ترکی، اقلیتوں کے لیے محفوظ اور مثالی جگہ

0

مسلم دنیا میں سے ترکی کو کئی حوالوں سے امتیازی خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس سماج  میں ہر نظریے والے فرد کو جس طرح کی آزادی میسر ہے وہ قابل ستائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک عمدہ سیاحتی مرکز ہے اور مختلف ممالک و مذاہب کے لاکھوں لوگ بلاخوف وہاں کا رخ کرتے ہیں۔اگرچہ گزشتہ ایک دہائی سے  تسلسل کے ساتھ عالمی میڈیا میں ترکی کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہاں اسلام پسند حکومت قائم ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی طرح مذہبی اقلیتی طبقات کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ان کے حقوق کو دبایا گیا ہے۔ ترکی میں مسلکی سطح پہ علویوں کے خلاف جو رائے رہی ہے وہ تاریخی ہے جس میں اب بہتری آتی جارہی ہے۔ زیرنظر مضمون میں مذہبی آزادی کے پس منظر میں ترکی کی تاریخی اور عصری صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ فائزہ حسیب ادارہ ’وائس میڈیا نیٹ ورک‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

مذہبی شناختیں

اسلام ترکی کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ تقریباً 99.8فیصدلوگوں نے خود مسلمان درج کروایا ہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے والدین کسی مصدقہ مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں۔ باقی 2فیصد میں مسیحی، یہودی، دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ اس طریقہ کار سےلا دین مسلمان ماں باپ کے غیر مذہبی بچے جنہوں نے خود کو کسی غیر مذہبی ہونا درج نہیں کروایا ہے، مسلمان مانے شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنا مذہبی ریکارڈ تبدیل یا حذف کروا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایک ای فارم بھرا جاتا ہے اور ای دستخط کیا جاتا ہے۔ حکومت نے یہ اختیار مئی 2020ء سے دیا ہے۔سرکاری دستاویز میں مذہب تبدیل کروانے کے بعد نیا شناختی کارڈ جاری ہوتا ہے۔ اور مردم شماری ریکارڈ میں تنقیح کا عمل کیا جاتا ہے۔

مسلم آبادی کی تعداد

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں مسلمان 99 فیصد ہیں مگر تعلیمی اور ادارتی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ ترکی میں کل 90 فیصد ہی مسلمان ہیں۔ بعض ادارے اس سے بھی کم بتاتے ہیں۔ترک ادارے’اپسوس‘ نے 17180 بالغ افراد کا انٹرویو کیا جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ترکی میں 82 فیصد مسلمان ہیں، 7 فیصد لا مذہب ہیں، 6 فیصد روحانیت میں یقین رکھتے ہیں مگر کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ اعداد و شمار ان 17180 انٹریو کی بنیاد پر ہیں۔

مسالک اور فرقے

2006ء میں سابانچی یونیورسٹی نے ایک سروے کرایا، اس کے مطابق ترکی میں 98.3فیصد مسلمان تھے۔ ان میں تقریباً 80.5فیصدآبادی سنی مسلمانوں کی ہے۔ ان کے علاوہ شیعہ، علوی شیعہ، فقہ جعفری اور نصیریہ کی تعداد مسلمانوں کی تعداد کا کل 16.5فیصد ہے۔ شیعہ مسلمانوں میں ایک وافر حصہ اسماعیلیوں کا بھی۔ مسیحیت، اورینٹل راسخ الاعتقادی، یونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا اور آرمینیائی رسولی کلیسیا اور یہودی اور سفاردی یہودی کل آبادی کا 0.2فیصد ہیں۔

سرکاری طور پہ سیکولر ریاست

سرکاری طور پر ترکی ایک سیکولر ریاست ہے جہاں 1928ء کی آئینی ترمیم کے بعد اس ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ 5 فروری 1937ء کو جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے ترکی میں سیکیولر ازم کو مضبوط کیا اور مکمل طور پر نافذ کردیا۔

تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم

مگر آج کے دور میں تمام ابتدائی اور عالی اسکولوں میں مذہب کا ایک مضمون ضرور ہوتا ہے جس میں سنی اسلام کی ترویج ہوتی ہے۔ البتہ دیگر مذاہب کو بھی پڑھایا جاتا ہے۔ ان کلاسوں میں طالبعلموں کو سنی اسلامی طریقہ پر نماز اور دیگر طریقہ عبادت بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس طرح گرچہ سرکاری طور ترکی ایک سیکولر ریاست ہے مگر در حقیقت یہاں اسلام کا غلبہ ہے۔ گوکہ اسکولوں میں مذہبی تعلیمات ایک متنازع امر رہا ہے۔

