’امارتِ اسلامیہ اور اس کا نظام‘: افغانستان کے چیف جسٹس کی کتاب کن مسائل و اُمور پر بحث کرتی ہے؟
’الامارۃ الاسلامیہ ونظامھا‘ یہ عنوان ہے افغانستان کے موجودہ قاضی القضاۃ ملا عبدالحکیم حقانی کی کتاب کاجس میں افغانستان کے سیاسی نظام اوراہم مسائل کے ضمن میں پالیسیوں پر بحث کی گئی ہے۔یہ کتاب افغان طالبان کی طرف سے شائع ہونے والی واحد ایسی کتاب ہے جسے افغانستان کے امیرالمؤمنین ملا ہیبۃ اللہ کی باقاعدہ توثیق حاصل ہے۔اور یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ سیاسی نظام پر طالبان کے موقف کی نمائندہ اس کے علاوہ کوئی اور کتاب دستیاب نہیں ہے۔ یہ کتاب عربی میں شائع ہوئی ہے۔
کتاب کی تقریظ افغانستان کے امیر المؤمنین ملا ہیبۃ اللہ نے لکھی ہے ۔ اس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کے کچھ حصوں کا مطالعہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ اسلامی سیاست پر یہ ایک اہم کتاب ہے۔پھر میں نے کچھ اہل علم کے سپرد کیا کہ وہ اس کا جائزہ لیں۔انہوں نے اس پر نظرثانی کی اور اس پر موافقت کا اظہار کیا۔ لہذا اس کتاب کو میری طرف سے بھی اور علما کی طرف سے بھی تائید حاصل ہے۔
کتاب کے شروع میں مصنف ملا عبدالحکیم حقانی کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔وہ قندھار کے ایک علاقے تلوکین میں 1957ء میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد شیخ خدایداد سے حاصل کی جو حاجی ملا صاحب کے نام سے مشہور تھے، اور قبیلہ اسحاق زئی سے تعلق رکھتے تھے۔اس کے بعد 1977 میں خیرپختونخوا کے دارالعلوم حقانیہ کا رخ کیااور 1980میں شہادۃ العالمیہ کی سند حاصل کرکے فراغت پائی۔وہ مولانا سمیع الحق کے شاگردوں میں سے ہیں۔بعدازاں بلوچستان گئے جہاں شیخ جان محمد سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھی۔تفسیر کا کورس کرنے کے بعد بلوچستان کے ہی مختلف مدارس میں تدریس کرتے رہے،جن میں مدرسہ تدریس القرآن کربلاء، مظہر العلوم شالدرہ،اور تحریک انقلاب اسلامی کے زیراہتمام مدرسہ نورالمدارس شامل ہیں۔جب افغانستان سے روسی افواج کا انخلا ہوا تو واپس افغانستان چلے گئےے جہاں اپنے علاقے میڈ کچھ عرصہ تدریس کی۔پھر ملا عمر کے کہنے پر تین سال قندھار کے مرکزی مدرسہ جہادیہ میں پڑھتے رہے۔جب نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو دوبارہ بلوچستان آگئے اور کوئٹہ میں تدریس شروع کردی۔2003 میں انہوں نے کوئٹہ کے علاقے اسحاق آباد میں جامعہ دارالعلوم الشریعہ کے نام سے اپنا مدرسہ کھول لیا۔یہاں وہ لگ بھگ 14 سال تک پڑھاتے رہے۔ اور یہیں کئی کتب بھی تصنیف کیں۔اسی دوران وہ افغان طالبان کی شرعی عدالتوں کے امیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔آخری کچھ عرصے میں تدریس چھوڑ دی تھی اور مسجد میں جماعت کی نماز کے لیے بھی نہیں آتے تھے کیونکہ انہیں خطرات لاحق تھے۔ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد 27 ہے جن میں سے ایک ’امارت اسلامیہ اور اس کا نظام‘ بھی ہے۔
