مذہب بطور آئینی اساس: ملائیشیا میں اسلام اور لبرل حقوق

0

کتاب: Constituting  Religion:  Islam  Liberal  Rights  and  the  Malaysian  State

مصنف:تامر مصطفیTamir  Mustafa

تبصرہ :راس نبیلRaas  Nabeel

اِس وقت سیاسی اور فکری حلقوں میں جدیداسلامی ریاست کے بارے بات چیت کافی زوروں پر ہے اور اس کے بارے میں آراء کا اختلاف بھی موجود ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ عصرحاضر میں ‘جدید اسلامی ریاست’ کی تشکیل کی جاسکے، اور پھر اگر یہ ممکن ہے تو اس کی اساسات کیا ہوں گی؟ بنیادی طور پہ یہ بحث لاینحل محسوس ہوتی ہے، اس کی وجہ نہ صرف یہ کہ مذہبی تشریحات کے اختلافات ہیں بلکہ سیاسی ادب میں بھی اس کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ دو مختلف انتہاؤں کی صورت میں سامنے آتا ہے جنہیں سیکولرزم اور سیاسی اسلام کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ریاست کے کردار کی نوعیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا اسے یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کی مذہبی زندگیوں میں دخل اندازی کرے اور یہ طے کرے کہ انہیں قانونی طور پہ کن دینی امور کا پابند ہونا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ریاست کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ وہ سماج میں شریعت کے کسی ورژن کو لاگو کرے؟ مسلم دنیا میں عملی سطح پر اس کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثال کے طور ایک طرف سعودی عرب ہے جہاں شرعی قوانین کا نفاذ کی حساسیت بہت زیادہ ہے، جبکہ دوسری طرف ترکی ہے جہاں مذہبی تصور کی ایک نہایت معتدل شکل سامنے آتی ہے اور سیکولرزم ومذہب ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔

قوانین اور حکومت میں مذہب کی اثراندازی وکردار کے بارے میں مختلف آراء نے موجودہ عالمگیریت پر مبنی نظام میں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو طے کیا ہے۔ جو ملک گورننس اور قوانین کی مذہبی شناخت پر زیادہ زور دیتے ہیں ان کی یہ شناخت معاشی میدان اور خارجہ اُمور میں بھی اثرانداز ہوتی ہے اور اس کے مخصوص نتائج سامنے آتے ہیں۔ لہذا دیکھا جائے تو ممالک سیکولریا مذہبی شناخت کے بارے میں پایا جانے والا خاص تصور ان ممالک ہی کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات بہت وسیع ہوتے ہیں۔ عالمگیریت کے عہد میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلم دنیا کی او آئی سی جیسی بڑی تنظیمیں اس موضوع پر گفتگو کریں اور شفافیت پیدا کریں کہ ریاست ومذہبی کے تعلق کی جہت کیا ہونی چاہیے اور اس میں دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کیسے صحت مندر رہنے چاہئیں۔

تامر مصطفی نے اپنی کتاب Constituting Religion: Islam, Liberal Rights, and the Malaysian State میں اس موضوع پر بات کی ہے کہ مذہبی طور پہ ایک کثیرالجہت ملک میں اسلام اور شرعی قوانین کی حیثیت کیا ہونی چاہیے اور عملاََ ملائیشیا میں اس حوالے سے کیا صورتحال ہے۔

کتاب کے پہلے باب میں تامر مصطفی نے ملائیشیا کی عدالتوں کے نظام کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ ملائیشیا میں عدالتیں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی عدالتیں وہ ہیں جنہیں کامن لاء کورٹس کہا جاتا ہے، وہاں عام سماجی مسائل کے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم شرعی عدالتوں کی ہے جہاں ریاست کی جانب سے لوگوں کے مذہبی امور سے متعلقہ مقدمات ومسائل کو سنا اور انہیں حل کیا جاتا ہے۔

