پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عوامل اور اسباب یکطرفہ نہیں ہیں بلکہ یہ کئی مختلف شعبوں کے ساتھ جڑا ہوا مسئلہ ہے، چاہے اس کا اظہاریہ کسی ایک خاص صورت میں ہی کیوں نہ سامنے آرہا ہو۔ اس کے بعض محرکات مقامی ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جو عالمی اور علاقائی پیچیدگیوں و مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں پہلے دہشت گردی کے محرکات کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے، اس کے بعد سماجی اثرات پر گفتگو کی گئی ہے کہ اس کے سبب معاشرہ کیسے منافرت و تقسیم کا شکار ہوگیا۔ آخر میں انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے سول سوسائٹی کے کردار پر بات کی گئی جس میں ادارہ امن وتعلیم کے ماڈل کے تعارف کے تحت خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا۔محمد حسین امریکا میں مقیم ماہرِ تعلیم، مصنف اور تربیت کار ہیں۔اورغلام مرتضی ادارہ امن و تعلیم کے ڈائریکٹر ہیں۔
مذہبی آزادی کی دستوری ضمانت
اسلامی جمہوریہ پاکستان آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰ کے مطابق کہتا ہے[1]: قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع (الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا ؛ اور ( ب) ہر مذہبی گروہ اور اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا ۔
آرٹیکل ۲۱ کے تحت کسی شخص کوئی ایسا خاص محصول ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کی آمدنی اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ و ترویج پر صرف کی جائے۔
آرٹیکل ۲۲ (ا)کے تحت کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اگر ایسی تعلیم ، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔
(۲) کسی مذہبی ادارے کے سلسلے میں محصول لگانے کی بابت استثنا یا رعایت منظور کرنے میں کسی فرقے کے خلاف کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔
(۳) قانون کے تابع : (الف) کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلایا جاتا ہو ، اس فرقے یا گروہ کے طلبہ کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانعت نہ ہوگی؛ اور ب(ب) کسی شہری کو محض نسل، مذہب، ذات یا مقام پیدائش کی بنا پر کسی ایسے تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے محروم نہیں کیا جائے گا جسے سرکاری محاصل سے امداد ملتی ہو۔
(۴) اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر معاشرتی یا تعلیمی اعتبار سے پسماندہ شہریوں کی ترقی کے لیے کسی سرکاری ہیئت مجاز کی طرف سے اہتمام کرنے میں مانع ہوگا۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاپاکستان کا ہر شہری متنوع معاشرے میں مذہبی آزادی کے مکمل حصول کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہا ہےجس آزادی کی ضمانت دستور پاکستان اسےدیتا ہے؟
پاکستان میں مذہبی دہشت گردی و انتہاپسندی کا مختصر جائزہ
پاک آرمی کے ترجمان ادارے “انٹر سروسز پبلک ریلیشنز “کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان میں مجموعی طور تقریبا ً 83ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں اور کم و بیش 126ارب ڈالرز کا ملکی معیشت کو نقصان ہوا ہے۔[2] دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اس خوف ناک لہر کی زد میں میں سکیورٹی اہل کار، عسکریت پسندی میں ملوث ہونے والے لوگ، اور بڑے پیمانے پر عام شہری نشانہ بنے۔شہروں علاقوں میں مذہبی اجتماعات اور جلوسوں اور بسوں میں سفر کے دوران بڑے پیمانے پر عام شہری نشانہ بنے اور سینکڑوں کی تعداد میں مختلف مسالک اور مذاہب کے مذہبی رہنما اور کارکن قتل ہوئے۔ ریاست کے مختلف ادارے ، سکولز، ٹریننگ سنٹر، مذہبی مراکز و دیگر ادارے شامل ہیں۔ جس کے سبب ایک طویل عرصے تک پاکستان کو سیکیورٹی سٹیٹ کے طور پر سمجھا جاتارہا۔
