حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ کا سانحہ ارتحال

0

سابق ممبر سینیٹ آ ف پاکستان وامیر جمعیتہ علماء اسلام پاکستان ضلع بنوں 25جنوری 2024ءکوانتقال فرماگئے ہیں۔مولانا قاری محمد عبداللہ مرحوم ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ڈیرہ غازی خان کے سنگم پر واقع بستی بذدارے میں متولد ہوئے تھے اپنے علاقے میں حفظ قرآن اوردرس نظامی کی  ابتدائی کتب کی تعلیم حاصل کی تھی اس کے بعد متعدد دینی مدارس میں زیرتعلیم رہے تھےانہوں نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ،جامعہ اشرفیہ لاہور اور جامعةالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی سے دورہ حدیث کیا تھا

آ پ نے تجوید و قرات میں سبعہ عشرہ کیاتھا۔تعلیم سے فراغت کے بعد آ پ کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شعبہ حفظ قرآن اور شعبہ تجوید و قرات کا مدرس ونگران مقرر کیا گیا تھا جہاں آ پ نے نہایت احسن طریقہ سے یہ فرائض انجام دئے تھے۔ اس کے بعد آ پ کی تقرری بحیثیت مدرس مرکزاسلامی بنوں میں ہوگئی تھی جس کے مہتمم وبانی مولاناسید نصیب علی شاہ صاحب مرحوم تھے۔حضرت قاری صاحب بنوں شہر میں ایک معروف جامع مسجد میں جمعةالمبارک میں بیان بھی فرمایا کرتے تھے۔

2002ء میں سابق چیف آ ف نیوی سٹاف خلیل الرحمن سینیٹ آ ف پاکستان منتخب ہوئے تھے مگر اس کے بعد ان کوصوبائی گورنر NWFP مقرر کیاگیاتھا جس کی وجہ سے انہوں نے سینیٹ کی سیٹ چھوڑ دی تھی جس پر جمعیتہ علماء اسلام نے حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ صاحب کو سینیٹ کا رکن منتخب کرایاتھا۔حضرت قاری صاحب بڑے صاف گو،جرات مند اور دلیر رہنماتھے۔مطالعہ کتب کااعلی ذوق پایا تھا پاکستان اور ہندوستان اور عرب ممالک کے پبلشرز سے ان کے رابطے ہوتے تھے۔اس ذوق کے ساتھ ساتھ کتابوں  کے بارے میں اپنے ہمذوق دوستوں کے ساتھ تبادلئہ خیالات بھی فرماتے تھے اور ان کو کتب ہدیہ میں پیش فرماتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند،مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور ،اکابرین دیوبندوسہارنپور،تبلیغی جماعت،مجلس عالمی تحفظ ختم نبوت کے اکابرین سے بڑی محبت وعقیدت رکھتے تھے۔تاریخ آ زادئ ہند کی تمام تحاریک کے مراحل کے مطالعہ سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور حضرت شیخ الہند،حضرت مدنی،مولانا سیوہاروی،حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری،حضرت مولانااحمدعلی لاہوری،حضرت درخواستی،مولانا مفتی محمود ،حضرت خواجہ خان محمد،حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمہم اللہ سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔

ان کی ساری زندگی جمعیتہ علماء اسلام پاکستان کے نظریہ ،پروگرام اور منشور سے وابستہ رہی تھے اور اپنی وفات تک جمعیتہ علماء اسلام پاکستان کے اہم اور ذمہ دار عہدے پر فائز تھے مولانا فضل الرحمن صاحب سےبڑے اعتماد کاتعلق تھا اور ان کی سیاسی،پارلیمانی اور جماعتی پالیسیوں کا زبردست حامی اور مداح تھا۔

ان سے وابستہ خوب صورت یادیں ایک فلم کی طرح آنکھوں کے پردے کے سامنے چلنے لگیں۔ کیا ہی باغ وبہار شخصیت تھے۔ کتابوں کے عاشق زار تھے۔ اپنے فقر و تنگ دستی کے باوجود کتابوں کا ایک گراں قدر ذخیرہ جمع کر گئے۔ اس سلسلے میں ان کے واقعات سلف کے علمی ذوق وشوق کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے اور ہمارے محبوب دوست اور بھائی مولانا قاری عطاء اللہ شاہ نے بتایا کہ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں کتابوں کی خریداری کے لیے روزمرہ استعمال کی ضروری اشیا تک بیچ ڈالی تھیں۔ پاک وہند کے علمی حلقوں سے ان کا براہ راست تعلق تھا۔ اسی تعلق کی بنیاد پر وہ تازہ چھپنے والے اہم مجلات ومصادر فوری حاصل کر لیتے تھے۔ برصغیر کے مذہبی-سیاسی سوانحی ادب پر ان کی نظر غیر معمولی وسیع تھی۔ جہاں بیٹھتے اکابر اور کتابوں کے ذکر سے مجلس پر چھا جاتے۔ خردوں پر شفقت اور حوصلہ افزائی میں بھی یکتا تھے۔ میری کوئی معمولی کاوش ان کی نظر سے گزرتی تو فورا فون کر دیتے اور تعریف وتوصیف کے پل باندھ لیتے۔ جمعیت علماے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست میں بھی متحرک رہے اور پارٹی کے کئی اہم مناصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ الغرض انھوں نے ایک بھرپور علمی اور سیاسی زندگی گزاری۔ کچھ عرصے سے وہ کئی عوارض میں مبتلا تھے اور اس وجہ سے ان سے پہلے کی طرح رابطہ نہ تھا۔ البتہ ان کے صاحب زادوں، جو ہمارے ہم درس رہے ہیں اور بھائیوں کی طرح ہیں، سے ان کی خیریت معلوم ہو جاتی۔ ان کی وفات سے دل پر ایک عجیب سی افسردگی چھا گئی۔ قحط الرجال کے اس دور میں قاری صاحب جیسے عشاق علم اور شفیق بزرگوں کا اٹھ جانا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

اللہ تعالی حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبراوراس پراجر عطافرمائے۔ آمین