مصنف کی رائے یہ ہے کہ عدالتوں کی اس طرح کی تقسیم کے فوائد وہ نہیں ہیں جو حکومتوں کی جانب سے بیان کیے جاتے ہیں۔ بظاہر لوگوں کے ہاں یہ تأثر پایا جاتا ہے کہ ملک میں قوانین کی تقسیم دو طرح کی ہے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہے ریاست کی جانب سے مذہب پر مکمل گرفت بن گئی ہے۔ چونکہ شرعی عدالتیں حکومت کے ماتحت کام کرتی ہیں، ان کے قاضی حکومت منتخب کرتی ہے اور بہت سارے مسائل میں وہ ریاستی مفادات وتقاضوں کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں، اس لیے شرعی عدالتوں میں ریاستی اثرورسوخ کو منہا نہیں کیا جاسکتا۔ اس تقسیم کا یہ منفی اثر بھی بنتا ہے کہ عوام کے اندر سیکولر ومذہب کے مابین تفریق کا تصور جنم لیتا ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات رلاسخ ہوجاتی ہے کہ سیکولرزم شاید مذہب کے متضاد ومخالف کوئی فکر ہے، جو غیرشرعی ہے۔ یہ تفریق سماج کو فکری لحاظ سے متوازی حیثیتوں میں تقسیم کرتی ہے اور ایک دوسرے سے بےگانہ بناتی ہے۔ تامر مصطفی کے مطابق ملائیشیا میں عدالتوں کی اس طرح کی تقسیم سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے، وہاں بہت سارے مقدمات ایسے سامنے آتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ سوال اٹھتے ہیں کہ آیا عدالتوں کی یہ تقسیم درست ہے یا نہیں۔ ان کے خیال میں ریاست کویہ حق نہیں ملنا چاہیے کہ وہ مذہب اور سیکولرزم دونوں کے تصور کو اپنے مرضی ومفادات کے مطابق تشکیل دے۔ یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا میں لبرل حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیمیں زور پکڑ رہی ہیں اور عالمی سطح پر انہیں شنوائی بھی ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں بالخصوص عائلی قوانین سے متعلقہ مسائل میں عوام کے اندر اختلاف پایا جاتا ہے۔ طلاق اور بچوں کی کفالت کے بارے میں ایک واضح تقسیم ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملائیشیا میں ایک بڑی تعداد غیرمسلموں کی بھی ہے اور وہاں کئی لوگ بین المذاہب شادی بھی کرتے ہیں۔ ایسے جب طلاق ہوتی یا ان کے بچوں کی کفالت کا مسئلہ زیربحث آتا ہے تو اس پر کافی تنازع بنتا ہے۔ مذہبی تقسیم کے بارے میں میڈیا پر بھی بہت زیادہ بات کی جاتی ہے، اور یہ تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے۔

مصنف کے مطابق یہ مسئلہ ریاست کی مذہبی یا غیرمذہبی شناخت سے زیادہ داخلی سطح پر لوگوں میں پیدا ہونے والی تفریق کا ہے۔ ایک ایسا قضیہ جو ہر وقت میڈیا پر زیربحث رہتا ہے اور لوگوں کے مسائل میں نظریاتی تقسیم کو پیدا کرتا ہے اسے ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی حاجت ہے۔ ان کے مطابق مذہب اور سیکولرزم کی ریاستی تعبیر کے حق کو محدود کرنا چاہیے کیونکہ اس سے معاشرے میں ریاست پر اعتماد کم ہوتا ہے اور لوگوں میں فکری بنیادوں پر باہمی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔ مزیدبرآں سیاستدان بھی مذہب وسیکولرزم کی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لیتےہیں اور ایک کثیرالجہت معاشرے کو طبقات میں بانٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تامر مصطفی اپنی رائے کی تائید میں بہت سے مقدمات کی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ کیسے ان مقدمات کی وجہ سے سیاست و صحافت کے شعبوں میں کشیدگی کو پروان چڑھایا گیا۔ وہ ایسی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ملائیشیا کے قوانین میں اس حوالے سے تضادات پائے جاتے ہیں۔ ایک مسئلے میں شرعی عدالتیں ایک فیصلہ صادر کرتی ہیں تو اس کے برخلاف کامن لاء کی عدالتوں کے مروجہ قوانین کچھ اور کہتے ہیں۔ لہذا یہ اختلاف بھی لوگوں کے اندر ابہام کو پیدا کرتا ہے اور مختلف لوگ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر مقدمات کا حل چاہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انصاف وعدل کی فراہمی اور شفافیت کے مسئلے میں الجھن پیدا ہوتی ہے، جو دراصل نظریاتی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہورہا ہوتا ہے۔

تامر مصطفی کا کہنا ہے ملائیشیا میں عدالتی نظم کا یہ ڈھانچہ اپنے ثمرات کے اعتبار سے ویسا سودمند ثابت نہیں ہوا جیساکہ امید لگائی گئی تھی۔ ملک کے اندر ایک ایسے عدالتی نظم کو متعارف کرانا چاہیے جو سیکولرزم اور مذہب کی تقسیم پر نہ کھڑا ہو، کیونکہ اس سے ریاست کی جانب سے لوگوں کے مابین فکری لحاظ سے باہمی سطح پر بدگمانی جنم لیتی ہے اور اس طرح کے سسٹم میں تضادات بھی ہیں جنہیں ایک ایسے عدالتی ڈھانچے کے تحت ختم کیا جاسکتا ہے جو نظریاتی اساسات پر قائم نہ ہو اور اس پر کسی طبقے کا لیبل نہ لگا ہو۔