ترکی  مذہبی رواداری کے اعتبار سے ایک مثالی ملک

ترکی میں مذہبی رواداری کو سیکولرزم کی دین بھی سمجھا جاتا ہے۔ عقائد کے معاملے میں خاصی پختہ قوم کے باوجود ترکوں نے کوئی بڑا مذہبی لیڈر پیدا نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست کے سیکولر آدرشوں سے تصادم کا خطرہ تھا۔ اور پھر قید و بند کی (غیر منطقی) صعوبتیں بھی تھیں۔ آج بھی ترکی کے سیاسی اور قانونی نظام پر سیکولر ازم کے عروج کے زمانے کے نقوش سلامت ہیں۔ بوسٹن (امریکا) کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے تجزیہ کار برنا تورم کا کہنا ہے کہ ترکی کے اسلامی عناصر آج بھی ری پبلک (ریاست) کے فرزند ہیں۔

بین المسالک تاریخی کشیدگی

تاریخی طور پہ ترکی میں بین المذاہب سے زیادہ بین المسالک کشیدگی پائی جاتی رہی ہے۔ اس ضمن میں سنیوں اور علوی شیعوں کے مابین شدید اختلاف رہا ہے۔ ترکی میں ایک بڑی تعداد علوی شیعوں کی پائی جاتی ہے۔ پہلے ترکی میں علومی مسلک کے لوگ اپنی شناخت چھپا کر رکھتے تھے۔ ماضی میں سنیوں اور علویوں کے علاقے بھی الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ ان کا رہن سہن بھی الگ تھا اور رسوم بھی الگ تھیں۔ ان میں ساتھ رہنے کا رجحان نہیں تھا۔ معاشی سرگرمیوں کی حد تک تو ان میں میل جول تھا مگر مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے سے بیگانے رہتے تھے۔ شہروں کی آبادی میں اضافے سے یہ ہوا کہ سنی اور علوی ایک علاقے ہی میں نہیں بلکہ ایک عمارت میں بھی ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ ان کے بچے ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔ سنی اور علوی جب ایک دوسرے کے قریب آئے تو ان کے رویے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انہوں نے ایک دوسرے میں دلچسپی لینا شروع کی، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے لگے۔ علویوں کی عبادت گاہیں کم ہیں۔ انہوں نے شہری کلچر کے زیر اثر سیکولر ازم کو اپنالیا۔ اب ان کے لیے علیٰحدہ مذہبی حیثیت محض علامتی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ سنیوں میں بھی سیکولر اقدار پروان چڑھیں تو دونوں نے ایک دوسرے کو زیادہ قبول کیا۔ ایسے ماحول میں ان کے مابین شادیاں بھی ہونے لگی ہیں۔  ترکی میں سنیوں کے بیشتر علما نے علویوں سے شادی کی اجازت دے رکھی ہے کیونکہ ان کے نزدیک علوی بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت علی کو دیگر پر مقدم رکھتے ہیں۔

سنیوں اور علویوں میں بعض امور بہت مختلف ہیں۔ سنی مسجد میں عبادت کرتے ہیں اور علوی اپنی عبادت گاہ کو سیمیوی(Cemevi)کہتے ہیں۔ علوی عام طور پر ترک یا کرد زبان میں اپنی رسوم ادا کرتے ہیں جبکہ سنی مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے عربی کا سہارا لیتے ہیں۔ علویوں کی بہت سی رسوم میں موسیقی اور رقص کو بھی دخل ہے جسے وہ سماع کا نام دیتے ہیں۔ ترکی کی ۷ کروڑ کی آبادی میں علویوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان ہے۔

ہم آہنگی کی طرف قدم

ترک معاشرے میں اب وقت کے ساتھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ سنی اور علوی ایک دوسرے کو ازدواجی معاملات میں بھی اپنا رہے ہیں۔ بین المسالک شادیاں عام ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے قبولیت بڑھ رہی ہے۔ اسی طور سنیوں اور کردوں میں بھی شادیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ بیشتر معاملات میں جوڑوں کے خاندان بھی شادی کو قبول کر رہے ہیں اور یوں معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔

غیرمسلم اقلیتوں کی حالت

اسلامی مسالک کے علاوہ ترکی میں مسیحی اور یہودی بھی رہتے ہیں۔ ماضی میں ایک موقع پر مسیحیوں اور ترک مسلمانوں کے مابین شدید مسائل بھی رہے ہیں۔ ترکی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ 1925ء میں سلطنت عثمانیہ نے آرمینیائی باشندوں کا قتل عام کیا تھا۔ ترکی کا دعوی ہے کہ اس حوالے سے مغربی ممالک اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تاہم اب ترکی میں مذہبی اقلیتیں پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔ ملک میں مسیحی آبادی دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک ہے۔ ایک صدی قبل آرمینیائی مسیحیوں کی تعداد بیس لاکھ تک تھی مگر اب گھٹ کر 60 ہزار ہوچکی ہے۔ ان کی زیادہ تر تعداد استنبول میں مقیم ہے۔

مسیحی آبادی ترکی کی موجودہ صورتحال سے خوش اور راضی ہے۔ ان کے خیال میں 2008ء کے بعد سے ترکی میں ان کے لیے بہتر اقدامات کیے گئے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے تعلیمی سطح پر مذہبی تشخص کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن اس ضمن میں مسیحی اور دیگر دینی اقلیتوں پر کوئی جبر نہیں ہے۔