ملا عبدالحکیم حقانی کتاب کے شروع میں ہی مروجہ سیاسی نظام کو غیراسلامی اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔وہ اس حکم کی بنیاد حاکمیت اعلی کے مقدمے پر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق جمہوریت وغیرہ جیسے نظام میں انسانوں کی حاکمیت ہوتی ہے اس لیے وہ ناجائز ہیں۔ اس حوالے سے قاضی القضاۃ جمہوری نظام کی تفصیلات پر گفتگو نہیں کرتے ، بلکہ ایسی نصوص جمع کرتے ہیں جن میں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے اوامر کی اطاعت لازم ہے۔مصنف کے مطابق مروجہ نظاموں میں اللہ تعالی کے احکامات کا لحاظ نہیں کیا جاتا، اس لیے یہ طاغوت ہیں۔
اس کتاب کے اندر سیاست کے باب میں جو مواد شامل کیاگیا ہے اس کا زیادہ ترحصہ فقہ السیاسہ اور سیاستِ شرعیہ پر پہلے سے لکھی گئی کتب سے لیا گیا ہے۔اس کے اندر بہت سی عبارات’الاحکام السلطانیہ‘ جیسی قدیم کتب یا وہبہ الزحیلی کی کتاب ’الفقہ السلامی وادلتہ‘ جیسی معاصر کتب سے لی گئی ہیں۔ایسے ہی فتاوی اور تفاسیر کی کتب سے بھی جابجا اقتباسات لیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر عنوانات بھی قدیم ہیں اور سیاست کے باب میں جس ڈھانچے کو عمومی موضوع بنایا گیا ہے وہ بھی قدیم ہے۔
کتاب کے اندر عمومی مباحث اسی سیاسی ڈھانچے سے متعلق ہیں جو صدر اسلام ، خلفاء راشدین اور اس کے بعد سلاطین کے عہد میں رہا ہے۔شروع میں امامت وخلافت کے مفاہیم، اس کے مقاصد اور شریعت کے نفاذ کے بارے میں مواد شامل ہے۔ اسی کے ذیل میں بیعت، اہل حل وعقد ،،خلفاء کے انتخاب کے تاریخی طریقے وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔
امام یا حاکم کے انتخاب سے متعلق تاریخ میں کئی طریقے رہے ہیں۔کتاب میں ان سب کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک طریقہ طاقت کے ذریعے اقتدار کے حصول کا بھی رہا ہے۔ کتاب میں اس پر بھی کتب کے اقتباسات کی روشنی میں بات کی گئی ہے۔ اس میں مصنف نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر طاقت کے ذریعے اقتدار کے مجاز ہونے کی شرط یہ ہے کہ مقتدر میں امامت کی شرائط پائی جائیں کہ وہ حقدار ہے اور یہ اس کے اندر حرام کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو تو یہ اقتدار جائز ہوجاتا ہے۔
جمہوری طریق انتخاب کو ناجائز کہا گیا ہے اور وجوہات یہ بیان کی گئیں:
۱۔ اس میں گروہ بندی، نسلی یا طبقاتی تعصب ہوتا ہے جو ناجائزہ ہے۔اور یہ کہ اختلاف مسلمانوں کو کمزور کرتا ہے۔
۲۔ اس میں جاہل عالم، عورت مرد،مؤمن کافر سب کا ووٹ برابر ہوتا ہے جو شرعی طور پہ درست نہیں۔
۳۔ اس میں ذاتی اور سرکاری مال کا بے دریغ اسراف کیا جاتا ہے جو شرعا حرام ہے۔
۴۔ اس میں اقتدار کے حصول کے لیے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔
۵۔ اس میں دھوکہ بازی، رشوت اور اس جیسے کئی اخلاقی جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
جیساکہ سیاسی فقہ کی کتب میں درج ہے کہ حاکم کا اصل وظیفہ و ذمہ داری تحفظ دین،قیامِ عدل،ٹیکس اور صدقات اکٹھے کرنا،سرحد کی حفاظت اور فوج کو تیار کرنا ہے۔اس کتاب میں بھی یہی درج ہے۔
حاکم کے انتقال اقتدار سے متعلق کہا گیا ہے کہ اسے بلاوجہ اقتدار سے نہیں ہٹایا جاسکتا جب تک وہ اپنے فرائض درست انجام دے رہا ہے۔ البتہ اگر وہ خود سبکدوش ہوجائے تو الگ بات ہے۔یا یہ کہ وہ مرتد وغیرہ ہوجائے تو اس کی ولایت مسلمانوں پر باقی نہیں رہے گی۔
