مذہبی آزادی میں حائل رکاوٹیں اور فرقہ واریت

0

فرقہ واریت صرف مسلکی اختلاف کی شدت کی صورت میں ہی سامنے نہیں آتی بلکہ یہ  کئی حوالوں سے معاشرے کو تفریق اور انتشار کا شکار بناتی ہے۔ اسی کے ہی بطن سے تکفیر نے بھی جنم لیا۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے، نہ صرف ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ اس کی تاریخی جڑیں ہیں جن کو کھولنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عنصر کس قدر خطرناک ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے مسلکی تقسیم، اس کی تاریخی بنیادوں اور تکفیر کے عوامل پر کلام کیا ہے جو عصرحاضر کی فرقہ وارانہ شکلوں کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ڈاکٹر سید محسن نقوی  آغاخان یونیورسٹی میں پروفیسر، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور تاریخ و علم الکلام کے جید عالم ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور رواداری  ومکالمہ کے نقیب ہیں۔

مسلمان اور غیر کاتصور

مسلکی فرقہ واریت کو سمجھنے کے لیےضروری ہے کہ سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ‘‘مسلمان اور غیر’’ کے تصورات کو واضح طور پر سمجھ لیا جائےکیوں کہ فرقہ دراصل مسلمانوں کے اندر ہی ’غیر‘ قرار دینے سے وجود میں آتا ہے، جب  ’غیر‘ کا تصور انتہاء و شدت اختیار کرتا ہے تو تکفیریت جنم لیتی ہے۔ ضروریات دین کی دو قسمیں ہیں اول عقائد کے اعتبار سے توحید، نبوت، معاد، ملائکہ، قرآن مجید، ختم نبوت، دوم عبادات کے اعتبار سے نماز قائم کرنا، زکاۃ اداء کرنا،  ماہ صیام کے روزے رکھنا، حج بیت اللہ شریف کرنا، جہاد کے وقت شرعی اجازت سے جہاد کرنا شامل ہیں۔ اسی میں ایک اہمیت اسلامی قواعد کے مطابق ذبیحہ کرنا اور قبلہ رخ ناز اداء کرنا بھی ہے۔اس ضمن میں دو نصوص شرعی ملاحظہ ہوں۔

۱۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۔[1]

ترجمہ:’’ اے ایمان لانے والو! ایمان لے آؤ اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو س نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ہر اس کتاب پر جو وہ نازل کرچکا؛ اور جس نے انکار کیا اللہ کا، اس کے ملائکہ کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا، اور یوم آخرت کا وہ بہت ہی زیادہ گمراہ ہے‘‘۔یہ سب عقائد متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔

۲۔عن أنس بن مالک، قال، قال رسول اللہ ﷺ  من صلی صلاتنا، و استقبل قبلتنا، وأکل ذبیحتنا، فذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ، فلا تخفروا اللہ في ذمتہ۔ [2]

ترجمہ:جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا، اور ہماری طرح کا ذبیحہ کھایا پس وہ مسلمان ہے اور اس کے ذمہ دار اللہ اور اس کے رسول ہیں، پس تم اس کے عہد کو نہ توڑو۔

ایک اور حدیث صحیح میں ہے کہ :

عن أنس بن مالک، قال، قال رسول اللہ ﷺ  أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا إلہ إلا اللہ، فإذا قالوھا ، و صلوا صلاتنا، واستقبلوا قبلتنا، و ذبحوا ذبیحتنا، فقد حرمت علینا دمائھم، و أموالھم إلا بحقھاو حسابھم علی اللہ۔ [3]

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ ولیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر جب وہ یہ اقرار کرلیں اور ہماری طرح نماز ادا کریں، ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں، اور ہماری طرح ذبیحہ کریں تو ہم مسلمانوں پر ان کا خون بہانا اور ان کے اموال پر قبضہ کرنا حرام ہے، مگر یہ کہ اسے حق کے ساتھ انجام دیا گیا ہو، نیز ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔(یعنی کسی کے قصاص میں قتل کیے جائیں یا مال میں سے دیت یا دیگر وجوہ شرعیہ ادا ءکیے جائیں)