حال ہی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول کے نواح میں ایک نئے چرچ کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ 1923 میں ترکی کے جدید ریاست بننے کے بعد وہاں پہلی مرتبہ ایک نیا چرچ تعمیر کیا جا رہا ہے۔

استنبول کے نواح میں واقع یشئلکے میں تعمیر کیے جانے والے اس چرچ سے شامی مسیحی کمیونٹی کے سترہ ہزار افراد استفادہ کر سکیں گے۔ یہ کمیونٹی اس چرچ کی تعمیر کے لیے رقم بھی فراہم کر رہی ہے۔ شامی مسیحیوں کی بڑی تعداد مشرقی مسیحی روایات کی ماننے والی ہے اور وہ آرامی زبان میں عبادت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے اسی زبان میں عبادت کی تاکید کی تھی۔

اس چرچ کی سنگ بنیاد رکھنے کی خصوصی تقریب سے خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے کہا کہ جمہوریہ ترکی کا فرض ہے کہ شامی کمیونٹی کی مذہبی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انہیں ایک عبادت گاہ فراہم کی جائے۔ ایردوآن نے مزید کہا کہ یہ مسیحی لوگ اس علاقے کے قدیمی باسی ہیں۔

ترک صدر نے امید ظاہر کی ہے کہ شامی آرتھوڈکس سینٹ افرام چرچ نامی اس مسیحی عبادت گاہ کی تعمیر کا کام دو برسوں میں مکمل ہو جائے گا۔ سن دو ہزار نو میں جب ایردوآن وزیراعظم تھے، تو انہوں نے استنبول کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ اس چرچ کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتظام کرے۔ حالیہ برسوں میں ترک حکومت نے کئی پرانے چرچوں کی تعمیر نو کی اور انہیں دوبارہ عوام کے  لیے کھولا ہے۔

ماضی میں ترک سلطنت دنیا میں ایک ایسی جگہ رہی ہے کہ جب یہودیوں پر پوری دنیا میں دروازے تنگ تھے اور ان کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی، تو ایسے وقت میں عثمانی سلطنت میں ان کے لیے امن و سکون میسر تھا، انہیں تجارت کی آزادی  تھی اور عقائد کے لیے بھی رواداری کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ ان کے الگ محلے بھی تھے اور چھاپہ خانے بھی جہاں وہ اپنی کتب شائع کرسکتے تھے۔ اِس وقت ترکی میں یہودی آبادی 15  ہزار سے 20 ہزار کے درمیان ہے۔ یہ زیادہ تر اسپین اور پرتگال سے آئے تھے۔ ن کی زیادہ تر آبادی استنبول اور ازمیر میں رہتی ہے۔ صرف استنبول میں ان کے 29 گرجاگھر ہیں جنہیں مکمل تحفظ اور آزادی حاصل ہے۔ ترکی یہودیوں کے اپنے الگ تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جہاں وہ اپنی اقدار کے مطابق تعلیم دے سکتے ہیں۔

مذہبی معاملات میں عدم مداخلت

ترک معاشرہ مختلف ا لنوع رہا ہے۔ سنی یا علوی، ترک، کرد یا دیگر نسلوں کے افراد، مسلمان، غیر مسلم، دین پر کاربند یا سیکولر طرز زندگی کے حامل ترک شہری مختلف نظریات، فلسفوں اور اعتقادات کے حامل ہیں۔اگرچہ ترکی میں اب اسلام سند جماعت اقتدار میں ہے لیکن وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایک ایسے معاشرے میں سب لوگوں کو ایک جیسا بنانے کی کوشش کرنا نہ صرف کار لا حاصل ہے بلکہ انسانیت کی توہین بھی ہے۔ ایسی آبادی کے لیے اشتراک عمل پر مبنی یا جمہوری طرز حکمرانی ہی واحد حل ہے جہاں کسی گروہ، اکثریت یا اقلیت کو دوسروں پر امتیاز حاصل نہ ہو۔

ریاست انسانوں کا قائم کردہ ایک ایسا نظام ہوتا ہےجس کا مقصد ان کے بنیادی حقوق اور آزادی کی حفاظت کرنا اور امن و انصاف کا قیام ہوتا ہے۔ ’’ریاست‘‘ بذاتِ خود ایک مقصد نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے لوگ اس دنیا اور آخرت میں خوشیوں کا حصول کر سکتے ہیں۔ ریاست کو اصولوں اور روایات سے ہم آہنگ کرنا ان کی پیروی کرنے والوں کی ہم آہنگی کے مترادف ہے جو سسٹم کی تشکیل انھیں اصولوں پر کرتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ اسلام میں کوئی کلیسائیت جیسا نظام نہیں، اس لیے مذہبی جبر اسلامی روح کے خلاف ہے۔ اس طرح ریاست دراصل ایک ایسا معاہدہ ہے جو انسانوں کے درمیان، انسانوں ہی کی مدد سے کیا جاتا ہے اور یہ نہ تو اسلامی ہوتا ہے اور نہ ہی مذہبی۔

مذہب و ریاست سے متعلق یہ خیالات صرف حکمران اشرافیہ ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ترک عوام کے نظریات ہیں جو حکمرانوں کو بھی انہیں اصولوں پر کاربند رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