دہشت گردی کے محرکات
اس ناقابل تلافی نقصان کی وجوہات کا جائزہ لیاجائے تو بعض محرکات بین الاقوامی سیاست سے جڑے ہیں جبکہ بعض محرکات اندرونی ہیں۔ سابق سویت یونین اور متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا میدان پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان کا بننا ہے۔ داخلی محرکات میں افغانستان اور کشمیر کے تناظر میں ستر اور اسی کی دھائی سے عسکریت پسندی کو باقاعدہ طور پر ریاستی پالیسی کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ افغانستان میں سابق سویت یونین کی پیشرفت کو روکنے اور اسے شکست دینے کے لیے امریکہ کی مدد سے ہماری ریاست نے مذہبی عسکریت پسندی کو بطور مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف دنیا بھر سے عسکریت پسندوں کو افغانستان سے منسلک علاقوں میں ٹھکانے دیے جبکہ دوسری جانب پورے تعلیمی نظام و نصاب اور ذرائع ابلاغ کو اسلامائزیشن پر لگا دیا۔ بہت سے عسکری مراکز اور مدارس کھولے گئے ۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے لیے ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ہم حصہ دار بنے۔ اتفاق سے دونوں وقتوں میں افغانستان ہی میدان جنگ تھا اور دونوں دفعہ پاکستان نے امریکہ سے یہ دفاعی اشتراک کیا اور دونوں بار میں پاکستان میں آمرانہ فوجی حکومتیں تھیں۔ تقریبا نصف صدی پر محیط اس سرد و گرم جنگ کی خاطر بیرونی ایما پر کم و بیش سبھی اداروں کو ضرورت اور حد سے زیادہ اسلامائزڈ کرنے کے نتیجے میں ملک میں انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ سوچ کو بدستور غذا ملتی رہی اور پوری ایک نسل نے اسی فضا میں پرورش پائی۔ جس کے تلخ اثرات مذہبی و مسلکی منافرت ، عدم برداشت اور تشدد کے رویوں کے فروغ کی صورت میں ہم دیکھتے آ رہے۔
طالبانائزشن، امتیازی قوانین، فرقہ وارنہ منافرت پر مبنی تنظیمیں، ادارے اور مراکز ، مذہبی جماعتوں اور بیانیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال، نصاب تعلیم میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی برتاوٴکی ترویج، اور حالیہ برسوں میں بلاسفیمی سے متعلق قوانین کو لے کر جنم لینے والی تحریکوں کے سیاسی و سماجی اثرات سے مذہبی انتہاپسندی کو مزید فروغ ملا۔
مذہبی آزادی کے تناظر میں دہشت گردی کے سماجی اثرات
ان پر تشدد رویوں کی تر ویج کا صرف جانی و مالی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس بیانیے سے مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں تفریق بڑھی۔ اب ہم اس کے اثرات روزمرہ کے عمومی معاملات میں بھی دیکھتے ہیں کہ کہیں دکانوں پر بورڈ لگایا ہوتا ہے کہ اس دکان میں فلاں عقیدہ والا داخل نہیں ہو سکتا، فلاں کے جنازے میں شریک ہونے والوں کا نکاح ٹوٹ گیا ہے، فلاں کافر ہے اسے سلام مت کریں۔ فلاں دکان والا بدعتی ہے اس سے سامان مت خریدیں، فلاں گستاخ ہے ان کو اس محلے میں کرایہ کے لیے کوئی مکان نہ دیں، فلاں مشرک ہے اس سے بات چیت مت کریں، اسی طرح مذہبی آزادی کا راستہ بھی کئی طریقوں سے روکا جاتا ہے کہ فلاں مسلک کی عبادت گاہ اس محلے میں نہیں بن سکتی، فلاں عقیدے کے لوگ اپنے مرنے والے پیاروں کو اس قبرستان میں نہیں دفنا سکتے، فلاں عقیدے والے یہاں اپنے مذہبی رسومات و عبادات انجام نہیں دے سکتے، فلاں عقیدے کی تبلیغ یہاں ممنوع ہے، فلاں عقیدے والے بچوں کو اس سکول یا درسگاہ میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ کہیں عبادت گاہوں اور مذہبی اجتماعات پر نشانہ وار حملے کے ذریعے لوگوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے، اس کے لیے جمع ہونے اور تعلیم و تبلیغ کا اہتمام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اعلیٰ قومی جامعات، ریاستی اداروں اور اعلیٰ آئینی اداروں میں تقرریوں، ملازمت کی ترقیوں، منصوبوں کی منظوریوں، تحقیقی مقالات کی اشاعت تک اہلیت و معیارات کے بجائے عقیدے کی بنیاد پر تعصب برتا جاتا ہے۔ [3]
یوں ہمارے معاشرے میں مذہبی و مسلکی تفریق اورحساسیت مزید بڑھتی چلی گئی جو معاشرے میں مزید تقسیم در تقسیم کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ منافرت کی تبلیغ و ترویج پہلے خطبات، تقریریوں، جلسے، جلوسوں ، اخبارات، رسائل اور واک چاکنگ کی صورت میں ہوتی تھی اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اس منافرت کو مزید پروان چڑھایا ہے اور ہماری نوجوان نسل کے معصوم ذہنوں کو آلودہ کیے جارہی ہے۔
مذہبی آزادی کی خاطر سول سوسائٹی کا کردار
کسی بھی معاشرے میں ایسی صورتحال یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے مختلف سوچ ،رنگ ، نسل ، مذہب اورمسلک کے افراد کے درمیان سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے تا کہ معاشرے میں موجودتفریق اور بگاڑکو کم سے کم کیا جا سکےاور باہمی اشتراک و تعاون سے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہوئے سب اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں۔اسی تناظر میں اگر ہم پاکستان کی معاشرتی صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی سول سوسائٹی متحرک اور فعال کردار ادا کرتی نظر آئی ہےاور بالخصوص گزشتہ چند دہائیوں سے تین مختلف سطح پر سماجی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ کے لیے کاوشیں نظر آتی رہی ہیں۔
- پالیسی سطح پر سول سوسائٹی مختلف ریا ستی اداروں کے ساتھ باہمی اشتراک سے مذہبی آزادی کے مختلف پہلوؤں اور مسا ئل پر آواز اٹھاتی نظر آئی تاکہ موٴثر انداز سے ایشوز پراپنی آواز مقتدر حلقوں تک پہنچائی جاسکے۔
- اداراتی سطح پر ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دہائیوں میں ریاستی سطح پر مذہبی آزادی کے فروغ کے لیےکچھ ایسے فورمز یا کمیشنز کے قیام کے ساتھ ساتھ کمیونٹی میں موجود مختلف اداروں ، سکول ، کالج، یونیورسٹی و مدارس میں سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے وقتا فوقتا اقدامات اور کاوشیں نظر آتی رہی ہیں ۔
- معاشرے کی سطح پر مختلف طبقات فکر (جن میں اساتذہ، وکلاٴ، سیاسی قائدین، کمیونٹی قائدین، نوجوان، سماجی کارکنان اور خواتین و دیگر) کے درمیان باہمی مکالمے اور رواداری کے فروغ کے لیے سول سوسائٹی متحرک اور فعال کردار ادا کرتی نظر آئی ہے ۔
تاہم سول سوسائٹی کے اندر مذہبی حلقوں کو معاشرے کے بنیادی سٹیک ہولڈر (stakeholders)کے طور پر تسلیم کرنے میں میں ایک تقسیم رہی ہے جو آج بھی موجودہے۔ کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ سوسائٹی کو مذہبی لیڈرشپ کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لیے کام نہیں کرنا چاہیےتا ہم کچھ سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہیں کہ مذہبی قیا دت کے ساتھ کام کرنا ناگزیر ہے۔ البتہ آج سول سوسائٹی کےمختلف ادارے کافی حد تک مذہبی قیادت اور مدارس کے ساتھ مختلف initiatives پر کا م کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