یہ صحیح احادیث ان لازمی امور کو بیان کر رہی ہیں جن کے بغیر ایک انسان مسلمان نہیں ہوسکتا، نیز یہ کہ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد کوئی امر انسان کو دائرہ اسلام سے باہر نہیں کرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘‘مسلمان’’ وہ ہے جو اس اعتقادی اور عملی دائروں کے اندر ہے۔

فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد

فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیادی وجہ ان دوائر کو پھیلا کر ان میں ان باتوں کو شامل کرلینا ہے جن کو یہ دائرے شامل ہی نہیں ہیں۔اس روش  کو پروان چڑھانے میں ان کتابوں نے بھی  حصہ لیا ہے جو گزشتہ ایک ہزار سالہ  اسلامی تاریخ میں فرق ہائے اسلامیہ کے تذکروں پر لکھی گئ ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معمولی اختلافات کو ایک نئے فرقے کا نام دے دیا گیاخواہ ان کا کوئی نظام عقائد و عمل موجود ہو یا نہ ہو۔ خاص طور پر امام ابو الحسن اشعری کی کتاب مقالات الاسلامیین اور اسماعیلی مصنف شہرستانی کی الملل و النحل، نوبختی کی فرق الشیعہ، بغدادی کی الفرق بین الفرق،  اس ضمن میں نمائندہ کتابیں ہیں۔ بناء بر ایں بعد کے تذکرہ نویسوں نے اسی روایت کو آگے بڑھایا اور یوں مزید فرقے فہرست میں شامل ہوتے گئے۔ اور شرعی معنوں میں ہر فرقے نے دوسرے فرقے کو اپناغیر مان لیا۔ ان فرقوں نے جن مسائل کی وجہ سے  دوسروں کو غیر مانا وہ یا تو عقائد سے متعلق تھے یا پھر اعمال کی انجام دہی میں فروعی اختلافات سے۔ یہ اختلافات اتنے معمولی ہیں کہ ان کی بناء پر کوئی مسلمان دائرہ اسلام سے خارج  تصور نہیں ہوسکتا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جس آیہ مبارکہ اور جن احادیث صحیحہ کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے وہ ان امور کے بیان سے خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی کو مسلمان سمجھنے کی ایک وجہ موجود ہو جب کہ ننانوے وجہیں اس کے خلاف جاتی ہوں تو بھی اسے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ماضی کے مسلکی اختلافات

فرقوں کے وجود میں آنے کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ عقائد و فقہی مسائل کا اختلاف ہوا لیکن علماء نے اسے فرقوں کی بجائے مسالک و مذاہب کا نام دیاکیوں کہ یہ اختلافات تفریعات و تأویلات پر مبنی تھے نہ کہ ایک دوسرے کی ضد پر، دوسرا اہم امر یہ ہے کہ بہت سے فرقوں کی پیدائش سیاست کی وجہ سے ہوئی ہے یا یوں کہہ لیں انھیں مختلف ادوار میں حکمرانوں کی حمایت یا مخالفت کے لیے پیدا کیا گیا یا وہ وجود میں آئے۔ تاریخ کا گہرا مطالعہ یہ بھی منکشف کرتا ہےکہ ایک ہی فرقے نے مختلف سیاسی ادوار میں حسب ضرورت روپ دھارےہیں یا بعض عقائد کو اگر حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو شائد آج وہ کسی اور روپ میں ہوتے مثلا خلق قرآن کا عقیدہ  اور اس میں علماء کی تکالیف جنھیں المحنۃ کہا جاتا ہے، یا معتزلہ کی موافقت و مخالفت کو ہی لے لیں کہ اس تحریک کو بھی چنداں حکومتی سرپرستی حاصل رہی اور اس کے مخالفین کو بھی۔اس کی دوسری بڑی مثال وہابیت کی ہے، جس کے بارے میں اعترافات سامنے آئے ہیں کہ یہ ایک تعبیر اسلام تھی جو سیاسی مقاصد کے حسول کے لیے اختیار کی گئی تھی۔ پہلے امریکہ و یورپ نے ایران کی شیعیت کو دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دی اور پھر وہابیت کو، اور اس کے خاتمے و تضعیف کی کوششیں شروع کیں۔

