مذہب وسیاست کے مابین تعلق: ملائشیا اور انڈونیشیا کا ماڈل

0

مغربی مفکرین کی طرف سے عام تأثر یہ دیا جاتا ہے کہ مسلم ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ مذہب اور مذہبی طبقہ ہے۔ ایسے ہی خیالات کا حامل ایک طبقہ مسلم مفکرین میں بھی پایا جاتا ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا ایسے ملک ہیں جو اس تأئر کو عملاَ زائل کرتے ہیں۔ یہاں مذہب وریاست کے درمیان تعلق صحت مند اور ثمرآور رہا ہے۔ اس بنیاد پر ریاست وسماج کے درمیان بھی کوئی کشمکش موجود نہیں ہے۔ زیرنظر مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ان ممالک میں ریاست ومذہب کے تعلق کو کیسے منظم رکھا جاتا ہے۔ ان کا آئین کیا کہتا ہے اور اس تعلق کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مصنفہ ڈاکٹر ماجدہ علی صالح قاہرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبے کی سربراہ ہیں ہیں کئی کتب تصنیف کرچکی ہیں۔

عصرحاضر کی مسلم فکر میں مذہب وسیاست کا تعلق

مذہب وسیاست کے درمیان تعلق کی نوعیت کے بارے مسلمان مفکرین کی آراء منقسم ہیں اور اس ضمن میں ہر نقطہ نظر کےپاس اپنے اپنے دلائل  ہیں جن پر ان مواقف کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ سردست ان دلائل کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ اگر ان مواقف کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست ومذہب کے مابین تعلق کی نوعیت بارے اہل علم ومفکرین تین حصوں میں تقسیم ہیں:

(1)    پہلا گروہ ان علماءومفکرین پر مشتمل ہے جن کا خیال ہے کہ مذہب وسیاست کے درمیان اثبات ولزوم کا تعلق ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ریاست کو قائم کریں۔ یہ حلقہ قومی ریاست کی اسلامی تشکیل کا حامی ہے اور بعض لوگ خلافت کے احیاء کے بھی داعی ہیں۔

(2)    دوسرا گروہ پہلے کے بالکل برعکس رائے رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک مذہب وسیاست کے مابین کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کو مذہب سے الگ رکھنا ضروری ہے۔

(3)    جبکہ تیسرا طبقہ سابقہ دونوں آراء میں درمیانی حیثیت کا قائل ہے۔ اس کا موقف ہے کہ مذہب وسیاست کے درمیان تعلق کی نوعیت نہ توقطعی لزوم کی ہے بایں معنی کہ اسے ہر حوالے سے مذہبی بنیادوں پر ہی استوار کیا جائے اور نہ ان کے درمیان تعلق منافات وتضاد کا ہے۔ بلکہ یہ کہ سیاست میں مذہبی اقدار سے رہنمائی لی جاسکتی ہے اور شریعت کے واضح احکامات کے خلاف قوانین نہیں وضع کرنے چاہئیں، لیکن سیاسی نظم کا کوئی ڈھانچہ متعین نہیں ہے اور یہ کہ سماجی اٹھان شہریت کی اساس پر قائم ہونی چاہیے۔

تیسرے فریق کے مطابق ریاست نہ اسلامی ہوتی ہے اور نہ غیراسلامی۔ یہ شہریت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ اس کا ساختیاتی ڈھانچہ جمہوری ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ قوانین ایسے نہ وضع کیے جائیں جو نصوص کی واضح مخالفت کرتے ہوں۔ یوں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن بنائی جاسکتی ہے جو جدید بھی ہو اور اس میں اسلامی اقدار کی رعایت بھی رکھی گئی ہو۔ اس رائے سے شہریت کے مغربی تصور اور اسلامی تصور کے مابین فرق کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے۔ اس کے مطابق ریاست کی نمایاں خصوصیات یہ ہوں گی:

  • ریاست کی بنیاد شہریت کے وصف پر قائم ہوگی جس کے تحت کسی بھی نوع کی طبقاتی تقسیم غیر اہم ہوگی۔
  • قانون کو اہمیت حاصل ہوگی جس سے ریاست وسماج کے صحت مندر تعلق کی آبیاری ہوگی۔
  • جمہوری ادارے قائم وفعال ہوں گے۔

اس سارے ڈھانچے میں مذہبی اقدار سے بے اعتنائی کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلام میں اس نوع کے ریاستی وسیاسی سانچے کی تشکیل کی کوئی ممانعت موجود نہیں ہے۔