معاشرے کی سطح پر مذہبی آزادی سے جڑے مختلف ایشوز پر موٴثر کام مذہبی قیا دت کو بنیادی stakeholders تسلیم کیے بغیر بہت مشکل ہوگا۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔ (الف) ادارہ امن و تعلیم کے ایک سروے کے مطابق ایک عام امام یا مذہبی قائد کمیونٹی کی سطح پر ایک موٴثر رائے ساز ہے، کیونکہ وہ ہفتہ وارمقامی کمیونٹی کے کم سے کم ۳۰۰ سے ۵۰۰ افراد کے ساتھ پنجگانہ نماز و جمعہ کے ذریعے ملاقات کرتاہے۔ (ب) مذہبی قا ئد یا امام معاشرے میں ایک روحانی پیشوا یا moral authority سمجھی جاتی ہے جو مذہب کا مستند نمائندہ کے طور پر جانا اور سمجھاجاتا ہے اور کمیونٹی کے عام افراد مذہبی و سماجی مسائل کے تناظر میں اسی سے رابطہ کرتے ہیں۔ (ج) ایک مذہبی قا ئد،امام اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے سبب مقامی کمیونٹی کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارتا ہے۔ (د) مذہبی قا ئد یا امام کے کردار کو دیکھنے کا زاویہ تعین کرتاہے کہ اس کا کردار کیا اور کتنا موثر ہے مثال کے طور پر ان کو مسائل کا سبب سمجھنے کہ بجائے مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھاجائے۔
مذہبی آزادی کے تحفظ اور فروغ کی خاطر ادارہ امن و تعلیم کا ماڈل
اس ضمن میں ادارہ امن و تعلیم کاگزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے مذہبی طبقات کے ساتھ کام غیر معمولی نظر آتا ہے ۔ ادارہ امن و تعلیم (Peace and Education Foundation) ایک غیر سرکاری، غیر منفعتی اور غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد مختلف اداروں کے اشتراک عمل سے تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی نوعیت کے منصوبوں کی مدد سے افراد کی مہارتوں اور صلاحیتوں میں اضافے کے ذریعے مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی، پُرامن بقائے باہمی اور مکالمہ کی ثقافت کو فروغ دے کر سماجی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنا ہے۔ یہ ادارہ 2009 میں کراچی میں رجسٹر ہوا اور اپنے قیام سے لے کر آج تک مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے:
- مختلف طبقات اور مکاتبِ فکر سے وابستہ لوگوں کو ایک پر اعتماد ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلیم و ترقی اور امن و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے معلومات و تجربات کے باہمی تبادلہ کا موقع فراہم کرنا۔
- تعمیر امن کے لیے مذہبی طبقات کی کاوشوں کو سراہنا اور انہیں معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا۔
- تعلیم، ترقی اور تعمیرِ امن جیسے موضوعات پر تحقیق، تحریر اور مکالمے کا فروغ۔
- معاشرے کے مختلف طبقات اور افراد کو تعمیری اور تخلیقی انداز میں اپنے تنازعات حل کرنے میں مدد دینا۔
اس ادارے کا بنیادہ فلسفہ یہ ہے کہ مذہبی طبقات کے اندر ہی سے ایسے افراد کی کھیپ تیار کرنا جو مجموعی طور پر معاشرے میں مذہبی آزادی سے متعلق مسائل کو سمجھیں اور مذہبی حلقے کی طرف سے آنے والی رکاوٹوں کو مکالمہ، باہمی تعلقات اور دوسرے عقائد سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے ذریعے دُور کر سکیں۔ اس کے لیے ادارہ امن و تعلیم نے پانچ سطح پر مذہبی طبقات کو اپنے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔ (ا) اداراتی ترقی (۲) بین المسالک ہم آہنگی (۳) جمہوری نظام و اقدار کا فروغ (۴) بین المذاہب مکالمہ (۵) گراس روٹ لیول پر کمیونٹی کے لیے پروگرام۔