تکفیر نے کیسے جنم لیا؟

یہاں تک تو معاملہ صرف دو دائروں میں تھا یعنی سب مسلمان ہیں لیکن اس دائرے کی نسبت سے ہر مسلک کا ایک دائرہ جو تھوڑا یا زیادہ اس بڑے دائرے کےباہر ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ۔اپنائیت کے ساتھ غیریت بھی تھی لیکن اس پر اپنائیت غالب تھی۔ بعد ازاں یہ ہوا کہ لوگوں پر حکم  اپنائیت کی بجائے غیریت کو سامنے رکھ کر لگایاجانے لگا یعنی کون ہمارا کتنا غیر ہے۔ اس طرز فکر نے تکفیریت کو کو جنم دیا اور فرقوں نے اپنی اور غیروں کی شناخت کے لیے کچھ ایسے امور مقرر کرلیے جن کا درج بالا آیات و احادیث سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلا بعض فرقوں کے نزدیک امامت منصوص من اللہ  کا انکارکفر قرار دے لیا گیا، اور بعض کے نزدیک اس کا اقرارکفر ہے  کیوں کہ ان کے خیال میں اما م کو منصوص من اللہ ماننا گویا ختم نبوت کا انکار ہے، حالانکہ دونوں امور کو قرآن مجید سے ثابت کرنا ممکن نہیں اور نا ہی یہ دین کا مطالبہ ہے، اسی طرح صحابہ کرام کو معصوم عن الخطاءماننا نہ قرآن کا تقاضا ہے اور نا حدیث کا، اسلام لے آنے سے ان کی ماقبل اسلام کی زندگیاں دھل گئیں ، بہر حال وہ انسان تھے جن کی زندگیوں کے بعض گوشے کسی کی نظر میں نادرست ہوسکتے ہیں ان کو تقریبا سب ہی اکابر علماء نے بیان بھی کیا ہے، لیکن اس امر میں کسی کا اختلاف نہیں  کہ کسی بھی مسلمان کے خلاف دریدہ دہنی ، سب و شتم ،فسق و فجور میں داخل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: (سباب المؤمن فسق و قتالہ الکفر) یعنی کسی مؤمن کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔یہ حدیث صحیح ہے، نا کہ صحابہ کرام رض یا اہل بیت عظام کے خلاف ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال، اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، تاریخ و حدیث کی کتب سے یہ امر ثابت ہے کہ صحابہ کرام  رض نے باہمی مشاجرات کے نتیجے میں کبھی ایک دوسرے کے دین پر طعن نہیں کیا اور کبھی اپنے کو غیر نہیں قرار دیا۔

جب یہی تاریخی واقعات بے حقیقت آمیزشوں  کے ساتھ عقیدہ و عمل کی بنیاد قرار پائے تو ساتھ ہی ان پر ’اپنے‘اور ’غیر‘ کے احکام بھی منطبق ہونے لگے۔ افسوس اس پر ہے کہ ان فکری مغالطوں کو دور کرنے کی بجائے انھیں اصول بنا لیا گیا اور یہی ’کفر‘ و ‘‘ایمان’’ کا میزان ٹھہرا۔ فرقہ واریت میں موجودہ شدت اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے۔

