو عموماً انتہا پسندوں کی  نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر مسلمانوں کے لئے اس کے سوا چارہ کار نہیں کہ وہ پرائیویٹ ہال، موٹر گیراج،دفتروں یا مکانات میں ہی نماز ادا کریں، اسلامی سنٹروں کی تعمیر کے لیے بھی مقامی حکام اسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اسی طرح حلال خوراک کی فراہمی ، اسکولوں میں سر ڈھکنے کے معاملہ میں ایسا ہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔

مغرب میں تارکین وطن کا مسئلہ ، تنازع اور احتجاج کا موضوع بنا ہوا ہے،اکثر اس پر نسل پرستی اور غیر لوگوں سے اجتناب کے اثرات بھی نمایاں ہوتے ہیں، تارکین وطن کے مسئلہ پر سیاسی مہم جوئی بھی ہوتی ہے اور اکثر اس  سے سیاسی صف آرائی کا ماحول بھی پیدا ہو جاتا ہے، انتہا پسند سیاسی پارٹیاں لوگوں میں خوف  کا ماحول پیدا کرتی ہیں، مہاجروں کی دوسری اور تیسری نسل کے  افراد کو بھی جو مغربی ممالک میں ہی پیدا ہوئے  اور پروان چڑھے انہیں بھی غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے، الیکشن میں مہاجرین/تارکین وطن کا مسئلہ زور شور سے اٹھایا جاتا ہےاور حکومت کو ان مہاجرین کے خلاف اقدامات کرنے ہوتے ہیں اس خوف سے کہ کہیں الیکشن میں  وہ انتہا پسند سیاسی جماعتوں سے ہار نہ جائیں۔