(۱) دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ کام میں قومی اور بین الاقوامی تناظر میں دینی مدارس میں درکار اصلاحات کے لیے تعاون کرنا اور امن اور ہم آہنگی کے لیے مدراس کردار کو مضبوط کرنا اور اسے بڑے پیمانے پر اجاگر کرنا۔ اس مقصد کے لیے ادارہ امن و تعلیم نے دینی مدارس کی قیادت اور حکومت کے درمیان اعتماد سازی کرتے ہوئے پل کا کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں پالیسی مرتب کرنے میں معاونت کی۔
پاکستان میں تقریباً تیس ہزار سے زائد مکاتب و مدارس، چالیس لاکھ سے زائد طلبہ موجود ہیں مگر اساتذہ اور دیگر سٹاف کی پیشہ وارانہ تربیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ اس خلا کو مدارس کی قیادت کی مشاورت سے ادارہ امن و تعلیم نے پُر کرنے کا عزم کیا ۔ اداراتی استعداد کے لیے ادارہ امن و تعلیم نے خاص طور پر اتحاد تنظیمات مدارس سے وابستہ پانچوں وفاق کے مقررہ مدرسوں میں ٹیچر ٹریننگ سینٹر قائم کیے اور ان مراکز میں آس پاس کے شہروں او ر اضلاع سے اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ادارہ، پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے مدراس کے اساتذہ کے لیے پیشہ وارانہ تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ اس پروگرام کا نام” یونیورسٹی سرٹیفیکیشن” پروگرام ہے جس کی خصوصیت یہ کہ ایک ہی کلاس میں مختلف مسالک سے منسلک مدارس کےاساتذہ چھ ہفتوں کے تربیتی پروگرام میں شریک ہوتے ہیں۔ ادارہ امن و تعلیم نے اس سلسلے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، کوہاٹ یونیورسٹی، ملاکنڈ یونیورسٹی، ہری پور یونیورسٹی، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، سے اشتراک کیا ہوا ہے۔
ادارہ امن و تعلیم اور دینی مدارس کی قیادت اور دیگر نامور علمائے کرام کی مشاورت سے سیکنڈری (ثانویہ) کے لیے نصاب مرتب کیا ہے۔ “تعلیم امن اور اسلام” نام کی یہ درسی کتاب اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے کہ جس کے مندرجات پر سارے مسالک کا اتفاق ہے اور سبھی مسالک کے بہت سے مدارس میں بطور نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ اس کتاب کا پشتو ترجمہ مجلس تحقیقات اسلامی نے شائع کیا ہے۔ اس کو مرتب کرنے والے ماہرین تعلیم و نصاب نے تنوع، اختلاف رائے کے آداب، امن و ہم آہنگی کے قیام و فروغ، تنازعات کے حل، مکالمہ، مذہبی آزادی، انسانی حقوق، انسداد انتہاپسندی کے موضوعات پر جدید تناظرات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہترین انداز میں مرتب کیا ہے۔ اس کے ماہرین نے اس کتاب کا ٹیچر گائیڈ اور تربیت اساتذہ کے لیے ٹریننگ مینول تیار کیا اور سینکڑوں اساتذہ کو اس کی تدریس کے لیے پیشہ وارانہ تربیت دی ہے۔
(۲) ادارہ امن و تعلیم نے پاکستا ن میں بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کےلیے پاکستان میں موجود مختلف اسلامی مسالک سے وابستہ علمائے کرام، قائدین اور مذہبی دانشوروں کی مشاورت سے “بین المسالک ہم آہنگی اور مفاہمت” بھی مرتب کر چکا ہے ۔ نیز بین المسالک مکالمے اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مختلف شہروں میں مختلف مسالک کے علماء، خطبا، مذہبی رہنماؤں اور مذہبی کارکنوں کے لیے تربیتی ورکشاپ اور ایک دوسرے کے ہاں مطالعاتی دورے منعقد کرتا ہے۔