ایک دوسرے سے عدم واقفیت

فرقہ واریت اور مسلکی عدم آہنگی کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی ایک دوسرے کے عقائد و نظریات سے عدم واقفیت بھی ہے، خود ایک ہی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کو علم نہیں ہوتا کہ کون سے ایسے خود اختیار کردہ عقائد و اعمال ہیں جن کو چھوڑنے یا نظر انداز کرنے سے دین یا متعلقہ مذہب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے بڑھ کر یہ امر ہے کہ دینی امور عقائد و اعمال میں فرض، واجب، جائز، مستحب، سنت مؤکدہ، مباح، اور غیر مباح وغیرہ کی تمییز بھی لوگوں میں باقی نہیں رہی ہے، وہ ہر امر اور ہر عقیدے کو لابدہی سمجھتے ہیں نیز ان کے بارے میں شدت پسند واقع ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے فرق اسلامیہ کے ماخذوں کو نہ پڑھنا  بلکہ رد میں لکھی گئی کتابوں سے اصل عقائد و نظریات کو جاننے کا دعوی کرنا اور انھیں معلومات پر گمراہی کا فیصلہ کرنا بھی بڑی آفت ہے۔ مختلف مدارس اور اسکولوں میں بھی ان امور پر توجہ نہیں دی جارہی ہے، بلکہ بسا اوقات اساتذہ ان غلط فہمیوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ نیز وہ علوم آلیہ پڑھاتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طرح دوسرے فرقے کی گمراہی کا بیان چھیڑ دیتے ہیں جو نفرتوں کو فروغ دیتا۔

استعمار مخالف تحریکیں اور مذہبی سطح پر تناؤ

۱۹۲۰ء کے بعد دنیا بھر کے اسلامی خطوں میں استعماریت کے خلاف جو جد و جہد شروع ہوئی اس میں غیر مسلم قابضین کے خلاف جہاد کے فلسفے سے کام لیا گیا اور جتنی تحریکیں چلیں ان میں مسلم وغیر مسلم کے خانوں میں رہ کر حکومت و ریاست کے خد و خال طے کرنے کی سعی بلیغ کی گئی۔ اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ استعماریت کے خاتمے کے بعدملک میں قانون کون سا نافذ ہوگا اور نظام حکومت کیا ہوگا؟ ان علاقوں میں پہلے سے انگلش، فرنچ، پرتگیزی وغیرہ قوانین رائج تھے۔ ان کی جگہ اسلامی نظام حکومت اور اسلامی قوانین نے لینا تھی جو اس وقت نہ مرتب شکل میں موجود تھے اور نہ ہی کوئی مرتب نظام حکومت موجود تھا جسے خالص اسلامی قرار دیا جاسکے۔ نہ جج صاحبان اسلامی قوانین میں تربیت یافتہ اور حذاقت کے حامل تھے اور نہ ہی وکلاء یعنی محامیین ہی اس لائق تھے چنانچہ ایک خلاء پیدا ہوا، دوسری طرف یہ بحث شروع ہوگئی کہ کون سے فقھی مکتب کے مطابق قوانین بنائے جائیں گے، یہ پھر ما بہ النزاع امور میں سے قرار پایا اور مسلکی اضطراب کا سبب بنا کیوں کہ مختلف اسلامی ممالک میں مختلف مکاتب فکر کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔چنانچہ سماجی سطح پر ان مکاتب فکر کے درمیان تناؤ پیدا ہوا اور شدت اختیار کرتا گیا۔ یہی کیفیت پاکستان میں نظام اسلام کے نفاذ کے نعرے نے پیدا کی۔

پاکستان میں فرقہ وارنہ بنیادیں

پاکستان میں اسلامی نظام حکومت و قانون کے نفاذ کے نعرے اور انقلاب ایران میں بعد زمانی نہیں پایا جاتا۔انقلاب ایران کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں نے مان لیا کہ اب اس خطے میں ان کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا، دوسرے یہ کہ انقلاب اسلامی ایران کے نتیجے میں کہیں مشرق وسطی کی ریاستوں میں بادشاہت کے خلاف تحریک شروع نہ ہوجائے۔ ان امور کے پیش نظردو بڑے فیصلے کیے گئے (۱) ایک تو یہ کہ شیعیت کو دہشت گردی اور مسلمانوں کے‘‘ غیر’’ کے طور پر متعارف کروایا جائے چنانچہ اس کام کے لیے بے دریغ پیسہ صرف کیا گیا (۲) ایسی قوتیں تشکیل دی جائیں جو ایران کے زیر اثر مختلف ممالک میں موجود طبقات کو کلی طور پر دبا سکیں، یہ دونوں طرف سے مسلح جتھوں اور گروہوں کی شکل میں ایسے علاقوں میں پھیل گئے اور اپنے اپنے دفاع کے نام پر مسلح اور متشدد ہوتے گئے۔اسی موقع پر جند، جیش، سپاہ، لشکر جیسے لاحقے مختلف جماعتوں کے عسکری بازؤں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کو تقویت اسی مذہبی لٹریچر سے ملی جو ۱۹۲۰ء کے بعد سے اب تک غیر مسلموں کے خلاف جہاد اور مسلمانوں کی ذمہ داریوں سے متعلق وجود میں آیا اور آرہا ہے۔ غور کریں تو علاقائی اور بین بر اعظمی نیز بین الاقوامی سطحوں پر جو تنظیمیں پائی جاتی ہیں ان کے پس پشت یہی لٹریچر موجود ہے،یا وہ لٹریچر جو اس سے متاثر ہو کر وجود میں آیا۔