ایشیا میں مذہب وریاست کے تعلق کی بحث

ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جہاں دنیا کے وہ مسلمان آباد ہیں جو تاریخی طور پہ انتہائی پرامن خیال کیے جاتے رہے۔ یہاں اسلام تاجروں کے ذریعے سے پہنچا اور تاریخی اعتبار سے اس خطے میں تہذیبی جنگیں نہیں ہوئیں۔ حالانکہ یہاں قدیم ترین الہامی اور الہامی مذاہب پائے جاتے ہیں لیکن ان کے درمیان ہمیشہ ہم آہنگی کا ماحول قائم رہا۔ یہاں تہذیبی جنگیں اور عدم برداشت استعماری عہد کے بعد شروع ہوئی جب طاقت واختیارات کی کشمکش میں مذہبی فضا مکدر ہوکر رہ گئی اور آج یہ صورتحال ہے کہ ایشیا میں عدم برداشت بہت زیادہ ہے اور یہاں مسلح تحریکیں بھی قائم ہوگئی ہیں جن سے مسلمان فکری اور امن وامان کے لحاظ سے نبردآزما ہیں۔

ایشیا میں مذہب وریاست کے تعلق کی بحث بھی استعماری عہد میں ہی شروع ہوئی جیسے کہ باقی مسلم دنیا میں۔ بلکہ سیاسی اسلام کے علمبرداروں میں سے ایک نمایاں شخصیت مولانا ابوالاعلی مودودی کی نسبت بھی اسی خطے سے ہے۔ استعماری عہد کے خاتمے کے بعد یہاں کے مسلم ممالک میں یہ سوال بھی اٹھے کہ دساتیر میں مذہب کو کیا حیثیت دینی چاہیے۔ بعض ممالک نے اپنے آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا اور بعض نے ایسا نہیں کیا۔ ایشیاکے وہ مسلم ممالک جنہوں نے اپنے آئین میں اسلام کو ریاست کا سرکاری دین کہا ہے وہ یہ ہیں:

ملائیشیا: ملائیشیا کے آئین کے آرٹیکل 3 میں کہا گیا ہے کہ اسلام ملک کا سرکاری مذہب ہوگا۔ اس کے ساتھ آرٹیکل 11 میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو عبادت اور شعائر کی ادائیگی کی مکمل آزادی ہوگی اور مذہبی بنیادوں پر کسی طبقے کو حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان: پاکستان کے آئین میں بھی شروع سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام ملک کا سرکاری مذہب ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں وضع کیا جائے گا۔

ایران: ایران کا آئین بھی اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے اثناعشری مسلک ملک کی اکثریتی آبادی کا مسلک ہے۔

بنگلادیش: بنگلادیش ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے قیام کے ساتھ آئین میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اسلام ان کا سرکاری مذہب ہوگا، لیکن 2012ء میں حکومت نے آئین سے اس شق کو نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر ملک کی غالب اکثریت نے سخت احتجاج کیا جس کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔

ان کے علاوہ ایشیا کے دیگر مسلم ممالک کی اکثریت نے آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار نہیں دیا۔ ان میں سے بالخصوص انڈونیشیا سرفہرست ہے جو آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح وسطی ایشیائی ممالک نے بھی آئین میں ایسی تصریحات نہیں کی ہیں۔

ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مذہب وریاست کا تعلق اور اثرات

جنوب مشرقی ایشیائی مسلم ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا ایسے خطے تصور کیے جاتے ہیں جہاں مذہب ویاست کا بحث اس طرح نہیں ہوئی جیسے کہ دیگر مسلم ممالک میں نظر آتی ہے اور نہ ہی ایسے تصورات کی بنیاد پر یہاں کوئی بڑے تنازعات سامنے آئے۔ اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ یہاں مذہب وریاست کے مابین تعلق ایک صحت مند شکل میں تسلیم شدہ امر ہے اور ریاست وسماج دونوں اس چیز کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ پھر یہ تعلق ایسی معتدل شکل میں ہے کہ نہ مذہب جدیدیت وثقافت کی راہ میں حائل ہوتا ہے اور نہ جدیدیت وثقافت کے معیارات میں مذہب کو بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان ممالک میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے اور وہ بہت اثرورسوخ کی حامل ہیں۔ ملائیشین اسلامک پارٹی 1951ء سے فعال ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں نہضۃ العلماء جیسی مذہبی فلاحی سماجی جماعتیں بھی متحرک ہیں جو ملک کے قانونی ڈھانچے کے اندر رہ کر کام کرتی ہیں۔