(۳) جمہوری نظام و اقدار سےمتعلق فہم میں اضافے کے لئے ادارہ امن و تعلیم نے پاکستان میں علمأ کرام و مذہبی و سیاسی قائدین اور نوجوانوں کے لئے مختلف شہروں میں تربیتی پروگرامات منعقد کیے ۔ اس پروگرام کے لئےادارہ کی جانب سے اب تک کل تین تصانیف شائع ہو چکی ہیں ان تصانیف میں “(الف) اسلام ، جمہوریت اور آئین پاکستان،(ب) آئین پاکستان اور اسلامی جمہوری ریاست کے خدوخال اور(ج) جمہوریت اورجمہوری اقدارکے فروغ میں نوجوانوں کا کردار” جس میں سے پہلی تصنیف مجلس تحقیقات اسلامی کے تعاون سے شائع ہو ئی ہے ۔ نیز اس پروگرام میں جمہوری نظام سے متعلق فہم میں اضافے کے لیے جمہوری و ثقافتی اداروں کے مطالعاتی دوروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
(۴) پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیےمسلم، مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب سے وابستہ اداروں، مراکز اور تنظیموں کے اشتراک سے ادارہ امن و تعلیم تربیتی ورکشاپ، مکالمے کے فورمز اور مختلف مذہبی عبادت گاہوں کے مشترکہ مطالعاتی دوروں کا اہتمام کرتا ہے اور انٹرفیتھ رہنماؤں کے مابین افہام و تفہیم، مثبت تعلقات ، باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ اور مشترکہ سماجی مقاصد کے لیے باہمی تعاون اشتراک عمل کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
(۵) ادارہ امن و تعلیم اپنے تربیتی پروگراموں سے فارغ ہونے والے سرگرم شرکا کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور وہ اپنے اپنے شہروں، علاقوں اور فورمز پر مزید لوگوں کو رواداری اور ہم آہنگی کے عمل میں مزید شامل کرتے ہیں ۔ استعداد کار میں اضافے، مختلف سطح پر مختلف عقیدہ و پیشہ سے تعلق رکھنے والے سرگرام مذہبی و سماجی کارکنوں، اساتذہ ، رہنماؤں اور سوشل ورکرز سے تعلقات اور سیکھی ہوئی جدید مہارتوں کی بدولت وہ معاشرے میں اپنے مذہبی آزادی کے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوتے ہیں، جس سے مکالمے اور رواداری کی فضا پروان چڑھتی ہے۔ ادارہ امن و تعلیم جوانوں کے درمیان صحت مند مکالمے کے فروغ اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے دینی مدارس اور یونیورسٹی طلبہ کے درمیان مباحثے، سپورٹس ، مشترکہ سیرو تفریح اور تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کرتا ہے۔
ادارہ امن و تعلیم کے تحت مختلف مذہبی طبقات کے لیے مختلف نوعیت کے تربیتی پروگرامات میں عموماً مذہبی آزادی سے جڑے موضوعات و مہارتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پرمذہبی و مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بیشتر موضوعات جس میں تنوع وتکثیریت، تنقیدی و تخلیقی فکر، کمیونٹی لیڈرشپ ،حل تنازعات، مذہبی ادارے بطور سماجی مرکز، شناخت اور مکالمہ شامل ہیں، تاہم مدارس کے اساتذہ کی استعدار کار میں اضافے کے لیے منتخب شدہ موضوعات جس میں خودشناسی بحیثیت استاد، تحقیقی مقالہ کی تیاری، سیکھنا ، سکِھانااور ترقی کرنے کا عمل، غورو فکر کی مختلف جہتیں،سوال کرنے کی اہمیت اور مسائل کا حل ، کمرہ جماعت کا انتظام، سبق کی منصوبہ بندی ، تنازع کا حل اور قیام ِامن اورانسانی حقوق،تنوع اور تکثیریت شامل ہیں۔ نیز معاشرے کی سطح پر جمہوری اقدا ر کے فروغ کے لیے منتخب شدہ موضوعات جن میں فرد واحد کی صلاحیت اور جمہوریت، اسلام اور جمہوریت: خلافت راشدہ کے اصولِ حکمرانی اور اہم جمہوری اقدار، تنقیدی فکر، جمہوریت اور جمہوری نظام پر اشکالات کا ایک جائزہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل کا جائزہ ، تاریخ پاکستان کی روشنی میں ، نوجوان قیادت اور سیاسی مستقبل، جمہوری طرزفکر سےتنازعات اورسماجی مسائل کا حل اور آئین پاکستان کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق جیسے موضوعات موجود ہیں، تاکہ متعلق شرکأ کے کردار سے جڑے اہم ترین موضوعات پر ان کےعلم و فہم میں اضافہ کیا جاسکے۔