علماء کی ذمہ داریاں

ایک مہلک فکری تبدیلی یہ بھی لائی گئی کہ (مسلمانوں میں سے غیر) کو (مسلمانوں کا غیر) قرار دے کے اس کے احکام بھی غیر مسلموں والے قرار دینے کی کوشش کی گئی۔کسی مسلمان کو کافر قرار دینا ایک تو امر عظیم ہے چنانچہ علماء محققین کا کہنا یہ ہے کہ جب تک وجہ بھی کسی کو دائرہ اسلام میں قرار دینے کی موجود ہو، خواہ وہ کسی دوسرے فرقے کا ضعیف قول کیوں نہ ہو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ کسی کو کافر کہنے  کے سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں جن میں قتل و قید، زوال ملکیت، مسلم عورت سے کیے گئے نکاح کا فسخ ہوجانا، ایسے شخص کے ذبیحہ کا ناجائز ہونا، اس کا وراثت سے محروم ہونا، اعمال کا فاسد ہونا، اس کی ولایت کا ساقط ہونا، نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، اس پر لعنت کو بھی جائز رکھا گیا ہے نیز وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔یہ انتہائی دور رس اور اہم اثرات ہیں ہیں جو کسی مسلمان کی تکفیر سے حاصل ہوسکتے ہیں، جب کہ عوام الناس یہ فیصلہ بلا غور فکر اور شرائط کو جانے بغیر کر ڈالتے ہیں، غور کریں تو معاشرتی طور پر پہلا اثر اس لیےغالب آتا جا رہا ہےکہ ذمہ دار علماء تکفیریت، اس کے شرائط و نتائج پر کما حقہ بات نہیں کرتے اور شاگرد بھی لا علم رہتے ہیں۔ علماء، واعظین، و مدرسین وغیرہ کو امام غزالی کی یہ نصیحت بار بار دہرانا چاہیے اور طلاب کے ذہن نشین کراوانا چاہیے: ’’جس رائے کی طرف مائل ہونا اولی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک ممکن ہو تکفیر سے اجتناب کیا جائے، اس لیے کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والوں اور لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے والوں کے خون اور مال کو مباح قرار دینا خطاء ہے  ، اور ہزار کافروں کی زندگی نہ لینے میں خطاء کرنا ایک مسلمان کا خون بہانے سے بدرجہا بہتر ہے‘‘۔ [4] کیوں کہ کسی انسان کو قتل کرنا گویا پورے عالم انسانیت کو قتل کرنا ہے [5] نا کہ ایک مؤمن کو جو ایمان لانے کی وجہ سے دوسرے انسانوں پر اک گونا فوقیت رکھتا ہے۔ اسی لیے احادیث میں قتل مؤمن کی حرمت و شناعت پر بہت سے فرامین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موجود ہیں۔چنانچہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ :’’قتل المؤمن أعظم  عند  اللہ من زوال الدنیا‘‘ و في  بعض طرق ’’أشد عند اللہ‘‘۔   یعنی کسی مؤمن کو قتل کرنا اللہ کے نزدیک دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے، بعض روایات میں ہے کہ ’’دنیا کے زوال سے شدید تر ہے‘‘ [6]۔ جب کہ بعض روایتوں میں ’’اکبر‘‘ کی لفظ آئی ہے، یعنی زیادہ بڑا گناہ ہے[7]۔