2004ء کے انتخابات کے دوران یونائیٹڈ مالے آرگنائزیشن نے یہ نعرہ لگایا تھا: ‘ترقی پسند اسلام’یہ دراصل ملائشین اسلامک پارٹی کے نعرے ‘اسلام سب کے لیے’ کا متبادل تھا۔ ملائیشیامیں مسلم سیاسی جماعتوں کے مابین اس امر پہ صحت مند مقابلہ رہتا ہے کہ کون سیاسی حوالے سے مذہب کا ایسا تصور پیش کرتا ہے جو ترقی پسند ہو جمہوری ہو، جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ لوگوں کے معاصر مسائل میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہو۔ یونائٹد مالے کا یہ نعرہ لگانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی حریف جماعت ملائیشین اسلامک پارٹی پر اپنی برتری ظاہر کرے۔ اس نے اس شعار کی تبدیلی کے ساتھ یہ کہا تھا کہ ملائیشین اسلام پارٹی محض علماء کی جماعت ہے جس کے پاس جدید ریاستی مشینری چلانے اور ترقی کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ملائیشین اسلام پارٹی ایسا ہی تصور نہضۃ العماء کے بارے میں پیش کرتی ہے اور خود سیاسی حوالے سے ترقی پسند اور زیادہ معتدل کہتی ہے۔

ملائیشیا کی آزادی کے بعد مہاتیر محمد کے دور کو ملک کی ترقی اور اس کی جدید بنیادوں پر استواری کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ مہاتیر محمد نے جہاں ملائیشیا کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا وہیں اس کے ساتھ ان کے عہد میں اسلامی تشخص پر بھی بہت زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ اسلامائزیشن کا یہ عمل ہر شعبے میں نظرآیا۔ تعلیمی نصاب میں مذہبی مواد کا اضافہ کیا گیا۔ اسلامی جامعات زیادہ سے زیادہ قائم کی گئیں۔ اسلامی بیکنگ نظام کو وسعت دی گئی۔ قومی میڈیا میں مذہبی پروگرامز شائع کیے گئے۔ معیشت کا ملائیشین ماڈل بھی اسلامی اقدار پر استوار کیاگیا۔ سرکاری سرپرستی میں اسلامی اقتصادیات کے تعارف وفروغ کے لیے مراکز قائم ہوئے۔ مذہبی شناخت واقدار کے تحفظ وفروغ کے لیے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس کی براہ راست نگرانی وزیراعظم نے کی۔ جب میڈیا میں اسلامی پروگرامز کی زیادہ نشرواشاعت پر اعتراضات کیے گئے تو جواب دیا گیا ہے کہ یہ ملائیشیا کا قومیتی مسئلہ ہے جس میں مذہب اسلام کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ خارجہ سطح پر بھی اسلامی تشخص کو خاص جگہ دی گئی۔ مہاتیر محمد کے دور میں مشرق وسطی کے ساتھ بڑے بڑے اقتصادی معاہدے کیے گئے۔ انہوں نے مسلم حکمرانوں کو تلقین کی کہ وہ مغرب کی بجائے آپس میں باہمی تجارت پر زیادہ توجہ دیں اور ایک مضبوط مسلم بلاک تشکیل دیں۔ ابھی حال ہی میں جب مہاتیر محمد مختصر عرصے کے لیے ایک بار پھر ملائیشیا کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے دسمبر 2019ء میں ایک کوالالمپور سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں مسلم حکمرانوں اور اہم مسلمان شخصیات کو دعوت دی گئی تھی تاکہ وہ ایک ایسے اتحاد کی بنیاد رکھ سکیں جس کے تحت مسلمان اپنے معاشی اور امن امان کے مسائل کو خود حل کرسکیں اور اسلاموفوبیا کا بھی رد کیا جاسکے۔

مہاتیر محمد کے دور میں اگرچہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا اعلان تو نہیں کیا گیا تھا لیکن اسلامی تشخص واقدار کے فروغ کو خاص اہمیت ملی۔ مفکرین کے نزدیک اس کی دو وجوہات تھیں جن کی اساس پر اتنے بڑے پیمانے پر اسلامی تشخص کو توجہ دی گئی، اور دونوں وجوہات میں یونائٹدمالے سے مسابقت رکھنے والی حریف اسلامی جماعت ملائشین اسلامک پارٹی کا اثر غالب تھا۔