ادارہ امن و تعلیم مذہبی ، سماجی اور ثقافتی تنوع کو پاکستان کے لیے ایک کلیدی طاقت سمجھتا ہے۔ پاکستان کی اسی قوت و طاقت کو درست سمت دے کر وسیع قومی تعمیر و ترقی اور باہمی خوشحالی کے امکانات کو عملی جامہ پہچانا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں موجود اس ثقافتی تنوع کا ادراک اور اس کو بڑے پیمانے پر سراہنا پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق مسائل کو کم یا حل کر سکتا ہے ۔
یہ ادارہ ایک سطح پر مذہبی قیادت اور دینی مدارس کے ساتھ مذہبی رواداری اور مدارس میں تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے بے شمار پروجیکٹس و سرگرمیاں کر چکاہے تو دوسری جانب کمیونٹی کی سطح پر موجود علما،خطباٴ، مذہبی و سیاسی قائد، نوجوان اور ی خواتین قیادت کے ساتھ مختلف پروگرامات کے ذریعے مذہبی ومسلکی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کر رہاہے۔ اب تک ۱۶۰۰۰ سے زائد مذہبی طبقات سے جڑے ہوئے مختلف افراد اس ادارے کے تحت منعقدہ مختلف ورکشاپس کے ذریعے شامل ہوچکے ہیں۔
انتہاپسندی کے انسداد کے لیے قومی سطح پر ہونے والی کاوشوں میں ادارہ امن و تعلیم قومی اداروں کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے اور اس سلسلے میں اپنی مشاورتی و تربیتی فورمز کے ذریعے قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قومی لائحہ عمل “پیغام پاکستان” کی تشکیل اور اس کی ترویج میں ادارہ امن تعلیم کی معاونت شامل رہی ہے۔ بہت سے فارغ التحصیل سرگرم شرکا ء نے اپنے طور پر روادری کے نیٹ ورک بنائے ہیں اور بہت سے تنازعات اور فسادات میں انہوں نے رواداری اور ہم آہنگی کے معاملے میں قائدانہ کر دیا ادا کیا ہے۔
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے، یہاں کے مقامی مسائل کے لیے مقامی حل ہی کارگر ثابت ہوں گے۔ کوئی بھی بیرونی حل اس پر زور و زبردستی کے ساتھ مسلط نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی وہ کامیاب ہو گا۔ ایک مذہبی معاشرے کے لحاظ سے مذہبی طبقہ یہاں کا بہت بڑا سماجی سٹیک ہولڈر ہے۔ ادارہ امن و تعلیم نے اس تناظر میں سول سوسائٹی کی سطح پر ایک ایسے مؤثر طبقے کو مسائل کے حل میں شریک کرنے کا عزم کیا جسے آسانی سے بہت ہی سطحی استدلال کے ساتھ مسائل کا واحد ذمہ دار سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک متنوع معاشرے کی حیثیت سے پاکستان میں موجود نسلی، لسانی، مذہبی و مسلکی اور ثقافتی تنوع کے تناظر میں سب طبقات کو اس کے قومی مسائل کے حل اور قومی تعمیر وترقی کے عمل میں شامل کرنا از حد ضروری ہے۔ کسی ایک ثقافتی اکائی یا طبقے کو نظر انداز کرنے نئے مسائل کو جنم دینے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
[1] اسلامی جموریہ پاکستان کا دستور۔ باب۱ ،بنیادی حقوق
[2]https://gulfnews.com/world/asia/pakistan/83000-lives-lost-in-pakistans-war-on-terrorism-1.76428064
[3] https://www.tajziat.com/article/141