مصنف کی اٹھائی گئی مباحث سے جو چیز مترشح ہوتی ہے اس سے ایک اور نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ ریاست کو بجائے اس کے کہ وہ ملک میں دو مختلف نظام ہائے انصاف متعارف کرئے، بہتر ہے کہ وہ کسی ایک کو لاگو کرے، چاہے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال سعودی عرب اور ایران ہیں کہ جہاں طویل عرصے سے اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں سماجی سطح پر تقسیم یا ابہام نہیں پایا جاتا۔

تامر مصطفی کے تھیسس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کو ملائیشیا اور پاکستان دونوں ممالک میں مذہب کی عملداری میں کئی سطح پر اختلافات کے باوجود یہ چیز مشترک ہے کہ دونوں کے آئین میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ملک میں کوئی قانون اسلام کے مخالف نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 2 اور ملائیشین آئین کے آرٹیکل 3 کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اسلام مخالف قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ آئین میں دی گئی یہ وضاحت اس امر کی غماز ہے ان ممالک میں جمہوریت کا نظم عین ویسا نہیں ہوگا جیساکہ مغربی ممالک میں ہے۔ لیکن اس مشترک امر کے باوجود یہ فرق موجود ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام کسی نظریاتی لیبل کے ساتھ کام نہیں کرتا۔ یہاں عدالتوں کی وہ تقسیم موجود نہیں ہے جو ملائیشیا میں ہے کہ سیکولر اور شرعی عدالتیں دو متوازی نظام ہائے انصاف کے ڈھانچے موجود ہیں۔ البتہ پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت وجود رکھتی ہے، مگر اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو ملائیشیا کی عدالتوں کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت دیگر عام عدالتوں کی طرح نہیں ہے جہاں لوگ اپنے مقدمات ومسائل کے حل کے لیے پیش ہوسکیں۔ بلاشبہ پاکستان کے آئین میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، اس چیز کا دھیان تو رکھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود عدالتوں کو شرعی عدالتیں نہیں کہا جاتا اور نہ لوگ ان میں نظریاتی شناخت کی طرف توجہ دیتے ہیں۔

تامر مصطفی کا مقدمہ نہ سیکولرزم کے حق میں ہے اور نہ مذہبی شناخت کے لاگو کرنے کے حق میں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پہ مذہبی کہلائے یا غیرمذہبی۔ ریاستی شناخت کو طے کرنے کے لیے صرف قوانین کی نظری اہمیت کافی نہیں ہوتی اور نہ محض اس کا کردار ہی حتمی ہوتا ہے۔ ہر ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں اس کی تاریخ، ثقافتی پس منظر اور تنوع کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ان تمام مظاہر کی رعایت رکھتے ہوئے ایک سیاسی نظم کی تشکیل کی جائے اور عوام کے تمام طبقات کی نمائندگی موجود ہو تو وہ سیاسی نظم کامیاب ہوجاتا ہے۔

پاکستان کی آبادی کا 96 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے اگر یہاں آئین میں ریاست کے سرکاری مذہب کی بابت اعلان موجود ہے تو وہ اتنے مسائل پیدا کرنہیں کرتا۔ لیکن ملائیشیا میں اگرچہ مسلم آبادی اکثریت میں ہے لیکن اس کا تناسب 61 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے ملک میں اگر ریاستی سطح پر آئین میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے گا تو اس سے کچھ سیاسی مسائل جنم لیے ہیں۔ بالخصوص انتخابات کے وقت وہاں مذہبی تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ ملک میں عدالتیں اگرچہ شرعی اور کامن لاء دونوں قسم کی موجود ہیں شرعی عدالتوں کو برتری حاصل ہے اور انصاف کے ڈھانچے میں بھی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے جو سماج کو بھی تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مصنف یہ بھی نہیں کہتے کہ اس کا حل سیکولر عدالتی نظام کی تشکیل میں ہے بلکہ ان کے خیال میں عدالتی نظام میں موجود اس نظریاتی خلا کو ختم کرنے کے لیے کسی صحت مند لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