سیاسی مفادات کا عنصر

ان سب امور کو جب ہم سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے فرقہ واریت اور مسلکی عدم آہنگی کے پس پشت دیگر عوامل کے علاوہ سیاسی مفادات، ان سے جڑے ہوئے معاشی مفادات، عدم علم و تفحص، دوسرے مسالک کے پیروکاروں سے عدم آمیزش اور میل جول ترک کرنا، تکفیر کی اہمیت اور اس کی پیچیدگیوں سے عدم واقفیت، تکفیر کے شرعی اثرات جو غیرقطعی الثبوت ہونے کی بناء پر تکفیر کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں، ایک مومن و مسلم کی جان و مال، عزت و آبرو کی حرمت اور اس کا پاس و لحاظ ہر دوسرے مسلمان پر لازم ہے۔جب ایک شخص کلمہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی جان و مال، عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہوجاتی ہے۔ نیز یہ کہ کسی کو کافر قرار دینے سے خود کے کافر بن جانے کا اندیشہ بہت قوی ہے۔ جب ایک مسلمان شخص دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے پہلا فرد دوسرے کے اسلام کو کفر قرار دیتا ہے،اور اسلام کو کفر کہنا خود کفر ہے۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جنھیں عام کرنے اور ان کے ذریعے ناپختہ ذہنوں کو درست کرنے کی مخلصانہ کوششیں بار آور ہوں گی۔

افسوس کہ یہ معاملات صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کا عموم بلوی ہے، اور ہر ملک میں یہ تفریق بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب و یمن، شام میں اندرونی جنگ، عراق میں کرد اور شیعہ، بحرین میں شیعہ اور غیر شیعہ تنازع وغیرہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

ان سب کا حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ ہر سطح پر مسلمان ایک امت و وحدت میں تبدیل ہوں اور ان دو امور کو سمجھیں کہ دنیا کی تاریخ میں ہر علم کا ارتقاء، اور اس کی نتیجے میں قوموں کا ارتقاء اس اعتراف پر مبنی رہا ہے کہ انسان کی بتائی ہوئی ہر تشریح چیلنج بھی کی جاسکتی ہے اور تبدیل بھی۔ اسی کے نتیجے میں بنی نوع انسان اس مقام تک پہنچی ہے، اور اسی کے نتیجے میں تمام مذہبی اور دنیاوی علوم کی ترقی ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی علم میں انسانوں کی مرتب کردہ کوئی بھی تشریح حرف آخر نہیں ہے لہذا کسی ایک تشریح کو ہی اسلام حقیقی ماننا اور دوسروں کو گمراہ سمجھنا غلط بھی ہے اور فتنے کا سبب بھی۔

[1] النساء: 136

[2] الألباني، الصحیحۃ، ۳۵۶۵، البخاري، ۳۹۱، صحیح النسائی، للألبانی، ۵۰۱۲، ۳۹۹۷

[3] البخاری، ۳۹۲، البیھقی، ۲: ۳، المقدسی، صحاح الأحادیث، ۳۱۰۲۰، ج۸،ص ۱۶۳

[4] الإقتصاد في الإعتقاد، ۲۳۳، ۲۳۴

[5] القرآن، ۵: ۳۲

[6] أخرجہ النسائی، ۳۹۹۰، وإبن أبٰ عاصم، الزھد، ۱۳۹،و إبن الملقن، البدر المنیر، ۸: ۲۴۶،و الجامع الصغیر للسیوطی، ۶۰۷۷، و صححہ الألباني في صحیح الجامع، ۴۳۶۱، المقدسي، صحاح الأخبار، ۱۹۸۵۴۔۱۹۸۴۷،ج ۵،ص ۴۹۴، وٖغیرھا من الکتب

[7] النسائی، ۸: ۸۳