اس کے علاوہ عدالتی نظام کے خدوخال بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں بھی قدیم کتابوں سے عبارات لی گئی ہیں۔ اور اُسی ڈھانچے کے تناظر میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔اس حصے میں صدر اسلام سےلے کر عثمانی عہد تک کے عدالتی نظام کی خصوصیات اور خوبیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کے مابین فرق کو ضرررساں کہا گیا ہے۔دینی تعلیم کو مقصود اور دنیاوی تعلیم کو ضرورت کہا گیا ہے۔
آخر میں کتاب کا ایک حصہ خواتین سے متعلق ہے۔اس میں مرد اور خواتین کی تعلیم کو ضروری کہا گیا ہے۔البتہ اس کے بعد خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شرائط وضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ مثلا یہ کہ بہتر یہ ہے کہ وہ گھر کے اندر اپنے محرم حضرات سےتعلیم حاصل کریں اور باہر نہ نکلیں۔اگر مجبوری میں عورت گھر سے باہر تعلیم حاصل کرے تو اس کو پڑھانے والی عورت ہونی چاہیے۔اور اگر مجبوری میں اجنبی مرد استاد ہو تو درمیان میں پردہ ہونا چاہیے۔عورت جب باہر نکلے تو اس کے لیے پردے کا اہتمام ضروری ہے جس کے لیے کچھ شرائط بیان کی گئی ہیں کہ لباس اور حجاب کس طرح ہونا چاہیے۔جیسے کہ وہ باریک نہ ہو، اس پر خوشبو نہ لگی ہو اور زیب وزینت والا نہ ہو۔
یہ تمام آداب وشرائط دینی تعلیم کے حصول اور اس کے لیے باہر نکلنے کی مد میں ہیں۔کتاب کے مطابق دنیاوی تعلیم کے حوالے سے بہتر یہ ہے کہ ان شعبوں کی تعلیم حاصل کی جائے جس کے لیے خواتین کی ضرورت ہے جیسے طب اور سلائی کڑھائی وغیرہ۔ اس کے علاوہ جیسے انجیئرنگ اور دیگر سانئسی علوم کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مخلوط نظام تعلیم سے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ بالکلیہ حرام ہے۔
کتاب کے اندر بہت سے مقامات پر اور متعدد مسائل کے حوالے سے ابہامات موجود ہیں۔قومی ریاست اور اس کے خدوخال پر گفتگو موجود نہیں ہے۔جہاد کو امریکی انخلا کے بعد بھی جاری رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔(ص:18)مگر یہ کیسے ، کس انداز میں اور کس کے خلاف، یہ سب واضح نہیں ہے۔عصر حاضر کے تناظر میں خارجہ امور پرواضح روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔
مسلک کے حوالے سے بھی بہت زیادہ سخت گیر سوچ نظر آتی ہے۔ حنفی مسلک کی اہمیت اور اس کے نفاذ پر زور دیتے ہیں۔اسی کے مطابق عدالتوں کو چلایا جائے گا۔بلکہ جو شخص حنفی مسلک چھوڑے اسے تعزیری سزا دینے کی بات کی گئی ہے۔(ص:37)
یہ بھی کہا گیا ہے اقلیتوں کے لیے کوئی الگ سے عدالتی نظام یا شعبہ وضع نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے اسلامی سلطنت کا دبدبہ کمزور پڑے گااور مروجہ غیراسلامی امور وقوانین کو سرایت کرنے کا موقع ملے گا۔( ص:37)
مجموعی طور پہ کتاب سیاسی نظام کو جامع انداز میں،خصوصا اس کی معاصر تفصیلات اور پیچیدگیوں کو موضوع نہیں بناتی۔ یہ زیادہ تر اقتباسات کا مجموعہ ہے اور قدیم ڈھانچے ، اسی کی اصطلاحات اور جزئیات کو موضوع بناتی ہے۔