ایک سبب یہ تھا کہ 80 کی دہائی میں ملائیشیا کے اندر اسلامی اقدار کی بات کرنے والی جماعتوں کا عروج تھا۔ بلکہ یہ وہ عہد تھا جب اسلام اور شریعت کی بات کرنے والی جماعتیں ساری دنیا میں طاقتور ہوئیں۔ اس وقت ملائشیا میں بھی ایسی تنظیمیں زیادہ فعال ہوئیں۔ ان میں ملائشین اسلامک پارٹی، مسلم یوتھ موومنٹ اور دارارقم جیسی جماعتیں سرفہرست تھیں۔ بالخصوص ملائشین اسلامک پارٹی جو یونائٹڈ مالے کی سیاسی قومی حریف تھی اسلامی تعلیمات واقدار کے فروغ کے لیے پہلے سے زیادہ فعال ہوگئی۔ مسلم یوتھ موومنٹ جو 1971ء میں قائم ہوئی تھی اس نے ملک کے اندر اسلامی نظام کے نفاذ کی آواز بلند کررکھی تھی اور ایک اسلامی ریاست کے قیام کی بات کرتی تھی۔ ایسے میں یونائٹڈ مالے آرگنائزیشن نے اسلام سے اپنے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے ملک میں اسلامائزیشن کے لیے خاطرخواہ اقدمات کیے۔ 1992ء میں جب ملائشیا کی ایک شمال مشرقی ریاست کیلانتن میں ملائشین اسلامک پارٹی کی حکومت تھی تو اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ماتحت ریاست میں اسلامی نظام کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہے تو اس وقت مہاتیر محمد نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ملائشیا میں شرعی نظام نافذ کریں گے۔ لیکن انہوں نے عملاََ یہ قدم نہیں اٹھایا تھا۔

دوسرا عامل بھی تقریباََ پہلے ہی کی طرح ہے۔ 80 کی دہائی میں جب مہاتیر محمد وزیراعظم تھے تو ملائشین اسلامک پارٹی اورمسلم یوتھ موومنٹ جیسی جماعتوں نے یہ تأثر دینا شروع کیا کہ یونائٹڈ مالے ایک سیکولر رجحان کی حامل جماعت ہے جبکہ ملک کے قومی تشخص کی حقیقی نمائندہ جماعت کے لیے ملاوی نسل اور دین اسلام دونوں کو ترجیح دینا اہم ہے۔ تب یونائٹڈ مالے نے اپنے حوالے اس تأثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہ مہاتیر محمد بذات خود اسلامی عنصر کو اہمیت دیتے تھے لیکن سیاسی مسابقت اور دباؤ نے بھی کئی اقدامات اٹھانے میں کردار ادا کیا۔ ملائشین اسلامک پارٹی نے اگرچہ ریاست کیلانتن میں شریعت اور حدود کے نفاذ کا اعلان کیا تھا لیکن عملاََ یہ ممکن نہیں ہوسکا تھا کیونکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دستور میں کچھ ترامیم کرنی پڑتیں۔

ملائشین اسلامک پارٹی جو PAS (Parti Islam-Se-Malaysia) کے نام سے مشہور ہے یہ اگرچہ اسلامی تشخص کی سیاست کرتی ہے لیکن عملی سیاست میں اس نے غیرمسلموں اور خواتین کے حقوق کے لیے کافی نرمی کا اظہار کیا ہے۔ 1999ء میں جب ریاست ترینگانو میں جماعت کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے بہت سے ایسے اقدامات کیے جو اس کی سیاسی وسعت ظرفی کی علامت بنے۔ اس نے مسیحی برادری کے لیے محدود چرچ بنانے کی شرط ختم کردی اور انہیں آزادی دی کی کہ وہ آزادانہ طور پہ چرچ تعمیر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح چینی باشندوں کے لیے خنزیر پالنے اور اس کا گوشت کھانے بیچنے کی آزادی فراہم کی۔ ریاست میں نسلی امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ خواتین کے پارلیمان میں شراکت پر زور دیا۔ اپنی جماعت کے اندر بھی مرکزی سطح پر خواتین کی قیادت کو جگہ دی اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا۔

انڈونیشیا 1945ء میں استعمار سے آزاد ہوا۔ اس کا قومی شعار پانچ اصولوں پر قائم کیا گیا ہے جو یہ ہیں:

  • حاکمیت الہیہ
  • انسانی فلاح
  • متحد انڈونیشیا
  • جمہوریت
  • عدالتِ اجتماعی

انڈونیشیا میں ان اصولوں پر تمام سیاسی جماعتوں اورمذہبی حلقوں کا اتفاق ہے۔ یہ اصول انڈونیشیا کے اتحاد اور اس کی ترقی کی ضمانت ہیں۔ ان میں حاکمیت الہیہ کے ساتھ جمہوریت کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ریاست میں مذہب وسیاست کا تعلق معتدل حیثیت میں قائم رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ اگرچہ انڈونیشیا میں جمہوریت اور اسلامی اقدار کے نفوذ کے لیے کوششیں مذہبی و جمہوری جماعتوں نے کیں لیکن آمریت کے عہد میں بھی وہاں اسلامی عنصر کو توجہ دی گئی۔

ملائشیا اور انڈونیشیا کے تجربات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذہب وریاست کے مابین ایک صحت مند تعلق قائم کیا جاسکتا ہے جس میں شہریت، جمہوریت اور جدیدیت کو بھی اہمیت دی جاسکتی ہے، اور اس کے ساتھ اسلامی اقدار کا تحفظ بھی ممکن ہے۔